اقبال کی طویل نظمیں : فکری اور فنّی مطالعہ
گذشتہ روز میں نے محترم اعجاز عبید صاحب کا ایک مضمون ” مختار مسعود۔۔ صاحبِ آوازِ دوست ۔۔“ فیس بک پہ شیئر کیا تو اس کا ایک اقتباس مسجدِ قرطبہ کے حوالے سے تھا۔ میری پوسٹ کے تبصرے میں جناب منیب اقبال صاحب نے حضرت علامہ اقبال کی معرکتہ الآرا نظم”مسجدِ قرطبہ“ کا یہ بند پیش کیا،
دیدۂ انجم میں ہے تیری زمیں، آسماں
آہ کہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذاں
کون سی وادی میں ہے، کون سی منزل میں ہے
عشقِ بلا خیز کا قافلۂ سخت جاں!
دیکھ چُکا المنی، شورشِ اصلاحِ دیں
جس نے نہ چھوڑے کہیں نقشِ کُہن کے نشاں
حرفِ غَلط بن گئی عِصمتِ پیرِ کُنِشت
اور ہُوئی فکر کی کشتیِ نازک رواں
چشمِ فرانسیس بھی دیکھ چُکی انقلاب
جس سے دِگرگُوں ہُوا مغربیوں کا جہاں
ملّتِ رومی نژاد کُہنہ پرستی سے پیر
لذّتِ تجدید سے وہ بھی ہوئی پھر جواں
رُوحِ مسلماں میں ہے آج وہی اضطراب
رازِ خدائی ہے یہ، کہہ نہیں سکتی زباں
دیکھیے اس بحر کی تہ سے اُچھلتا ہے کیا
گُنبدِ نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا!
مسجدِ قرطبہ : تعارف اور پس منظر رفیع الدین ہاشمی مع مطالب از غلام رسول مہر
ڈاؤن لوڈ پی ڈی ایف
جناب منیب اقبال صاحب نے مذکورہ بند پہ روشنی ڈالنے کو کہا۔ ان کے اس حکم پہ فکر کو مہمیز ملی تو ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کی کتاب ” اقبال کی طویل نظمیں : فکری اور فنّی مطالعہ“ سے مسجدِ قرطبہ پہ لکھا گیا پورا مضمون اور جناب غلام رسول مہر کی تصنیف ”مطالبِ بال جبریل“ سے مسجدِ قرطبہ والا حصہ لے کر ایک پی ڈی ایف فائل ترتیب دی، جو اپنی ویب سائٹ مراسلہ پہ آپ لوگوں کے مطالعہ کیلئے پیشِ خدمت ہے۔ پڑھ کے اپنی رائے دیجئے ، اور خصوصی طور پر جناب منیب اقبال صاحب کے ذکر کردہ بند کو موضوعِ بحث بنایئے تو بہت نوازش ہوگی۔
Post Your Facebook Comments
آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں علامہ اقبال کا صدارتی خطبۂ الہٰ باد 1930ء