جسونت سنگھ کی کتاب ”Jinnah: India, Partition, Independence“

ہندوستان کے سابق وزیر خارجہ، جسونت سنگھ، کی کتاب سے ایک اقتباس، ”جناح: ہندوستان – تقسیم – آزادی“

اردو ترجمہ: محمد مشہود قاسمی

Jaswant Singh-Book
Jinnah: India – Partition – Independence

جناح نے جن حالات میں ایک آزاد ذہن اور روشن پسند ہندوستانی کے طور پر اپنی سیاسی شروعات کیں اور پھر تجربات کی بنیادپر ابتدائی جدوجہد کے بعد کامیابیوں کا جو عظیم سفر طئے کیا جس میں ایک اسلامی اصلاح پسند کا ہلکا پھلکا تاثر بھی پنہاں تھا، اس کے علاوہ ان کے سامنے سیاسی سفر میں انتخاب کے لئے اور کچھ زیادہ نہیں تھا۔ وہ انگریزوں کی بے مہار طاقت سے آزادی کی سوچ رکھتے تھے۔ ان کے سامنے جو سیاسی میدان تھا اس میں وہ ایک قومی سوچ کے ساتھ آگے بڑھے۔ وہ صوبایئت سے بالاتر تھے اور یہی وہ مقام تھا جہاں انہیں سیاسی اختلافات درپیش تھے۔ ان کی پشت پر کوئی صوبائی حمایت نہیں تھی۔ وہ کانگریس کے پر عزم کارکن تھے مگر ان کے لئے مسلم لیگ کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں تھا۔ اس مرحلہ پر مکمل طور پر لیگ کی سیاست کو اپنانا ان کے نزدیک ایک محدود سی فرقہ وارانہ سوچ کا حامل تھا۔ انہوں نے کانگریس میں رہتے ہوئے مسلم لیگ کے 27 اجلاسوں میں شرکت کی۔ 1913ء کے موسمِ خزاں میں (جب وہ مسلم لیگ میں شامل ہوئے)انہوں نے بیان دیا کہ ”مسلم لیگ کے ساتھ وفاداری اور مسلم مفاد کسی بھی صورت میں اس قومی مقصد سے بے وفائی کا مرتکب نہیں ہو گا جس کے لئے ان کی زندگی وقف ہے۔“ کیا یہ ان کے ظاہری اصولوں سے (فرقہ واریت کی) کھائی میں اترنے کے لئے راہ ہموار کرنے کا سبب تھا؟

کیا وہ اصولوں پر قائم تھے یا یہ دونوں جماعتوں میں اپنے قدم جمانے کی کوئی شعوری کوشش تھی؟ اس پہ دونوں طرح کے یقین رکھنے والے موجود ہیں۔

پھر ایک قابلِ فہم بات ان کے لئے اپنا حلقۂ انتخاب کا اہم معاملہ تھا۔ یہ ان کا ایک بہت کمزور پہلو تھا جہاں وہ کشمکش کا شکار تھے۔ کیونکہ وہ تماشہ باز اور منبر پر کھڑے ہوکر بڑھکیں مارنے والے نہیں تھے۔وہ آزادانہ سوچ کے حامل ایک واضح نکتہ نظر رکھنے والے اور کھل کر اپنی بات کا اظہار کرنے والے شخص تھے۔ جب تک سیاست مشاورتی عمل سے گزر رہی تھی وہ غیر متنازعہ رہے۔ تاہم جمہوریت اور سیاست کے فروغ کے ساتھ ساتھ قومی سطح کے سیاست دان کے لئے اپنے آپ کو صوبائی اور مقامی سیاسی رجحانات سے جڑا رکھنا بھی ضروری تھا۔یہی وہ معاملہ تھا جس میں وہ گاندھی کے مقابلے میں اپنا کل ہند تشخص کھو بیٹھے، جن کا ہندوستانی عوام پر بے پناہ اثر تھا، اور انہیں اپنے بہت سے نظریات پر سمجھوتا کرنا پڑا۔ آئے ہم ہندوستان کی تحریکِ آزادی کے ان دو بلند مناروں کا موازنہ کرنے کی کوشش کریں، جو کسی طرح بھی آسان نہیں ہے، لیکن ہمارے موضوع کے لئے ضروری ہے۔

جناح بمقابلہ گاندھی

گاندھی بلاشبہ ایک مختلف شخصیت کے حامل تھے، تاہم وہ بھی جناح کی طرح شہرت حاصل کرچکے تھے۔ سیاست میں آنے سے پہلے وہ ایک کاٹھیاواڑی پس منظر سے نکل کر لندن کا بیرسٹر بننے تک کا سفر کامیابی سے طئے کرچکے تھے۔ جناح کے مقابلے میں وہ ایک ممتاز گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد ایک ہندوستانی ریاست کے دیوان (وزیرِ اعظم) تھے، جنہوں نے ان کی بہت مدد کی۔ جناح کو اس طرح کا کوئی سہارا حاصل نہیں تھا اور انہوں نے جو حاصل کیا وہ اپنے بل بوتے پر کیا۔ گاندھی نے احتجاجی سیاست کا راستہ اپنایا اور اس میں سب سے نمایاں مقام پر فائز ہوگئے۔ انہوں نے اپنی

شخصیت، اپنی زبان، اپنے طرزِ گفتگو کو تبدیل کئے بغیر ہندوستان کی طرزِ سیاست کو تبدیل کرکے رکھ دیا۔ طویل عرصے سے محکومی کا شکار ہندوستانی، جو غلامانہ زندگی کو اپناچکے تھے، ان کو گاندھی نے آزادی کی فکر عطا کی۔ گاندھی نے سیاست کو شرفا کے بند کمروں سے اور مباحثی دائروں سے نکال کر ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلا دیا۔ ان کا خمیر اس مٹی سے اٹھا تھا اور وہ اسی مٹی سے جڑ گئے۔ انہوں نے اس کی بے پایاں خوبصورتی، اس کی خوشبو، اس کا پسینہ، اس دھرتی کے محاورے، مکالمے اور گفتگو کو فروغ دیا۔

ہیکٹر بولیتھو نے اپنی تصنیف ”In Quest of Jinnah“ میں دونوں شخصیات کے تضادات کو نمایاں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ”جناح طاقت کا سرچشمہ تھے اورگاندھی اس کا بہتا دھارا… جناح سیاست میں ایک سرد مزاج کے  عقلیت پسند تھے- ان کا اپنا  مضبوط قوتِ ارادی کا حامل طرزِ فکر تھا، ۔ اگرچہ جناح ممکنہ طور پر مہربان تھے، لیکن رویے میں انتہائی سرد اور فاصلہ رکھنے والے تھے۔ گاندھی مجسم شفقت تھے۔ جناح غریبوں سے فاصلہ رکھتے تھےجبکہ گاندھی پورے ہندوستان  سے جڑ کرتمام زندگی کمزوروں اور غریبوں کی مدد کے لئے کوشاں رہے۔“

جناح نہ تو آرام پسند تھے اور نہ ہی سہل پسندی ان کی طبیعت کا خاصہ تھی جس میں  ان کے ناہموار بچپن اور بار بار کی نقل مکانی کا بھی عمل دخل تھا۔ پھر وہ ایک بہترین آئین ساز تھے۔ تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال میں اور دیہی ہندوستان کی دھول بھری پگڈنڈیوں میں راستہ بنانا آسان نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں 1920ء کے قریب گاندھی کی آمد اور تیزی سے عروج کے باعث اپنا مقام برقرا رکھنے میں دشواری محسوس ہوئی۔ پھر ان کی پشت پر کوئی صوبائی طاقت نہیں تھی، کوئی ایک بھی نہیں،نہ اس وقت نہ بعد میں جہاں وہ جائے پناہ تلاش کرسکیں۔ عوامی طرزِ سیاست میں ڈھلنے کی صلاحیت کا فقدان ان کے لئے ہمیشہ ایک مسئلہ رہا۔ یہ قبول کیا جانا چاہئے کہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے قومی سطح پر ان کی حیثیت کو قبول کئے جانے میں انہیں مشکلات درپیش رہیں۔ قوم پرستی کی سیاست میں پہلے ہی ایک ہجوم موجود تھا جہاں ایک مسلمان کی حیثیت سے ان کا کردار بنتا تھا مگر صرف دوسرے درجہ کا۔ جناح کے لئے ثانوی حیثیت کو قبول کرنا مشکل امر تھا۔ وہ ہمیشہ مرکزی کردار کے متلاشی رہے اور انہیں یہ حاصل بھی رہا، پھر اب وہ کیسے ایک ثانوی حیثیت کو قبول کرسکتے تھے۔  اگرچہ کئی عوامل انہیں مسلسل اس کے دائرے میں دھکیلتے رہے۔

لائیڈ اور سوزن روڈولف (Lloyd and Susanne Rudolph)، پولیٹیکل سائنس کے پروفیسرز ایمریٹس، شکاگو یونیورسٹی، نے میرے ساتھ خط و کتابت میں، مختصراً، اسی موضوع پر خیالات کا اظہار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ”جناح گاندھی کو برداشت نہیں کر سکتے تھے لیکن میرے خیال میں اس کی وجوہات ان  سے واضح طور پر مختلف تھیں جو نہرو سے ان کی نفرت کو جنم دیتے تھے۔ 20-1915 ء کے دور میں قومی سیاست میں گاندھی کے داخل  ہونے کے تقریباً آغاز سے ہی، جناح نے انہیں نہ صرف ایک حریف کے طور پر بلکہ ”ایک  شعبدہ باز،  جعلساز  اور ایک  شعلہ فشاں“ شخصیت ہی سمجھا۔ اگرچہ وہ دونوں ایک ایسے انگریزی پس منظر کے حامل تھے جس میں بیرسٹری کی تعلیم کے دوران ان کے سرپرست، ان کے رہنما اور ان کے مداح مشترک تھے اور انہوں نے  ہندوستان میں گوکھلےجیسےاعتدال پسند اور  ترقی پسند کی سرپرستی میں مطالعاتی  اشتراک کیا۔“

جناح نے اپنے آپ کو ایک وضع دار  اور روشن خیال انگریز کی سوچ  کے قالب میں ڈھالا۔ گاندھی نے بھی کچھ وقت کے لئے ایسا ہی کیا، جیسا کہ جنوبی افریقہ میں ایک کامیاب بیرسٹر کے طور پر ان کی تصاویر اور وہاں پر ہندوستانی اقلیت کی حامل برطانوی رعایا کے حقوق کے تحفظ کے لیے ان کی کوششوں کی تصدیق ہوتی ہے۔ لیکن جب گاندھی اکیس سال جنوبی افریقہ میں رہنے  کے بعد ہندوستان واپس آئے تو انہوں نے ایک انگریز وضع کے انسان کے طور پر اپنی شناخت کو ختم کرنا شروع کر دیا تھا اور اپنے روشن خیال عقیدے کا رخ   ہندوستان کے شہر اور دیہات میں رہنے والے عام انسانوں   کی فلاح و بہبود کی طرف موڑ دیا تھا۔

جناح اور عوامی سیاست

جناح اپنے تھری پیس سوٹ، اپنی عینک، اپنے سگریٹ ہولڈر اور شاہی انگریزی کے پابند رہے۔ وہ گجراتی اور مذہب کی آمیزش والی سیاسی زبان سے دور رہے۔ جناح نےپارلیمانی سیاست میں مہارت حاصل کی، اس قسم کی سیاست جس میں اعتدال پسند گوکھلے معتبر تھے اور جس کو انتہا پسند تلک نے طعنہ دیا تھا۔ گاندھی نے دانستہ طور پر ستیہ گرہ یا   عدم تشدد کی سیاست کے آڑ میں انتہا پسندانہ ہتھکنڈوں  کا استعمال کیا۔ ان کی سیاست پارلیمان اور اقتدار کی راہداریوں کی اندرونی سیاست کے بجائے عوامی حلقوں اور عوامی رائے کی سیاست تھی۔ ابتدا میں  گاندھی نے عام آدمی کے لباس اور انداز کو اپنایا، پھر بعد میں اس کو بھی غریب ترین دیہاتی کے رنگ میں رنگ دیا، جناح جنہیں آہستہ آہستہ پسپا ئی ہوئی  انہیں یقین تھا  کہ گاندھی آگ لگانے والے اور جعلساز تھے۔ کئی دہائیوں تک جناح نے گاندھی کی عام آدمی کی سیاست پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا اوراس کی  مزاحمت کی یہاں تک کہ،   16 اگست 1946 ء کو، انہوں نے اسلام کے دفاع اور پاکستان کی حمایت میں راست اقدام  کی اپیل  کی۔ جناح اس کے بعد وہی شعلہ فشاں  بن گئے جس کے لئے وہ گاندھی کی مذمت اور ان سے نفرت کرتے تھے۔ وہ آگ کا مقابلہ  آگ سے کرنے پر اتر آئے تھے لیکن ایسا کرنے سے وہ گاندھی کے قریب نہیں آئے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے گزرتے برسوں کے دوران اس شخص کے لیے ایک محتاط احترام  کا تعلق پیدا کیا تھا، جس نے، اپنے بیشتر سیاسی دورانئے میں، ان سے زیادہ  اہمیت اختیار کی اور انہیں  پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ بالآخر انہوں نے اعلیٰ درجہ کی چاپلوسی کی تقلید بہترین طریقے سے کی۔ وہ بھی، جیسا کہ حقیقت میں گاندھی کانگریس کے تھے،  (مسلمانوں کے) واحد ترجمان بن کر سامنے آئے۔

مضمون انگریزی میں پڑھیں:

Jinnah: India, Partition, Independence: Jaswant Singh

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے