قراردادِ لاہور 23 مارچ 1940ء اور قائدِ اعظم کا صدارتی خطبہ

 23 مارچ 1940ء کی قراردادِ لاہور / قراردادِ پاکستان کا احوال

انگریزی خطبہ مع اردو ترجمہ، اجلاس کی کاروائی، قرارداد کا متن اور سوشل میڈیا کے تبصروں کی
پی ڈی ایف فائل ڈاؤنلوڈ کریں۔

22 مارچ 1940 کو ڈھائی بجے بعد دوپہر لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے ستائیسویں سالانہ اجلاس کا آغاز ہوا۔ 19 مارچ کو پولیس نے خاکساروں کے جلسے پر فائرنگ کرکے ان کے کئی کارکنان کو شہیدکردیا تھا، لاہور کی فضا سوگوار تھی اور مسلم لیگ کا جلسہ رکوانے کی بھرپور کوششیں کی گئی تھیں۔ آج کا دن مسلمانانِ برصغیر کیلئے بہت اہم تھا۔ آل انڈیا مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے رہنما پورے ہندوستان سے اس جلسے میں شرکت کیلئے لاہور پہنچے تھے۔ عوام کی بھی ایک بڑی تعداد لاہور پہنچی تھی، کیونکہ آج انکے محبوب قائد محمد علی جناح پنجاب کی سرزمین پر ان سے مخاطب ہونے والے تھے۔

قائد اعظم نے لاہور پہنچتے ہی اخباری نمائندوں کو بیان دیا تھا کہ لیگ اس اجلاس میں ایک انقلاب آفرین اقدام کرے گی، اُن کے اس ارشاد پر طرح طرح کی چہ مگوئیاں اور قیاس آرائیاں ہونے لگیں، اخبارات نے بھی بڑے بڑے حاشیے لگائے لیکن بات کی تہہ تک کوئی نہ پہنچ سکا ۔ جلسے کیلئے لگائے گئے پنڈال میں 60،000 افراد کی گنجائش تھی مگر شرکت کیلئے آنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔ مقررہ وقت سے پہلے ہی پنڈال بھر چکا تھا۔ مسلم نیشنل گارڈ سبز وردیوں میں ملبوس حفاظتی فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ بعد میں آنے والے پنڈال سے باہر جمع ہوتے رہے جن کیلئے لاؤڈ اسپیکر ز لگائے گئے تھے۔ لوگوں کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ جسٹس (ر) آفتاب فرخ کہتے ہیں کہ ان کے والدبیرسٹر فرخ حسین، جنہوں نے علم دین شہید کا کیس بھی لڑا تھا وہ اس جلسہ کی پنڈال کمیٹی کے انچارج تھے جب کہ پورے جلسہ کے انتظامات میاں امیر الدین اور میاں بشیر احمد کے ذمہ تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ” وہ خود گیارہ برس کے تھے اور اس جلسہ میں موجود تھے۔ پورا لاہور شہر اس جلسہ میں امڈ آیا تھا اور میں بھی اس سیلاب کا حصہ تھا۔ اس سے قبل جب 21 مارچ کو قائد اعظم جلسہ میں شرکت کے لیے بذریعہ ریل، لاہور ریلوے اسٹیشن پہنچے تو بھی پورا لاہور ان کے استقبال کے لیے موجود تھا۔“

قائداعظم محمد علی جناح دو بجکر پچیس منٹ پر آئے۔ استقبالیہ کمیٹی کے چئیرمین نواب سر شاہنواز ممدوٹ نے استقبال کیا۔ بینڈ نے موسیقی کے ساتھ پلیٹ فارم تک پہنچایا۔ اسٹیج پہ کرسیوں کے ساتھ ایک ٹیبل بھی رکھی ہوئی تھی جس پہ بیٹھ کر قائدِ اعظم اور قائدِ ملت کچھ دستاویزات پہ کام کرتے نظر آتے ہیں۔ تصاویر میں اسٹیج کے ایک طرف لگا وہ بینر نمایاں نظر آتا ہے جس پر اقبال کا یہ شعر درج تھا: جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں ادھر ڈوبے، ادھر نکلے، ادھر ڈوبے، ادھر نکلے جلسے کی کاروائی تلاوتِ قرآن سے شروع ہوئی جس کے بعد نظموں اور نغموں کا سلسلہ شروع ہوا۔ انور قریشی نے میاں بشیر احمد کی نظم ”ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح“ ترنم کے ساتھ پہلی دفعہ سنائی ، آج بھی مسعود رانا مرحوم کی آواز میں یہ نغمہ گونجتا ہے تو دلوں کو گرما جاتا ہے۔ سر شاہنواز ممدوٹ نے اُردو میں خطبۂ استقبالیہ پیش کیا ۔

قائداعظم کا خطاب انگریزی میں تھا اور فی البدیہہ تھا جو پی ڈی ایف فائل میں اردو ترجمہ کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے۔ عوام کی ایک بڑی تعداد انگریزی سمجھنے سے قاصر تھی مگر قائدِ اعظم کا طویل خطاب وہ انتہائی انہماک اور دلچسپی سے سنتے رہے اور داد وتحسین بھی دیتے رہے۔

(یہی منظر اپریل 1928 میں بھی دیکھا گیا تھا جب انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں اقبال نے انگریزی میں ری کنسٹرکشن کا پہلا لیکچر پیش کیا اور جو لوگ انگریزی نہیں جانتے تھے، انہوں نے تین گھنٹے تک چُپ چاپ بیٹھے رہنے کی یہ وجہ بتائی کہ ’’ہمارے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ حضرت علامہ اقبال سامنے موجود ہیں اور عقائدِ دینِ اسلام کی حمایت میں اپنے علم و فضل کے پورے زور سے تقریر فرما رہے ہیں، اس سے زیادہ ہمیں اور کیا چاہیے ‘‘بحوالہ خرم علی شفیق ۔)

قراردادِ لاہور کس نے تیار کی؟ قرارداد کا مسؤدہ تیار کرنے کےحوالے سے آپ کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر جا بجا اس طرح کی معلومات ملتی ہیں جس میں کوئی اس کو سر سکندر حیات کے نام سے منسوب کرتا ہے اور کوئی سر ظفراللہ خان سے، کچھ لوگ اس کا کریڈٹ لیاقت علی خان کو دیتے ہیں۔ دیگر کئی کہانیاں بھی گردش میں رہتی ہیں۔ تیس سال کے دوران ہندوستان کی جدوجہد آزادی، تحریک پاکستان اور قائد اعظم سے متعلق تاریخی دستاویزات اور کاغذات کے جو بڑے ذخائر منظر عام پر آئے، ان میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن پیپرز، ٹرانسفر آف پاور والیومز، ویول جرنل، قائد اعظم پیپرز، شمس الحسن کلیکشن، آل انڈیا مسلم لیگ ریکارڈ، نشتر کلیکشن، سلیکٹیڈ ورکس آف گاندھی، نہرو پیپرز، پٹیل پیپرز، راجندر پرشاد کرسپانڈنس، سپر وپیپرز سلیکٹیڈ ورکس آف ایم این رائے، جناح اصفہانی کرسپانڈنس، سریامین خان کلیکشن ، میاں عبدالعزیز کلیکشن اور سر عبداﷲ ہارون کلیکشن وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ شمس الحسن کلیکشن جیسی معتبر دستاویزات مرتب کرنے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل نواب سید شمس الحسن نے اپنے ایک مضمون میں قراردادِ پاکستان کی تفصیل بیان کر رکھی ہے۔

سید شمس الحسن بحیثیت آفس سیکرٹری اور پھر اسسٹنٹ سیکرٹری 1914ء سے 1940ء تک آل انڈیا مسلم لیگ سے وابستہ رہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد 1958ء میں مارشل لاء کے نفاذ تک وہ پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی سیکرٹریٹ کے ذمہ دار تھے۔ سید صاحب کی تاریخی تحریر پہلی بار 23 مارچ 1976ء کو ’’ڈیلی مارننگ نیوز‘‘ کراچی میں شائع ہوئی۔ قراردادِ لاہور کے حوالے سے یہ ایک مستند اور وقیع شہادت ہے۔ مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی نے اجلاس عام پہلے 28تا30 دسمبر1939ء کو لاہور میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا تھا، بعد میں اسے مارچ تک ملتوی کر دیا گیا۔ سید شمس الحسن کا کہنا ہے: نواب لیاقت علی خان نے 10اگست1939ء کو میسوری سے مجھے لکھا کہ مَیں آپ کو تین آئینی سکیمیں جو کہ سر سکندر حیات خان، ڈاکٹر عبداللطیف اور ڈاکٹر افضال حسین قادری نے تیار کی تھیں، بھیج رہا ہوں۔ مہربانی فرما کر ہر ایک کی پچاس کاپیاں طبع کروانے کا انتظام کریں۔ جب کاپیاں تیار ہو جائیں تو ہر سکیم کی ایک ایک کاپی ورکنگ کمیٹی کے ہر ممبر کو اور ہر صوبائی لیگ کے سیکرٹری کو بھیج دی جائے۔ لہٰذا یہ ممبران کو ارسال کر دی گئیں جس میں ان سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ تمام سکیموں کا بغور مطالعہ کریں تاکہ اگلی میٹنگ میں انہیں زیر بحث لایا جا سکے۔ سید شمس الحسن کا مزید کہنا ہے کہ :(اجلاس لاہور کے موقع پر) ’’ورکنگ کمیٹی نے نکات مرتب کرنے کے بعد ملک برکت علی، نواب محمد اسماعیل خان اور نوابزادہ لیاقت علی خان کو یہ فرض سونپا کہ وہ ریزولیوشن کا ڈرافٹ تیار کریں۔ ڈرافٹ تقریباً دو گھنٹے میں تیار کر لیا گیا۔ ملک برکت علی نے (حتمی) ڈرافٹ تیار کیا۔ یہ ڈرافٹ اسی رات ورکنگ کمیٹی کے سامنے پیش کیا گیا،اور منظور کر لیا گیا۔ جب 23 مارچ کو ساڑھے دس بجے سبجیکٹ کمیٹی کا اجلاس ہوا، تو اس نے اس ریزولیوشن کو اجلاس میں پیش کرنے کی منظوری دے دی۔ یاد رہے کہ یہ سبجیکٹ کمیٹی 25 ارکان پر مشتمل تھی۔“

23 مارچ 1940ء کو اجلاس کی کارروائی 3 بجے سہ پہر شروع ہوئی۔ بنگال کے وزیر اعظم اے کے فضل الحق نے قراردادِ لاہور پیش کی اور اس کی تائید میں تقریر کی۔ چوہدری خلیق الزمان نے اس قرارداد کی تائید کی اور مختصر سا خطاب کیا۔اجلاس کے دوران اس قرارداد کو ”آئینی قرارداد“ کہا گیا اور بعد میں لیگ نے قراردادِ لاہور کا نام دیا ۔ چودھری رحمت علی کا تجویز کردہ نام ”پاکستان“ اس وقت کئی حلقوں میں مقبول ہوچکا تھا، مولانا محمد علی جوہر مرحوم کی اہلیہ نے اپنی تقریر میں اس قرارداد کا ذکر”قراردادِ پاکستان “ کہہ کر کیا۔ چودھری خلیق الزماں (یوپی) کے علاوہ جن دوسرے رہنماؤں نے قرارداد کی تائید میں تقاریر کیں ان میں، ظفر علی خاں (پنجاب)، سردار اورنگزیب خاں (سرحد) اور سر عبداللہ ہارون (سندھ) شامل تھے۔

24 مارچ کو صبح سوا گیارہ بجے اجلاس پھر شروع ہوا۔آج کے اجلاس میں خان بہادر نواب محمد اسماعیل خاں (بہار)، قاضی محمد عیسیٰ خاں (بلوچستان)، عبدالحامد خاں (مدراس)، آئی آئی چندریگر (بمبئی)، سید عبدالرؤف شاہ (سی پی) اور ڈاکٹر محمد عالم نے قرارداد کی تائید میں تقاریر کیں۔ اس موقع پر قائدِ اعظم نے مداخلت کرتے ہوئے عبدالرحمان صدیقی کو فلسطین پر قرارداد پیش کرنے کی ہدایت کی۔ سید رضا علی اور عبد الحمید بدایونی نے اس قرارداد کی تائید میں تقاریر کیں اور قرارداد فوری طور پر منظور کرلی گئی جس کے بعد اجلاس کی کارروائی کو رات 9 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔رات میں جب اجلاس شروع ہوا تو 19 مارچ کو ہونے والے سانحہ پر قائداعظم نے خاکساروں سے ہمدردی کی قرارداد پیش کی۔اس کے بعد ’’آئینی قرارداد‘‘ کی تائید میں سید ذاکر علی، بیگم محمد علی اور مولانا عبدالحامد نے تقاریر کیں جس کے بعد قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی۔ قرارداد کی منظوری کے بعد مسلم لیگ کے آئین میں ترمیم کی قرارداد منظور ہوئی اور عہدیدار منتخب کیے گئے۔ آخر میں قائداعظم نے نواب بہادریار جنگ کو تقریر کی دعوت دی جن کیلئے مختار مسعود نے اپنی مشہور ترین تصنیف ”آوازِ دوست“ میں لکھا تھا کہ ”ان کی تقریر کبھی آتش فشاں ہوتی کبھی آبشار“۔ اجلاس سمیٹتے ہوئے اختتامی کلمات میں قائداعظم نے اجلاسِ لاہور کو مسلم ہند کی تاریخ کا عہد آفریں باب قرار دیا جس نے مسلمانوں کی منزل متعین کردی۔ جس کے بعد یہ تاریخی اجلاس رات ساڑھے گیارہ بجے ختم ہوا۔ قائدِ اعظم کے سکریٹری مطلوب الحسن سید کا بیان ہے کہ قرارداد کی منظوری کے بعداُنہوں نے کہا، ’’اقبال اب ہمارے درمیان نہیں ہیں، لیکن اگر وہ زندہ ہوتے تو یہ معلوم کر کے خوش ہوتے کہ ہم نے بعینہ وہی کیا جو وہ ہم سے کروانا چاہتے تھے۔‘‘

 

قراردادِ لاہور اور قائدِ اعظم کا صدارتی خطبہ

English and Urdu PDF download /قائدِ اعظم کا مکمل صدارتی خطبہ-اردو اور انگریزی 1940ء

قراردادِ لاہور / قراردادِ پاکستان کا متن

  • آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ سیشن مسلم لیگ کی مجلس عاملہ اور شوریٰ کے اقدام کی منظوری اور توثیق کرتے ہوئے جیسا کہ ان کی قرارداد مورخہ 27اگست‘17و18ستمبر اور 22اکتوبر1939ء اور 3فروری1940ء سے ظاہر ہے۔ آئینی قضیے میں اس امر کے اعادے پر ز ور دیتا ہے کہ1935ء کے حکومت ہند ایکٹ میں تشکیل کردہ وفاق کی منصوبہ بندی ملک کے مخصوص حالات اور مسلم ہندوستان دونوں کے لیے بالکل ناقابل عمل اور غیر موزوں ہے۔قراردادِ لاہور - 1
  • مزید براں یہ (سیشن) پرزور طریقے سے باورکرانا چاہتا ہے کہ تاجِ برطانیہ کی جانب سے وائسرائے کا اعلامیہ مورخہ 18اکتوبر1939ء‘ حکومت ہند ایکٹ1935ء کی اساسی پالیسی اور منصوبے کے ضمن میں اس حد تک اطمینان بخش ہے‘ جس حد تک مختلف پارٹیوں‘ مفادات اور ہندوستان میں میں موجود گروہوں کی مشاورت کی روشنی میں اس پرنظر ثانی کی جائے گی۔ مسلم ہندوستان تب تک مطمئن نہیں ہوگا جب تک مکمل آئینی منصوبے پر نئے سرے سے نظرثانی نہیں کی جائے گی اور یہ کہ کوئی بھی ترمیم شدہ منصوبہ مسلمانوں کے لیے صرف تبھی قابل قبول ہوگا اگر اس کی تشکیل مسلمانوں کی مکمل منظوری اور اتفاق کے ساتھ کی جائے گی۔قراردادِ لاہور - 2
  • قرار پایا ہے کہ یہ آل انڈیا مسلم لیگ کا مسلمہ نقطۂ نظر ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی آئینی منصوبہ تب تک قابل قبول نہیں ہوگا‘ جب تک وہ ذیل کے بنیادی اصول پر وضع نہیں کیا جائے گا‘ وہ یہ کہ جغرافیائی طور پر ملحق اکائیوں کی علاقائی حد بندی کرکے ان کی آئینی تشکیل اس طرح کی جائے کہ جن علاقوں میں مسلمان عددی طور پراکثریت میں ہیں‘ جیسا کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی حصے، ان کو آزاد ریاستوں میں گروہ بند کردیا جائے اور اس طرح تشکیل پانے والی یہ اکائیاں مکمل آزاد اور خودمختار ہوں گی۔قراردادِ لاہور - 3
  • یہ کہ ان اکائیوں میں موجود خطوں کے آئین میں اقلیتوں کی مشاورت کے ساتھ ان کے مذہبی‘ ثقافتی‘ معاشی‘ سیاسی انتظامی اوردیگر حقوق مفادات کے تحفظ کے مناسب‘ موثر اورلازمی اقدامات یقینی بنائے جائیں اور ہندوستان کے دوسرے حصے جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں‘ آئین میں ان کی مشاورت کے ساتھ ان کے مذہبی‘ ثقافتی‘ معاشی‘ سیاسی‘ انتظامی اور دیگر حقوق اور مفادات کے تحفظ کے مناسب‘ موثر اورلازمی اقدامات عمل میں لائے جائیں گے۔قراردادِ لاہور - 1940
  • مزید براں یہ سیشن عاملہ کمیٹی کو ان بنیادی اصولوں کے مطابق دفاع‘ خارجہ امور‘ مواصلات‘ کسٹم اور دیگر ضروری معاملات کے لحاظ سے مفروضے کو حتمی شکل دینے کی غرض سے آئین سازی کی اسکیم وضع کرنے کا اختیار دیتا ہے۔

Closing Address by Jinnah 1940 Lahore

Leave Your Facebook Comments Here

 https://www.facebook.com/mashhoodqasmi/posts/10223704762023951  https://www.facebook.com/mashhoodqasmi/posts/10223726773534225  https://www.facebook.com/mashhoodqasmi/posts/10223769525122988

2 thoughts on “قراردادِ لاہور 23 مارچ 1940ء اور قائدِ اعظم کا صدارتی خطبہ

  1. بہت خوب۔ جزاک اللہ۔
    آپ نے نئی نسل اور آنے والی نسلوں کے لیے بہترین مواد، نہایت قرینے سے پیش کیا ہے۔
    ضرورت ہے کہ اسے قومی نصاب میں شامل کیا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے