ڈاکٹر افضال حسین قادری – پروفیسر ظفرالحسن اور علی گڑھ اسکیم 1939ء

علی گڑھ اسکیم 1939ء

سلسلۂ مضامین قراردادِ لاہور 1940ء منزل بہ منزل

جناب مختار مسعود”آوازِ دوست“ میں رقم طراز ہیں،

”چند سال بعد کیمبرج سے ایک تحریک اٹھی۔ اس کے ایک کارکن تعلیم ختم کرنے کے بعد علی گڑھ آگئے۔ ان کا گھر ہمارے اسکول کے راستے میں تھا۔ ان کا ایک عزیزجو اب ان کا داماداور ان دنوں ہمارا ہم سبق تھا، ان کے کچھ کاغذات اٹھالایا۔ کچھ نقشے تھےجن پر سبز رنگ سے کئی نئے ملک دکھائے گئے تھے۔ تین نام مجھے اب بھی یاد ہیں۔پاکستان، بانگِ اسلام اور عثمانستان۔ 1939ء میں علی گڑھ کے دو پروفیسروں نے ہندوستان کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی تجویز پیش کی۔ ایک تو وہی کیمبرج تحریک والےاور دوسرے شعبہ فلسفہ کے صدر۔ فلسفی پروفیسر کی شکل کچھ برنارڈ شاسے ملتی تھی اور کچھ ٹیگور سے۔ ان کی لمبی سفید داڑھی، چمکتی آنکھوں، بھاری اور رعب دار آواز نے فلسفے کے مضمون کے ساتھ مل انھیں ایک پراسرار شخصیت بنادیا تھا۔ وہ دوپہر تک یونیورسٹی میں پڑھاتے اور سہہ پہر سے مغرب تک اپنے لان میں مونڈھے پر بیٹھ کر مسلم ہند کے مسائل حل کیا کرتے۔ ان کا لان مجھے اپنے گھر سے بھی نظر آتا تھا۔ میں نے کئی بار ان کو ساتھیوں کے ہمراہ بیٹھے دیکھا اور دل میں سوچا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ گھر کے لان میں بیٹھ کر ہندوستان کو تقسیم کرادیا جائے۔ اگلے ہی سال لاہور میں تقسیمِ ہند کی قرارداد منظور ہوئی۔ ان کے لان کی رونق میں اضافہ ہوگیا۔ اب وہاں کئی نئے مونڈھے لاکر رکھ دیئے گئے۔ ان پر ایک نئی نسل آکر بیٹھ گئی، ایک ٹوٹا ہوا مونڈھا میرے حصہ میں بھی آیا۔“

آوازِ دوست میں مذکور علی گڑھ کے یہ دو پروفیسر ، ڈاکٹر افضال حسین قادری اور سیدظفرالحسن تھے۔ انہوں نے 1939ء کے ابتدائی ایام میں ایک پمفلٹ جاری کیا جس کا عنوان  ”The Problem of Indian Muslims and its Solution“ تھا۔ اس میں تقسیمِ ہند کی وہی تجویز تھی جس کا تذکرہ مختار مسعود نے اپنی کتاب میں کیا۔ ڈاکٹر افضال حسین قادری نے 2 فروری 1939ء کو قائدِ اعظم کے نام ایک خط تحریر کیا جس میں اپنی اسکیم کے بارے میں بتایا اور ساتھ ہی اپنا جاری کردہ پمفلٹ بھی بھیجا اور قائدِ اعظم سے ملاقات کا وقت مانگا۔ قائدِ اعظم کی ہدایت پر پاکستان کا قومی پرچم ڈیزائین کرنے والے ڈاکٹر امیر الدین قدوائی ”جدید سائنس “ کے افضال قادری نمبر میں رقم طراز ہیں کہ،

”مارچ 1939ء میں محمود بھائی اور افضال بھائی نے یہ اسکیم (علی گڑھ اسکیم) میرٹھ میں مسٹر جناح کو سمجھائی اور انہوں نے مسلم لیگ کی مجلسِ عاملہ کے اجلاس بابت اپریل 1939ء میں اس کی تصریح کیلئے محمود بھائی ، افضال بھائی اور مجھ کو بلایا۔ چنانچہ ہم نے بمبئی پہنچ کر یہ خدمت بھی انجام دی جسے قائدِ اعظم نے بہت پسند کیا۔ چنانچہ ایک سال تک پوری تیاری اور جدوجہد کے بعد، نہایت حسن و خوبی سے مارچ 1940ء میں پاکستان ریزولیشن قراردادِ مقاصد پیش کی جو متفقہ طور پر لاہور سیشن میں منظور ہوکر محورِ فکرو سعی بنا اور 1947ء میں صورت گہر پیدا ہوا۔“

Aligarh Scheme 1939 - Dr. Afzal Hussain Qadr and Prof. Zafarul-Hasan

Download PDF / Aligarh Scheme 1939

مجھے بہت تلاش کے بعد 30 ستمبر 1939ء کا شمارہ مل سکا جس میں علی گڑھ اسکیم کی تفصیلی خبر شائع ہوئی تھی، بمبئی کرانیکل کے 30 ستمبر 1939ء کےشمارہ کا عکس  ہمارے مضمون کا حصہ ہےجس میں علی گڑھ اسکیم کی تفصیل شائع ہوئی ۔علی گڑھ اسکیم کی خصوصیات کا جائزہ لیا جائے تو کچھ اس طرح ہیں،

اسکیم کا مقصد ہندوستان کو ”ہندو انڈیا“ اور ”مسلم انڈیا“ میں تقسیم کرنا بتایا گیا تھا۔ جن اصولوں کی بنیاد پر یہ تجویز دی گئی تھی وہ کچھ یہ تھے،

  • ہندوستان کے مسلمان نہ صرف ہندوؤں سے بلکہ دیگر غیر مسلم برادریوں سے بھی الگ شناخت رکھتے ہیں اور ایک علیحدہ قوم کا درجہ رکھتے ہیں۔
  • ہندوستان کے مسلمانوں کا علیحدہ قومی مستقبل ہے اور دنیا کی بہتری کیلئے ان کی اپنی خدمات ہیں۔
  • ہندوستان کے مسلمانوں کا مستقبل ہندوؤں، برطانیہ یا کسی بھی دوسری قوت کے تسلط سے آزادی میں مضمر ہے۔
  • مسلمانوں کے اکثریتی صوبوں کو ایک ایسےہندوستانی وفاق کا غلام نہیں بنایا جاسکتاجس میں ہندوؤں کی مرکز میں کثیر اکثریت ہو۔
  • مسلم اقلیتی صوبوں میں مسلمانوں کو انکی مذہبی، ثقافتی اور سیاسی شناخت سے محروم نہیں رکھا جاسکتا اور انہیں مسلمانوں کے اکثریتی صوبوں کی مکمل اور مؤثر حمایت حاصل ہونی چاہیئے۔

علی گڑھ اسکیم کے تقسیم کے خاکے میں انڈیا کو متعدد آزاد اور مکمل طور پر خود مختار ریاستوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔

  • پاکستان: پاکستان کیلئے تجویز کردہ صوبے اور ریاستیں یہ تھیں،
  • پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبہ، سندھ، بلوچستان، جموں اینڈ کشمیر، مانڈی، چمبا، ساکٹ ، سمین، کپور تھلہ، مالیرکوٹلہ، چترال، دیر، قلات، لوہارو، بیلاس پور، شملہ ہل اسٹیٹ اور بھاولپور وغیرہ
  • بنگال: بنگال کو ایک خودمختار ریاست تجویز کرتے ہوئے اس بہار کا پومیا ڈسٹرکٹ اور آسام کا سلہٹ ڈویژن شامل کیا گیا تھا، جبکہ ہاؤڑا اور  مدنا پور ڈسٹرکٹ کو بنگال سے الگ کردیا گیا تھا۔
  • حیدرآباد: ریاست حیدرآباد کو خودمختار مملکت تجویز کرتے ہوئے اس کی قدیم مقبوضات برار اور کرناٹک کو اس میں شامل رکھا گیا تھا۔
  • ہندوستان:  پاکستان ، بنگال اور حیدرآباد کےکیلئے تجویز کردہ علاقوں کے علاوہ باقی ملک کو ہندوستان کے نام سے برقرار رکھا گیا تھا۔ ہندوستان میں دو نئے صوبوں کی تشکیل کی تجویز دی گئی تھی جس میں سے ایک دہلی صوبہ تھا جس میں دہلی کے علاوہ میرٹھ ڈویژن، روہیل کھنڈ ڈویژن اور ڈسٹرکٹ آف علیگڑھ (آگرہ ڈویژن) کو شامل کیا گیا تھا جس میں مسلمانوں کی آبادی 28 فیصد ہوتی۔ جبکہ دوسرا صوبہ مالابار تجویز کیا گیا تھا جس میں مالابار اور جنوبی کنارہ کا علاقہ شامل کیا گیا تھا جس میں مسلمانوں کی آبادی 27 فیصد ہوتی۔

علی گڑھ اسکیم پیش کرنے والوں نے مزید تجویز کیا تھا کہ پاکستان، بنگال اور ہندوستان کے نام سے وجود میں آنے والی ریاستیں ایک مشترکہ دفاعی اور جارحانہ اتحاد تشکیل دیں جس میں مندرجہ ذیل نکات شامل ہوں،

  • باہمی طور پرایک دوسرے کو تسلیم کرنا اور مراعات دینا
  • پاکستان اور بنگال کو مسلم ریاستیں اور ہندوستان کو ہندو ریاست تسلیم کیا جانا اور  ان کے باشندوں کو اختیار ہو نا کہ وہ جب چاہیں ہجرت یا ترکِ سکونت کرسکیں۔
  • ہندوستان میں مسلمانوں کو ایک  اقلیتی قوم اور پاکستان اور بنگال میں آباد بڑی جماعت کا حصہ تسلیم کیا جانا ۔
  • ہندوستان میں مسلم اقلیت اور پاکستان اور بنگال میں غیر مسلم اقلیت کے پاس مندرجہ ذیل اختیارات ہونا،

ا۔ آبادی کے حساب سے نمائندگی

ب۔ مؤثر حفاظتی ضمانت کے ساتھ جداگانہ انتخابات کاحق

پ۔ جداگانہ انتخابات کا حق تینوں ریاستوں میں نمایاں اقلیتوں کو دیا جاسکتا ہے جن میں سکھ اور ذات پات سے الگ ہندو وغیرہ شامل ہوں۔

پروفیسروں کی اس اسکیم میں یہ بھی تجویز کیا گیا تھا کہ،

  • ایک تسلیم شدہ مسلمان سیاسی تنظیم ہندوستان میں مسلمانوں کی واحد سرکاری نمائندہ کے طور پر ہوگی۔
  • پاکستان ، ہندوستان اور بنگال کی تین آزاد ریاستوں میں سے ہر ایک کو حکومتِ برطانیہ کے ساتھ یا تاجِ برطانیہ کے نمائندے کے ساتھ (اگر کوئی ہو) علیحدہ علیحدہ اتحاد کا معاہدہ تجویز کیا گیا تھا۔
  • ایک مشترکہ ثالثی عدالت کا قیام بھی تجویز کیا گیا تھا جو ریاستوں کے باہمی تنازعات یا ریاست اور تاج ِ برطانیہ کے اختلافات کا فیصلہ کرسکے۔

واضح رہے کہ علی گڑھ اسکیم ان منتخب اسکیموں میں شامل تھی جو قراردادِ لاہور کی تیاری میں مدِ نظر رکھی گئیں۔ اس کے پیش کرنے والے افراد کو صلاح مشورے میں شامل رکھا گیا۔ ڈاکٹر افضال حسین قادری کو قائدِ اعظم نے کئی اہم ذمہ داریاں دیں اور انکے ساتھ خط و کتابت کا سلسلہ جاری رہا جو ریکارڈ پر موجود ہیں۔ پروفیسر ظفرالحسن اور ڈاکٹر افضال اس تعلیمی کمیٹی کے رکن تھے جو کانگریس کی واردھا اسکیم کے جواب میں قائدِ اعظم نے بنائی تھی۔ اس اسکیم کی تفصیلات پر ایک  علیحدہ مضمون پوسٹ کیا جارہا  ہے،

ڈاکٹر افضال حسین قادری اس کمیٹی کے کنوینر بھی تھے۔ علی گڑھ اسکیم کے ایک اور رکن ڈاکٹر امیرالدین قدوائی کو قائدِ اعظم نے پاکستان کا قومی پرچم ڈیزائین کرنے کی ذمہ داری سونپی تھی۔ ڈاکٹر افضال حسین قادری قیامِ پاکستان تک ایک منجھے ہوئے سیاستدان بن چکے تھے مگر انہوں نے قائدِ اعظم کی خواہش پر سیاست کے بجائے تعلیم کے فروغ کی ذمہ داری سنبھالی اور اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بحیثیت اعزازی پروفیسر کے جامعہ کراچی کے ساتھ وابستہ رہے۔  ڈاکٹر افضال کو انکی تعلیمی خدمات پر کئی اعزازات سے نوازا گیا، جبکہ  مملکتِ پاکستان کی جانب سے انہیں گولڈ میڈل کے اعزاز سے بھی نوازاگیا۔

ڈاکٹر افضال حسین قادری کے صاحبزادے ، ڈاکٹر جمال حسین قادری نے اپنے والد مرحوم کی جدوجہدِ آزادی پہ مبنی ایک سوانحی ناول ”لے کے رہیں گے پاکستان“ تحریر کیا ہے جسے پڑھتے ہوئے قاری اپنے آپ کو اس دور کا ایک حصہ تصور کرتا ہے۔ڈاکٹر جمال اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ،”میں نے یہ ناول جس نسل کیلئے لکھا ہے وہ پاکستان کے مستقبل کی معمار ہوگی۔ میرا ایمان ہے کہ پاکستان برحق ہے اور یہ ہی ہندوستان کے مسلمانوں کی فلاح کا آزادی کے وقت واحد حل بچا تھا۔“ چودھری رحمت علی والے مضمون میں میں نے خالدہ ادیب خانم کی کتاب سے جس پاکستان نامی مضمون کا حوالہ دیا، ڈاکٹر جمال نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا کہ وہ مضمون ڈاکٹر افضال حسین قادری کی کاوشوں سے خالدہ ادیب خانم کی کتاب کا حصہ بن پایا تھا۔ اس فائل میں ڈاکٹر افضال حسین قادری کا وہ خط بھی شامل کیا جارہا ہے جو انہوں نے چودھری رحمت علی کو تحریر کیا تھا۔

اس مضمون کے ساتھ ہمارا قراردادِ لاہور منزل بہ منزل کا سلسلۂ مضامین اختتام پذیر ہوتا ہے۔ اگرچہ اس موضوع سے جڑے ہوئے کئی واقعات ہیں جن پر لکھا جاسکتا تھا اور یہ سلسلہ مزید طویل ہوسکتا تھا۔ تاہم کئی اور ضروری مضامین کو پیش کرنا چاہ رہا ہوں اس لئے زندگی رہی تو باقی پھر کسی وقت۔

مضمون سے جڑی دیگر تفصیلات اور تصاویر کیلئے پی ڈی ایف فائل ڈاؤن لوڈ کریں۔

نوٹ: ڈاکٹر افضال حسین قادری کے صاحبزادے، جناب ڈاکٹر جمال قادری کی وضاحت اہم دستاویزات کے حوالے سے,

ڈاکٹر افضال حسین قادری ڈیسک

Dr. Afzal Hussain Qadri's window

 

References:

  1. Jadeed Science: Afzal Hussain Qadri Number (جدید سائنس-افضال حسین قادری نمبر)
  2. لے کےرہیں گے پاکستان۔ ڈاکٹر جمال حسین قادری
  3. Bombay Chronicles 30th Sept, 1939
  4. “STUDY OF THE POLITICS OF PARTITION 1937-1947” A thesis by (Miss) Syeda Sabiha Nazli Naqvi (DEPARTMENT OF POLITICAL SCIENCE ALIGARH MUSLIM UNIVERSITY ALIGARH [INDIA] 1989.
  5. Self and Sovereignty by Aisha Jalal
  6. آوازِ دوست: مختار مسعود

ڈاکٹر عبدالطیف کی انڈین کلچرل زونز اسکیم 1939ء

Churchill Statement in House of Commons on Transfer of Power

Facebook Comments

 

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے