’ریاست‘ یا ’ریاستیں‘، قراردادِ لاہور 1940 میں کی جانے والی ترمیم کے حقائق

“States” or “State” قراردادِ لاہور 1940 میں کی جانے والی ترمیم کا تنازعہ:

’ریاست‘یا ’ریاستیں‘، قراردادِ لاہور 1940 میں کی جانے والی ترمیم کے حقائق تاریخی دستاویزات کی روشنی میں:

9اپریل 1946ء کو حسین شہید سہروردی کی پیش کردہ قرارداد کا یہ حصہ قراردادِ لاہور 1940ء میں ترمیم کا سبب بنا جس میں کہا گیا،

“Whereas the Muslims are convinced that with a view to saving Muslim India from the domination of the Hindus and in order to afford them full scope to develop themselves according to their genius, it is necessary to constitute a sovereign independent state comprising Bengal and Assam in the North East zone and Punjab, North-West Frontier Provinces, Sind and, Baluchistan in the North-West zone”

”جبکہ مسلمان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مسلم ہندوستان کو ہندوؤں کے تسلط سے بچانے کے لیے اور انھیں اپنی صلاحیت کے مطابق ترقی کرنے کی پوری گنجائش فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ شمال  مشرقی زون میں بنگال اور آسام ؛ اور  شمال مغربی زون میں  پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبے، سندھ اور بلوچستان پر مشتمل ایک خودمختار آزاد ریاست کی تشکیل کی جائے “

آل انڈیا مسلم لیگ کے منتخب اراکینِ اسمبلی کے کنونشن میں سہروردی کی متحدہ پاکستان کی قرارداد اگرچہ منظور کرلی گئی تاہم اس قرارداد کی مخالفت میں صوبائی مسلم لیگ بنگال کے جنرل سیکریٹری، ابوالہاشم نے بھرپور آواز اٹھائی جو بنگال کی سیاست میں حسین شہید سہروردی سے کافی قربت رکھتے تھے۔ ابوالہاشم جنہوں نے بنگال میں آل انڈیا مسلم لیگ کو منظم کرنے اور 46-1945ء کے انتخابات میں کامیابی دلانے میں سب سے نمایاں کردار ادا کیا تھا، انہوں نے 1940ء کی قراردادِ لاہور کی موجودگی میں 1946 کی قرارداد کو خلافِ آئین قرار دیا اور کہا کہ منتخب اراکین کا کنوینشن  1940ء کی قرارداد کو تبدیل  کرنے کا مجاز نہیں ہے۔  دہلی میں مسلم لیگ کے  تقریباً 500 منتخب اراکین کا یہ کنوینشن ایک ایسے وقت میں منعقد ہوا تھا جب برطانیہ کا تین اراکین پر مشتمل وزارتی مشن پہلے ہی ہندوستان میں موجود تھاجسے مستقبل کے آئین اور حکومتی ڈھانچے کے خدوخال کوتمام بڑی سیاسی قوتوں  کی مرضی و منشا سے  آخری شکل دینے کی غرض سے ہندوستان بھیجا گیا تھا۔

ابوالہاشم:

وہ 1943ء میں آل انڈیا مسلم لیگ بنگال کے سکریٹری جنرل منتخب ہوئے تھے اور بنگال کے گلی کوچوں تک مسلم لیگ کو منظم کرنے نیز 46۔1945 کے انتخابات میں مسلم لیگ کو تاریخ ساز کامیابی دلوانے میں سب سے اہم کردار ادا کیا تھا۔ مسلم لیگ کی قیادت سے ان کے اختلافات اس وقت بڑھنا شروع ہوئے جب انہوں نے اپریل 1946ء میں مسلم لیگ کے منتخب اراکینِ اسمبلی کے کنوینشن منعقدہ دہلی میں اس قرارداد کے خلاف آواز اٹھائی جس میں 1940ء کی قراردادِ لاہور میں ترمیم کرتے ہوئے دو کے بجائے ایک ریاستِ پاکستان کا مطالبہ پیش کیا گیا۔ بعد ازاں انہوں نے کانگریس کی قیادت سے اختلاف کرنے والے کانگریسی رہنما سرت چندر بوس کے ساتھ مل کر ایک آزاد اور علیحدہ بنگال کے لئے مہم کا آغاز کیا۔ جلد ہی حسین شہید سہروردی بھی ان کی اس مہم کا حصہ بن گئے تھے۔ دہلی کنوینشن میں قائدِ اعظم سے ہونے والے ان کے مکالمات۔ بحوالہ

(“In Retrospect” by Abul Hashim / pp: 125-126)

مسٹر جناح نے مرکزی اور صوبائی قانون سازوں کے مسلم لیگی ارکان کا کنونشن طلب کیا۔ تین روزہ کنونشن کا آغاز 7 اپریل کو دہلی میں اینگلو عربک کالج میں ہوا ۔ 10 اپریل کو ڈھائی بجے مسٹر جناح نے مجھ سے ایوان میں خطاب کرنے کی درخواست کی۔ اپنی  تقریر میں میں نے کہا،

”جناب! گاندھی نے اعلان کیا ہے کہ پنڈت جواہر لال نہرو ان کے سیاسی وارث اور جانشین ہوں گے۔ مسٹر گاندھی ایک متولی ہیں۔ کشمیر کا مغرور پنڈت ایک متولی کا سیاسی وارث اور جانشین ہونے سے کیسے مطمئن ہو سکتا ہے؟ وہ برطانوی سامراج کا وارث اور جانشین بننے کی خواہش رکھتا ہے۔ اگر انصاف ناکام ہو جائے، برابری اور نیک ارادے ناکام ہو جائیں تو پھر سنہرے  الفاظ نہیں بلکہ چمکتا ہوا فولاد اس مسئلے کا فیصلہ کرے گا۔“

اس سے پہلے، کنونشن کی سبجیکٹس کمیٹی میں، مسٹر جناح نے ایک ریاست یعنی پاکستان  کا مطالبہ کرتے ہوئے  قرارداد پیش کی۔ میں  پوائنٹ آف آرڈر پر کھڑا ہوگیا۔ مسٹر جناح نے پوچھا،

”مولانا صاحب، آپ کا پوائنٹ آف آرڈر کیا ہے؟’“

میں نے کہا، ”آپ کی قرارداد  غیر آئینی اور خلافِ قانون ہے“۔

مسٹر جناح نے کہا، ”کیوں، کیوں؟“

میں نے کہا،

”1940 کی قرارداد لاہور کو آل انڈیا مسلم لیگ نے 1941 کے مدراس اجلاس میں آل انڈیا مسلم لیگ کےآئین کے طور پر قبول کیا تھا۔ 1940 کی قرارداد لاہور میں پاکستان کی ایک ریاست کا تصور نہیں پیش  کیا گیا بلکہ (قرارداد)  پاکستان (نامی) دو آزاد اور خودمختار  ریاستوں اور ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے وطن کے بارے میں نظریہ پیش کرتی ہے۔ مسلم لیگی مقننہ کا کنونشن 1940 کی قرارداد لاہور کے مندرجات میں ردوبدل یا ترمیم کرنے کا مجاز نہیں ہے، جسے اب مسلم لیگ کا عقیدہ / (آئین )تسلیم کیا جاتا ہے۔

مسٹر جناح نے کہا، ”میں دیکھ رہا ہوں، مولانا صاحب جمع کے صیغے ‘s’ کو استعمال کر رہے ہیں جو کہ پرنٹنگ کی صریح غلطی ہے۔ میں نے انڈیا مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری نوابزادہ لیاقت علی خان سے اصل منٹ بک مہیا  کرنے کی درخواست کی۔ نوابزادہ نے اسے پیش کیا اور اس میں مسٹر جناح نے اپنے دستخط کے نیچے جمع  کا صیغہ  ‘s’ دیکھا۔

نوابزادہ لیاقت علی نے کہا کہ ”قائداعظم ہم اپنا مقدمہ ہار چکے ہیں“۔ مسٹر جناح نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا صاحب میں ایک پاکستان ریاست نہیں چاہتا بلکہ میں ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک آئین ساز اسمبلی چاہتا ہوں، کیا آپ میری قرارداد میں اس طرح ترمیم کرسکتے ہیں جس سے لاہور کی قرارداد کو ٹھیس پہنچائے بغیر میرا مقصد پورا ہوسکے۔ میں نے کہا، ‘اچھا تو پھر صفت ‘one’ کو کاٹ کر غیر معینہ مضمون ‘a’ ڈال دیں تاکہ آپ کی قرارداد  کی عبارت یہ ہو،

”ہمارا مقصد یہ ہے کہ شمال مغربی ہندوستان اور شمال مشرقی ہندوستان میں بنگال اور آسام پر مشتمل ایک ریاست پاکستان ہو“۔ مسٹر جناح نے اتفاق کیا۔ کنونشن کے کھلے اجلاس میں، مسٹر ایچ ایس سہروردی نے مسٹر جناح کے مشورے سے ایک قرارداد پیش کی۔ یہ قرارداد اس قرارداد کی ایک ترمیم شدہ شکل تھی جو مسٹر جناح نے کنونشن کی سبجیکٹ کمیٹی میں رکھی تھی اور جسے میرے پوائنٹ آف آرڈر پر بحث کے بعد واپس لینا پڑا۔ اس وقت میں نے جان بوجھ کر کنونشن کے کھلے اجلاس سے خود کو غیر حاضر رکھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ اگر میں موجود ہوتا تو مسٹر جناح کھلے اجلاس میں اپنی قرارداد پیش کرنے کو کہتے۔ مسٹر جناح کے ساتھ میرا تنازعہ کمیونسٹ پارٹی کے جرنل Peoples Age میں تفصیل سے رپورٹ کیا گیا تھا۔

چودھری خلیق الزمان اور نواب محمد اسماعیل خان:

قراردادِ لاہور میں ترمیم کا اعتراف چودھری خلیق الزماں کی تصنیف "Pathway to Pakistan” میں موجود ہے جنہوں نے دہلی کنوینشن کی قرارداد کا مسودہ تحریر کیا تھا۔  ان کی کتاب کے صفحات 340 سے 345 میں اس حوالے سے جو وضاحت پیش کی گئی ہے اس کی تفصیل حاضرِ خدمت ہے۔

(“Pathway to Pakistan” by Choudhry Khaliquzzaman / pp: 340-345)

مرکز اور صوبوں سے منتخب ایم ایل اے (ممبرز آف لیجسلیٹو اسمبلی) کا مسلم لیگ کنونشن 9 اپریل 1946 کو دہلی میں منعقد ہوا۔ مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے کنونشن کے سامنے پیش کی جانے والی قرارداد کا مسودہ تیار کرنے کے لیے ایک ذیلی کمیٹی مقرر کی تھی جس میں نواب اسماعیل خان چیئرمین، حسن اصفہانی، عبدالمتین چوہدری، آئی آئی چندریگر اور میں شامل تھے۔

ہماری ملاقات نواب اسماعیل خان کے ہوٹل کے کمرے میں ہوئی، جہاں ہمیشہ کی طرح میں نے پہلے قرارداد کا مسودہ تیار کیا جس پر دیگر اراکین کے ساتھ تبادلہ خیال کیا گیا اور کچھ معمولی تبدیلیوں کے بعد ہماری کمیٹی اور پھر سبجیکٹ کمیٹی نے اسے منظور کر لیا۔

کھلے اجلاس میں  یہ قرارداد شہید سہروردی نے پیش کی، جس کی حمایت میں نے کی اور ملک فیروز خان نون، چندریگر، غلام حسین ہدایت اللہ اور بہت سے دوسرے لوگوں نے اس کی تائید کی۔

میں قرارداد کا مکمل متن پیش  نہیں کررہا تاہم  اس میں موجود چند اہم اقتباسات کو بیان کروں گا۔ اس قرار داد کا عملی حصہ یوں تھا:

’’ہندوستان کے مرکزی اور صوبائی مسلم لیگی قانون سازوں کا یہ کنونشن انتہائی  غور و خوض کے بعد یہ اعلان کرتا ہے کہ مسلم قوم متحدہ ہندوستان کے لیے کبھی بھی کسی آئین کی پاسداری نہیں کرے گی اور نہ ہی اس مقصد کے لیے تشکیل دی گئی کسی بھی آئین ساز مشینری  میں شرکت کرے گی۔ ، اور یہ کہ برطانوی حکومت کی طرف سے ہندوستان کے لوگوں کو اقتدار کی منتقلی کے لیے برطانوی حکومت کی طرف سے وضع کیا گیا کوئی بھی فارمولا، جو داخلی امن کو برقرار رکھنے کے لیے درج ذیل منصفانہ اور   مساوات کے اصولوں کے مطابق  نہ ہو ، وہ  ملک میں امن و سکون  اور  ہندوستانی مسئلے کے حل میں کوئی کردار ادا نہیں کرے گا:

1۔کہ شمال مشرق میں بنگال اور آسام اور ہندوستان کے شمال مغرب میں پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبہ،  سندھ اور بلوچستان پر مشتمل زونز، یعنی پاکستان زونز، جہاں مسلمان غالب اکثریت میں ہیں، ایک خودمختار و آزاد ریاست کی شکل  میں تشکیل دیے جائیں۔ اور یہ کہ پاکستان کے قیام کو بلا تاخیر عمل میں لانے کے لیے ایک واضح وعدہ  کیا جائے؛

2۔ یہ کہ پاکستان اور ہندوستان کے عوام اپنے اپنے آئین کی تشکیل کے مقصد کے لیے دو الگ الگ آئین ساز ادارے قائم کریں؛

3۔ یہ کہ پاکستان اور ہندوستان میں اقلیتوں کو 23 مارچ 1940 کو لاہور میں منظور ہونے والی آل انڈیا مسلم لیگ کی قرارداد کے مطابق تحفظات فراہم کیے جائیں؛

4۔  کہ پاکستان کے لیے مسلم لیگ کے مطالبے کو تسلیم کرنا اور اس پر بلا تاخیر عمل درآمد مسلم لیگ کے تعاون اور مرکز میں عبوری حکومت کی تشکیل میں شرکت کے لیے لازم ہے۔

یہ کنونشن مزید قوت  کے ساتھ اعلان کرتا ہے کہ متحدہ ہندوستان کی بنیاد پر آئین کو نافذ کرنے یا مرکز میں، مسلم لیگ کے مطالبے کے برعکس، کسی عبوری انتظام پر مجبور کرنے کی کسی  بھی کوشش  کی صورت  مسلمانوں کے پاس ا پنی  بقا اور قومی وجود  کو برقرار رکھنے  کے لئے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچے گا کہ وہ ہر ممکن طریقے سے اس طرح کے نفاذ کی مزاحمت کریں۔

واضح رہے کہ چوہدری رحمت  علی  کے ساتھ اپنی گفتگو میں میں نے لفظ ‘پاکستان’ کو اپنانے پر اتفاق نہیں کیا تھا، اور لارڈ زیٹ لینڈ کے ساتھ اپنے انٹرویو میں بھی اس کے استعمال سے گریز کیا تھا، بلکہ اس کی جگہ ‘پارٹیشن’ کا لفظ استعمال کیا تھا۔ لیکن 24 مارچ 1940 کو پوری کانگریس اور ہندو پریس نے ’قرارداد لاہور‘ کو’ قرارداد پاکستان‘ قرار دیا۔  دشمن پریس کی جانب سے دی گئی تجویز  ایک ریاست کے تصور کی  پرکشش صورت تھی ، یوں  مسلمانوں نے  اس  نام کو آسانی اور خوش دلی سے قبول کرلیا، جو کمیونٹی کے لیے ایک ملکیت  بن گیا۔ مسٹر جناح، جنہوں نے باوجود کشش کے کچھ عرصے تک لفظ پاکستان کے استعمال  کی مزاحمت کی انہوں نے بعد میں اپنا ارادہ بدل لیا اور مدراس کے اجلاس میں  اسے مسلم لیگ کے  دستور کا حصہ بنا لیا۔  اسی لئے  جب میں کنونشن کی قرارداد کا مسودہ تیار کر رہا تھا تو بغیر کسی ارادے کے میں نے ‘ریاستوں’ کے لیے، جو کہ لاہور کی قرارداد میں شامل اصل  تصور  تھا، ’ریاست‘  کا لفظ استعمال کیا ۔ شاید اپنے لاشعور میں میں نے محسوس کیا کہ عوامی تصور میں لفظ پاکستان کا مطلب ایک واحد وفاقی ریاست  ہے۔ کمیٹی نے بھی اس تبدیلی پر سوال نہیں اٹھایا۔ مسودے میں میں نے اس شق کو بھی خارج کر دیا تھا جس میں ”ایسے علاقائی ردوبدل“ کی اصطلاح شامل تھی،  جو  قرارداد لاہور  کا حصہ  تھی۔

قرارداد لاہور  سے انحراف جس   میں  صیغۂ  واحد میں ریاست کا لفظ استعمال  کیا گیا کچھ وضاحت کا متقاضی  ہے۔ 1953 میں،  جب میں مشرقی بنگال کا گورنر تھا ، مسٹر کفایت اللہ نے مجھے خط لکھا ، یہ جاننے  کے لیے کہ یہ تبدیلی کیوں لائی گئی ہے اور یہ دریافت کرنے کے لیے کہ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کا مشرقی زون معاشی طور پر اپنے تئیں ریاست میں ڈھلنے کے قابل نہیں تھا۔

میں نے انہیں جواب دیا کہ میری سرکاری حیثیت مجھے اس تنازعہ میں پڑنے کی اجازت نہیں دیتی۔ تقریباً ایک سال بعد انہوں نے مجھے لاہور کے ایک انگریزی روزنامے سے ایک کٹنگ بھیجی جس میں نواب افتخار حسین خان آف ممدوٹ اور مسٹر آئی آئی چندریگر نے اپنے نقطہ نظر کی تائید کی۔ میں نواب ممدوٹ کی رائے کے بارے میں  کوئی اظہارِ خیال نہیں کرنا چاہتا، کیونکہ ان  کے پاس اس  موضوع پر بات کرنے کا اختیار نہیں تھا۔، لیکن مجھے یہ دیکھ کر شدید صدمہ ہوا کہ مسٹر چندریگر نے پریس کو ایک کالم  کے مساوی طویل بیان جاری کر کے مسٹر کفایت اللہ کی حمایت کی۔

مسلم لیگ کا کنونشن اپریل 1946 میں منعقد ہوا جب مسلم لیگ باضابطہ طور پر پورے بنگال اور پورے پنجاب کا انتظام سنبھالنے کے لیے پرعزم تھی اور بنگال کے ایک قابل عمل ریاست ہونے کی صلاحیت پر شک کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔  تاریخی اعتبار سے ایک بہت سنگین معاملہ ہونے کی وجہ سے میں نے ہندوستان میں نواب اسماعیل خان کو خط لکھا تھا کہ وہ مجھے ریاستوں سے ‘ریاست’ میں تبدیلی کے سلسلے میں اپنی  یاداشت سے کچھ استفادہ پہنچائیں ۔ انہوں نے یوں جواب دیا:

مصطفیٰ کیسل

میرٹھ،

20 اکتوبر، 1953

میرے  محترم  چودھری صاحب!

آپ کے رجسٹرڈ خط کا جواب دینے میں ، جو یہاں  میری غیر  موجودگی  کے دوران موصول  ہوا تھا ، بے جا تاخیر ہوئی ہے اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ میں ایک ہفتہ کے دورے پر لکھنؤ گیا تھا اور وہاں سے واپسی پر میں رام پور چلا گیا، جہاں میرا قیام طویل ہوگیا۔ واپسی پر میں صاحبِ فراش ہوگیااس لئے آپ کو جلد جواب نہ دے سکا۔ آپ نے اپنے خط کے ساتھ جو کٹنگ بھیجی ہے، اس سے میں نے نوٹ کیا کہ لاہور کی قرارداد اور منتخب مسلمانوں کے کنونشن میں منظور کی گئی قرارداد کے الفاظ میں فرق کو لے کر کئی دنوں کی تاخیر سے  ایک تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔

ایک خاص نکتے پر  پیدا ہونے والا یہ تنازعہ بلاشبہ اہم لیکن اب بے معنی ہے۔ یہ بالکل درست ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے کنونشن کے سامنے پیش کرنے کے لیے قرارداد کا مسودہ تیار کرنے کے لیے میری سربراہی میں ایک ذیلی کمیٹی بنائی جس میں آپ،  محترم حسن اصفہانی، چندریگر اور متین چوہدری شامل تھے۔ مجھے  یاد نہیں ہے کہ حسین امام اس کمیٹی کے رکن تھے یا نہیں۔

اس کمیٹی نے ویسٹرن کورٹ  میں میرے کمرے میں اپنی نشست منعقد کی۔ قرارداد میں شامل کیے جانے والے موضوعات پر ابتدائی بحث کے بعد آپ سے کہا گیا کہ اس کا مسودہ تیار کریں۔ اس کے بعد کے اجلاس میں جب اس پر غور کیا گیا تو تبادلہ خیال کے بعد اس میں کچھ ترامیم کی گئیں۔ آپ نے بالکل درست کہا کہ اصل قرارداد میں لفظ "States” کے لیے کسی کے بھی  اعتراض  کے بغیر "State” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ بعد میں اسے ورکنگ کمیٹی کے سامنے رکھا گیا اور اس کی منظوری دی گئی۔

کنونشن کے پہلے اجلاس کے بعد، اس کی طرف سے منتخب کردہ سبجیکٹ کمیٹی نے اپنی نشست میں قرارداد پر غور کیا اور کئی ترامیم اورتبدیلیاں کیں۔ لیکن میرے علم کے مطابق کسی نے بھی "ریاستوں” کی جگہ "ریاست” کے متبادل پر اعتراض نہیں کیا۔ نہ تو سبجیکٹ کمیٹی میں اور نہ ہی کنونشن کے کھلے اجلاس میں۔  اس بنیادی تبدیلی کے خلاف احتجاج کے لیے ایک لفظ بھی نہیں بولا گیا۔ لاہور کی قرارداد جو کہ لیگ کے دستور کا  بنیادی   حصہ  بن چکی ہے، اسی دستور  کے تحت کام کرنے والی ذیلی تنظیم کے ذریعےاس قرارداد میں  ترمیم ممکن نہیں۔ اگر اس وقت کوئی اعتراض کیا جاتا تو بلاشبہ یہ تبدیلی وقوع پزیر نہیں ہوسکتی تھی  ، ماسوا لیگ کے ایک کھلے اجلاس میں  جو اس مقصد کے لئے کبھی نہیں بلایا گیا۔

بعد میں جب آل انڈیا مسلم لیگ کی کونسل نے برطانوی حکومت کی تجاویز پر غور کرنے کے لیے میٹنگ کی جس میں ایک ریاست کے بارے میں غور کیا گیا تو اس میں کوئی اعتراض نہیں کیا گیا کہ یہ لیگ کے بنیادی اصول  کے خلاف ہے۔ دونوں بازوؤں کے درمیان جو عدم اعتماد اور شکوک و شبہات موجود ہیں وہ اس قسم کے تنازعہ کے ذمہ دار ہیں اور کراچی میں طے پانے والا حالیہ معاہدہ ان جذبات کو ٹھنڈا  کرنے اور ان کو نظر انداز کرنے کی بجائے انہیں سرکاری  سطح پر شناخت عطا کرنے  کا کام کرتا ہے۔ یہ پورے تصور پاکستان کی نفی ہے۔ یہ کاغذات قیصر [نواب اسماعیل خان کے دوسرے بیٹے اکرام] نے لیے تھے، برائے مہربانی اس سے کہیں کہ وہ آپ کے پاس لے آئے۔ امید ہے کہ یہ آپ کی بہتر رہنمائی کریں گے۔

احترام کے ساتھ،

آپ کا مخلص

ایم اسماعیل خان

مجھے بہت خوشی ہوئی کہ نواب اسماعیل خان نے مسلم لیگ کے دہلی کنونشن میں جو تبدیلی  کی گئی تھی اس کے بارے میں میری  تمام باتوں  کی تصدیق کی۔ لیکن ایک اور نکتہ تھا، جسے میں نے اپنے پہلے خط میں نہیں چھیڑا، جس کی وضاحت ضروری تھی ۔

کنونشن کے بعد دہلی میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ بنگال مسلم لیگ کے سکریٹری جناب ابوالہاشم نے ’ریاستوں‘ سے ’ریاست‘میں تبدیلی پر  سوال اٹھایا تھا۔ بتایا گیا کہ مسٹر جناح نے کنونشن کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ ’ریاستیں‘دراصل ٹائپنگ کی غلطی تھی اور یہ معاملہ کنونشن میں ختم

ہو گیا۔ اس کے بعد سے جناب ابوالہاشم مسلسل یہ دعویٰ کرتے رہے کہ انہوں نے یہ نکتہ سبجیکٹ  کمیٹی میں ضرور اٹھایا ہے اور مجھ سے ذاتی طور پر بات بھی کی ہے۔ اعتراض کے وقت میں خود موجود نہ تھا اس لیے میں نے دوبارہ نواب صاحب سے مدد طلب کی جو اپنے اگلے خط میں فرماتے ہیں:

مصطفیٰ کیسل،

میرٹھ،

12 نومبر 1953

میرے محترم  چودھری صاحب!

آپ کے خط کے لیے بہت شکریہ…. مجھے خدشہ ہے کہ میری یاداشت میں ، مسٹر ابوالہاشم کا سبجیکٹ کمیٹی کے اجلاس میں اٹھایا گیا  اعتراض اور مسٹر جناح کی طرف سے سنائے گئے فیصلے کے بارے میں  کچھ موجود نہیں ہے۔

ممکن ہے کہ جب یہ نکتہ اٹھایا گیا تو میں کمرے سے باہر تھا، یا ان کے ریمارکس میرے لیے قابل سماعت نہیں تھے، کیونکہ مجھے یاد ہے کہ میں بالکل پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ آپ کے خط میں جس چیز نے مجھے واقعی حیران کر دیا وہ یہ ہے کہ مسٹر جناح نے فیصلہ دیا کہ لفظ "States” غلط پرنٹ تھا۔ ایک چیئرمین تحریری آئین کے مندرجات کو کیسے نظر انداز کر سکتا ہے اور اپنے فیصلے کی بنیاد اپنی غیر ریکارڈ شدہ یادداشت پر کیسے رکھ سکتا ہے۔ اگر یہ لفظ غلط پرنٹ تھا، جیسا کہ دعویٰ کیا جاتا ہے، تو یہ کیسے ہوا کہ جب اس قرارداد کو لیگ کے بنیادی ضابطے  میں شامل کیا گیا تو  اس کی اصلاح نہیں ہوئی۔ یقیناً اس وقت خاص خیال رکھا جانا چاہیے تھا کہ استعمال کی گئی زبان مشکوک اور مبہم نہ ہو۔

آئین کے بعد کے ایڈیشنوں میں، جو تعداد میں بہت تھے اور نوابزادہ لیاقت علی خان کی براہ راست نگرانی میں شائع ہوئے، انہی الفاظ کو دہرایا گیا۔ تقسیم سے پہلے شائع شدہ آئین کا آخری ایڈیشن میرے پاس ہے جس میں ”ریاستوں“ کا لفظ موجود  ہے۔ آپ کے حوالہ کے لیے میں اس سے متعلقہ جملے دوبارہ پیش کرتا ہوں۔ وہ یہ  ہیں،

”مکمل طور پر آزاد ریاستوں کا قیام…. جیسا کہ شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقوں میں ، جہاں مسلمان عددی طور پر اکثریت میں ہیں،  ایک آزاد قومی وطن کی حیثیت سے  آزاد ریاستوں کی تشکیل کے لیے گروپ تشکیل دیئے جائیں گے۔“

پورا سیاق و سباق صدر کی رولنگ کی نفی کرتا ہے۔ اگر اعتراض کو بھرپور طریقے سے  اٹھایاجاتا تو مجھے یقین ہے کہ اس کا متبادل نافذ نہیں ہو سکتا تھا۔بہرحال یہ سارا تنازعہ برطانوی حکومت کی تجاویز کو قبول کرنے کے بعد مجھے بے معنی اور غیر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ یہ بالکل درست ہے کہ لفظ "State” لفظ "States” کے متبادل کے طور پر اپنا لیا گیاتھا۔  ایسا درست اور قانونی طور پر کیا گیا تھا  یا نہیں ، اب یہ محض ایک علمی بحث ہے۔

نیک  خواہشات  اور نیک تمناؤں کے ساتھ،

آپ کا مخلص،

محمد اسماعیل خان

 

حسین شہید سہروردی:

ہم اس سے قبل 1946 کےدہلی کنوینشن میں قراردادِ لاہور میں کی جانے والی ترمیم کے حوالے سے  بنگال مسلم لیگ کے سکریٹری ابوالہاشم جنہوں نے اس ترمیم کی مخالفت میں آواز اٹھائی تھی،  قرارداد کا مسودہ تیار کرنے والےچودھری خلیق الزمان اور چودھری صاحب کے ساتھ ہونے والی خط وکتابت کے نتیجے میں  قرارداد تیار کرنے والی کمیٹی کے سربراہ نواب محمد اسماعیل خان کے مؤقف سے آگاہی حاصل کرچکے ہیں۔ 1946 کے اس یادگار کنوینشن میں یہ قرارداد بنگال کے وزیرِاعظم حسین شہید سہروردی نے پیش کی تھی۔آئیے ان کی یاداشتوں پر مشتمل کتاب سےان کے مؤقف سے بھی آگاہی حاصل کرتے ہیں۔

دہلی کنونشن:

انتخابات ختم ہو چکے تھے۔  7 اپریل 1946 کو، جناح نے تمام مرکزی اور صوبائی  منتخب  ممبران کو دہلی کے محمدن اینگلو عربک کالج گراؤنڈ میں ایک کنونشن میں مدعو کیا۔ یہ کنونشن سہروردی کی تجویز پر بلایا گیا تھا، جنہوں نے عبوری مرکزی کابینہ میں مسلم لیگ کے مکمل مسلم کوٹہ کی نامزدگی کے حق کے معاملے پر فیصلہ کرنے کے لیے جناح کو خط لکھا، جسے کانگریس نے چیلنج کیا تھا۔  9-10 اپریل کو جناح کی صدارت میں منعقد ہونے والے مسلمان نمائندوں کے کنونشن میں    480اراکین میں سے 450 نے کنونشن میں شرکت کی۔اگرچہ (یہ کنوینشن)   بظاہر عبوری مرکزی حکومت میں مسلم کوٹہ کا فیصلہ کرنے کے لیے بیٹھا تھا، تاہم مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری نوابزادہ لیاقت علی خان نے جناح کے کہنے پر  بنگالی اراکین  کے بلند و بالا احتجاج کو نظر انداز کرتے ہوئے، جن میں سب سے زیادہ  نمایاں آواز مولانا عبدالحمید خان بھاشاہی کی تھی،  نے لاہور کی قرارداد کے مواد کو تبدیل کر دیا جس میں دو خودمختار مسلم ریاستوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔  آسام پراونشل مسلم لیگ کے صدر اور بنگال پراونشل مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری ابوالہاشم  نے کونسلرز کے کنونشن کے اس حق پر سوال اٹھایا کہ کیا  وہ ایک قرارداد کے فیصلے کو تبدیل کر سکتا ہے جسے مسلم نمائندوں کی ایک پوری جماعت نے منظور کیا تھا، لیکن جناح ایک پاکستان کے لیے اٹل تھے، جب انہوں نے اپنے خواب کو حقیقت بنتے دیکھا۔

بظاہر، انہوں نے  جغرافیائی تضادات اور دونوں اطراف کے  لوگوں کے درمیان بنیادی اختلافات اور ان کے طرز زندگی کو نظر انداز کیا۔  اردو بنگال کے مغرب میں واقع صوبوں کے مسلمانوں کی زبان تھی جب کہ بنگالی مسلمان جنہوں نے اپنے طور پر  اپنی الگ شناخت برقرار رکھی وہ  بنگالی  میں بولتے اور پڑھتے تھے۔   اپنی اپنی روایات، سماجی نظام، کھانے اور لباس میں بھی مختلف تھے۔ واحد مشترک رشتہ مذہب تھا اور اگرچہ یہ ایک مشترکہ دشمن سے آزادی کے لیے لڑنے کی ایک  معقول  وجہ ہو سکتی ہے،  لیکن یہ یقینی طور پر ایک قوم کے طور پر ایک ساتھ رہنے کی کوئی اطمینان بخش  وجہ نہیں تھی۔ مزید برآں  بنگال میں شروع ہونے والی مسلم آزادی کی جدوجہد صرف مذہبی بنیادوں پر نہیں لڑی گئی۔ زیادہ ترقی یافتہ اور متمول ہندوؤں، ہندو زمینداروں اور مہاجنوں (ساہوکاروں) سے معاشی آزادی ان کے لیے بہت زیادہ اہم تھی۔ لیکن مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے مذہبی تحفظات ، اگر زیادہ نہیں تو بھی اقتصادی  مفادات سے اہم  تھے۔ سہروردی جو کبھی تقسیم شدہ بنگال نہیں چاہتے تھے، اس تبدیلی  پر رضامند ہوکر  آج تک بہت سے لوگوں کو الجھاوے میں ڈالے ہوئے ہیں۔  تاہم  ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ 1946 کی قرارداد ، 1940 میں لاہور کی ’قرار داد  ِپاکستان‘  کی منظوری اور پاکستان کے مسئلے پر 1946 کے عام انتخابات کے انعقاد سے پیدا ہونے والے حالات   کا ماحصل تھی۔

دو خودمختار مسلم ریاستوں کے مطالبے کو اتنی ہی جلدی فراموش کر دیا گیا جس طرح بنگال کے لوگ فضل الحق کو بھول گئے، جب انہیں احساس ہوا  کہ ہندو تسلط سے آزادی کے ان کے  سب سے بڑے مطالبے کو کانگریس کے اکھنڈ بھارت (غیر منقسم ہندوستان) کے مطالبے سے خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔

تین دیگر مسلم اکثریتی صوبوں میں  مسلم لیگ کی حکومت کی واپسی میں ناکامی نے پہلے ہی پاکستان کے لیے جناح کے دلائل کو کمزور کر دیا تھا۔ سہروردی اس بات کا گہرا شعور رکھتے تھے کہ اگر بنگال ایک الگ خودمختار ریاست کے اپنے مؤقف پر ڈٹا رہا اور براہ راست کانگریس کے ہاتھوں میں کھیلا تو مستقبل قریب میں پاکستان کبھی نہیں بنے گا۔ برصغیر کی واحد مسلم لیگی حکومت کے وزیر اعظم کی حیثیت سے ان پر بہت زیادہ انحصار کیا گیا اور انہوں نے ایک آل انڈیا قوم پرست مسلم رہنما کے طور پر سب سے پہلے پاکستان کی ریاست بنانے کے لیے کام کیا ۔ لیکن ساتھ ہی مشرقی ہندوستان  میں ایک علیحدہ اور خود مختار ریاست کے  خواب  کو پسِ پشت نہیں ڈالا۔

جس دن یہ قرارداد پیش کی گئی، انہوں نے کابینہ کے وفد کو اپنے خفیہ نوٹ میں تجویز کیا کہ  ”برطانوی اپنے فائدے کے لیے دو یا تین، یا ایک سے زیادہ مرکزی  حکمرانوں کے ساتھ معاملہ کریں گے“۔ سہروردی نے قرار داد پیش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اس برصغیر میں مسلمانوں کے لیے مسلم لیگ کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے اور ان کے سامنے پاکستان کے علاوہ کوئی آرزو نہیں ہے ۔ انہوں نے دیکھا کہ برطانیہ ہندوستانیوں کو اقتدار منتقل کرنا چاہاتا ہے  اور کیبنٹ مشن یہاں  اس مقصد کے لئے  مناسب مشینری  کی تلاش  میں آیا ہوا ہے۔  کانگریس نے برطانیہ کو کہا ، ”ہمیں اقتدار دو،   ہم تمام اپوزیشن کا صفایا کر دیں گے۔ ہم مسلمانوں کو دبائیں گے۔ ہم شیڈول کاسٹ کو ان کی اوقات پر لائیں گے اور غداروں کو ختم کر دیں گے۔ ہمیں پولیس، اپنی فوج اور اسلحہ دے دوتو  ہم ایک متحدہ ہندوستان کے نام پر بدی اور نیکی کی فیصلہ کن جنگ لڑیں  گے“۔

” اسے میں اقتدار کی ہوس کی وجہ سے پاگل پن کہتا ہوں… ہم خانہ جنگی شروع کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے لیکن ہم ایک ایسی سرزمین چاہتے ہیں جہاں ہم امن سے رہ سکیں۔ ہم ایک قوم ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ ہمارے پاس دنیا کی تہذیب میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے کچھ نہ کچھ  ہے۔ لیکن کیا انگریز اور کانگریس ہمیں امن اور وقار کے ساتھ پاکستان دینے کے لیے تیار ہیں؟ اگر نہیں تو کیا مسلمان لڑنے کے لیے تیار ہیں؟ میں نے ان سوالات پر طویل غور کیا ہے۔ اب میں ایمانداری سے اعلان کرتا ہوں کہ بنگال کا ہر مسلمان پاکستان کے لیے اپنی جان دینے کے لیے  آمادہ  اور تیار ہے۔ اب میں آپ سے کہتا ہوں، مسٹر جناح، ہمارا امتحان لیں“۔

 

4 thoughts on “’ریاست‘ یا ’ریاستیں‘، قراردادِ لاہور 1940 میں کی جانے والی ترمیم کے حقائق

  1. بہت جانفشانی سے تحقیق و تدقیق کے نتیجے میں قلمبند کیا گیا مضمون
    ملی تاریخ کے اس گمشدہ گوشے کو سامنے لانے پر آپ ہدیہء تبریک و تحسین کے مستحق ہیں
    جزاک اللہ خیراً کثیراً

  2. میں جناب ابوالہاشم مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری 1943 کے عوامی و جمہوری طرزِ سیاست کو سمجھنا چاہ رہا تھا کہ جنھوں نے بنگال کسانوں کے چار ملین اموات کے بعد مسلم لیگ کو اشرافیہ کے محلوں سے نکال کر عام محنت کش طبقے تک متعارف کروایا اور عوامی تائید سے مضبوط کیا ۔۔۔ آج اس پر مزید تفصیلات ملنے پر مضمون نگار کی تحقیق اور تجزیہ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں ۔۔۔ شکریہ

    1. بہت شکریہ جناب عمر وارث صاحب۔
      آپ کے پاس ابوالہاشم کے حوالے سے جو معلومات ہیں انہیں اگر مختصراً یہاں شیئر کریں تو عنایت ہوگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے