قراردادِ لاہور 1940ء منزل بہ منزل
اپنے مشہور خطبۂ الہٰ باد میں علامہ صاحب نے علیحدہ مملکت کا مطالبہ نہیں کیا تھا، جیسا کہ ایک عمومی تاثر پایا جاتاہے۔ تاہم انہوں نے اس کے خدوخال اور ممکنات سے آگاہ کردیا تھا اور ان کے خطاب نے ایک طرف مسلمانوں کی آنکھوں میں امید کی کرن جگا دی تھی اور دوسری طرف تقسیم کی کسی بھی تجویز کےمخالفین کے اندر بے چینی پیدا کردی تھی۔ یوں قراردِ لاہور کی طرف بڑھنے کا عمل علامہ اقبال کے خطبۂ الہٰ باد سے شروع ہوگیاتھا۔ علامہ صاحب کے خطاب کے بعد کئی تجاویز سامنے آئیں۔ ہم ان سب تجاویز کا ذکر یہاں نہیں کریں گے، مگر جو تجاویز قراردادِ لاہور پر اثر انداز ہوئیں اور قرارداد کی تیاری میں ان کو ملحوظِ خاطر رکھا گیا، ان کا ممکن حد تک تفصیلی احوال یہاں پیش کیا جائے گا۔ ایک تجویز ایسی ہے جس کا بظاہر تو ذکر نہیں کیا گیا مگر اس کے اثرات بھرپور طریقے سے موجود تھے وہ چودھری رحمت کی تجویز ”پاکستان“ تھی۔ آج ہم چودھری رحمت کی تجویز کے آغازکا جائزہ لیتے ہوئے اس کے بتدریج سفر کا احاطہ کریں گے اور بعد کے مضامین میں ہم اس کا بھی ذکر کریں گے کہ یہ تجویز براہِ راست نہ سہی لیکن کہاں اور کن ذرائع سے قراردادِ لاہور پر اثر انداز ہوئی۔ چودھری رحمت کی سوانح میں کے۔کے۔عزیز کا دعویٰ ہے کہ چودھری رحمت کے دلائل کو ان کا حوالہ دیئے بغیر 1940ء میں مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے استعمال کیا گیا۔چودھری رحمت علی کبھی آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف راغب نہ ہوئے اور نہ ہی مسلم لیگ نے کبھی ان کو اپنی صفوں میں شامل کرنا چاہا۔ بلکہ چودھری رحمت علی آل انڈیا مسلم لیگ کے ناقد رہے۔اگرچہ ان کی تحریک کے ابتدائی مہینوں میں ان کی ملاقاتیں علامہ اقبال سے ، دوسرے ممتاز مسلم اکابرین سے اور قائدِ اعظم سے بھی ہوئیں مگر ان افراد سے سے ان کی قربت یا کوئی دیرپا تعلق قائم نہ ہوسکا۔ یہاں مختصر مضمون میں ہم ان تفصیلات کا جائزہ نہیں لے سکتے اور اس کے لئے بہتر ہے کہ کے۔کے۔ عزیز کی تصنیف”سوانح حیات چودھری رحمت علی“ پڑھ لی جائے۔ مختصراً یہ کہ چودھری رحمت علی کا شروع سے یہ مؤقف رہا کہ برصغیر کے مسلمانوں کو کسی صورت ایک وفاق قبول نہیں کرنا چاہیئے اور نہ صرف اکثریتی علاقوں میں بلکہ اقلیتی علاقوں میں بھی جہاں جہاں مسلمان کثیر تعداد میں آباد ہیں وہاں ان کو آزادی حاصل کرلینی چاہیئے۔
آغاز میں انہوں نے بھی صرف شمالی علاقہ جات اور کشمیر پر مشتمل ایک آزاد اور خودمختار مملکت کی بات کی تھی اور ایک چونکا دینے والے ٹائٹل ”NOW or NEVER“ (اب یا کبھی نہیں) کے ساتھ اپنا پہلا پمفلٹ جاری کیا تھا۔ دیئے گئے پی-ڈی-ایف لنک پہ اس کی تفصیلی تحریر ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ چار صفحات پر مشتمل اس تحریر میں ایک علیحدہ ملک کیلئے بھرپور دلائل دیئے گئے تھے اور اس ملک کا نام ابتدا میں ”PAKSTAN“ اور بعد میں ”I“ کا اضافہ کرتے ہوئے پاکستان تجویز کیا گیا تھا۔ یہ لیٹرز ان علاقوں کے نام سے اخذ کئے گئے تھے جو چودھری رحمت علی کی ابتدائی تجویز میں ایک مملکت بننی تھی۔ ”پی“سے پنجاب،”اے“ سے افغانیہ یعنی شمال مغربی سرحدی
صوبہ، ”کے“ سے کشمیر، ”ایس“ سے سندھ اور (ٹی، اے، این) یا تان کے الفاظ بلوچستان کی نمائندگی کرتے تھے۔
“Pakistan” which Rehmat Ali demanded was coined by him from the first letters of the first four units of Muslim Federation Punjab (P), North-western Frontier Province which he called Afghania (A), Kashmir (K), Sind (S)and last three letters of Baluchistan (TAN).
چودھری رحمت علی کی نظر ماضی میں پیش کی گئی تجاویز پر بھرپور طریقے سے تھی انہوں نے حسرت موہانی کی تجویز کو سراہتے ہوئے کچھ تحفظات کا بھی اظہار کیا جس سے ان کی اپنی سوچ کا بھی اندازہ ہوتا ہے،
- مسلم اکثریتی صوبوں کو مسلم ریاست میں تبدیل کرنے سے مسلمانوں کی اقلیتی حیثیت میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
- ہندوؤں کی سولہ ہندو ریاستوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی چھ ریاستوں پر مشتمل وفاق درحقیقت مسلمانوں کے گلے میں غلامی کا طوق ہوگا۔
- حسرت موہانی نے اپنی تجویز میں کوئی عندیہ نہیں دیا اور نہ اس بات کا کوئی اعلان کیا کہ مسلمان علیحدہ قوم ہیں۔ مسلمانوں اور ہندو ؤں کی مشترکہ قومیت کا مطلب ہم مسلمانوں کیلئے ہندو قومیت ہی ہوگا۔
- تعداد کے فرق کے باعث سپریم نیشنل گورنمنٹ میں ایک بڑی اکثریت ہندوؤں کی ہوگی۔
- چودھری رحمت سمجھتے تھے کہ تمام نقائص کے باوجود حسرت کی تجویز نے انڈیا کے تمام لوگوں کی آزادی کیلئے مسلمانوں کی امنگ کا اظہار کردیا، یہ تجویز مسلمانوں کی سیاسی ارتقأ کے نشونما میں مددگار ثابت ہوئی۔ اور پھر یہ کہ وفاق کیلئے ہندو مسلم بنیاد کا مطالبہ کرکے انہوں نے ہندوؤں کی غیر محدود اور بلا شرکت غیرے تسلط حاصل کرلینے کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ حسرت کی تجویز نے ہندوؤں کو مجبور کردیا کہ وہ مسلمانوں کے مسئلے کو ایک نئے زاویۂ نگاہ سے دیکھیں۔
حسرت کی تجویز کے علاوہ وہ لالہ راجپت رائے کی تجویز کے حوالے سے چودھری رحمت کی رائے تھی کہ وہ صحیح سمت میں ایک قدم تھا اور مسلمانوں کو اس تجویز کے فوراً بعد اس سے بہتر تجویز پیش کردینی چاہیئے تھی ۔ مسلمانوں کی طرف سے جوابی تجویز آنے سے ایک بڑا تغیر رونما ہوسکتا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ علامہ اقبال کے خطبۂ الہٰ باد نے مسلمانوں کے سکوت کو توڑا اور مسلمانوں میں ایک نیا ولولہ پیدا کیا مگر ساتھ ہی وہ علامہ صاحب کےخطاب میں علیحدہ فیڈریشن کے مطالبے کا ذکر نہ ہونے پر اپنی مایوسی کا بھی اظہار کرتے تھے۔ گول میز کانفرنس میں ہونے والی گفتگو پہ وہ شدید برہم تھے اور ایک وفاقی آئین کی تیاری کیلئے مسلمان رہنماؤں کے تعاون کو وہ مسلمانوں کی صدیوں کی تاریخ پر پانی پھیر دینے کے مترادف قرار دیتے تھے۔ گول میز کانفرنسوں پہ ان کی مسلم زعماء سے ملاقاتوں کاتذکرہ تو ملتا ہے مگر ان ملاقاتوں کا کوئی تفصیلی احوال یا دستاویزی ریکارڈ دستیاب نہیں ہے ۔ کے۔ کے۔ عزیز لکھتے ہیں کہ جہاں چودھری رحمت علی کی ان باتوں کو جھٹلانے کا کوئی جواز نہیں ہے جس میں وہ مسلمان رہنماؤں سے ملنے اور اپنی تجویز پر تبادلہ خیالات کرنے کا ذکر کرتے ہیں وہیں ہمیں مسلمان رہنماؤں کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی لب کشائی بھی نہیں ملتی۔ اس کی وجہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان رہنماؤں نے اس وقت کے حالات پر کوئی یادداشتیں شائع نہیں کیں اور نہ ہی سوائے آغا خان کے کسی نے کوئی ذاتی ڈائری مرتب کی ۔ آغا خان کے مندرجات بھی سرسری ہیں –
چودھری رحمت علی جنہوں نے اپنی تحریک کا نام ”پاکستان نیشنل موومنٹ“ رکھا تھا ، انہوں نے اپنے پہلے سرکلر ”اب یا کبھی نہیں“ میں ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ آزاد اور خود مختار ملک کے قیام کے مطالبہ کو مدلل انداز میں پیش کرتے ہوئے دلائل سے یہ ثابت کیا کہ انڈیا کے مسلمان اپنے مخصوص مذہب،ثقافت،تاریخ،خانگی زندگی کے معاملات جیسے شادی بیاہ،وراثت،اپنی روایات،معاشی نظام،اپنے خاص ملی مقاصد ،قومی رسومات،لباس اور خوراک وغیرہ میں ہندوؤں سے مختلف ہیں،جب وہ ایک دوسرے سے اتنے اختلاف رکھتے ہیں تو وہ آپس میں ایک قوم کیسے کہلا سکتے ہیں،انہیں متحدہ قومیت قرار دینا اوراکھٹے رہنے پر مجبور کرنا غلط ہو گا۔ رحمت علی نے اپنے سرکلر میں ٹھوس حقائق اور مضبوط دلائل کی بنیاد پر انڈیا کے اہم سیاسی مذہبی،ثقافتی اور معاشی امور کا بنظر غائر جائزہ لیا ہے اور ان کا حل بھی پیش کیا ہے۔اس دستاویز میں بھرپور دلائل کے ساتھ پاکستان کے قیام کا جواز پیش کیا گیا تھا اس کے آغاز میں ہندوستان کے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے چوہدری رحمت علی فرماتے ہیں”ہندوستان کی تاریخ اس نازک موڑ پر جبکہ ہندوستانی رہنماء اس ملک کے لئے وفاقی آئین کی تیاریوں میں مصروف ہیں،ہم اپنے مشترکہ ورثے اور تیس ملین مسلمانوں کے نام پر جو پاکستان (پنجاب ،افغانیہ (خیبر پختونخوا)کشمیر ،سندھ اور بلوچستان ) میں رہ رہے ہیں،آپ سے تعاون کی اپیل کرتے ہیں۔”یہ کہ گول میز کانفرنسوں کے مسلمان شرکاء نے وفاق ہند کی تجویز تسلیم کر کے مسلمان قوم کے ساتھ شرمناک نا انصافی کی ہے،وفاق ہندوستان کی قبولیت مسلمانوں کے لئے موت کے پروانے پر دستخط کے مترادف ہے،ہندوستان اپنی موجودہ شکل میں نہ ہی ایک ملک ہے اور نہ ہی اس میں ایک قوم آباد ہے بلکہ برطانوی حکومت کے تحت اسے پہلی مرتبہ ایک ملک کی شکل دی گئی۔ہندوستان کے پانچ شمال مغربی صوبوں کی کل چالیس ملین آبادی میں سے تیس ملین ہم مسلمان ہیں،ہمارا دین،ہماری تہذیب،تاریخ رسم رواج،نظام معیشت،قوانین وراثت اور شادی بیاہ کی رسومات ہندوستان میں رہنے والی دیگر اقوام سے مختلف ہیں، ہم نہ ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا سکتے ہیں اور نہ آپس میں شادی بیاہ کر سکتے ہیں۔اگر ہم مسلمان وفاق ہندوستان کے جھانسے میں آگیے تو ایک حقیر سی اقلیت میں تبدیل ہو کر رہ جائیں گے اور یہ ہمیشہ کے لئے مسلمانوں کے خاتمے کے مترادف ہو گا”۔
چوہدری رحمت علی نے یورپی ممالک سے موازنہ کرتے ہوئے لکھا کہ”اندازہ کیجیے ہم تیس ملین مسلمان دنیا کی آبادی کا دسواں حصہ ہیں،پانچ صوبوں پرمشتمل مجوزہ پاکستان کا رقبہ اٹلی سے چار گنا،جرمنی سے تین گنا اور فرانس سے دو گنا ہے ،اس کی آبادی کنیڈا سے سات گنا،سپین سے دو گنا،جبکہ اٹلی اور فرانس کے برابر ہے۔یہ وہ ناقابل تردید حقائق ہیں جن کی بنیاد پر ہم پاکستانی کہہ سکتے ہیں کہ ہم علیحدہ قومیت رکھتے ہیں اور ہم یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ہندوستان سے علیحدہ ایک مسلم وفاق کے قیام کی تجویز منظور کر کے ہماری الگ قومی حیثیت تسلیم کی جائے“ ۔ چوہدری رحمت علی اس دستاویز میں برطانوی راج اور ہندوستانی رہنماؤں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ”کیا ہمیں انگریز حکمران، ہندو اور مسلم رہنماؤں سے ، جو وفاق کے قیام کی حمایت کر رہے ہیں یہ پوچھنے کی اجازت ہے کہ جب روس کو نکال کر یورپ میں اتنے ہی رقبے پر ایک تہذیب،ایک ثقافت اور ایک معاشی نظام رکھنے والی چھبیس قومیں آباد ہیں تو ہندوستان میں دو علیحدہ مذاہب رکھنے والی مسلم اور غیر مسلم اقوام امن اور خوشحالی سے کیوں نہیں رہ سکتیں لیکن افسوس کہ ہمارے رہنما ہمارے مطالبہ کی حمایت نہیں کر رہے۔ ہم اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک المیہ سے دوچار ہیں،یہ ایک گروہ کی پستی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ انتہائی اہم مسئلہ ہے جس سے نہ صرف اسلام متاثر ہو گا بلکہ لاکھوں مسلمانوں کی تاریخ بھی جو کل تک سارے ہندوستان کے مالک تھے۔اگر ہم اس مرحلے پر بھی وفاق ہند میں شمولیت سے گریز کریں تو روشن مستقبل ہمارا منتظر ہے۔معاملہ ”اب یا کبھی نہیں “ کا ہے۔ہم یا تو زندہ رہیں گے یا ہمیشہ کے لئے مٹ جائیں گے۔“
چودھری رحمت علی کے پمفلٹ کے بعد یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اس کا اثر بھی ہوا اور ردِ عمل بھی سامنے آیا۔ وقتاً فوقتاً اخبارات، رسائل اور سیاسی محفلوں میں پاکستان ایک موضوعِ گفتگو بن چکا تھا۔ مسلمان رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد نے اسے صرف طلبا کی اسکیم گردانا اور موہوم اور نا قابلِ عمل کہہ کر رد کردیا۔ ہندوؤں نے اسے بدترین فرقہ پرستی کا طعنہ دیا اور انگریزوں نے اسے ایک غیر ذمہ دار اور غیر نمائیندہ فعل گردانا۔ ”دی اسٹار انڈیا “ جو انڈین مسلمانوں کی طرف سے شام میں چھپنے والا موثر اور فعال روزنامہ تھا ، اس نے 14 1پریل 1933ء کو ‘اب یا کبھی نہیں’ کا تجزیہ کیا اور کسی ہچکچاہٹ کے بغیر اس کی بھرپور حمایت کی۔ اس نے علامہ اقبال کے مطالبے کا ذکر کرتے لکھا کہ ”مسلمان سیاستدانوں کا ایک حلقہ پہلے ہی یہ چاہتا ہے کہ مجوزہ انڈین فیڈریشن کے اندر رہتے ہوئے ان تمام صوبوں پر مشتمل ایک صوبہ بنا دیا جائے۔ اسی تجویز کو ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئےان صوبوں کی ایک علیحدہ فیڈریشن بنانا، یہ زیادہ عملی اور نتائج کے لحاظ سے زیادہ باثمر اقدام نظر آتا ہے۔“ چودھری رحمت کا سرکلر ایک انڈین فیڈریشن کی تجویز کے خلاف اعلانِ جنگ تھا۔کے کے عزیز کہتے ہیں کہ ”اس پمفلٹ نے شمال مغربی انڈیا میں ایک آزاد اور اقتدارِ اعلیٰ کے مالک (Sovereign) مسلمان ملک کا مطالبہ رکھ دیا۔ انہوں نے تمام رسیوں کے تانے بانے کو جوڑ کر اسے ایک نظریہ یا تصور کی شکل دی اور دنیا کے سامنے اس آزاد ریاست کا ایک نیا نام رکھا۔“ مسلمان رہنماؤں میں سر عبداللہ ہارون واحد رہنما ہیں جنہوں نے اس وقت اس اسکیم میں دلچسپی ظاہر کی۔ انہوں نے 5 مئی 1933 کو ایسوسی ایٹڈ پریس کو انٹرویو دیتے وقت کراچی میں کہا کہ”اگر ہندوؤں نے اسی ذہنیت کا مظاہرہ جاری رکھا تو وقت آسکتا ہے کہ جب ایک شمال مغربی انڈین فیڈریشن کا قائم کیا جانامسلمانوں کے دلوں میں گھر کرجائے۔“
چوہدری رحمت علی پاکستان کے بارے میں لٹریچر مسلسل برطانوی پارلیمنٹ کے اراکین کو بھیجتے رہے۔ کے کے عزیز کے مطابق مئی1935 ء میں منعقدہ ہاؤس آف کامن کے اجلاس میں پہلی مرتبہ پاکستان کا نام سننے میں آیا ۔ہاؤس کے ایک نامور رکنVyvyan Adams Mr. نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ”برطانوی پارلیمنٹ کی جائنٹ سلیکٹ کمیٹی کے سامنے حیران کن شہادتیں پیش کی گئی ہیں۔جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب،شمال مغربی سرحدی صوبے،سندھ،کشمیر اور بلوچستان پر مشتمل ایک علیحدہ وفاق کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔اس طرح کی سوچ ہماری پالیسی کے خلاف ہے اور مسلمانوں سے وابستہ ہماری توقعات کے برعکس بھی”ہاؤس آف کامن میں پاکستان پر بحث قابل ذکر بات تھی۔
24 مارچ 1940 کو منٹو پارک لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ سیشن میں مسلمانوں کی آزادی کے حصول کے لئے ”قرارداد لاہور”پاس ہوئی تو اس میں پاکستان کا نام نہیں تھا مگر ہندو پریس نے اسے” پاکستان کی قرارداد”قرار دیا۔اس تاریخی قرارداد کے حق میں بانی پاکستان جناب قائد اعظم محمد علی جناح نے جو تقریر فرمائی اس کے بارے میں عبدالسلام خورشید نے اپنی کتاب (History of the idea of Pakstan)میں تحریر کیا ہے کہ ”ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جناب قائد نے تقریر کرنے سے پہلے (Now or Never )کو پڑھا کیونکہ آپ نے وہی دلائل اور سیاسی تلمیحات استعمال کیں جو چوہدری رحمت علی نے ”اب یا کبھی نہیں“میں کی تھیں۔ اس معاملے کو
کے۔کے عزیز نے اپنی کتاب میں زیادہ نمایاں انداز میں اٹھایا ہے جس کی جھلک آپ پی ڈی ایف فائل میں دیکھ سکتے ہیں۔ کےکے عزیز یہ بھی کہتے ہیں کہ مسلم لیگ چودھری رحمت کے خیالات سے متاثر تھی مگر اس بات کو کبھی قبول نہیں کیا گیا اور اس کی وجوہات ایک سربستہ راز ہیں۔
چودھری رحمت نے پہلے سرکلر کی اشاعت کے کچھ عرصہ بعد پاکستان نیشنل موومنٹ قائم کی تھی اور اس موقع پر انہوں نے آٹھ صفحات کا پمفلٹ مرتب کیا تھا جس کا عنوان تھا،” پاکستان نیشنل موومنٹ کے مقاصد کیا ہیں؟“ اس میں انہوں نے ہندوستانیت کی تعریف بیان کی اور اسے ایک ایسی طاقت قراردیا جس نے جنوبی ایشیا کے تمام ممالک پر اپنی اجارہ داری قائم کررکھی ہے۔ انہوں نے اسے تباہ کن قراردیا اورکہا کہ ممالک کو اور مذاہب کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے والی اس قوت نے انگریزوں کے آنے کے بعد انڈین نیشنل کانگریس کی شکل میں اپنے آپ کو ظاہر کیا اور نہایت چالاکی سے تمام برطانوی مقبوضات کو انڈیا کا نام دیتے ہوئے غیر انڈین اقوام کی قومی حیثیت سے انکار کردیا۔ انڈین قومیت کا یہ ٹھپہ دوسری اقوام کی تنظیموں پر آل انڈیا مسلم لیگ، آل انڈیا مسلم کانفرنس، آل انڈیا سکھ کانفرنس، آل انڈیا راجپوت کانفرنس وغیرہ کی شکل میں چسپاں ہوگیا۔ ”یہ لغو آل انڈیا کا سابقہ“ ایسے ظاہر کرتا ہے جیسے یہ سب انڈین اقوام ہی ہیں۔ انہوں نے قرار دیا کہ اس لغو ہندوستانیت کے پیچھے ایک آل انڈیا فیڈریشن قائم کرنی تھی جس سے غیر انڈین اقوام کو ہمیشہ کیلئے غلامی میں جکڑا جاسکتا تھا۔
ایک مشہور ترک صحافی اور ادیب خالدہ ادیب خانم نے 1935۔1936 ء کے دوران انڈیا کا دورہ کیا۔ خالدہ نےاپنے اس دورے کے مشاہدات و تاثرات پر مبنی ایک کتاب 1937 ء میں Inside India” “ کے نام سے لندن سے چھپوائی۔ جب چودھری رحمت علی کو علم ہوا کہ خالدہ یہ کتاب چھپوا رہی ہیں تو انہوں نے خالدہ سے رابطہ کیا(اس رابطےکے پیچھے ڈاکٹر افضال حسین قادری کار فرما تھے) ۔ ایک بارگیننگ کے نتیجے میں خالدہ نے اپنی کتاب میں چودھری رحمت علی کے نظریئے کو دس صفحاتی باب کی شکل میں ایک انٹرویو کی صورت شائع کردیا۔ (ملاحظہ کیجئے روزنامہ انقلاب میں چھپنے والا عکس۔ بشکریہ امجد سلیم علوی صاحب) کتاب کے اردو ترجمہ درونِ ہند کے صفحات پر موجود یہ انٹرویو دئے گئے پی-ڈی-ایف لنک پر موجود ہے۔
1940ء میں رحمت علی ہندوستان آئے۔ یہاں ان کے پنجاب میں داخلے پر پابندی لگی ہوئی تھی۔ انہوں نے کراچی میں قیام کیا اور اپنی تنظیم کی سپریم کونسل کی میٹنگ 22 مارچ 1940ء کو کراچی میں طلب کی۔ یعنی یہ وہی دن تھا جس دن لاہور میں مسلم لیگ اپنا اجلاس شروع کر رہی تھی۔ انہوں نے کونسل کی میٹنگ سے جو خطاب کیا وہ بعد میں ایک پمفلٹ کی صورت شائع ہوا جسے The Millat of Islam and the Menace of Indianism(ملتِ اسلام اور ہندوستانیت کا خطرہ) کا نام دیا گیا۔ انہوں نے اس خطاب میں اپنے 1933ء والے پروگرام سے آگے بڑھ کر بنگال اور حیدرآباد دکن کی آزادی کا مطالبہ بھی شامل کیا۔ بنگال اور آسام کو انہوں نے بانگِ اسلام اور حیدرآباد دکن کو عثمانستان کا نام دیا۔ چودھری رحمت علی کے حوالے سے مزید کچھ باتیں قراردادِ دہلی کے مضمون کے بعد کریں گے۔
قراردادِ لاہور 1940ء منزل بہ منزل
سالِ نو اور ہماری معاشرتی ذمہ داری
FB Comments: