STATEMENT BY THE CABINET MISSION
HL Deb 16 May 1946 vol 141 cc271-87271
۱۹۴۵۔۱۹۴۶ کے مرکزی قانون ساز اسمبلی اور صوبائی قانون ساز اسمبلیوں کے انتخابات کے نتیجہ میں کانگریس کے مقابلے میں آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانوں کی واحد نمائیندہ تنظیم کی صورت میں سامنے آئی تھی۔ ہندوستان میں انتقال اقتدار کی منتقلی کیلئے دونوں فریقین یعنی کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے درمیان کسی مفاہمت کیلئے کی جانے والی کوششوں میں پے درپہ ناکامیوں کے بعد برطانوی وزیر اعظم ایٹلی نے ۱۹۴۶ء میں ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جس میں ہندوستان کیلئے سیکرٹری آف اسٹیٹ پیتھک لارنس، سر اسٹفورڈ کرپس اور اے ۔ وی ۔ الیگزینڈر شامل تھے جب کہ وقتاً فوقتاً مشاورت کی حد تک وائسرائے لارڈ ویویل بھی اس میں شامل رہے۔ کیبنٹ مشن ۲۴ مارچ ۱۹۴۶ کو دہلی پہنچا اور اس نے فوری طور پر تمام اہم سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا۔ سیاسی رہنماؤں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کو دور کرنے کیلئے کمیشن نے ۵ مئی سے ۱۲ مئی تک شملہ میں کانگریس، آل انڈیا مسلم لیگ اور دیگر سیاسی رہنماؤں کے اجلاس کا انعقاد کیا۔ سیاسی رہنما کسی متتفقہ فیصلے پر نہیں پہنچ سکے تاہم کمیشن کے ارکان تمام فریقین کے خیالات، مطالبات اور خدشات سے آگاہی حاصل کرنے کے بعد اپنے تئیں اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ ہندوستان کو تقسیم نہیں ہونا چاہئیے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ وہ اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے خدشات اور مطالبات کو نظر انداز نہیں کرسکتے تھے۔ تمام حقائق کی روشنی میں انہوں نے اپنی صوابدید کے مطابق انتقالِ اقتدار کا ایک فارمولہ تیار کیا جسے کیبنٹ مشن پلان کا نام دیا گیا۔
۱۶مئی ۱۹۴۶ء کو برطانوی پارلیمان میں سیکریٹری فار ڈومینین افیئرز وسکونٹ ایڈیسن نے کیبنٹ مشن پلان کی تفیصلات پیش کیں۔ تفصیلات بیان کرتے ہوئےانہوں نے انڈیا کے سیاسی حالات اور ہندو مسلم اختلافات کا تجزیہ پیش کیا اور وہ وجوہات بیان کیں جن کے سبب آل انڈیا مسلم لیگ پاکستان کے مطالبے سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھی۔
کیبنٹ مشن پلان ایک تفصیلی دستاویز ہے جو تقریباً ۹ صفحات اور ۲۴ نکات پر مشتمل ہے۔ کچھ نکات وضاحتی پیرائے میں لکھے گئے ہیں جس میں اس کا سیاسی پس منظراور تجاویز کی منطق شامل ہے۔ بقیہ نکات قانونی اسلوب میں بیان کئے گئے ہیں جس میں مستقبل کے خدوخال، آئین ساز اسمبلی کےانتخاب کا طریقہ کار اور اس کی بنیادی ذمہ داریاں بیان کی گئی ہیں۔ ان تجاویز کا محور پندرہواں نکتہ ہے جس کے نیچے مزید چھ نکات ہیں جو ہندوستانی آئین کے بنیادی خدوخال کی تجاویز پیش کرتے ہیں۔
سیکریٹری فار ڈومینین افیئرز نے کمیشن کی تجاویز ایوان میں پیش کرتے ہوئے کمیشن کے الفاظ میں مختلف صوبوں میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی آبادی کا تناسب پیش کیا، مسلم اکثریتی صوبہ جات بنگال اور پنجاب میں غیر مسلم آبادی کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کمیشن کا مؤقف پیش کیا کہ اگر آل انڈیا مسلم لیگ کے دلائل کو تسلیم کرتے ہوئے قومیت کی بنیاد پر ہندوستان کی تقسیم کی جائے تو اسی دلیل کی روشنی میں بنگال اور پنجاب کی تقسیم بھی ناگزیر ہوجاتی ہے۔ کمیشن کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تمام حقائق کی روشنی میں اگر تقسیم کا عمل ممکن بنایا جائے تو آل انڈیا مسلم لیگ کے مطالبات کے برعکس صرف ان علاقوں میں پاکستان کا قیام ممکن ہوگا جہاں مسلمان بھاری اکثریت میں آباد ہیں اور یوں جہاں پورے امبالہ اور جالندھر کے ڈویژن پنجاب سے الگ کرنے پڑیں گے وہیں سلہٹ کے علاوہ پورا آسام اور مغربی بنگال کا ایک بڑا حصہ بشمول کلکتہ پاکستان سے باہر رکھنے پڑیں گے جہاں تقریباً ۲۴ فیصد مسلمان آباد ہیں۔ اس کے علاوہ پنجاب کی تقسیم کے نتیجے میں سکھ دو حصوں میں تقسیم ہوکر رہ جائیں گے۔ وسکونٹ ایڈیسن نے کہا کہ کمیشن سمجھتا ہے کہ تقسیم شدہ برطانوی ہند میں ایک بہت اہم مسئلہ ریاستوں کے الحاق کا ہوگا۔ کمیشن نے مجوزہ پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے نشاندھی کی کہ دونوں حصوں میں 700 میل کا فاصلہ ہوگا اور یوں جنگ یا امن دونوں حالات میں مواصلات کیلئے پاکستان کو ہندوستان کا مرہونِ منت رہنا پڑے گا۔ سیکریٹری فار ڈومینین نے دارالعوام میں اعلان کیا کہ کیبنٹ مشن اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ نہ تو ایک بڑا پاکستان اور نہ ہی چھوٹا پاکستان مختلف قومیتوں کے مسائل اور مطالبات کا حل ہے۔ انہوں نے کمیشن کا یہ مؤقف بھی پیش کیا کہ آذاد ریاستیں، دفاع، مواصلات، معا شیات اور دیگر انتظامی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گا کیونکہ تمام ترقیاتی کام اور انتظامی ڈھانچہ ایک ملکی جغرافیہ کو سامنے رکھ کر بنایا گیا تھا۔ کمیشن اپنی تحقیقات اور تجزیہ کے بعد حکومت برطانیہ کو یہ مشورہ نہیں دے سکتا کہ وہ ہندوستان کو دو آزاد مملکتوں میں تقسیم کردے لہٰذا کمیشن تجویز دیتا ہے کہ مندرجہ ذیل بنیادی تبدیلیوں کے ساتھ آئین کا نفاذ کیا جائے،
۱۔ برطانوی ہند اور ریاستوں پر مشتمل ایک یونین (مرکزی حکومت) قائم کی جائے جس کے پاس خارجہ امور، دفاع اور مواصلات کے معاملات ہوں اور ان امور کو چلانے کیلئے درکار مالیات کا انتظام کرنے کے اختیارات ہوں۔
۲۔ یونین میں برطانوی ہند اور ریاستوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک انتظامیہ اورایک مقننہ ہونا چاہئے۔ مقننہ میں کسی بڑے فرقہ وارانہ مسئلے پر اٹھنے والے کسی بھی سوال پرفیصلے کے لئے دونوں بڑی جماعتوں میں سے ہر ایک کے نمائندوں کی اکثریت کی رائے کے ساتھ ساتھ وہاں موجود تمام ارکان کی اکثریت کی رائے (ووٹ) لینا ضروری ہو۔
۳۔ یونین کے معاملات سے ہٹ کر دیگر تمام اختیارات صوبوں کے پاس ہونے چاہئیں۔
۴۔ ریاستیں سوائے ان اختیارات کے جو یونین کے حوالے کئے جاچکے ہیں تمام معاملات اپنے پاس رکھیں گی۔
۵۔ صوبوں کو آزادی ہونی چاہئیے کہ وہ انتظامیہ اور مقننہ پر مشتمل گروپ بناسکیں اور ہر گروپ 277 صوبائی نکات میں سے مشترکہ نکات کا تعین کرسکے۔
۶۔ ہر صوبائی گروپ اور مرکزی حکومت کے آئین میں یہ شق شامل ہو کہ مقننہ کے ارکان کی اکثریت کی رائے پر ہر دس سال کے وقفے سے آئینی ترامیم کی تجاویز کا تعین کرسکیں۔
کمیشن نے واضح کیا کہ یہ اس کا کام نہیں کہ وہ ان تجاویز کی آئینی تفصیلات طئے کرے بلکہ وہ ایک نظام کو متحرک کرنا چاہتا ہے جس میں ہندوستان کا آئین ہندوستانی بنا سکیں۔
کمیشن نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ کسی نئے آئینی ڈھانچے کا فیصلہ کرنے کے لئے کسی بھی اسمبلی کی تشکیل میں ، پہلی خصوصیت یہ ہے کہ جتنا ممکن ہو، پوری آبادی کی نمائندگی وسیع البنیاد اور درست طریقے سے حاصل کی جائے۔ اس مقصد کیلئے سب سے اطمینان بخش طریقہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہونے والے الیکشنز ہوتے ہیں لیکن اس طریقہ کار پر جانے کیلئے ایک طویل وقت درکار ہوگا ۔ ایسی صورت میں حالیہ انتخابات میں منتخب ہونے والی صوبائی قانون ساز اسمبلیوں کو آئین سازی کیلئے ممبران کے انتخاب کا اختیار دیا جاسکتا ہے۔ مگر چونکہ ان اسمبلیوں میں اقلیتوں کی مناسب نمائندگی کے پیش نظر آبادی کے تناسب سے بننے والی نشستوں میں ردو بدل کیا گیا تھا اس لئے یہ اسمبلیاں بھی آبادی کے تناسب کے معیار پر پوری نہیں اترتیں۔ تمام صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سب سے دیانتدارانہ اور ممکن لایحہء عمل یہ ہونا چاہئیے :
کیبنٹ مشن کے تفصیلی بیان کیلئے کلک کریں
(۱) ہر صوبے کو اس کی آبادی کے تناسب سے نشستیں دی جائیں۔ بالغ رائے دہی کی نمائندگی کے قریب ترین متبادل کے طور پر تقریباً ۱۰ لاکھ کی آبادی کو ایک نشست دی جائے۔
(۲) ہر صوبہ کی کل نشستیں اس صوبہ کی قومیتوں میں انکی آبادی کے تناسب سے تقسیم کی جائیں۔
(۳) ہر قومیت کے لئے مختص نمائندوں کا انتخاب اس صوبہ کی قانون ساز اسمبلی میں اس قومیت کے ارکان کے ذریعے کیا جائے گا۔
کمیشن نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ درج بالا مقاصد کیلئے ہندوستان میں تین قومیتوں کا تعین کافی ہے جو عمومی قومیت، مسلمان قومیت اور سکھ قومیت پر مشتمل ہو۔ عمومی قومیت وہ ہوگی جو غیر مسلم اور غیر سکھ پر مشتمل ہوگی۔ چونکہ مسلمانوں اور سکھوں کے علاوہ باقی چھوٹی قومیتوں کو آبادی کے تناسب سے یا تو نمائندگی حاصل نہیں ہوپائے گی یا پھر بہت تھوڑی نمائندگی حاصل ہوگی۔ چھوٹی قومیتوں کیلئے انہوں نے اپنے پلان میں الگ انتظامات کا ذکر کیا۔
کمیشن نے تجویز پیش کی کہ صوبائی قانون ساز اسمبلیوں کے عمومی قومیت ، مسلم اور سکھ قومیت کے ارکان متناسب نمائندگی کے طریقہ کار کے تحت ایک رکن ایک ووٹ کی بنیاد پر درج ذیل تعداد میں اپنے نمائندؤں کا انتخاب کریں۔
Table of Representation
سیکشن – اے / Section-A |
|||
ٹوٹل / Total | مسلم / Muslims | عمومی / General | صوبہ /Province |
49 | 4 | 45 | مدراس /Madras |
21 | 2 | 19 | بمبئی / Bombay |
55 | 8 | 47 | یو پی / United Provinces |
36 | 5 | 31 | بہار / Bihar |
17 | 1 | 16 | سی پی / Central Provinces |
9 | 0 | 9 | اڑیسہ / Urissa |
187 | 20 | 167 | ٹوٹل / Total |
سیکشن – بی / Section-B |
||||
ٹوٹل / Total | سکھ / Sikh | مسلم / Muslims | عمومی / General | صوبہ / Province |
28 | 4 | 16 | 8 | پنجاب / Punjab |
3 | 0 | 3 | 0 | شمال مغربی سرحدی صوبہ / North West Frontier Province |
4 | 0 | 3 | 1 | سندھ / Sind |
35 | 4 | 22 | 9 | ٹوٹل / Total |
سیکشن – سی / Section-C |
|||
ٹوٹل / Total | مسلم / Muslims | عمومی / General | صوبہ / Province |
60 | 33 | 27 | بنگال / Bengal |
10 | 3 | 7 | آسام / Assam |
70 | 36 | 34 | ٹوٹل / Total |
292 | کل برطانوی ہند نشستیں / All British India Seats | ||
93 | کل ہند ریاستی نشستیں / All Indian State Seats | ||
385 | ٹوٹل / Grand Total |
Table of Populations
غیر مسلم / Non-Muslims |
مسلم / Muslims |
شمال مغربی علاقہ / North Western Area |
12,201,577 | 16,217,242 | پنجاب / Punjab |
249,270 | 2,788,797 | شمال مغربی سرحدی صوبہ / North West Frontier Province |
1,326,683 | 3,208,325 | سندھ / Sind |
62,701 | 438,930 | برطانوی بلوچستان / British Baluchistan |
13,840,231 | 22,653,294 | ٹوٹل / Total |
37۰93 | 62۰07 | فی صد / Percent |
غیر مسلم / Non-Muslims |
مسلم / Muslims |
شمال مشرقی علاقہ / North Eastern Area |
27,301,091 | 33,005,434 | بنگال / Bengal |
6,762,254 | 3,442,479 | آسام / Assam |
34,063,345 | 36,447,913 | ٹوٹل / Total |
48۰31 | 50۰69 | فی صد / Percent |
قراردادِ لاہور 23 مارچ 1940ء اور قائدِ اعظم کا صدارتی خطبہ
FB Comments: