پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کا اجلاس اور خان عبدالغفار خان کی تقریر / پہلا حصہ
(اس مضمون کے دوسرے حصے میں زیرِ نظر تقریر سے متعلق 6 مارچ 1948 کی اسمبلی کی کاروائی پیش کی جائے گی۔)
پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کا اجلاس، جمعہ 5 مارچ، 1948 کو صبح 10 بجے، اسمبلی ہال کراچی میں منعقد ہوا، جس کی صدارت نائب صدرِاسمبلی جناب مولوی تمیز الدین خان کررہے تھے۔ اس اجلاس میں شمال مغربی سرحدی صوبہ سے تعلق رکھنے والے خان عبدالغفار خان نے ،جو سرحدی گاندھی کے نام سے بھی پہچانے جاتے ہیں، انہوں نے اسمبلی میں اپنا پہلا خطاب کیا۔ بجٹ اجلاس کے تسلسل میں جنرل ایڈمنسٹریشن پر بحث جاری تھی۔ جناب عبدالغفار خان نے کابینہ اخراجات کی مد میں کٹوتی کا بل پیش کرتے ہوئے اس حوالے سے اپنا تفصیلی مؤقف پیش کیا۔
یہ وضاحت ضروری ہے کہ زیرِ نظر تقریر اردو میں کی گئی تھی تاہم چونکہ اسمبلی کا ریکارڈ انگریزی میں میسر ہے لہٰذا اس تقریر کا دوبارہ ترجمہ کیا گیا ہے۔ یوں مفہوم تو وہی ہے مگر الفاظ یا جملوں کی ترتیب اصل تقریر سے مختلف ہوسکتی ہے۔ اسمبلی کی کاروائی کا مکمل انگریزی متن ہماری ویب سائٹ https://murasla.pk پر شائع کیا جارہا ہے۔
خان صاحب نے تقریر کا آغاز کرتے ہوئے کہا،
”جناب نائب صدر، جناب والا، اس ترمیمی تحریک کو پیش کرنے کا میرا مقصد یہ ہے کہ اس معزز ایوان کے سامنے پاکستان کی انتظامیہ کے بارے میں کچھ بات کہوں۔ اس تحریک کا مقصد حکومت پاکستان کو بدنام کرنا یا اس کی خامیاں نکالنا نہیں ہے۔ اس ضمن میں، میں ان غلط فہمیوں کو بھی دور کرنا چاہتا ہوں جو اس حکومت کے ذمہ دار افراد اور پاکستان کے دیگر غیرسرکاری افراد نے میرے اور میری جماعت کے خلاف پھیلائی ہیں۔
سب سے پہلے یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ میں اور میری جماعت پاکستان کے دشمن ہیں اور ہم اسے تباہ کرنا اور تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ میں بحث نہیں کرنا چاہتا،تاہم اتنا کہوں گا کہ میں نے اپنے صوبے میں جب بھی موقع ملا، اس نقطے پر روشنی ڈالی۔ پھر بھی پاکستان کے ذمہ دار افراد کو اس بات پر شک ہے کہ میں پاکستان کا دوست ہوں یا دشمن ، اور شاید میں پاکستان کو تباہ کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن وہ اس بات کا انکار نہیں کر سکتے کہ میں نے وقتاً فوقتاً ایسی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ جب بھی مجھے موقع ملا یا کہیں خطاب کرنے کا موقع دیا گیا، میں نے مختلف جگہوں پر لوگوں کو واضح طور پر کہا کہ میرا ایمان اور عقیدہ یہی ہے کہ ہندوستان کو تقسیم نہیں ہونا چاہیے کیونکہ آج ہم ہندوستان میں دیکھتے ہیں کہ کس طرح خون کی ندیاں بہائی گئیں – ہزاروں، بلکہ لاکھوں نوجوان، بوڑھے، بچے، مرد اور خواتین قتل و غارت کا شکار ہوئے۔
میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ یہ میری دیانتدارانہ رائے تھی کہ ہندوستان کو تقسیم نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن اب جبکہ یہ کام ہو چکا ہے، تو تنازع ختم ہو چکا ہے۔ میں نے ہندوستان کی تقسیم کے خلاف کئی تقریریں کیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کسی نے میری بات سنی؟
ہم نے شمال مغربی سرحدی صوبے کی مسلم لیگ حکومت سے کہا کہ ہم آپ کو حکومت چلانے کا موقع دیتے ہیں۔ لیکن پٹھانوں کے ساتھ جو سلوک حکومت کی جانب سے کیا گیا، وہ بڑی مشکل سے برداشت کیا گیا۔ لوگ مجھ سے آ کر پوچھتے کہ آپ کا مستقبل کا منصوبہ کیا ہے ، کیونکہ جو حالات پاکستان میں پیدا کیے گئے ہیں، انہیں ہم مزید برداشت نہیں کر سکتے۔ میں نے انہیں سمجھایا کہ یہ معاملہ مختلف ہے کیونکہ اب مسلمان اپنی حکومت چلا رہے ہیں۔ میں نے حکومت ِپاکستان سے بار بار کہا کہ ہم آپ کو حکومت کرنے دیں گے۔
کوششیں کی گئیں کہ ہمیں داخلی تصادم کی طرف لے جایا جائے، کیونکہ جنگ کے حامی امید کرتے تھے کہ جیسے ہی یہ جدوجہد آگے بڑھے گی، قومی اور حب الوطنی کے جذبات فوراً اس کی طرف مائل ہو جائیں گے اور حکومت کا تعمیری کام رک جائے گا۔ میں نے اس خطرے کو محسوس کیا۔ آپ میرے بارے میں کوئی بھی رائے رکھ سکتے ہیں، لیکن میں تخریب کا ر نہیں بلکہ تعمیری انسان ہوں۔ میں نظریاتی شخص نہیں، بلکہ عملی آدمی ہوں۔ اگر آپ میری پوری زندگی کا مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ میں نے اپنی زندگی اپنے ملک کی بھلائی اور ترقی کے لیے وقف کی ہے۔
میں یہ بھی کہتا ہوں کہ خدائی خدمتگار ایک سماجی تحریک ہے، نہ کہ سیاسی ۔لیکن یہ ایک طویل کہانی ہے اس لیے میں اسے دہرانا نہیں چاہتا۔ سوال یہ ہے کہ کس نے اس سماجی تحریک کو سیاسی تحریک میں بدلا؟ ”برطانیہ“۔ کس نے ہمیں کانگریس سے جوڑا؟ ”برطانیہ“۔ یہ صرف یہاں نہیں ہے کہ میں یہ بات کہہ رہا ہوں، بلکہ میں نے یہ بات اعلیٰ درجے کے برطانوی حکام کے روبرو بھی کہی ہے، کیونکہ خدا نے مجھے جرات عطا کی ہے۔
ہم پر الزام لگایا گیا کہ خدائی خدمتگار ’ہندو ؤں کے سونے کے غلام‘ ہیں اور ہمیں حکومت چلانے اور تعمیری پروگرام پر کام کرنے نہیں دیتے، کیونکہ ایسا پروگرام تبھی کامیاب ہو سکتا ہے جب پورے ملک میں امن ہو۔ لیکن ہمارا رویہ ان کے ساتھ یہ تھا، اور ہم نے اعلان کیا تھا کہ اگر پاکستان کی حکومت ہمارے لوگوں اور ملک کے لیے کام کرے گی، تو خدائی خدمتگار ان کے ساتھ ہوں گے۔ میں دوبارہ کہتا ہوں کہ میں پاکستان کو تباہ کرنے کے حق میں نہیں ہوں۔ تباہی میں نہ ہندوؤں، نہ مسلمانوں، نہ سرحد، نہ پنجاب، نہ بنگال اور نہ ہی سندھ کے لیے کوئی فائدہ ہے۔ فائدہ صرف تعمیر میں ہے۔ میں آپ کو ایک سیدھی بات بتانا چاہتا ہوں کہ میں کسی کی بھی حمایت تخریب کے لئےنہیں کروں گا۔ اگر آپ کے پاس کوئی تعمیری پروگرام ہو، اگر آپ واقعی ہمارے لوگوں کے لیے کچھ عملی طور پر کرنا چاہتے ہیں، تو میں اس معزز ایوان کے سامنے اعلان کرتا ہوں کہ میں اور میرے لوگ آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہیں۔ (تالیاں)
تقریباً سات ماہ سے میں پاکستان کی انتظامیہ کا مشاہدہ کر رہا ہوں، لیکن مجھے اس میں اور برطانوی حکومت میں کوئی فرق نظر نہیں آیا۔ یہ میرا ذاتی خیال ہو سکتا ہے، لیکن یہی رائے عامہ ہے۔ یہ صرف میں نہیں کہتا، اگر آپ غریب لوگوں سے پوچھیں گے تو میرے خیالات کی تصدیق ہو جائے گی۔ اگرچہ ممکن ہے کہ آپ ان کی آواز کو طاقت سے دبا دیں، لیکن یاد رکھیں کہ طاقت یا اختیار زیادہ دیر تک نہیں چلتا۔ طاقت صرف وقتی طور پر کام آ سکتی ہے۔ اگر آپ لوگوں کو دبائیں گے تو ان کے دلوں میں آپ کے خلاف نفرت پیدا ہو گی۔ اسے چھوڑیں، میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آج اس سے زیادہ کرپشن ہے، جتنی برطانوی دور میں تھی۔ اور اب زیادہ بے چینی ہے، جتنی برطانوی حکومت کے دوران تھی۔ ممکن ہے کہ آپ میری نیت پر شک کریں۔ لیکن میری تقریر تخریبی نہیں ہے۔ میں یہاں ایک دوست کی حیثیت سے آیا ہوں۔ براہِ کرم ان حقائق پر غور کریں جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ اگر آپ انہیں پاکستان کے لیے مفید سمجھیں تو ٹھیک ہے، ورنہ انہیں ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں۔ “
”ہم نے برطانوی سامراج کے خلاف کیوں جدوجہد کی؟“
”ہماری جدوجہد اس لئے تھی کہ ہم انہیں یہاں سے نکال سکیں، تاکہ یہ ملک ہمارا ہو جائے اور ہم اس پر حکومت کریں۔ اب ہم نے برطانوی حکومت سے ملک لے لیا ہے، لیکن آج ہمیں انگریز پہلے سے زیادہ تعداد میں نظر آتے ہیں ، بلکہ مزید انگریزوں کو باہر سے بلایا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے ہمیں وہی پرانی پالیسی، وہی پرانا طریقہ کار نظر آتا ہے، چاہے وہ سرحد ہو یا قبائلی علاقہ۔ ہمیں اس میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہندو بھائیوں نے اپنی ریاستوں میں بھارتی گورنرز مقرر کیے ہیں، اور نہ صرف مرد بلکہ ایک عورت بھی وہاں گورنر بن سکتی ہے۔ کیا بنگال یا پنجاب میں کوئی مسلمان نہیں تھا جو ہمارا گورنر بن سکے؟ مجھے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری بدقسمتی سے، جن برطانوی حکمرانوں کو ہم نے نکالا تھا، انہیں دوبارہ بلا کر ہم پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ کیا یہ اسلامی بھائی چارہ ہے؟ کیا ہم اسے اخوت کہیں گے؟ یہ ہے اسلامی پاکستان؟
انتظامیہ میں یہ واحد مسئلہ نہیں ہے، بلکہ ایک اور مسئلہ بھی ہے، اور وہ یہ کہ حکومت کی طرف سے وہی پرانے قوانین اور آرڈیننس جاری کیے جا رہے ہیں۔ جو چیز مجھے سب سے زیادہ تکلیف دیتی ہے، وہ یہ مشاہدہ ہے کہ جب سرحد کی حکومت کی طرف سے کوئی اعلامیہ جاری کیا جاتا ہے تو وہ وہی پرانے انداز میں، وہی پرانی زبان میں، اور وہی پرانی روح کے ساتھ ہوتا ہے جو برطانوی راج میں مخصوص تھی۔ اگر کوئی انگریز جھوٹ بولتا تھا تو وہ ایک غیرملکی تھا۔ وہ یہاں ہماری اصلاح یا بہتری کے لیے نہیں آیا تھا۔ وہ ہمیں لوٹنے اور اپنے مقاصد حاصل کرنے آیا تھا۔ لیکن مجھے انگریزوں سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ اب مجھے پاکستان سے شکایت ہے، کیونکہ یہ ہمارے بھائی ہیں اور یہ حکومت ہماری حکومت ہے۔ ہمیں اب برطانوی حکمت عملی چھوڑ دینی چاہیے۔ اگر ہم وہی پرانے طریقے اپنائیں گے، تو میں آپ کو بتا دوں کہ پاکستان، جسے ہم نے اتنی مشکلات سے حاصل کیا ہے، ہمارے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔
ایک اور بات جو میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ مجھ پر اکثر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ میں نے پٹھانوں کے درمیان علیحدہ قومیت کا احساس پیدا کیا ہے اور صوبائیت کو فروغ دیا ہے۔ حقیقت میں، اگر آپ دیکھیں، تو آپ کو معلوم ہوگا کہ صوبائیت کے خالق آپ ہیں۔ ہمارے لیے، پٹھانوں کے لیے، یہ چیزیں اجنبی ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ صوبائیت کیا ہے؟ میری اپنی تجربہ کار رائے میں، پٹھانوں کے درمیان صوبائیت موجود نہیں ہے۔ سندھ کی مثال لیجیے۔ کیا ہم نے سندھ میں صوبائیت پیدا کی؟ سوال یہ ہے کہ صوبائیت پیدا کیسے ہوتی ہے؟
ممکن ہے کہ آپ کچھ وقت کے لیے لوگوں کو اسلام کے نام پر گمراہ کر لیں، لیکن آپ زیادہ دیر تک ایسا نہیں کر سکتے۔ یہ ایک عارضی چیز ہوگی، غیر مستحکم۔ میں یہ سوال اٹھانا چاہتا ہوں کہ یہ حالات کس نے پیدا کیے اور کیوں؟ اس دنیا میں ہر چیز ایک سبب سے ہوتی ہے، اور دوسری چیز اس کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یہ قدرت کا قانون ہے کہ کوئی شئے بغیر کسی سبب کے وجود میں نہیں آتی، اور اسی طرح یہ حالات بھی خود بخود پیدا نہیں ہوئے۔ “
محترم لیاقت علی خان (وزیرِاعظم اور وزیرِدفاع):
” یہ حالات پیدا کیے گئے ہیں۔“
خان عبدالغفار خان:
میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جتنا آپ اس مسئلے کو ہوا دیں گے، اتنی ہی ناپسندیدگی بڑھے گی۔ میں تلخی پیدا نہیں کرنا چاہتا۔ آپ میری طبیعت سے واقف ہیں۔ میں تقریریں نہیں کرتا۔ میں یہ پہلی بار کر رہا ہوں اور وہ بھی اس مقصد کے لیے کہ آپ کو اپنے خیالات سے آگاہ کر سکوں، جن سے آپ اب تک بے خبر تھے۔ میں اس معاملے کی گہرائی میں نہیں جانا چاہتا۔ سندھ میں صوبائیت کیوں ہے؟ کیا یہ پٹھانوں نے پیدا کی ہے؟
جب ہمارے وزیرِاعظم پشاور کے دورے پر آئے، تو ہمارے مسلم لیگ کے بھائیوں نے بھی ان کے سامنے وہی بات رکھی جو ہم کہتے رہے ہیں۔ لیکن انہوں نے کہا کہ وہ خیبر سے چٹاگانگ تک تمام مسلمانوں کو متحد کرنا چاہتے ہیں۔ کون اس بات سے انکار کر سکتا ہے؟ لیکن ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ ایک طرف آپ خیبر سے چٹاگانگ تک تمام مسلمانوں کو متحد کرنا چاہتے ہیں، اور دوسری طرف، آپ کو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے کہ ہم ان تمام پٹھانوں کو ایک بیلٹ میں شامل کریں، جنہیں برطانوی حکمرانوں نے تقسیم کیا تھا؟ اور یہ اسلام کے خلاف کیسے ہو سکتا ہے؟ اگر آپ اس سلسلے میں ہماری مدد کریں گے تو آپ ہمیں متحد کریں گے اور ہماری ایک مضبوط ریاست بنائیں گے۔ اور جب یہ ریاست قائم ہو جائے گی، تو اس کی طاقت کس کے لیے ہوگی؟ “
محترم غضنفر علی خان (وزیر برائے مہاجرین اور بحالی):
”یہ خلاف ِاسلام ہے“۔
ملک محمد فیروز خان نون (پنجاب، مغربی پاکستان):
”اور پھر آپ افغانستان کے ساتھ شامل ہو جائیں گے“۔
خان عبدالغفار خان:
”میں صاف طور پر آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہم صرف آپ کے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں، افغانستان کے ساتھ نہیں۔ آپ کا ہم پر افغانستان سے زیادہ حق ہے۔ پٹھانوں کے خلاف مختلف الزامات لگائے جاتے ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ وہ سچے مسلمان نہیں ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ جو لوگ اسلامی زندگی گزار رہے ہیں، انہیں ہندو قرار دیا جاتا ہے، اور جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، انہیں اب مسلمان قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ کتنی بڑی مصیبت ہے جو ناقابلِ گریز نظر آتی ہے۔ صرف چھ مہینوں کے اندر ایک زبردست انقلاب آیا ہے۔ ہندوستان میں ہندوؤں کی الگ حکومت ہے اور پاکستان میں مسلمانوں کی الگ حکومت۔ جب یہ ممکن ہے کہ ہمارے بنگالی بھائی، جو خیبر سے چٹاگانگ تک دو ہزار میل کی دوری پر رہتے ہیں، ہمارے ساتھ ایک ہو سکتے ہیں، پاکستان میں شامل ہو سکتے ہیں اور ہمارے بھائی بن سکتے ہیں، تو پھر ہمارے اپنے پٹھان بھائی، جو ہمارے اتنے قریب ہیں اور جنہیں برطانوی حکمرانوں نے اپنے مفاد کے لیے تقسیم کیا، وہ آپ کے لیے خطرہ کیسے بن سکتے ہیں؟ برطانوی حکمران، جو یہاں حکومت کرنے کے ارادے سے آئے تھے، انہوں نے ہمیں اپنے مفاد کے لیے اختلافات میں مبتلا کیا۔ لیکن آپ تو ہمارے بھائی ہیں، آپ ہم سے کیوں ڈرتے ہیں؟ “
محترم لیاقت علی خان:
” براہِ کرم اپنا نقطہ نظر واضح کریں“۔
خان عبدالغفار خان:
” ہمارے پٹھانستان کا کیا مطلب ہے؟ میں ابھی آپ کو بتاتا ہوں۔ آپ دیکھیں، اس صوبے میں رہنے والے لوگوں کو سندھی کہا جاتا ہے اور ان کی سرزمین کا نام سندھ ہے۔ اسی طرح پنجاب یا بنگال وہ سر زمین ہے جہاں پنجابی یا بنگالی رہتے ہیں۔ اسی طرح شمال مغربی سرحد بھی ہے۔ ہم ایک قوم ہیں اور ہماری ایک سرزمین ہے۔ پاکستان میں ہم یہ چاہتے ہیں کہ جب سرزمین کا ذکر کیا جائے اس وقت لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ یہ پختونوں کا علاقہ ہے۔ کیا یہ اسلام کے احکام کے خلاف ہے؟ “
محترم لیاقت علی خان:
” کیا پٹھان کسی ملک کا نام ہے یا ایک کمیونٹی کا نام؟ “
خان عبدالغفار خان:
” پٹھان ایک کمیونٹی کا نام ہے اور ہم اپنی سرزمین کا نام پختونستان رکھنا چاہتے ہیں۔ میں یہ بھی واضح کردوں کہ ہندوستان کے لوگ ہمیں پٹھان کہتے تھے اور فارسی میں ہمیں افغان کہا جاتا ہے۔ ہمارا اصلی نام پختون ہے۔ ہم پختونستان چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تمام پٹھان جو ڈیورنڈ لائن کے اس طرف ہیں، ایک ہو کر پختونستان میں شامل ہو جائیں۔ آپ اس میں ہماری مدد کریں۔ اگر آپ کو یہ غیر اسلامی لگتا ہے تو میں کہوں گا کہ یہ بالکل اسلامی ہے۔ اگر آپ کا کہنا ہے کہ اس سے پاکستان کمزور ہو جائے گا، تو میں کہوں گا کہ ایسا نہیں ہے۔ پاکستان کبھی بھی ایک علیحدہ سیاسی اکائی کے قیام سے کمزور نہیں ہو گا۔ اس کے برعکس، یہ مضبوط ہو گا۔ زیادہ تر مشکلات اعتماد کی کمی سے پیدا ہوتی ہیں، لیکن جب اعتماد ہوتا ہے تو مشکلات حل ہو جاتی ہیں، حکومتیں اچھی نیت سے چلتی ہیں نہ کہ بداعتمادی سے۔
دوسری بات یہ ہے کہ لوگ ہمیں مسلم لیگ میں شامل ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ مسلم لیگ نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ اس کا کام، اس کا مقصد، اور اس کا عمل، پاکستان کے قیام کے لیے تھا۔ پاکستان قائم ہو چکا ہے۔ میرا مطلب ہے کہ اب جب اس کا حصول ہو چکا ہے، تو مسلم لیگ کی ضرورت نہیں رہی۔ ہمارے ملک میں دوسری پارٹیاں ہونی چاہئیں۔ یہاں ایک ایسی پارٹی بننی چاہیے جو اقتصادی بنیادوں پر ہو تاکہ سب متحد ہوجائیں اور کوئی’ حزبِ اختلاف‘ باقی نہ رہے۔ اس بارے میں میں اتنا ہی کہوں گا کہ پاکستان میں پارٹیاں اقتصادیات کی بنیاد پر بننی چاہئیں تاکہ موجودہ اختلافات دور کیے
جا سکیں اور پھر اگر ہمارے درمیان کوئی اختلافات ہوں تو ہم بیٹھ کر انہیں حل کر سکیں۔ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس میں بہت زیادہ برداشت ہے، اور جب ہم اپنے خیالات کا تبادلہ کریں گے تو ہمیں ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہو گا؛ نہ کہ میں کسی کی صرف اس لیے مخالفت کروں کہ وہ مجھ سے اختلاف رکھتا ہے۔ چونکہ وقت کم ہے، میں ایک اور بات بھی کہنا چاہتا ہوں اور پھر اپنی تقریر ختم کر دیتا ہوں۔ پاکستان ایک غریب ملک ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس غریب ملک کی حکومت کس طرح چلائی جائے؟ اگر میں غریب ہوں تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟ کیا مجھے اپنے وسائل کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے یا پھر مجھے امیروں کی طرح زندگی گزارنی چاہیے؟
جب یہ تسلیم کر لیا گیا کہ پاکستان ایک غریب ملک ہے، تو اس کی حکومت کا نظام سرمایہ داروں کے طرز پر نہیں ہونا چاہیے۔ اس میں کوئی جاگیرداری شان و شوکت نہیں ہونی چاہیے۔ آپ ٹیکس لگانا چاہتے ہیں تو لگائیں، لیکن غریبوں کی حالت کو مدنظر رکھ کر لگائیں۔ لیکن پھر سوال یہ ہے کہ ہمیں اپنے وسائل کے مطابق رہنا چاہیے یا امیروں کی حیثیت کے مطابق؟ ہمیں یہ سمجھناہے کہ پاکستان کی ریاست کو کس طرح چلانا ہے۔ ہمارے سامنے ہمارے قدیم پیشواؤں کی روایات ہیں۔ وہاں رہنمائی موجود ہے۔ ہمیں اسے اپنانا چاہیے۔ ہمیں قربانی دینے کا عزم کرنا چاہیے، اسی راستے پر چلنا چاہیے۔ ہمارے عظیم مذہبی رہنماؤں نے جو اسلامی سلطنت بنائی تھی وہ صرف تین تھے۔ جب تک ہم ان رہنماؤں کی اخلاقی خصوصیات، قربانی کی روح اور ہمدردی کے جذبات کو نہیں اپنائیں گے، ہم اپنی ریاست کو عظیم نہیں بنا سکتے۔
حضرت علی کا نام آپ سب کو معلوم ہے۔ جو کچھ بھی انہوں نے کیا، وہ اسلام اورعوام کے لیے تھا۔ یہ کسی اصول کے مطابق تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بار حضرت علی کے مخالف نے، جب وہ ان سے بے دست و پا ہو گئے، ان کے منہ پر تھوکا۔ حضرت علی نے انہیں فوراً چھوڑ دیا، کیونکہ ان کی جان لینا ذاتی انتقام میں شامل ہوتا۔ یہی روح ہونی چاہیے۔ اب حضرت ابو بکر کی زندگی دیکھیں۔ جب وہ خلیفہ بھی نہیں تھے، جو کچھ بھی انہوں نے کیا، وہ صرف مسلمانوں کے لیے تھا۔ خلیفہ بننے کے بعد بھی انہوں نے اپنے لئے بہت کم وظیفہ لیا اور تمام مسلمانوں کے لیے برابر کا وظیفہ مقرر کیا۔ اسلام پر یہ الزام ہے کہ اس میں برابری کا سلوک نہیں ہوتا۔ لیکن انہوں نے یہ کہا کہ زندگی کی ضروریات سب کے لیے یکساں ہوتی ہیں۔ کوئی شخص غریب ہو یا امیر، دونوں کی زندگی کی ضروریات یکساں ہیں۔ سب کے بچے ہوتے ہیں، اس لیے سب کی ضروریات یکساں ہیں۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ کی ضروریات زیادہ ہیں اور ہماری کم ہیں۔ اور آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ایک غریب شخص کے امیر بننے کے امکانات نہیں ہیں، جبکہ امیر کے ہیں۔ یہ معاملات ثقافت اور تہذیب سے تعلق رکھتے ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے کیونکہ سب کی جسمانی ضروریات ایک جیسی ہیں، ان کے وظیفے بھی برابر ہونے چاہئیں۔ حضرت عمر کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا۔ مسلم سلطنت جو اتنے عرصے تک قائم رہی، وہ ان دو لوگوں، حضرت ابو بکر اور حضرت عمر نے بنائی تھی۔ آپ کو یہ حقیقت معلوم ہوگی کہ اگر ایک غریب آدمی حضرت عمر پر تنقید کرتا تو حضرت عمر کبھی بھی اسے دھمکیاں نہیں دیتے اور نہ ہی غصے میں آتے۔ اور جب وہ اپنی بات مکمل کر لیتا تو حضرت عمر اسے حقیقت بتا کر تسلی دیتے اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے۔ ایسے رہنماؤں کی قیادت و رہنمائی میں مسلمان کبھی بھی گمراہ نہیں ہو سکتے۔ اگر آپ وہی اخلاقی اقدار اپنائیں گے تو آپ کی سلطنت بھی اتنی ہی طاقتور بن سکتی ہے۔ جب انہیں خلیفہ منتخب کیا گیا اور ان کی تنخواہوں کا سوال آیا تو انہوں نے خود فیصلہ کیا اور کہا، ”میں مسلمانوں کا خادم ہوں اور مدینہ میں کسی بھی مزدور کو جو تنخواہ ملے، وہ مجھے ملنی چاہیے“۔ یہی وجہ ہے کہ میں کہتا ہوں کہ اگر پاکستان غریب ہے تو ہمیں اسے اسی اصول پر چلانا چاہیے۔
پاکستان کس کا ہے؟ یہ ہمارا ہے۔ اگر یہ غریب ہے تو ہمیں اسے ایک غریب ملک کی طرح چلانا چاہیے اور جب کل پاکستان امیر ہو جائے گا تو ہم اسے ایک جاگیردارانہ انداز میں چلا سکتے ہیں۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ اس کے موجودہ طریقوں یا حکومتی نظام سے پاکستان کبھی بھی امیر نہیں بن سکتا۔ اس لیے پرانی ترتیب کو بدلنا چاہیے اور ہمیں قدیم اسلامی طرز زندگی کو اپنانا چاہیے۔
ہم اس کی مخالفت صرف اس لیے نہیں کرتے کہ برطانیہ کے لوگوں نے ایسا کیا؛ بلکہ اگر یہ یہاں اسلام کے نام پر کیا جاتا ہے تو یہ ہماری حمایت حاصل نہیں کرپائے گا۔ میں یقیناً پاکستان کی حکومت کی حمایت کروں گا، اگر وہ اسلامی اصولوں پر چلائی جائے۔ میرا پاکستان کا نظریہ یہ ہے کہ یہ آزاد پاکستان ہونا چاہیے۔ ہم نہیں چاہتے کہ یہ کسی خاص کمیونٹی یا فرد کے زیرِ اثر ہو۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان اپنے تمام لوگوں کے لیے ہو، تاکہ سب کو برابر کا حق ملے اور چند لوگوں کے ہاتھوں اس کا استحصال نہ کیا جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کی حکومت اپنے لوگوں کے ہاتھوں میں ہو۔ جہاں تک تکنیکی ماہرین کا تعلق ہے، پاکستان کو انہیں دوسرے ممالک سے بلانا چاہیے جیسے امریکہ اور انگلینڈ۔ لیکن جہاں تک انتظامیہ کا تعلق ہے، میں اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ پاکستان میں قابل لوگ نہیں ہیں اور سب غیر مؤثر ہیں۔ جب ہندو اپنے معاملات چلا سکتے ہیں تو کیا ہم ایسا نہیں کر سکتے؟ مجھے یہ خیال پسند ہے کہ پاکستان کی ساری انتظامیہ اس کے اپنے لوگوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ میں نے سنا ہے کہ بہت سے برطانوی ابھی تک یہاں خدمات انجام دے رہے ہیں اور نئے لوگ بھی آ رہے ہیں۔ مجھے کہنا پڑے گا کہ یہ پاکستان کے لیے اچھا نہیں ہو گا۔“
بہترین۔ خان صاحب نے جو مانگ 1948 میں کی، وہ اٹھارویں ترمیم میں خیبر پختون خواہ نام رکھ کر اور بعد میں فاٹا کو پختون خواہ میں ضم کر کے پوری کر دی گئی اور کوئی پہاڑ نہیں گر پڑا۔ اگر یہی مطالبہ 1948 میں مان لیا جاتا تو خوش گوار ماحول پید ہوتا، تلخیاں ختم ہو جاتیں اور ملک پہلے دن سے درست سمت میں گامزن ہو چکا ہوتا۔
آپ کا تبصرہ اہم ہے۔ خان صاحب کی کچھ باتیں وضاحت طلب ہیں اگر آپ ان باتوں کو سمجھنے میں معاونت فراہم کریں تو عنایت ہوگی۔ مثلاً،
1۔ انہوں نے کہا کہ ”ہم پختونستان چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تمام پٹھان جو ڈیورنڈ لائن کے اس طرف ہیں، ایک ہو کر پختونستان میں شامل ہو جائیں۔“
2۔ خان صاحب نے کہا کہ ”ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ ایک طرف آپ خیبر سے چٹاگانگ تک تمام مسلمانوں کو متحد کرنا چاہتے ہیں، اور دوسری طرف، آپ کو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے کہ ہم ان تمام پٹھانوں کو ایک بیلٹ میں شامل کریں، جنہیں برطانوی حکمرانوں نے تقسیم کیا تھا؟ اور یہ اسلام کے خلاف کیسے ہو سکتا ہے؟ اگر آپ اس سلسلے میں ہماری مدد کریں گے تو آپ ہمیں متحد کریں گے اور ہماری ایک مضبوط ریاست بنائیں گے۔ اور جب یہ ریاست قائم ہو جائے گی، تو اس کی طاقت کس کے لیے ہوگی؟ “
درجِ بالا مطالبات صوبۂ سرحد کے افغانستان کی پختون بیلٹ کے ساتھ انضمام کے بغیر کس صورت میں پورے کئے جاسکتے تھے؟