آل انڈیا مسلم لیگ سندھ کی قرارداد 1938ء اور سر عبداللہ ہارون

Resolution of AIML-Sindh in 1938 and Sir Abdullah Haroon

قراردادِ لاہور 1940ء منزل بہ منزل

”ہم آزاد ہندوستان میں آزاد رہنا چاہتے ہیں۔“ آزادی کی اس امنگ کا اظہار ایک نئے طرز میں بانیانِ پاکستان میں سے ایک جناب حاجی عبداللہ ہارون نے جولائی 1938ء میں حیدرآباد سندھ میں کیا۔یہ آل انڈیا مسلم لیگ کا پرچم لہرانے کی ایک تقریب تھی۔ سر عبداللہ ہارون کی اسی امنگ کا نتیجہ تھا کہ اکتوبر 1938ء میں کراچی میں پہلی صوبائی مسلم لیگ کانفرنس کا انعقاد ممکن ہؤا۔ کہنے کو یہ صوبائی کانفرنس تھی لیکن اس میں پورے ہندوستان سے قدآور سیاسی شخصیات شریک تھیں اور قائدِ اعظم خود اس کانفرنس کی صدارت کررہے تھے۔ شرکأ میں لیاقت علی خان، نواب اسماعیل خان، نواب بہادر یار جنگ، مولانا شوکت علی، بیگم محمد علی، راجہ صاحب محمودآباد، پیر پور کے راجہ، فرنگی محل کے مولانا جمال میاں، سید غلام بھیک نیرنگ، مولانا عبدالحامد بدایونی، نواب مشتاق احمد گورمانی، اور پنجاب و بنگال کے وزرائے اعظم سر سکندر حیات اور اے۔کے۔فضل الحق شامل تھے۔ کسی بھی صوبائی سطح کی میٹنگ میں اتنی بلند قامت شخصیات پہلے کبھی شریک نہیں ہوئی تھیں، اور نہ ہی اس کانفرنس میں محض صوبائی سطح پر بات چیت ہوئی۔ درحقیقت یہ کانفرنس پیش خیمہ تھی اس تحریک کا جس نے بعد میں تحریکِ آزادیٔ پاکستان کا نام پایا۔ جو مقام قراردادِ لاہور کو 1940ء میں حاصل ہؤا، وہی اس کانفرنس کو بھی حاصل ہوسکتا تھا لیکن قائدِ اعظم نے اس وقت کو مناسب نہ جانا اور استقبالیہ کمیٹی کے چیئرمین سر عبداللہ ہارون کی جوشیلی اور گرجدار تقریر کے مقابلے میں سیاست کے پیچ و خم کو زیادہ بہتر جاننے والے قائد نےاپنا لب و لہجہ دھیما رکھا۔ قائدِ اعظم کو مسلم لیگ کی تنظیمی کمزوریوں کا اندازہ تھا اور پھر کانگریس کی صوبائی حکومتوں کا زوال انہیں نظر آرہا تھا۔ مسلمان یوں تو پہلے بھی کم تعداد میں کانگریس کے حمایتی تھے اور اب وہ بھی کانگریس کی کارکردگی سے مایوس ہوتے جارہے تھے۔

Pakistan Scheme by Pir Ali Muhammad Rashidi-PDF File
تاہم آٹھ سے بارہ اکتوبر تک ہونے والی اس کانفرنس نے مسلمانانِ برصغیر کی آئندہ کی سیاست کا رخ متعین کردیا تھا۔ مسلم لیگ سندھ کی جانب سے بلائے گئے اس اجلاس کے کثیر الجہت مقاصد تھے۔ تفصیلات میں جائے بغیر اتنا کہ اسمبلی میں مسلمان ارکان کو یکجا کرکے مسلم لیگ کو طاقتور بنانا تھاکیونکہ مسلمان اراکین کےآپس کے اختلافات کی وجہ سے پہلے سر غلام حسین ہدایت اللہ اور پھر خان بہادر اللہ بخش اپنی وزارتِ اعلیٰ کے استحکام کیلئے کانگریس کے محتاج تھے مگر کانگریس مسلمانوں کے مسائل کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتی تھی۔ دوسرا مقصد یہ تھا کہ نہ صرف سندھ کی سطح پر بلکہ پورے ہندوستان میں کانگریس کے مقابلے میں مسلم لیگ کو مقابلے کیلئے تیار کرنا تھا اور اس مقصد کے ساتھ ساتھ مقامی رہنما جن میں سر عبداللہ ہارون، عبدالمجید سندھی اور جی ایم سید کے نام نمایاں تھے ، انہوں نے مرکزی قیادت کے سامنے تقسیمِ ہند کا پروگرام رکھنے کی تیاری کی ہوئی تھی۔
اس کانفرنس میں شرکت کیلئے اکتوبر کے پہلے ہفتے میں جب قائدِ اعظم بذریعہ ٹرین حیدرآباد سندھ سے کراچی پہنچے تو ان کا فقیدالمثال استقبال کیا گیا۔ قائدِ اعظم کے کمپارٹمنٹ میں میر غلام علی خان تالپور اور صوبائی مسلم لیگ کے کئی اور رہنما بھی موجود تھے۔ جب ٹرین کراچی کےڈرگ روڈ اسٹیشن سے نکلی تو کراچی سٹی اسٹیشن تک تین جہازمسلسل ٹرین کے اوپر پرواز کرتے رہے اور پھر جلوس کے ہمراہ بھی چلتے رہے اور فضا سے گل پاشی کرتے رہے۔ بہت سی دیگر تفصیلات کو چھوڑتے ہوئے اتنا بتاتے چلیں کہ اسٹیشن پر ہزاروں کا مجمع قائد کے استقبال کیلئے موجود تھا، تمام مرکزی و صوبائی اراکینِ اسمبلی، شہری انتظامیہ کے اراکین، میئر، مسلم لیگی عہدیدار، سبھی موجود تھے۔ خاکساروں نے فضا میں 51 فائر کرکے قائد کا استبال کیا اور ، مسلم لیگ نیشنل گارڈز نے گارڈ آف آنر پیش کیا، موسیقی کے بینڈ ز دھنیں بجاتے رہے، قائداعظم کا قافلہ دو میل لمبے جلوس پر مشتمل تھا۔ خواتین اپنے گھروں کی بالکونیوں سے ہاتھ ہلا رہی تھیں اور گل پاشی کررہی تھیں۔ مجمع کا جوش و خروش دیدنی تھا، کراچی کی تاریخ میں اس سے پہلے ایسا جلوس کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ 8 اکتوبر 1938ء کو کانفرنس کا افتتحاحی اجلاس ہؤا ۔ سر عبداللہ ہارون کی استقبالیہ تقریر کے بعد بنگال کے وزیرِ اعظم اے۔کے۔فضل الحق، پنجاب کے وزیرِ اعظم سر سکندر حیات، مولانا شوکت علی، لکھنؤ کے مولانا جمال میاں، یوپی کے اے۔بی۔حبیب اللہ اور دیگر شرکا ٔ نے خطاب کیا۔
استقبالیہ کمیٹی کے چیئرمین سر عبداللہ ہارون کے جارحانہ استقبالیہ خطاب نے کانفرنس کی کاروائی کا رخ متعین کردیا تھا۔ انہوں نے پہلا فائر کرتے ہوئے مسلم لیگ کا نظریاتی نصب العین بیان کیا کہ ”اقلیتوں کے لئے خاطر خواہ حفاظتی انتظامات اور تحفظ فراہم نہیں کیے جاتے ہیں تو مسلمانوں کے پاس اپنی راہ کاتعین کرنے کیلئے مسلم ریاستوں کی آزاد فیڈریشن میں اپنی نجات حاصل کرنے کے سوا کوئی متبادل نہیں ہوگا۔“ سر عبداللہ ہارون نے یاد دلایا کہ گزشتہ پندرہ برسوں میں مسلم لیگ کے رہنماؤں نے ہندوؤں کے سرکردہ چوٹی کے رہنماؤں کے ساتھ کسی معاہدے پر پہنچنے کیلئے کیا کیا کوششیں کیں، مگر ایسا کوئی معاہدہ آج بھی اتنا ہی دور ہے جتنا پندرہ برس پہلے تھا۔
سر عبداللہ ہارون اور پاکستان اسکیم 1938ء

سر عبداللہ ہارون کی تقریر کی مانند سر سکندر حیات خان اور فضل الحق نے بھی اس موقع پر جارحانہ تقاریر کیں۔ قائدِ اعظم نے اپنے صدارتی خطاب میں جہاں اپنے والہانہ استقبال کا شکریہ ادا کیا وہیں انہوں نے صوبائی مسلم لیگ کی کوششوں کی تعریف بھی کی ۔ انہوں نے ان واقعات کا بھی اعادہ کیا جو سندھ کے مسلمان رہنماؤں اور مسلم لیگی رہنماؤں نے بمبئی پریزڈینسی سے سندھ کی علیحدگی کیلئے کی تھیں۔ کراچی شہر کی جغرافیائی اہمیت بھی بیان کی۔ قائد کی تقریر کی تفصیلات سلائیڈز میں موجود ہیں۔ قائدِ اعظم نے چیکو سلواکیہ کے Sudeten German case (چیک اور جرمنی کے بارڈر میں بسنے والے جرمن باشندوں کا واقعہ) کی مثال دی ۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس حالات کو جس نہج پہ لے جارہی ہے وہاں انڈیا افقی اور عمودی تقسیم کا شکار ہوجائے گا۔ قائدِ اعظم نے کہا کہ میں کانگریس کو خبردار کرتا ہوں اور ساتھ ہی انہیں کہتا ہوں کہ وہ سوڈیٹن جرمنز کے واقعہ سے سبق سیکھیں اور آگاہی حاصل کریں۔ تاہم مجموعی طور پر قائدِ اعظم اس لب ولہجہ سے بہت دور تھے جو انہوں نے بعد ازاں قراردادِ لاہور کے وقت اپنایا۔

At two different places, Quaid-e-Azam did make some vague references to the Sudeten German case, and to the Congress trying to create “a serious situation which will break India vertically and horizontally”, warning the Congress at the same time to “mark, learn and inwardly digest” the lessons provided by Sudeten Germans. (PROF. SHARIF AL MUJAHID)

سر عبداللہ ہارون اور پاکستان اسکیم
All India Muslim League-Sindh Resolution in 1938-PDF File

ممتاز محقق جناب ابو سلمان شاہجہان پوری نے پیر علی محمد راشدی کی روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والی یادداشتوں کو کتابی شکل میں ”پاکستان اسکیم“ کے نام سے مرتب کرکے شائع کروایا تھا۔ راشدی صاحب لکھتے ہیں ، ”یہ سر عبداللہ ہارون تھے جنہیں اس وقت ایک خاص لگن پیدا ہوچکی تھی اور وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ ہندو اکثریت کی بالادستی سے بچنے کا واحد حل یہی ہے کہ ملک کو تقسیم کرایا جائےاور مسلمانوں کیلئے پاکستان کا قیام عمل میں لایا جائے۔“ اپنے خیالات کے اظہار کو وہ سمجھتے تھے کہ ،”یہ بہت بڑا دھماکہ ہوگا مگر اس کے سوا مسلمانوں کا کام بھی نہیں بنے گا۔“ ان کی تقریر کی تان اس جملے پر آکر ٹوٹی تھی کہ ”ہندوستان کیلئے کوئی آئینی اسکیم اس وقت تک کامیاب نہیں ہوگی جب تک اس میں مسلمانوں کیلئے علیحدہ HOME LAND کا انتظام نہیں کیا جائے گا“۔ راشدی صاحب نے اس کتاب میں یہ انکشاف بھی کیا کہ سر عبداللہ ہارون نے اپنا خطاب مولانا غلام رسول مہر صاحب سے تیار کروایا تھا جو انہوں نے راشدی صاحب کی رہائشگاہ پر بیٹھ کر لکھا تھا۔ اس حوالے سے انہوں نے روزنامہ انقلاب کے چیف ایڈیٹر جناب غلام رسول مہر اور ان کی خدمات کے حوالے سے مزید روشنی ڈالی ہے جو ہم ایک علیحدہ مضمون میں زیرِ بحث لائیں گے۔
آل انڈیا مسلم لیگ کی اس کانفرنس میں مجموعی طور پر 21 قراردادیں پیش کی گئیں۔ ہم پانچویں قرارداد کا جائزہ لیں گے جو شیخ عبدالمجید سندھی نے پیش کی۔ یہ تقسیم ِ ہند سے متعلق ، اور اس کانفرنس کی مرکزی قرارداد تھی۔ گرما گرم بحث کے بعد کانفرنس نے قرارداد نمبر5 کی منظوری دی۔ اس قرارداد میں یہ احساس اجاگر کیا گیا کہ مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں اور ہندوستان میں بسنے والے حقیقت میں ایک قوم نہیں اور یہ کہ مسلمانوں کو ہندوستان کے لئے نیا آئین وضع کرنا چاہئے۔ قرارداد نے ماضی میں کی جانے والی کوششوں کا احاطہ کرتے ہوئے ان تفصیلات کا خلاصہ بیان کیا جو ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کسی معاہدے تک پہنچنے کیلئے کی گئیں۔ موجودہ صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے قرارداد میں مستقبل کے لایحۂ عمل کیلئے سفارشات پیش کی گئیں۔ پانچویں قرارداد کی ابتدا کانگریس کو ہدفِ تنقید سے ہوئی۔ خاص طور پر ان صوبوں کی پالیسیوں اور طرزِ حکومت کو نشانہ بنایا گیا جہاں کانگریس نے اپنی حکومت قائم کی تھی اور مسلمان وہاں اقلیت میں تھے۔ قرارداد کے الفاظ تھے،
· جب کہ اس [کانگریس] نے مسلمان وزرا کے بغیر یا مسلمان وزراکے ساتھ وزرات تشکیل دے کر جن کی کوئی پیروی مسلمان ارکان کے درمیان نہیں ہے، جان بوجھ کر ، مکمل طور پر ہندو راج قائم کیا ہے ، یہ براہ راست اور واضح طور پر حکومتِ ہند ایکٹ مجریہ 1935ء کے مقاصد کی خلاف ورزی ہے اور اس میں دی گئی ہدایات کے برعکس ہے۔ جب کہ اس طرح قائم کی گئی وزارتوں کا مقصد مسلمانوں کو ڈرانا اور دباؤ ڈالنا ، مسلم ثقافت کے صحتمند اور قومی تعمیر کے اثرات کو ختم کرنا، مسلمانوں کے مذہبی رسم و رواج اور مذہبی ذمہ داریوں پہ پابندیاں لگانا، اور ایک علیحدہ قومیت کے طور پر ان کے سیاسی حقوق کا خاتمہ ہے۔
· جبکہ اس [کانگریس] نے جنوب مغربی سرحدی صوبے، بنگال، پنجاب اور سندھ میں اتحادی وزارتوں کو اقتدار دلانے کیلئے براہ راست یا بالواسطہ کوششیں کی ہیں ، اگرچہ وہ مسلمانوں کی اور اس صوبہ کی عوام کی اکثریت کے اعتماد سے محروم ہیں، اور اس طرح مسلمانوں کی طاقت کو غیر مؤثر اور غیر اہم بنانے کیلئے جمہوری اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے۔
· جبکہ مشترکہ امنگوں اور مشترکہ نظریات کے زیرِ اثر ذات پات سے متاثرہ ذہنیت اور اکثریتی طبقے کی مسلم دشمنی پر مبنی پالیسی کے نفاذ کیلئے واحد متحدہ ہندوستان اور متحدہ ہندوستانی قوم کا ارتقا بعید از قیاس ہے، اور یہ بھی کہ مذہب ، زبان ، رسم الخط ، ثقافت ، معاشرتی قوانین اور دو اہم برادریوں کی زندگی کے نقطہ نظر کے شدید فرق کی وجہ سے اور یہاں تک کہ بعض حصوں میں نسل کے فرق کے باعث یہ ممکن نہیں ہے۔
· ہندوستان کے وسیع برِاعظم میں مستقل امن و امان قائم رکھنے، یہاں بسنے والی دو قوموں یعنی ہندوؤں اور مسلمانوں کے اپنے اپنے کلچر کو فروغ دینے، انہیں بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی اپنی اقتصادی اور معاشرتی اصلاح کرنے اور انہیں سیاسی طور پر حقِ خود اختیاری عطا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہندوستان میں دو مختلف وفاق قائم کیئے جائیں جن میں سے ایک وفاق مسلمانوں کا ہو اور دوسرا ہندوؤں کا۔” چنانچہ یہ اجلاس آل انڈیا مسلم لیگ سے درخواست کرتا ہے کہ وہ ایک ایسے آئین کا خاکہ مرتب کرے جس کی رو سے مسلمانوں کی اکثریت کے صوبے، مسلم اکثریت رکھنے والی ریاستیں، اور وہ علاقے جہاں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے، متحدہ طور پر ایک وفاق کی صورت میں مکمل آزادی حاصل کرسکیں۔
اس قرارداد کی منظوری کے عمل سے مسلم لیگ نے پہلی بار سیاسی طور پر انڈیا کو دو علیحدہ مملکتوں کی شکل میں پیش کیا، اور اسی وقت علیحدہ قومیت کے حصول کے لئے ایک جائز ذریعہ کے طور پر سیاسی خود ارادیت کے دعوے کو بھی آگے بڑھایا ۔اس قرارداد پر ہندو پریس نے تنقید کی تھی۔ عبداللہ ہارون نے ایک انٹرویو میں کہاکہ “انہوں نے [ہندوؤں] نے اس کے بنیادی نظریے کو زبردست تحریک عطا کی ہے۔ انہوں نے پاکستان کا ذکر کرنا شروع کردیا ہے، مسلمانوں کو اس کا نوٹس لینا چاہئے ، اور ان کو اس کے بارے میں سوچنا ہوگا“۔
تاریخی تناظر میں آل انڈیا مسلم لیگ کی یہ کانفرنس پیش خیمہ ثابت ہوئی اس قرارداد کا جو لاہور میں 1940ء میں منظور کی گئی۔ اس درمیانے عرصے میں سر عبداللہ ہارون نے ایک علیحدہ مملکت کے نظریئے کو فروغ دینے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔انہوں نے مسلم لیگ کی خارجہ کمیٹی اور مقامی سب کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے ورکنگ پیپرز اور لٹریچر تیار کروائے اور برصغیر کے ممتاز مسلمان رہنماؤں کے ساتھ خط و کتابت کے ذریعہ اس نظریئے کو فروغ دیا۔ ہم بعد ازاں کسی موقع پر سر عبداللہ ہارون اور مولانا غلام رسول مہر کے کردار کو تفصیل سے زیرِ بحث لائیں گے۔

FB Comments:

Leave Your Facebook Comments Here

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے