سالِ نو اور ہماری معاشرتی ذمہ داری

فلاحِ انسانیت: قرآن، احادیث، اور علامہ اقبال کا پیغام

قرآن کریم میں فرمایا گیا : وَ افْعَلُوْا الْخَیْرَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ (الحج : ۷۷) بھلائی کے کام کرو، تاکہ تمہیں (بھلائی) کامیابی حاصل ہو ۔

اور حضرت انس اور حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کی عیال یعنی کنبہ ہے، پس اللہ تعالیٰ کو اپنی ساری مخلوق میں زیادہ محبت اس شخص سے ہے جو اس کے عیال (مخلوق) کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہو ۔

عَنْ أَنَسٍ وَعَبْدِ اللّٰہِ رَضِيَاللّٰہُ عَنْھُمَا قَالَا: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم : ’’اَلْخَلْقُ عِیَالُ اللّٰہِ، فَأَحَبُّ الْخَلْقِ إِلَی اللّٰہِ مَنْ أَحْسَنَ إِلٰی عِیَالِہ‘‘۔ (رواہ البیہقی فی شعب الإیمان، مشکوٰۃ/ص:۴۲۵/ باب الشفقۃ والرحمۃ علی الخلق/الفصل الثالث)

صحیح مسلم کے مطابق  سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ،

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” حسدمت کرو ایک دوسرے سے،  بغض  مت رکھو ایک دوسرے سے،  دشمنی مت کرو ایک دوسرے سے، اور اللہ کے بندے بن جاؤ بھائیوں کی طرح۔“

عَنْ أَنَسٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” لَا تَحَاسَدُوا، وَلَا تَبَاغَضُوا، وَلَا تَقَاطَعُوا وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا ".

‏‏‏‏ (صحيح مسلم/كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ/حدیث: 6530)

اور علامہ اقبال نے کہا تھا،

”جب تک انسان اپنے عمل کے اعتبار سے ‘الخلق عیال اللہ’کے اصول کا قائل نہ ہوجائے گا اور جب تک جغرافیائی وطن پرستی اور  رنگ و نسل کے اعتبارات کو نہ مٹایا جائے گا، اس وقت تک انسان اس دنیا میں فلاح و سعادت کی زندگی بسر نہ کرسکے گا اور اخوت، حریت اور مساوات کے شاندار الفاظ  شرمنده معنی نہ ہوں گے۔ آؤ اس نئے سال کو اس دعا سے شروع کریں کہ، خدائے بزرگ و برتر اربابِ حکومت و اقتدار کو انسان بنائے اور انہیں انسانیت کی حفاظت کرنا سکھائے۔“

علامہ صاحب کا یہ وہ پیغامِ نوروز ہے جو آل انڈیا ریڈیو (لاہور) کی استدعا پر حضرت علامہ اقبال مدظلہ العالی نے عنایت فرمایا، اور مولانا سالک مدیر ”انقلاب“ نے یکم جنوری کو چھ بجے شام ریڈیو پر نشر کیا۔ بحوالہ: روزنامہ انقلاب – شمارہ جنوری 1938ء – بشکریہ امجد سلیم علوی

سالِ نو 1938ء میں نشر ہونے والا علامہ اقبال کا پیغام

”دورِ حاضر کو علومِ عظمیہ اور سائنس کی عدیم المثال ترقیات پر بہت بڑا فخرو ناز ہے، اور یہ فخرو ناز بلاشبہ حق بجانب ہے۔ آج زمان و مکان کی پہنائیاں سمٹ رہی ہیں، اور انسان قدرت کے اسرار کی نقاب کشائی اور قوائے فطرت کی تسخیر میں حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کررہا ہے۔ لیکن ان تمام ترقیات کے باوجود اس زمانے میں ملوکیت کے جبرو استبداد نے جمہوریت، قومیت، اشتراکیت فسطائیت اور خدا جانے اور کیا کیا نقاب اوڑھ رکھے ہیں۔  اور ان نقابوں کے نیچے دنیا بھر کے تمام گوشوں میں قدرِ حریت اور اور شرفِ انسانیت کی وہ مٹی پلید ہورہی ہے کہ تاریخِ عالم کا کوئی تاریک سے تاریک صفحہ بھی اس کی مثال پیش نہیں کرسکتا۔ جن نام نہاد مدبرین کو انسانوں کی قیادت اور حکومت سونپی گئی تھی وہ خونریزی، سفاکی اور زیرِ دست آزادی کے دیوتا ثابت ہوئے۔ جن حاکموں کا یہ فرض تھا کہ اخلاقِ انسانی کے نوامیسِ عالیہ کی حفاظت کریں۔ انسان کو انسان پر ظلم کرنے سے روکیں، اور انسانیت کی ذہنی اور اور عملی سطح کو بلند کریں، انہوں نے ملوکیت و استعمار کے جوش میں لاکھوں کروڑوں مظلوم بندگانِ خدا کو ہلاک و پامال کرڈالا۔ صرف اس لئے کہ ان کے اپنے مخصوص گروہ کی ہوا و ہوس کی تسکین کا سامان بہم ہوجائے۔

ریڈیو لاہور سے نشر ہونے والا سال نو کا پیغام علامہ اقبال

انہوں نے کمزور قوموں پر تسلط حاصل کرنے کے بعد ان کے تمدن، ان کے اخلاق، ان کے مذاہب، ان کی مذہبی روایات، ان کے ادب اور ان کے اموال پردستِ تطاول  دراز کیا۔ پھر ان کے درمیان تفرقہ انگیزی کرکے ان بدبختوں کو خوں ریزی اور برادر کشی میں مصروف کردیا، تاکہ وہ غلامی کی افیم سے مدہوش اور غافل رہیں، اور استعمار کی جونک چپ چاپ ان کا لہو پیتی رہے۔ جو سال  گذر چکا ہے، اس کو دیکھو اور آج نوروز کی خوشیوں کے درمیان بھی دنیا کے واقعات پر نظر ڈالو۔ حبش ہو یا فلسطین، ہسپانیہ ہو یا چین، اس خاکدانِ ارضی کے ہر گوشے میں یہی قیامت برپا ہے۔  لاکھوں انسان بیدردی سے  موت کے گھاٹ اتارے جارہے ہیں۔ سائنس کے تباہ کن آلات سے تمدنِ انسانی کے عظیم الشان آثار کو معدوم کیا جارہا ہے۔ اور جو حکومتیں فی الحال آگ اور خون کے اس تماشے میں عملاً شریک نہیں ہیں، وہ اقتصادی میدان میں کمزوروں اور ضعیفوں کے خون کے آخری قطرات تک چوس رہی ہیں۔

غرض ایک ہنگامۂ محشر ہے جس میں نفسی نفسی کے سوا اور کوئی آوازسنائی نہیں دیتی۔تمام دنیا کے مفکر دم بخود ہیں۔ اور سوچ رہے ہیں کہ کیا تہذیب و تمدن کے اس عروج اور انسانی ترقی کے اس کمال کا انجام یہی ہونا تھا، کہ انسان ایک دوسرے کی جان و مال کے لاگو ہوکر اس کرہ پر زندگی کا قیام ناممکن بنا دے؟ یاد رکھو انسان کی بقا کا راز انسانیت کے احترام میں ہے۔جب تک تمام دنیا کی تعلیمی طاقتیں اپنی توجہ کو محض احترامِ انسانیت کے درس پر مرتکز نہ کردیں گی، یہ دنیا بدستور درندوں کی بستی بنی رہے گی۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ ہسپانیہ کے باشندے ایک نسل، ایک زبان، ایک مذہب اور ایک قوم ہونے کے باوجود، محض اقتصادی عقائد کے اختلاف پر  ایک دوسرے کا گلہ کاٹ رہے ہیں، اور اپنے ہاتھوں اپنے تمدن کا نام و نشان مٹا رہے ہیں۔ اس ایک واقعہ سے صاف ظاہر ہے کہ قومی وحدت بھی ہر گز قائم و دائم نہیں۔ وحدت صرف  ایک ہی معتبر ہے اور وہ بنی نوع انسان کی وحدت ہے جونسل وزبان و  رنگ سے بالاتر ہے۔ جب تک اس نام نہاد جمہوریت،  اس ناپاک قوم پرستی اور اس ذلیل ملوکیت کی لعنتوں کو پاش پاش نہ کردیا جائے گا، جب تک انسان اپنے عمل کے اعتبار سے ”الخلق عیال اللہ“ کے اصول کا قائل نہ ہوجائے گا اور جب تک جغرافیائی وطن پرستی اور  رنگ و نسل کے اعتبارات کو نہ مٹایا جائے گا، اس وقت تک انسان اس دنیا میں فلاح و سعادت کی زندگی بسر نہ کرسکے گا اور اخوت، حریت اور مساوات کے شاندار الفاظ  شرمنده معنی نہ ہوں گے۔ آؤ اس نئے سال کو اس دعا سے شروع کریں کہ، خدائے بزرگ و برتر اربابِ حکومت و اقتدار کو انسان بنائے اور انہیں انسانیت کی حفاظت کرنا سکھائے۔“

اختتامِ پیغام

یاد رکھئے کہ قرآنِ کریم  کی ابتداء ہی اسمِ ذات  یعنی اللہ کے بعد رحمٰن و رحیم سے ہوتی ہے۔ وہی کتابِ مقدس جس میں واضح الفاظ میں یہ اعلان کیاگیا ہے کہ ”کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہ الرَّحْمَةَ“ تمہارے رب اور پالنے والے نے اپنے اوپر رحمت ثبت کرلی ہے۔ اور اسی قرآن نے نبی کریم کیلئے فرمایا،
”وَمَا اَرْسَلْنَاکَ اِلاَّ رَحْمَةً للعالمین“ ہم نے آپ کو تمام عالم کے لیے رحمت ہی بناکر بھیجا ہے۔ خود آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”اَنَا نَبِيُّ الرَّحْمَةِ، أنَا رَسُوْلُ الرَّحْمَةِ“ میں نبیِ رحمت اور رسولِ رحمت ہوں۔

آیئے ان ارشادات کی روشنی میں سالِ نو کا آغاز کریں اور معاشرے میں اخوت، رواداری اور بھائی چارے کو فروغ دیں۔ غیر مذاہب کے افراد کے ساتھ بھی وہی رویہ اپنائیں جیسی ہمیں تلقین کی گئی ہے۔ وما علینا الالبلاغ المبینِ

The message broadcast on radio in 1938

روزنامہ انقلاب کا عکس – بشکریہ امجد سلیم علوی

FB Comments:

Leave Your Facebook Comments Here

علامہ اقبال کے معرکہ آرا خطبۂ الہٰ باد کے نوے برس

0 thoughts on “سالِ نو اور ہماری معاشرتی ذمہ داری

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے