آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں علامہ اقبال کا صدارتی خطبۂ الہٰ باد 1930ء

خطبۂ الہٰ باد 1930ء/ انگریزی اور اردو متن

 ترتیب و پیشکش: محمد مشہود قاسمی

علامہ اقبال کے خطبہ الہٰ باد کا پس منظر

Iqbal's Presidential Speech 1930
PDF- Allama Iqbal’s speech & background

۸ نومبر ۱۹۲۷ء کو برطانوی حکومت نے آئندہ آئین کیلئے تجاویز پیش کرنے والے کمیشن کا اعلان کیا۔ سر جان ایلز بروک سائمن کی سربراہی میں اعلان کئے جانے والے کمیشن میں چھ اور ارکان شامل تھے۔چونکہ کوئی ہندوستانی کمیشن میں شامل نہیں کیا گیا تھا اس لئے بڑے پیمانے پر کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ سمیت تمام جماعتوں کی طرف سے اس کی مذمت کی گئی اور کمیشن کے ساتھ تعاون نہ کرنے کے اعلانات سامنے آئے۔ علامہ اقبال نے پنجاب پراونشل مسلم لیگ کے جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے بیان جاری کیا اور کمیشن میں کسی ہندوستانی کا نہ ہونے کو ہندوستان کے وقار پر حملہ قرار دیا۔ کمیشن کے بائیکاٹ کے بارے میں علامہ صاحب نے کہا کہ مسلمانوں کی مختلف جماعتوں کو غور و فکر کے بعد کوئی متفقہ فیصلہ کرنا چاہیئے۔ پنجاب پراونشل مسلم لیگ نے سر شفیع کی قیادت میں فیصلہ کیا کہ کمیشن کے ساتھ تعاون کیا جائے۔ یہ مرکزی مسلم لیگ کے فیصلے کے برخلاف تھا۔ ابھی یہ اختلاف سامنے آیا ہی تھا کہ مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور پنجاب کی صوبائی مسلم لیگ کے درمیان لیگ کی صدارت کے معاملے پر بھی اختلافات سامنے آگئے اور دسمبر ۱۹۲۷ء کے آخر میں مسلم لیگ دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی۔ ایک گروپ کو کلکتہ گروپ یا جناح گروپ کے نام سے بلایا گیا اور دوسرے گروپ کو لاہور گروپ یا شفیع گروپ کا نام دیا جانے لگا۔

Simon Commission مئی ۱۹۲۸ء کو وہ کمیٹی تشکیل دی گئی جسے نہرو کمیٹی کا نام دیا گیا۔کانگریس کے زیرِ اثر آل پارٹیز کانفرنس کی سب کمیٹی کی سربراہی پنڈت موتی لعل نہرو کر رہے تھے جس کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ کانگریس کے مدراس میں ہونے والے اجلاس میں منظور کی گئی قراردادِ اتحاد کی بنیاد پر ہندوستان کا آئین تیار کرے۔ مقصد یہ تھا کہ برطانوی پارلیمنٹ سے اس کے نفاذ کا مطالبہ کیا جاسکے۔ نہرو رپورٹ سامنے آنے پر علامہ اقبال اس نتیجے پر مہنچے کے ”ہندوستانی پنڈتوں“ نے کوشش کی ہے کہ ہندوستان میں انگریزوں کا قایم کردہ حکومتی ڈھانچہ برقرار رہے اور اختیارات ہندو لیڈران کے ہاتھوں میں چلاجائے۔ ۲۲ دسمبر ۱۹۲۷ء سے یکم جنوری ۱۹۲۸ء تک کانگریس کے زیرِ اہتمام کلکتہ میں آل پارٹیز کنوینشن منعقد کیا گیا۔ مقصد نہرو رپورٹ کو منظور کروانا تھا۔ مسلم لیگ نے نہرو رپورٹ میں پانچ ترامیم کی تجویز دی، صرف ایک تجویز منظور کی گئی باقی مسترد کردی گئیں۔

Motilal Nehru Committee

۳۱ دسمبر ۱۹۲۸ء کو دہلی میں سر آغا خان کی صدارت میں ہندوستان کے مختلف مسلمان گروپوں کا ایک نمائندہ اجلاس منعقد کیا گیا۔ مسلم لیگ جناح گروپ نے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ اس اجلاس کو برصغیر کے مسلمانوں کے تمام اجلاسوں پر فوقیت حاصل تھی کہ تاریخی اعتبار سے ایسا اجتماع پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ اجلاس میں پندرہ قرار دادیں منظور کی گئیں، جن کی تفصیل انگریزی سیکشن میں دی جارہی ہے۔ جناح صاحب نے اگرچہ اس کانفرنس میں شرکت نہیں کی تھی تاہم انہوں نے اسے مسلمانوں کا اجتماعی فیصلہ قراردیتے ہوئے اس کی قراردادوں کو سراہااور لیگ کے دونوں گروپوں کو یکجا کرنے کی کوشش کی۔ ۳۰ مارچ ۱۹۲۹ء سے یکم اپریل تک مسلم لیگ کا اجلاس جناح صاحب کی صدارت میں دہلی میں منعقد ہؤا۔

شفیع گروپ نے شرکت نہیں کی۔ مسلم کانفرنس کی منظور کردہ قراردادوں کو سامنے رکھ کر جناح صاحب نے اپنے مشہور ۱۴ نکات پیش کئے جنہیں انہوں نے اپنے خیالات نہیں بلکہ مسلمانوں کی آرا پر مبنی خیالات کا آئینہ قرار دیا۔ جناح صاحب نے واضح کیا کہ نہرو رپورٹ ہندوستان کے تمام طبقوں کی حمایت حاصل نہیں کرسکی ہے اس لئے اسے مارچ ۱۹۲۷ء کی ”دہلی مسلم تجاویز“ کے جواب میں ہندو تجاویز سمجھنا درست ہوگا۔ جناح صاحب کے چودہ نکات کی تفصیل انگریزی سیکشن میں شامل ہے۔ کانگریس نے حکومت برطانیہ کو نہرو رپورٹ کی منظوری کیلئے ایک سال کا وقت دیا تھا۔ ۳۱ دسمبر ۱۹۲۹ء کو یہ مدت پوری ہورہی تھی۔ اس رات کانگریس نے گاندھی جی کی قرارداد سوراج منظور کی جس کا مطلب تھا برطانیہ سے کامل آزادی۔ اس قرارداد کی منظوری کے ساتھ کانگریس نے نہرو رپورٹ سے دستبرداری کا اعلان کردیا۔

۲۸ فروری ۱۹۳۰ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے اجلاس میں مسلم لیگ کے دونوں دھڑوں نے شرکت کی اور مسلم لیگ پھر سے ایک ہوگئی۔ کانگریس نے نہرو رپورٹ کو منظور نہ کئے جانے پر سول نافرمانی کی تحری شروع کردی تھی۔ مسلمانوں کی طرف سے مسلم آل پارٹیز کانفرنس نے قرارداد منظور کی کہ مسلمان اس تحریک میں حصہ نہیں لے سکتے کیونکہ یہ آزادی کی تحریک نہیں بلکہ درپردہ برطانوی حکومت سے ساز باز کی تحریک ہے اور درحقیقت کانگریس اپنی ترک شدہ نہرو رپورٹ کو ہی منظور کرانا چاہتی ہے تاکہ مسلمانوں اور دوسری اقلیت کی آواز کو دبایا جاسکے۔ ہندوستان کی مختلف جماعتوں کی طرف سے ایک لایحہ عمل سامنے نہ آنے پر حکومتِ برطانیہ نے انگلستان کی سر زمین پر گول میز کانفرنس کا اہتمام کیا تاکہ کسی متفقہ فیصلے تک پہنچا جاسکے۔ ۱۲ نومبر ۱۹۳۰ء کو لندن مین پارلیمنٹ کی شاہی گیلری میں گول میز کانفرنس کا افتتاح ہؤا۔ کانگریس کے مرکزی رہنما جیلوں میں تھے اور مدعو نہیں کئے گئے تھے۔ یہ تھا وہ سارا پس منظر جس میں ۲۹ دسمبر ۱۹۳۰ ء کو علامہ اقبال نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اکیسویں سالانہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اپنا مشہور خطبہ الہٰ باد پیش کیا۔

اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے  گویا

ہوتا  جادہ  پیما  پھر کارواں ہمارا

Sections of Allama Iqbal’s Address خطبۂ الہٰ باد کے موضوعات
1. Islam and Nationalism  اسلام اور قومیت
2. The Unity of an Indian Nation ہندوستانی قوم کا اتحاد
3. Muslim India within India ہندوستان میں مسلم ہندوستان
4. Federal States وفاقی ریاستیں
5. Federation As Understood in the Simon Report وفاق بمطابق سائمن کمیشن رپورٹ
6. Federal Scheme As Discussed in the Round Table Conference گول میز کانفرنس میں بحث کی گئی وفاقی اسکیم
7. The Problem of Defence دفاع کے مسائل
8. The Alternative متبادل
9. The Round Table Conference گول میز کانفرنس
10. The Conclusion ماحصل
   

علامہ اقبال کا خطبہ الہٰ باد

علامہ اقبال کے خطبہ الہٰ باد کے حوالے سے جتنا کچھ لکھا جاتا ہےیا باتیں کی جاتی ہیں، شاید ہی تحریکِ پاکستان کے کسی اور واقعہ سے متعلق اتنی سرگرمی ہوتی ہو۔ یہ جلسہ بڑی تگ و دو کے بعد ہو پایا تھا اور مسلمانوں میں اس جلسے کے حوالے سے جو جوش و خروش پایا جاتا تھا، اس کے برعکس جلسہ کا مقام اور انتظامات انتہائی ناموزوں تھے۔ علامہ صاحب کی تقریر انگریزی میں تھی اور عالمانہ تھی۔ تقریر کا کتابچہ تقسیم کردیا گیا تھا۔ تقریر کے متن کو سمجھنا عمومی طور پر شریکِ جلسہ کیلئے مشکل کام تھا۔

یہ کیفیت آج بھی برقرار ہے، اس خطبے کے حوالے سے لکھنے والے اور تبصرہ کرنے والے اکثر افراد آج بھی نہ اس پوری تقریر کو پڑھتے ہیں اور نہ ہی اس میں پوشیدہ کچھ اشارات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، حتیٰ کے نہایت واضح الفاظ میں کئے گئے مطالبے کی بھی من مانی تشریحات کرتے ہیں۔ بہرحال میرا یہ مقام و مرتبہ نہیں کہ میں اس پر کچھ زیادہ بات کروں۔

دریائے گنگا اور جمنا کے سنگم پہ واقع شہر الہٰ باد ہندوؤں کیلئے ایک مقدس شہر کا مقام رکھتا ہے۔ علامہ اقبال ۲۸ دسمبر ۱۹۳۰ء کی سہ پہر کو سر عبداللہ ہارون کے ہمراہ الہٰ باد پہنچے تو وہاں انکا تاریخی اسقبال ہؤا۔ خیر مقدم کرنے والوں میں مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم بھی شامل تھے۔ الہٰ باد کے شہریوں کے بقول ایسا مجمع پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ جدھر نظر اٹھتی تھی انسانوں کا سمندر امڈا نظر آتا تھا۔ وقفے وقفے سے مجمع علامہ صاحب کی تعریف و تحسین کے نعرے بلند کررہا تھا۔

علامہ اقبا ل کا خطبہ صدارت جو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں ۲۹ دسمبر ۱۹۳۰ء کو بہ مقام الہٰ آباد میں پڑھا گیا۔ اصل خطبہ انگریزی میں تھا۔ اس کا ترجمہ حسب ذیل ہے:

حضرات!
ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی فکرو عمل کی تاریخ کے انتہائی نازک لمحات میں آپ نے مجھے آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت کا اعزاز بخشا، جس کیلئے میں آپ کا بیحد ممنون ہوں۔ اس عظیم اجتماع میں ایسے اصحاب کی موجودگی میں جن کا وسیع تر سیاسی تجربہ ہے اور جن کی معاملہ فہمی کا میں بے حد احترام کرتا ہوں، کسی شک میں پڑے بغیر یہ بڑی جسارت ہوگی اگر میں کسی رہنمائی کا دعویٰ کروں، ایسے سیاسی معاملات میں جن کے فیصلوں کیلئے ہم یہاں موجود ہیں۔ میں کسی جماعت کا رہنما نہیں ہوں۔ اورنہ ہی کسی رہنما کا پیرو ہوں۔ میں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اسلام اس کے قوانین و سیاست ‘ اس کی ثقافت و تاریخ اور ادب کے مطالعے میں صرف کیا ہے ۔میرا خیال ہے کہ روح اسلامی سے مسلسل تعلق کے باعث جس کا اظہار وقت کے ساتھ ہو رہا ہے، میرے اندر اسلام کو ایک اہم عالمگیر حقیقت کی حیثیت سے دیکھنے کی بصیرت پیدا ہو گئی ہے۔

لہٰذا یہ فرض کرتے ہوئے کہ ہندوستانی مسلمان اسلامی روح کے شیدائی رہیں گے میں اس بصیرت کی روشنی میں خواہ اس کی قدر وقیمت کچھ بھی ہو آپ کے فیصلوں میں آپ کی رہنمائی کرنے کے بجائے آپ کے دل میں اس بنیادی اصول کا احساس پیدا کرنے کا معمولی سا کام انجام دوں گا جس پر میری رائے میں آپ کے فیصلوں کاعموماً انحصار ہونا چاہیے ۔

اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام کو ایک اخلاقی، مثالی نیز خاص قسم کی شائستگی کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے … اوراس اصطلاح سے میرا مطلب ایک ایسا معاشرہ ہے جس کا نظم و ضبط ایک خاص نظام قانون اور مخصوص اخلاقی نصب العین کے ماتحت عمل میں آیا ہو… اسلام ہی مسلمانان ہند کی تاریخ کا اہم ترین جزو ترکیبی رہا ہے ۔ اس نے ان بنیادی جذبات اور وفاداریوں کو پیش کیا ہے جو آہستہ آہستہ بکھرے ہوئے افراد اور گروہوں کو متحد کرتی ہیں ، اور آخر کار ان کو خود ہی ایک اخلاقی شعور رکھنے والے نمایاں افراد میں بدل دیتی ہیں۔ واقعی یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہوگی کہ ہندوستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ایک عوامی تعمیراتی قوت کی حیثیت سے اسلام نے بہترین کام کیا ہے۔۔ درحقیقت یہ کہنا کوئی مبالغہ نہیں کہ دنیا بھر میں صرف ہندوستان ہی ایسا ملک ہے جہاں اسلام ایک مردم ساز قوت کی حیثیت سے بہترین صورت میں جلوہ گر ہوا ہے۔ دوسرے ممالک کی طرح ہندوستان میں بھی اسلامی معاشرہ تقریباً پوری طرح ایک مخصوص اخلاقی نصب العین کی ثقافت سے بنا ہے۔ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلم سوسائٹی کاخمیر جس میں ایک مخصوص ہم آہنگی او ر اندرونی اتحاد پایا جاتا ہے ان قوانین اور اداروں کا رہین منت ہے جو اسلامی ثقافت سے وابستہ ہیں۔

لیکن مغرب کے سیاسی افکار نے جن خیالات کا پرچار کیا ہے ان کے باعث ہندوستان اور ہندوستان کے باہر مسلمانوں کی موجودہ نسل کا نقطہ نظر بدلتا نظر آ تاہے۔ہمارے نوجوان ان خیالات سے متاثر ہو کر یہ چاہتے ہیں کہ ان کے ملک میں بھی ایسے ہی خیالات زندہ و متحرک قوت بن جائیں، لیکن وہ ان حقائق کی طرف بنظر غائر توجہ نہیں دیتے جن کی بنا پر یورپ میں یہ صورت حال پیدا ہوئی۔ یورپ میں مسیحیت محض ایک رہبانی نظام تھا جو رفتہ رفتہ ایک وسیع کلیسائی ادارے(حکومت) میں تبدیل ہو گیا۔ لوتھر کا احتجاج دراصل اسی کلیسائی نظام حکومت کی طرف تھا۔ وہ کسی دنیاوی (لادینی) نظام کے خلاف نہ تھا۔ اس لیے اس قسم کی سیاست کا تعلق مسیحیت سے نہیں تھا اور اس نظام کے خلاف لوتھر کی بغاوت حق بجانب تھی۔ گو میرے خیال میں لوتھر کو اس امر کا احساس نہیں تھا کہ یورپ میں جو صورت حال پیدا ہو گئی تھی ا س کے پیش نظر اس کی بغاوت کا نتیجہ یہ ہو گا کہ حضرت عیسیٰ کے عالمگیرا خلاقی نظام کی جگہ متعدد اور مختلف النوع قومی نظام پیدا ہو جائیں گے جن کا حلقہ بہت محدود ہو گا۔

اسی لیے لوتھر اور روسو جیسے لوگوں کی تحریکوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ وحدت کی جگہ غیر مربوط و منتشر کثرت نے لے لی جس کی وجہ سے انسانیت کی اکائی اقوام میں تقسیم ہو گئی۔ مثلاً ہر علاقے کو ایک الگ سیاسی اکائی تصور کیا جانے لگا۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ مذہب کا تعلق صرف آخرت سے ہے تو مسیحیت کا جو حشر یورپ میں ہوا وہ قدرتی امر تھا۔ حضرت عیسیٰ کے عالمگیر اخلاقی نظام کی جگہ قومی اور سیاسی نظام کی اخلاقیات نے لے لی نتیجہ یہ ہوا کہ یورپ اس نتیجے پر پہنچنے کے لیے مجبور ہو گیا کہ مذہب ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے جس کا دنیاوی زندگی سے کوئی تعلق نہیں… لیکن اسلام انسان کی وحدت کو مادے اور روح کے تضادات میں تقسیم نہیں کرتا۔

اسلام میں خدا اورکائنات، روح اور مادہ ، کلیسا اور ریاست ایک کل کے مختلف اجزا ہیں ۔ انسان کسی نجس دنیا کا باشندہ نہیں ہے جسے کسی ایسی روحانی دنیا کی خاطر ترک کرے جو کہیں اور واقع ہو۔ اسلام کے نزدیک مادہ روح کی وہ شکل ہے جو زمان و مکاں میں ظہور پذیر ہوتا ہے ۔ غالباً مانیچین Manichaeanفکر کے زیر اثر یورپ نے روح اورمادے کی دوئی کو بلا غور و فکر کے تسلیم کر لیا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں عیسائیت کو یوروپی ریاستوں کی زندگی سے مکمل طور پر خارج کردیا گیا ہے۔ روحانی اور دنیاوی طور پر یہ علیحدگی غلطی کا نتیجہ ہے جس نے یورپی مذہبی اور سیاسی فکر کو بڑے پیمانے پر متاثر کیا ہے ۔اس کے بہترین مفکرین آج اس ابتدائی غلطی کا احساس کر رہے ہیں ، لیکن ان کے سیاست دان بالواسطہ طور پر دنیا کو یہ نظام بلا تردد قبول کرنے پر مجبور کررہے ہیں۔ اس کا نتیجہ باہمی طور پر بیمار توازنی ریاستوں کا ایک ملاپ ہے جس کے انسانی نہیں بلکہ قومی مفادات ہیں۔ اور یہ باہمی طور پر بیمار توازنی ریاستیں ، عیسائیت کے اخلاقی اور مذہبی اعتقادات کو پامال کرنے کے بعد ، آج ایک وفاقیت والے یوروپ کی ضرورت محسوس کر رہی ہیں ، یعنی ایک اتحاد کی ضرورت جو مسیحی چرچ کی تنظیم نے اصل میں انھیں دی تھی۔ یعنی اس اتحاد کی ضرورت ہے جو اصل میں عیسائی چرچ کی تنظیم نے انہیں دی تھی ، لیکن جس نے، اسے مسیح کے انسانی بھائی چارہ کےپیغام کی روشنی میں تشکیل نو کے بجائے لوتھر کے زیرِ اثر رہ کر تباہی پر آمادہ رکھا۔

دنیائے اسلام میں کسی لوتھر کا ظہور ممکن نہیں ہے اس لے کہ اسلام میں ایسا کوئی کلیسائی نظام موجود نہیں ہے جیسا کہ ا ز منہ وسطیٰ کی مسیحی دنیا میں موجود تھا۔ اور جس کے توڑنے کی ضرورت محسوس کی گئی تھی۔دنیائے اسلام میں ایک عالمگیر نظام سیاست موجود ہے جس کے بنیادی نکات وحی کا نتیجہ ہیں۔ لیکن چونکہ عرصہ دراز سے ہمارے فقہا جدید دنیا سے بے خبر رہے ہیں اس لیے اس نظام کو نئے سرے سے مرتب کر کے مستحکم کرنے کی ضرورت ہے ۔میں نہیں جانتا کہ قومیت کے تصور کا اسلامی دنیا میں ا ٓخر کار کیا حشر ہو گا۔ کیا اسلام اسے اپنے اندر جذب کر کے اس کی اس طرح قلب ماہیت کر دے گا جیسا کہ پہلے بہت سے ایسے تصورات کی کر چکا ہے جو اسلام سے مختلف تھے یا خود اسلام کے اندر کوئی زبردست تغیر رونما ہو جائے گا… اس بارے میں پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔ لیڈن (Leidon)ہالینڈ کے پروفیسر وینسنک (Wensinck)نے حال ہی میں مجھے لکھا تھا کہ: ” مجھے ایسا محسوس ہوا ہے کہ اسلام ایک ایسے بحرانی دور میں داخل ہو رہا ہے کہ جس میں مسیحیت کو داخل ہوئے ایک صدی سے زیادہ گزر چکا ہے ۔ سب سے بڑی دقت یہ ہے کہ پرانے تصورات کو ترک کر دینے کے ساتھ ساتھ مذہب کی بنیاد کو بھی کسی طرح محفوظ رکھا جائے۔ میرے لیے تو یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ اس کا نتیجہ مسیحیت کے حق میں کیا ہو گا چہ جائیکہ اسلام کے بارے میں کوئی پیش گوئی کروں‘‘۔اس وقت قومیت کے تصور نے مسلمانوں کی نگاہوں کو نسل پرستی سے آلودہ کر رکھا ہے اور یہ خیال اسلام کے انسان دوستی کے تصور میں بری طرح حائل ہو رہا ہے ممکن ہے کہ نسل پرستی کا یہ جذبہ ایسے معیارکو بڑھاوا دے جو اسلام کے معیار سے مختلف بلکہ متضاد ہوں۔

مجھے امید ہے کہ آپ مجھے ا س علمی بحث کے لیے معاف فرمائیں گے لیکن آل انڈیا مسلم لیگ کے اس جلسے کی صدارت کے لیے آپ نے ایک ایسے شخص کو منتخب کیا ہے جو اس امر سے مایوس نہیں ہے کہ اسلام اب بھی ایک ایسی قوت ہے جس میں انسان کی سوچ کو جغرافیائی حدود سے آزاد کرانے کی سکت موجود ہے… جو یہ مانتا ہے کہ مذہب افراد کے ساتھ ساتھ ریاستوں کی زندگی میں بھی انتہائی اہمیت کی حامل طاقت ہے ، اور آخر کار جو یہ مانتا ہے کہ اسلام خود ہی منزل ہے اور اس کو کسی گمراہی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ایسا شخص مجبور ہے کہ حالات کو خود اپنے ہی نقطہ نگاہ سے دیکھے۔ یہ نہ سمجھے کہ جس مسئلے کی طرف میں اشارہ کر رہا ہوں وہ محض ایک نظری مسئلہ ہے یہ ایک زندہ اور عملی مسئلہ ہے جس سے اسلام کے دستور حیات اور نظام عمل کے تار و پود متاثر ہو سکتے ہیں۔ اس مسئلے کے صحیح حل سے ہندوستان میں ایک ممتاز ثقافتی گروہ کی حیثیت سے ہمارے مستقبل پر اثر پڑ سکتا ہے۔

ہماری تاریخ میں اسلام پر ایسا سخت دور کبھی نہ آیا تھا کہ جیسا کہ آج ہے لوگوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے سماج کے بنیادی اصولوںمیں ترمیم کریں یا انہیں بالکل مسترد کر دیں۔ لیکن دوسرے تجربات کرنے سے پہلے واضح طور پر یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ ان کا نتیجہ کیا ہو گا۔میں نہیں چاہتا کہ جس انداز میں اس مسئلے کی طرف دیکھ رہا ہوں اس سے یہ خیال پیدا ہو کہ جن حضرات کی سوچ میری سوچ سے مختلف ہے میں ان سے جھگڑا کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کا یہ اجتماع مسلمانوں کا اجتماع ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ سب اسلام کے مقاصد اور ا س کی روح سے وفادار رہنے کے خواہشمند ہیں اس لیے میرا واحد مقصد یہی ہے کہ میں آپ کے سامنے صاف صاف اور دیانتداری کے ساتھ موجودہ صورت حال کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کر دوں۔میرے خیال میں صرف یہی طریقہ ہے کہ میں آپ کے سیاسی عمل کی راہوں کو اپنے عقائد کی روشنی سے منور کر سکوں گا۔

۲۔  ہندوستانی قوم کا اتحاد

سوال یہ ہے کہ اصل مسئلہ اوراس کے نتائج کیا ہیں؟ کیا مذہب صرف ایک نجی معاملہ ہے؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ اخلاقی اور سیاسی حیثیت سے اسلام کا بھی وہی حشر ہو جو یورپ میں مسیحیت کا ہو چکا ہے کیا یہ ممکن ہے کہ ہم مذہب کو ایک اخلاقی آئیڈیل کی حیثیت سے تو باقی رکھیں لیکن اس کے نظا م سیاست کو رد کر کے قومیتی سیاست کو اپنا لیں جس میں مذہبی رجحان کو کوئی کردار ادا کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ہندوستان میں یہ سوال خصوصی اہمیت کا حامل ہے ا س لیے کہ یہاں مسلمان اقلیت میں ہیں یہ دعویٰ کہ مذہب محض ایک نجی اور انفراد ی معاملہ ہے ایک یوروپین کی زبان سے تو تعجب خیز معلوم  نہیں     ہوتا ہے کیونکہ یورپ میں مسیحیت کا تصور رہبانیت کا نظام تھا۔ جس میں مادی دنیا سے منہ موڑ کر تمام تر توجہ روحانی دنیا کی طرف مرکوز کی جاتی ہے اور لازماً اس سے وہی نتیجہ نکلتا ہے جو پہلے بیان کیا گیا ہے لیکن رسول اکرمؐ کے مذہبی تجربے کی  حیثیت جیساکہ قرآن میں بتایا گیا ہے بالکل مختلف ہے یہ محض حیاتیاتی تجربہ نہیں جس کا تعلق صرف تجربہ کرنے والے کے باطن سے ہو اور اس کے گرد و پیش پر کوئی رد عمل نہ ہو۔ یہ انفرادی تجربہ ایک سماجی نظام کی تخلیق کا باعث تھا۔ اوراس کا فوری نتیجہ ایک خاص نظام سیاست کے بنیادی اصولوں کی صورت میں ظاہر ہوا۔ جن میں قانونی تصورات مضمر تھے اور جن کی  سماجی اہمیت کو محض یہ کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اس کی بنیاد وحی و الہام ہے۔

اس لیے اسلام کا مذہبی نصب العین اس معاشرتی نظام سے مربوط و منسلک ہے جو خود اسلام کا ہی پیدا کردہ ہے۔ اگر ایک کو مسترد کیا جائے گا   تو دوسرا خود بخود مسترد ہو جائے گا۔ اس لیے ایک مسلمان اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ ایسے قومی خطوط پر نظام سیاست مرتب کیا جائے جن کا مطلب یہ ہو کہ اسلام کے اصول اتحاد کی نفی ہو جائے یہی مسئلہ آج ہندوستان کے مسلمانوں کے سامنے ہے۔رینان (مشہور فرانسیسی دانشور) کا قول ہے انسان نہ نسل کی قید گوارا کر سکتا ہے نہ مذہب کی نہ دریاؤں کے بہاؤ کی نہ پہاڑی سلسلوں کی ۔صحیح الدماغ لوگوں کا گروہ جن کے دلوں میں گرمی جذبات موجود ہے ایسا اخلاقی شعور پیدا کر لیتے ہیں جسے ہم قوم کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں… اس طرح کی تشکیل بہت ممکن ہے ،اگرچہ اس میں انسان کو عملی طور پر دوبارہ  تیار کرنے اور تازہ جذباتی سازوسامان سے آراستہ کرنے کا طویل اور مشکل عمل شامل ہے۔ اگر کبیر کی تعلیمات یا اکبر کا دین الٰہی اس ملک کے عوام کے ذہنوں پر حاوی ہوجاتا تب تو یہ صورت حال ایک حقیقت بن جاتی ۔ لیکن تجربے سے معلوم ہوا ہے کہ ہندوستان کے مختلف مذاہب اور جاتیوں میں ایسا کوئی رجحان موجود نہیں ہے۔ کہ وہ اپنی انفرادیت کو ایک عظیم ہئیت اجتماعیہ میں مدغم کر نے پر تیار ہو جائیں۔ ہر گروہ اپنی الگ اجتماعی حیثیت کو قائم رکھنے پر مصر ہے۔ اس قسم کا اخلاقی شعور جو رینان کے نقطہ نظر کے مطابق قوم کی تخلیق کے جڑ اور بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسی قربانی کا طالب ہے جو ہندوستان کے لوگ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس لیے ہندوستانی قوم کا اتحاد جماعتوں کی نفی میں نہیں بلکہ ان کے باہمی اشتراک اور ہم آہنگی سے حاصل ہو سکتا  ہے۔

دراصل تدبر کا تقاضا ہے کہ حقائق کو نظر انداز نہ کیا جائے خواہ وہ کتنے ہی ناخوشگوار کیوں نہ ہوں۔ عملی راہ یہ نہیں ہے کہ ان حالات کے بارے میں معروضات قائم کر یے جائیں جو فی الواقع موجود نہیں بلکہ طریق کار یہ ہونا چاہئیے کہ حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے ان سے حتی الامکان فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے۔ ہندوستان اور ایشیا کی تقدیر کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم ان خطوط پر ہندوستان میں اتحاد و اتفاق کے حصول کی کوشش کریں۔ ہندوستان چھوٹے پیمانے پر ایشیا ہے ہندوستان کے باشندوں کا ایک حصہ مشرق میں بسنے والی اقوام کے ساتھ ثقافتی روابط رکھتا ہے اور دوسرا مغربی ایشیا اور شرق الاوسط کے ساتھ ۔ا گر ہندوستان میں اشتراک و تعاو ن کے موثر اصول کی راہ نکل آئی تو اس قدم سے ملک میں امن و آشتی پید ا ہو جائے گی۔ جو اپنے باشندوں کی کسی طبعی کمزوری کی وجہ سے نہیں بلکہ تاریخی عوامل کے باعث مصائب میں مبتلا رہا ہے ساتھ ساتھ ایشیا کے تمام سیاسی مسائل کا حل بھی ممکن ہو جائے گا۔

یہ امر نہایت تکلیف دہ ہے کہ باہمی تعاون کے حصول کی تمام کوششیں بیکار ثابت ہوئیں ۔ اس ناکامی کا سبب کیا ہے؟ شاید ہم دوسرے کی نیتوں پر شبہ کرتے ہیں اور ہم ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں۔ یا شاید باہمی تعاون کے بلند مقصد کے لیے ہم اتنا ایثار بھی نہیں کر سکتے کہ جو اجارہ داریاں حالات نے ہمارے ہاتھوں میں سونپ دی  ہیں ان سے دست بردار ہو جائیں ۔ہم اپنی انانیت کو قوم پرستی کے پردے میں چھپاتے ہیں۔ بظاہر ہم فر اخ دلی اور حب الوطنی کے دعوے دار ہیں مگر بہ باطن ہم ذات پات اور قبیلہ پرستوں کی مانند تنگ نظر ہیں۔ غالباً ہم یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ ہر گروہ کویہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی تہذیبی روایات کے مطابق ترقی کرے۔ لیکن خواہ ہماری ناکامی کے اسباب کچھ بھی ہوں میں اب بھی پر امید ہوں واقعات کارجحان داخلی ہم آنگی کی سمت میں بڑھتا ہوا نظر آتا ہے ۔ اورجہاں تک میں مسلمانوں کے ذہن کو سمجھ سکا ہوں مجھے یہ اعلان کرنے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ اگر یہ اصول تسلیم کر لیا جائے  کہ ہندوستان کے مسلمان کو اپنے ہندوستانی گھر میں اپنی ثقافت  اورروایات کے مطابق آزادانہ ترقی کرنے کا حق حاصل ہے اور مستقل اور دیرپا فرقہ وارانہ تصفیہ اسی اصول کے مطابق ہو گا تو وہ ہندوستان کی آزادی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے پر تیار ہوگا۔

یہ اصول کہ ہر گروہ اپنے عقائد کے مطابق آزادانہ ترقی کرنے کا حق رکھتا ہے تنگ نظر فرقہ پرستی کے جذبے پر مبنی نہیں ہے۔ فرقہ پرستی کی بھی بہت سی قسمیں ہیں ۔جو فرقہ دوسرے فرقوں کی بدخواہی کے جذبات رکھتا ہو اس کے نیچ اور ذلیل ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ میں دوسری قوموں کے رسوم قوانین مذہبی اور سماجی اداروں کا بے حد احترام کرتا ہوں اوریہی نہیں بلکہ قرآن کی تعلیم کے مطابق ضرورت پڑنے  پر ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت بھی میرا فرض ہے۔ اس کے باوجود مجھے اس جماعت سے محبت ہے جو میری زندگی اور طرز عمل کا سرچشمہ  ہے۔ اور جس نے مجھے اپنا مذہب اپنا ادب اپنی فکر اوراپنی ثقافت دے کر میرا اطمینان اس صورت میں کیاہے  جیسا کہ میں ہوں ۔اور اس طور پر میرے ماضی کو ا ز سر نو زندہ کر کے وہ میرے شعور کا ایک زندہ و فعال عنصر بن چکی ہے۔یہاں تک کہ نہرو رپورٹ کے مصنف بھی فرقہ واریت کے اس اعلی پہلو کی قدر کو تسلیم کرتے ہیں۔ سندھ کی علیحدگی پر بحث کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں :”یہ کہنا کہ قوم پرستی کے وسیع نقطہ نگاہ کے ماتحت کسی فرقہ وارانہ صوبے کا قیام عمل میں  نہیں ا ٓنا چاہیے ایک طرح سے اس بیان کا متراد ف ہے کہ وسیع ترین بین الاقوامی نقطہ نگاہ کے مطابق علیحدہ قوموں کا وجود بھی مناسب نہیں ۔ان دونوں بیانات میں ایک حد تک صداقت موجود ہے ۔ لیکن بین الاقوامی اصول کے بڑے سے بڑے حامی کو بھی اس بات کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ قوموں کی خود مختاری کے بغیر کسی بین الاقوامی ریاست کا وجود مشکل ہے ۔اسی طرح مکمل تمدنی آزادی کے بغیر… (اور فرقہ پرستی اعلیٰ مقام پر پہنچ کر تمدن ہی کا ایک پہلو بن جاتی ہے) ایک ہم آہنگ قوم کی تشکیل مشکل ہے‘‘۔

۳۔ ہندوستان میں مسلم ہندوستان

لہٰذا ہندوستان جیسے ملک میں ایک ہم آہنگ مستقبل کی تشکیل کے لیے ارفع واعلیٰ سطح پر فرقہ پرستی ناگریز ہے۔ یورپ کے ملکوں کی طرح ہندوستانی معاشرے کی اکائیاں علاقائی نہیں ہیں۔ ہندوستان ایک براعظم ہے جس میں مختلف نسلی گروہ مختلف زبانیں بولنے والے اور مختلف مذہب کے ماننے والے بستے ہیں۔ ان کے  اعمال و افعال میں وہ احساس موجودنہیں ہے جو ایک ہی نسل کے لوگوں میں ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ ہندو بھی کوئی واحد اورہم آہنگ جماعت نہیں ہے۔ ہندوستان پر یورپی جمہوریت کا اطلاق مذہبی فرقوں کی موجودگی کو تسلیم کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کایہ مطالبہ کہ ہندوستان کے اندر ایک مسلم ہندوستان قائم کیا جائے بالکل  حق بجانب ہے۔ میری رائے میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس (منعقدہ دہلی) کی قراردار کے پیچھے یہی بلند نصب العین کارفرما ہے کہ ایک ہم آہنگ مستقبل  کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اجزا کی انفرادیت کا گلا گھونٹنے کی بجائے انہیں اس بات کا موقع دیا جائے کہ وہ ان تمام ممکنہ قوتوں کو بروئے کار لا سکیں جو ان میں پوشیدہ ہیں اور مجھے اس بات میں شبہ نہیں ہے کہ یہ ایوان پوری شد ومد سے اس قرارداد کے مطالبات کی تائید کرے گا۔

ذاتی طور پر میں ان مطالبات سے بھی ایک قدم  آگے جانا چاہتا ہوں جو اس قرارداد میں پیش کیے گئے ہیں میری خواہش ہے کہ پنجاب ،شمال مغربی صوبہ سرحد ، سندھ اور بلوچستان کو ملا کر ایک ہی ریاست میں مدغم کر دیا جائے۔ مجھے تو ایسا نظر آتاہے کہ کم از کم ہندوستان کے شمال مغرب میں سلطنت برطانیہ کے اندر یا اس کے باہر ایک خود مختار حکومت اور شمالی مغربی متحدہ مسلم ریاست آخر کا ر مسلمانوں کا مقدر ہے۔یہ تجویز نہرو کمیٹی کے سامنے پیش کی گئی تھی مگر کمیٹی نے اس بنا پر مسترد کر دی کہ اگر اس پر عمل درآمد کیا گیا تو اتنی وسیع ریاست وجود میں آجائے گی کہ جس کا انتظام مشکل ہوگا۔ جہاں تک رقبہ کا تعلق ہے یہ بات درست ہے لیکن آبادی کے لحاظ  سےمجوزہ ریاست بعض موجودہ ہندوستانی صوبوں سے چھوٹی ہو گی۔  انبالہ ڈویژن اور ممکن ہے ایسے اضلاع کو الگ کر دینے سے جہاں غیرمسلموں کی اکثریت ہے اس کی وسعت اور بھی کم ہو جائے گی۔ مسلمانوں کی تعداد میں غلبہ ہو گا وراس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اپنی حدود کے اندر یہ متحد ہ ریاست غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت پوری قوت سے کر سکے گی ۔اس تجویز سے نہ انگریزوں کو پریشان ہونے کی ضرورت ہے  نہ ہندوؤں کو ۔ہندوستان دنیا میں سب سے بڑ ا اسلامی ملک ہے اور اسلام کو ایک تمدنی قوت کی حیثیت سے زندہ رکھنے کے لیے ضرور ی ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکز یت قائم کر سکے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے ان بیشتر جاندار طبقوں کو ایک جگہ مرکوز کرنے سے جنہوں نے برطانیہ کی ناانصافیوں کے باوجود فوج اور پولیس میں شریک ہو کر انگریزوں کی حکومت کوممکن بنایا۔ نہ صرف ہندوستان بلکہ ایشیا کا مسئلہ بھی حل ہو جائےگا ۔ اس سے ان کا احساس ذمہ داری قوی تر اور حب الوطنی کا جذبہ گہرا ہوجائے گا۔

لہذا ہندوستان کے سیاسی جمہوریہ کے اندر ترقی کے مکمل مواقع کے حامل، شمال مغربی ہندوستانی مسلمان غیر ملکی حملے کے خلاف ہندوستان کے بہترین محافظ ثابت ہوں گے۔ چاہے وہ یلغار نظریات کی ہو یا سنگینوں کی ہو۔ 56 فیصد مسلم آبادی والا پنجاب ہندوستانی فوج میں کل لڑاکا فوجیوں کا 54 فیصد سپلائی کرتا ہے ، اور اگر آزاد ریاست نیپال سے بھرتی ہونے والے 19،000 گورکھوں کو خارج کردیا جاتا ہے تو  پنجاب کی تعداد پوری ہندوستانی فوج کا 62 فیصد ہے۔اس اندزے میں وہ ۶ ہزار جنگجو شامل نہیں ہیں جو شمالی مغربی صوبہ سرحد اور بلوچستان سے بھرتی کیے جاتے ہیں۔ اس سے آپ ان تمام امکانات کا اندازہ لگا سکتے ہیں جو بیرونی حملوں کے خلاف ہندوستان کے دفاع کے سلسلے میں شمالی مغربی ہندوستان کی مسلم آبادی میں پائے جاتے ہیں۔ رائٹ آنریبل مسٹر سری نواس شاستری کا خیال ہے کہ شمال مغربی سرحد پر خود مختار مسلم ریاست کے قیام کا مطالبہ اس خواہش سے پیدا ہوا ہے کہ ضرورت پیش آئے تو حکومت ہند پر دباؤ ڈالا جا سکے۔ میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کے دل میں ایسا کوئی جذبہ موجود نہیں ہے جس کا وہ ہم پر الزام لگا رہے ہیں۔ مسلمانوں کا مقصد صرف اتنا ہے کہ وہ بھی ترقی کرسکیں جو اس قسم کی وحدانی حکومت میں ممکن نہیں ہےجس کا تصور قوم پرست ہندو سیاست دانوں کے ذہن میں ہے ۔اور جس کے تحت پورے ہندوستان میں ہندوؤں کا مقصد مذہبی غلبہ پانا ہے۔

علاوہ ازیں ہندوؤں کو اس بات کا خوف بھی نہیں ہونا چاہیے کہ خود مختار مسلم ریاستوں کے قیام سے ایک طرح کی  مذہبی حکومتوں کو وجود میں لایا جا ئے گا۔ اس سے پہلے میں یہ بتا چکا ہوں کہ اسلام میں مذہب کا مفہوم کیاہے واقعہ یہ ہے کہ اسلام میں کلیسائی نظام موجودنہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک ایسی ریاست ہے جس کا اظہار روسو سے بھی بہت پہلے معاہدہ اجتماعی کی صورت میں ہو چکا تھا۔ اس کے پیچھے ایک اخلاقی نصب العین کارفرما ہے جس کے تحت انسان کو کسی محدود علاقےکی زمین سے وابستہ نہیں سجھاجاتا بلکہ انسان ایک روحانی ہستی ہے جو ایک اجتماعی معاشرتی ترکیب کا زندہ متحرک جزو ہے او ر چند حقوق و فرائض کا برتنے والا ہے۔مسلم ریاست کے کردار کا اندازہ ٹائمز آف انڈیا کے ا س اداریے سے لگایا جا سکتاہے جو کچھ روز پہلے ہندوستانی بینکوں کی تحقیقاتی کمیٹی کے بارے میں لکھا گیا تھا۔ اخبار لکھتا ہے، ”ہندوستان میں سود کی شرح کے  متعلق قانون بنانا حکومت کا فرض تھا لیکن باوجود یہ کہ اسلام میں سود لینا صریحاً ناجائز ہے مسلم دور میں ہندوستان کی اسلامی ریاستوں نے سود پر پابندیاں عائد نہیں کیں‘‘۔

۴۔  وفاقی ریاستیں

میں ہندوستان اور اسلام کی فلاح و بہبود کے لیے ہی ایک متحدہ مسلم ریاست کے قیام کا مطالبہ کر رہاہوں۔ ہندوستان کے نقطہ نظر سے اس کا مطلب اندرونی توازن قوت کے باعث امن و سلامتی ہو گا۔ اور اسلام کے لیے یہ ایک موقع فراہم کرے گا کہ وہ ان اثرات سے آزاد ہو جائے جو عربی شہنشاہیت نے اس پر ڈال دیے تھے۔ اور اپنے قوانین اپنی تعلیم اور اپنے تمدن کو حرکت میں لا کر ان کی اصل روح اور عصر جدید کی روح سے رابطہ قائم کر سکے۔ اس طرح یہ بات واضح ہے کہ آب و ہوا ، نسل ، زبان ، مسلک اور معاشرتی نظام میں ہندوستان کی لاتعداد اقسام کے پیش نظر ، زبان ، نسل ، تاریخ ، مذہب اور معاشی مفادات کی شناخت کے اتحاد پر مبنی خود مختار ریاستوں کا قیام ہی  ہندوستان میں مستحکم آئینی ڈھانچے کو محفوظ بنانے کا ممکنہ طریقہ ہے ۔ سائمن رپورٹ میں وفاق کا جو تصور پیش کیاگیا  ہے اس کے ماتحت یہ بھی ضروری ہے کہ مرکزی قانون ساز اسمبلی کو عوام کی منتخب کردہ اسمبلی کی حیثیت سے ختم کر دیا جائے اور اسے وفاق کی ریاستوں کے نمائندوں پر مشتمل ایوان کی صورت دی جائے۔ اس کے علاوہ سائمن رپورٹ میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ موجودہ صوبوں کی تقسیم بھی تقریباً انہیں اصولوں کی بنیاد پر از سر نو ہونی چاہیے جن کا میں نے ذکر کیا ہے۔ میں اس نقطہ نظر کی د ل سے تائید کرتا ہوں بلکہ یہ تجویز پیش کرتا ہوں کہ صوبوں کی تقسیم میں دو شرطوں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ اولاً یہ تقسیم نئے دستور کے اجرا سے پہلے عمل میں آنی چاہیے ثانیاً یہ اس طرح ہونی چاہیے کہ فرقہ وارانہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے طے ہو جائے اگر صوبوں کی تقسیم مناسب طریقے سے کی گئی تو مخلو ط اور جداگانہ انتخاب کا جھگڑا ہندوستان کے آئین نزع سے خارج ہو جائے گا۔

اس بحث و تکرارکا باعث بڑی حد تک صوبوں کی موجودہ تقسیم ہے ہندو کا خیال ہے کہ جداگانہ انتخاب قوم پرستی کی سپرٹ کے خلاف ہے۔ چونکہ اس کے خیال میں قوم کا مفہوم یہ ہے کہ تمام باشندے اس طرح خلط ملط ہوجائیں کہ کوئی مذہبی گروہ اپنی انفرادیت قائم نہ رکھ سکے لیکن درحقیقت صورت حال ایسی نہیں ہے  اورنہ ہم چاہتے ہیں کہ ایسی ہو۔ ہندوستان میں مختلف نسلیں اورمذاہب موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کی اقتصادی پستی ان پر قرضوں کا بوجھ خصوصاً پنجاب میں اور صوبوں کی موجودہ تقسیم کے مطابق بعض صوبوں میں ان کی ناکافی اکثریت کو مدنظر رکھیے تو آپ پر یہ روشن ہو گا کہ وہ جداگانہ انتخاب کے لیے اس قدر مضطرب کیوں ہیں۔  ایسے ملک میں اور ایسے حالات میں علاقائی انتخابی مفادات تمام  افراد کی مناسب نمائندگی حاصل نہیں کرسکتے ہیں ، اور لازمی طوراس کا نتیجہ صرف یہ ہو گا کہ ایک گروہ کا غلبہ قائم ہو جائے گا ۔لیکن اگر صوبوں کی تقسیم اس طورپر ہوجائے کہ ہر صوبے میں کم و بیش ایسی ملتیں بستی ہوں جن میں لسانی ، نسلی،  تمدنی اور مذہبی اتحاد پایا جاتاہے تو مسلمانوں کو علاقائی حلقہ ہائے انتخاب پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔

۵۔  وفاق  بمطابق سائمن کمیشن رپورٹ

لیکن جہاں تک مرکزی وفاق کے اختیارات کا تعلق ہے ہندوستان اور انگلستان کے پنڈتوں نے جو دستور تجویز کیے ہیں ان سے اس باریک اختلاف کا پتہ چل جاتاہے جو دونوں کی نیتوں میں پایا جاتا ہے۔ ہندوستان کے پنڈت مرکزی حکومت کے موجودہ اختیارات میں ذرا بھی کمی نہیں چاہتے ان کی صرف یہ خواہش ہے کہ یہ حکومت پوری طرح مرکزی مجلس مقننہ کے سامنے جواب دہ ہو۔ جن میں ان کی اکثریت اس وقت اور بھی زیادہ طاقت ور ہو جائے گی جب ممبروں کی نامزدگی کا طریقہ ختم ہو جائے گا۔ اس کے برعکس انگلستان کے پنڈتوں نے یہ محسوس کیا ہے کہ اگر جمہوریت کا اطلاق مرکز میں کیا گیاتو یہ ان کےمفاد کے خلاف ہو گا۔ اور جمہوریت کو زیادہ ترقی ہوئی تو عین ممکن ہے کہ مرکز وہ تمام اختیارات بھی حاصل کر لے جو فی الوقت ان کے ہاتھوں میں ہیں اس لیے انہوں نے طے کیا کہ جمہوریت کا تجربہ مرکز کی بجائے صوبوں میں کیاجائے۔ بے شک وہ وفاق کے اصول کو بروئے کار لا رہے ہیں اس کے متعلق تجاویز پیش کر کے بظاہر آغاز کار کر رہے ہیں پھر بھی ان کے اس اصول کی تشخیص کا اندازہ ان خیالات سے کیا جاتا ہے جو مسلم ہندوستان کی نظر میں اس کی اہمیت کا تعین کرتے ہیں۔ مسلمان وفاقی حکومت کا مطالبہ اس لیے کرتے ہیں کہ یہ خاص طور پر ہندوستان کے سب سے مشکل مسٔلے یعنی فرقہ وارانہ مسٔلے کا حل ہے۔ لیکن وفاقی حکومت کے متعلق شاہی کمیشن کا نقطہ نظر گو اصولاً درست ہے لیکن اس کا مقصد وفاق کی ریاستوں میں خودمختار حکومتوں کا قیا م نہیں ہے۔حقیقت میں یہ اس صورتحال سے فرار کا ذریعہ فراہم کرنے سے آگے نہیں بڑھتا ہے جو ہندوستان میں جمہوریت کے تعارف نے انگریزوں کے لئے پیدا کیا ہے اور فرقہ وارانہ مسئلے کو مکمل طور پر نظر انداز کرکے جہاں تہاں چھوڑ دیا ہے۔

ا س سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جہاں تک حقیقی وفاق کا تعلق ہے سائمن کمیشن نے وفاق کے اصل اصول کی درحقیقت نفی کر دی ہے۔ نہرو رپورٹ (بنانے والوں)نے یہ بھانپ لیا  کہ اس طرح پورے ہندوستان پر ہندوؤں کا غلبہ ممکن ہوجائے گا۔ سائمن رپورٹ ایک غیر حقیقی وفاق کے باریک پردے کے پیچھے موجودہ برطانوی اقتدار کو قائم رکھنا چاہتی ہے۔ اس کی وجہ کچھ تو یہ ہے کہ قدرتی طور پر برطانیہ ا س اقتدار کو ہاتھ سے نہیں دینا چاہتا جو اب تک اسے حاصل رہا ہے۔ اور کچھ اس لیئےکہ اگر فرقہ وارانہ مسئلے کا فیصلہ نہ ہوا تو پھر اقتدار مستقل اپنے قبضے میں رکھنے کا برطانیہ کو اچھا بہانہ مل جائے گا۔میں ایک آزاد ہندوستان میں وحدانی طرز حکومت کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ جن اختیارات کو فاضل اختیاراتresiduary powers   کہا جاتا ہے            وہ تو یقینا خود مختار ریاستوں کو ملنے چاہیئں۔ مرکزی وفاقی حکومت کے ہاتھ میں صرف وہ اختیارات ہونے چاہئیں جو وفاق کی ریاستیں واضح طور پر اپنی مرضی سے اس کے سپرد کر دیں میں ہندوستان کے مسلمانوں کو کبھی  یہ مشورہ نہیں دوں گا کہ وہ کسی ایسے نظام حکومت پر راضی ہوں خواہ وہ برطانیہ سے آئے یا ہندوستان میں وضع ہو جو حقیقی وفاق کے اصول کی نفی کر دے اور ان کی جداگانہ سیاسی حیثیت کو تسلیم  نہ کرے۔

۶۔ گول میز کانفرنس میں بحث کی گئی وفاقی اسکیم

مرکزی نظام حکومت میں تبدیلی کی ضرورت کو اس سے بہت پہلے محسوس کر لیا گیا تھا جب برطانیہ نے ردوبدل کے لیے یہ موثر ذریعہ دریافت کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آخر کار یہ اعلان کیا گیا تھا کہ گول میز کانفرنس میں ہندوستانی والیان ریاست کی شرکت بہت ضروری ہے۔ ہندوستان کے لوگوں بالخصوص اقلیتوں کو اس سے بات سے بڑی حیرت ہوئی کہ والیان ریاست نے گول میز کانفرنس میں ڈرامائی طور پر یہ اعلا ن کر دیا کہ وہ کل ہند وفاق میں شامل ہونے کو تیار ہیں۔ ان کے اس اعلان کے بعد ہندو مندوبین نے جو اب تک وحدانی طرز حکومت کے پرزورتائید کنندہ تھے چپکے سے وفاق کی سکیم کو منظور کر لیا۔ حتیٰ کہ مسٹر شاستری جنہوں نے حال ہی میں سرجان سائمن پر اس لیے سخت نکتہ چینی کی تھی کہ انہوں نے ہندوستان کے لیے وفاقی طرزِ حکومت کی سکیم کی سفارش کیوں کی اب وہ بھی دفعتاً وفاق کا کلمہ پڑھنے لگے۔ اور کانفرنس کے بھرے اجلاس میں انہوں نے اس کا اعلان بھی کر دیا اور اس طرح برطانوی وزیر اعظم کو انہوں نے موقع فراہم کیا کہ وہ اپنی آخری تقریر میں ایک نہایت برجستہ جملہ چست کریں۔ یہ تمام باتیں برطانیہ کے لیے بھی ایک خاص مفہوم رکھتی ہیں جو وفاق میں والیان ریاست کی شرکت کے خواہاں تھے اور ہندوؤں کے لیے بھی جنہوں نے بلا تامل کل ہندو وفاق کے قیام کومنظور کر لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ وفاق کی سکیم میں ہندوستانی والیان ریاست کی شرکت سے جن میں سے صرف چند ہی مسلمان ہیں دو مقصد حاصل ہوتے ہیں ۔ ایک طرف تو اہم ترین مقصد ہے کہ ہندوستان میں برطانوی اقتدار تقریباً اسی طرح قائم رہے گا جیسے اب ہے اوردوسری طرف کل ہند وفاقی اسمبلی میں اس کے ذریعے ہندوؤں کو بے انتہا اکثریت حاصل ہو جائے گی۔

       مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت کی آخری شکل کے بارے میں ہندوؤں اور مسلمانوںمیں جو اختلاف رائے پایا جاتا ہے انگریز والیان ریاست کے ذریعے نہایت چالاکی کے ساتھ اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور خود والیان ریاست کو اس سکیم میں اپنی آمرانہ حکومت کاتحفظ نظر آیا ہے۔ اگر مسلمانوں نے خاموشی کے ساتھ ا س قسم کی سکیم کو منظور کر لیا تو ہندوستان میں ان کا سیاسی وجود بہت جلد ختم ہو جائے گا۔ اس طرح ہندوستانی وفاق کی پالیسی میں والیان ریاست کا غلبہ ہو گا جن کی تعداد وفاقی اسمبلی میں بڑی ہو گی۔ برطانوی سامراج کے مفاد کے معاملات میں وہ ہمیشہ تاج برطانیہ کا ساتھ دیں گے اور جہاں تک ملک کے داخلی نظم و نسق کا تعلق ہے وہ ہندوؤں کے تسلط و اقتدار کو قائم رکھنے اور مضبوط کرنے میں مدد یں گے۔ دوسرے الفاظ میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسکیم ہندو ہندوستان اور برطانوی سامراج کے درمیان ایک قسم کی مفاہمت ہے ۔ یعنی یہ کہ اگر تم ہندوستان میں میری موجودگی کو مستقل کردو تومیں اس کے بدلے میں ایسی ہندو حکومت قائم کرنے دو ں گا جو دوسرے ہندوستانی فرقوں پر دوامی تسلط رکھے گی ۔ اس لیے اگر برطانوی ہندوستان کے صوبوں کو حقیقی خودمختار ریاستوں میں تبدیل نہ کیا گیا تو وفاق میں والیان ریاست کی شرکت کا مطلب صرف یہی لیا جا سکتا ہے  کہ برطانوی سیاست دانوں نے نہایت چابکدستی سے اپنے اختیارات سے دست بردار ہوئے بغیر تمام جماعتوں کو بہلانے کی کوشش کی ہے… مسلمانو ں کو لفظ ’’وفاق‘‘ سے،   ہندوؤں کو مرکز میں میں اکثریت دے کر اور برطانوی سامراجیت کو خواہ وہ ٹوری پارٹی کے ہو ں یا لیبر کے حقیقی اختیارات کی قوت کے ذریعے۔

ہندوستان میں ہندو ریاستوں کی تعداد مسلم ریاستوں سے کہیں زیادہ ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلمانوں کا یہ مطالبہ کہ انہیں مرکزی وفاقی اسمبلی میں ۳۳ فیصد نشستیں حاصل ہوں ایسے ایوان یا ایوانات میں کیونکر پورا کیا جائے گا  جو دیسی ریاستوں اور برطانوی ہندوستان دونوں کے نمائندوں پر مشتمل ہوں گے۔ مجھے امید ہے کہ مسلمان مندوبین وفاقی سکیم کے مفہوم کو جس پر گول میز کانفرنس میں بحث ہوئی تھی خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ابھی مجوزہ کل وفاق میں مسلمانوں کی نیابت کے سوال پر بحث ہونی باقی ہے۔ رائٹر کی ایک مختصر اطلاع میں بتایا گیا ہے کہ عبوری رپورٹ کے مطابق دو ایوان تجویز کیے گئے ہیں۔ ان دونوں میں برطانوی اور ہندو دیسی ریاستوں کے نمائندے شریک ہوں گے لیکن ان کی تعداد کے تناسب پر بعد میں غور کیا جائے گا۔ اور ان عنوانات کے ذیل میں شمار کیا جائے گا جنہیں ابھی تک سب کمیٹی کے ذمے نہیں کیا گیا۔ میری رائے میں تناسب کا سوال نہایت اہم ہے اور اسمبلی کی ہئیت ترکیبی پر بحث کے ساتھ ساتھ ہی اس موضوع پر بھی بحث ہونی چاہیے تھی۔

میرے خیال میں سب سے بہتر طریقہ یہ تھا کہ ابتدا  برطانوی ہند کے وفاق سے کی جاتی۔ جمہوریت اور استعمار کے مابین ایک ناپاک اتحاد کی وجہ سے پیدا ہونے والی ایک وفاقی اسکیم برٹش ہند کو مرکز میں وحدانی  حکومت کے اسی شیطانی دائرے میں رکھ سکتی ہے۔ اس قسم کا وحدانی طرزِ حکومت  خود برطانیہ، ہندوستان کی اکثریتی قوم اور والیانِ ریاست کیلئے سود مند ہوسکتا ہے لیکن مسلمانوں کے لیے بے فائد ہ ہے، جب تک کہ انہیں گیارہ میں سے پانچ ہندوستانی صوبوں میں اکثریتی حقوق اور پورے پورے فاضل حقوق اور مرکزی وفاقی اسمبلی میں ایک تہائی نشستیں حاصل نہ ہو جائیں ۔ جہاں تک برطانوی ہند کے صوبوں میں خود مختارانہ حقوق کے حصول کا تعلق ہے ہز ہائی نس والی بھوپال سر اکبر حیدری اور مسٹر جناح کا رویہ بالکل حق بجانب ہے  چونکہ اب والیان ریاست بھی وفاق میں شامل ہو رہے ہیں ہمیں چاہیے کہ برطانوی ہند کی اسمبلی میں نیابت کے سوال کو اس نئی روشنی میں دیکھیں۔ اب یہ سوال محض برطانوی ہند کی اسمبلی میں مسلمانوں کی شرکت کا نہیں رہا بلکہ یہ مسئلہ کل ہند وفاقی اسمبلی میں برطانوی ہند کے مسلمانوں کی نیابت سے متعلق ہے۔ اب ہمارا مطالبہ یہ ہونا چاہیے کہ کل ہند و فاقی اسمبلی میں ہمیں ۳۳ فی صد نشستیں حاصل ہوں اور یہ نشستیں وفاق میں شامل ہونے والی مسلم ریاستوں کے علاوہ ہوں گی۔

۷   ۔  دفاع کے مسائل

 ہندوستان میں وفاقی نظام کی کامیابی کے سلسلے میں دوسرا مشکل مسئلہ ہندوستان کے دفاع کا مسئلہ ہے۔ شاہی کمیشن نے ہندوستان کی تمام تر کمزوریوں کا ذکر کیا ہے تاکہ فوج کے نظم و نسق کو برطانوی سامراجی انتظامیہ کے ہاتھ میں سونپنے کا جواز پیدا کیا جا ئے ۔کمشنرزنے کہا ہے کہ: ” ہندوستان اور برطانیہ کا تعلق اس قسم کا ہے کہ ہندوستان کے دفاع کا مسئلہ نہ اس وقت اور نہ مستقبل قریب میں محض ہندوستانی مسئلہ تصور کیا جا سکتا ہے ۔ فوج کے نظم و نسق پر لازماً سلطنت برطانیہ کے ایجنٹوں کا کنٹرول ہونا چاہیے‘‘۔ کیا اس کا لازمی نتیجہ یہ نہیں ہے کہ جب تک برطانوی افسروں اور سپاسوں کی مدد کے بغیر دفاع کے معاملات سے نپٹنے کی صلاحیت پیدا نہ ہو جائے ،  برطانوی ہند کے لیے ذمہ دارانہ حکومت کا راستہ بند رہے گا۔  موجودہ صورت یہ ہے کہ آئینی ترقی کی راہ میں رکاوٹ کھڑی ہوئی ہے۔ نہرو رپورٹ میں اس رویے کا اظہار کیا گیا ہے۔ کہ آئندہ جو بھی تبدیلی ہو گی اس میں فوج کا نظم و نسق ایک منتخب شدہ اسمبلی کے اختیار میں رہے گا۔ اگر یہی رویہ قائم رہتا ہے  تو اس بات کی تمام امیدیں نامعلوم مدت تک کے لیے خطرے میں پڑ جائیں گی کہ مرکزی حکومت بہ تدریج اس آخری منزل کی طرف ترقی کرے جو ۲۰ اگست ۱۹۱۷ء کے اعلان میں تجویز کی گئی تھی۔ اپنی دلیل کو مزید مستحکم بنانے کے لیے وہ ممبران کمیشن اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مختلف مذاہب اور متضاد نسلوں میں جن کی صلاحیتیں جداگانہ قسم کی ہیں مقابلے کی دوڑ ہو رہی ہے۔ اور یہ کہہ کر مسئلے کو ناقابل حل بنانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہندوستان کے جنگجو نسلی گروہوں اور بقیہ لوگوں کے درمیان جو فرق ہے اس سے خصوصاً یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ہندوستانی مروجہ اصطلاح اور قدرتی سوچ کے مطابق ایک قو م نہیں ہو سکتے۔ مسئلے کے ان پہلوؤں پر زور دینے کا مقصد یہ ہے کہ برطانیہ نہ صرف بیرونی خطرات سے ہندوستان کا بچاؤکر سکتا ہے بلکہ اس کے داخلی امن و امان کے لیے بھی وہ ایک غیر جانبدار محافظ بنا رہے۔

بہرکیف وفاق کا جو تصور میرے ذہن میں ہے اس کے مطابق وفاق ہندوستان میں مسئلے کا ایک پہلو باقی رہ جائے گا ، یعنی خارجی حملوں سے ہندوستان کا تحفظ۔ صوبائی فوجوں کے علاوہ جو بہرحال اندرونی امن قائم رکھنے کے لیے ضروری ہیں ہندوستانی وفاقی کانگریس شمالی مغربی سرحد پر ایک طاقت ور سرحدی فوج  تعینات کر سکتی ہے جس میں ہر صوبے کے سپاہی شامل ہوں گے،  اور جس کی قیادت ہر فرقے کے لائق و تجربہ کار افسر کریں گے۔مجھے معلوم ہے کہ ہندوستان کے پاس لائق فوجی افسر نہیں ہیں اور اسی عذر کو شاہی کمشنرز دولت برطانیہ کے ہاتھوں میں فوجی نظم و نسق سپرد کرنے کے لیے بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔ لیکن میں اسی رپورٹ کا ایک اور اقتباس پیش کیے بغیر نہیں رہ سکتا جو میرے خیال میں کمشنرز کے دعوے کے خلاف بہترین دلیل ہے رپورٹ میں کہا گیا ہے، ”اس وقت کوئی ہندوستانی جسے بادشاہ کی طرف سے فوجی کمیشن ملا ہے کپتان سے زیادہ اونچے عہدے پر فائز نہیں ہے۔ ہمارے خیال میں کپتانوں کی کل تعداد ۳۹ ہے جن میں سے ۲۵ غیر معمولی رجمنٹوں میں تعینات ہیں۔ ان میں سے بعض کی عمر اتنی زیادہ ہے کہ اگر وہ پنشن ملنے  سے پہلے ضروری امتحانات پاس بھی کر لیں تو بہت زیادہ اونچے عہدے حاصل نہیں کر سکتے۔ ان میں سے اکثر سینڈھر سٹ نہیں گئے انہیں جنگ عظیم کے دوران کمیشن دیے گئے تھے‘‘۔ اب یہ خواہش کتنی ہی سچی اور صورت حال میں تغیر کی کوشش کتنی ہی مخلصانہ کیوںنہ ہو اسکین کمیٹی  Skeen Committee نے جس کے تمام اراکین سوائے  چئر مین اور فوجی محکمے کے سیکرٹری کے ہندوستانی تھے نہایت پر زور اور موثر الفاظ میں ان خیالات کا اظہار کیا ہے، 

 ” ترقی کا انحصار اس شرط پر ہے کہ ہرمرحلے پر کامیابی حاصل کی جائے اور جنگی لیاقت کو قائم رکھا جائے گو یہ صورت بہرحال تدریجی اورسست رفتار ہو گی۔ ہندوستان کے موجودہ افسروں میں سے جو جونئیر عہدوں پر ہیں اور محدود تجربہ رکھتے ہیں تھوڑے سے عرصے میں اعلیٰ کمان پیدا نہیں کی جا سکتی۔ اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہو گا جب تک افسری کے ہندوستانی امیدواروں کی موجودہ مختصر سی تعداد میں اضافہ نہ ہو جائے… اور ہم اس اضافے کے دل سے خواہش مند ہیں… اور جب تک کافی تعداد میں ہندوستانیوں کو افسری کے لائق تجربہ و تربیت حاصل نہ ہوجائے… فوجی نظم و نسق ہندوستانیوں کے ہاتھ میں دینے کی پالیسی کو اس نقطہ انتہا تک پہنچنے کے لیے جب کہ پوری فوج ہندوستانی ہو جائے آگے نہیں لے جایا جا سکتا جب تک کہ کچھ ہندوستانی رجمنٹوں کو ان آزمائشوں سے گزرنے کا موقع نہ ملے۔ جس سے ان کی لیاقت کا اندازہ ہو سکے اور جب تک ہندوستانی افسر کامیاب فوجی ملازمت کے بعد اعلیٰ کمان حاصل کرنے کے قابل نہ ہوجائیں یہ صورت پیدا نہیں ہو سکتی اور ان تمام باتوں کے باوجود بھی مکمل ہندوستانی فوج کے معرض وجود میں آنے میں برسوں لگیں گے۔“

اب میں اس سوال کی جرات کرتا ہوں کہ اس صورت حال کا ذمہ دار کون ہے کیااس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری جنگجو قوموں میں کوئی فطری کمزوری ہے، یا اس کی وجہ یہ ہے کہ فوجی تربیت کی رفتار سست ہے۔ ہماری جنگجو قوموں کی فوجی صلاحیتوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ فوجی تربیت کی رفتار دوسرے  قسام کی تربیتوں کے مقابلے میں سست ہو سکتی ہے۔ میں ا س مسئلے کا فیصلہ کرنے کے یے عسکری ماہر نہیں ہوں۔ لیکن ایک عام آدمی کی حیثیت سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس دلیل کو جس انداز سے پیش کیا گیا ہے اس سے مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ لامتناہی ہو گا۔ اس کا مطلب ہندوستان کی مستقل غلامی ہو گا۔ لہٰذا یہ اور بھی ضروری ہے کہ نہرو رپورٹ کی تجویز کے مطابق سرحدی فوج کا نظم و نسق ایک دفاعی کمیٹی کے سپرد کر دیا جائے جس کے ارکان کے ناموں کا فیصلہ باہمی تصفیہ کے مطابق کیا جائے۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ سائمن رپورٹ نے ہندوستان کی بری سرحدوں کو تو غیر معمولی اہمیت دی ہے لیکن بحری پوزیشن کی طرف محض سرسری اشارہ کیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ہندوستان کو ہمیشہ بری سرحدوں کی طرف سے آنے والے حملوں کا مقابلہ کرنا پڑا ہے۔ لیکن یہ بھی ظاہر ہے کہ اس کے موجودہ آقاؤں نے اس ملک پر اس سبب سے قبضہ کر لیا ہےکہ اس کے ساحل غیر محفوظ تھے۔ فی زمانہ ایک خود مختار اور آزاد ہندوستان کو بری سرحدوں سے زیادہ اپنے ساحلوں کی حفاظت ضروری ہو گی۔

مجھے اس بات میں شبہ نہیں ہے کہ مسلم وفاقی ریاستیں اگر قائم ہو گئیں تو ہندوستان کے دفاع کی خاطر وہ غیر جانبدار ہندوستانی بری اور بحری افواج کے قیام پر خوشی سے راضی ہو جائیں گی مغلوں کے دور حکومت میں ہندوستان کی حفاظت کے لیے اس قسم کی غیر جانبدارانہ فوج ایک  حقیقت تھی۔ بلکہ اکبر کے زمانے میں ہندوستانی سرحدوں کی حفاظت ایسی فوج کرتی تھی ، جس میں افسر ہندو جرنیل تھے۔ مجھے اس بات کا  بھی پکا یقین ہے کہ وفاقی ہند کی بنیاد پر  غیر جانبدار فوج کے قیام کی صورت میں  مسلم وفاداری کے جذبات کو فروغ حاصل ہوگا اور یہ خدشات نہیں رہیں گے کہ  کچھ ہندوستانی مسلمان سرحد پار سے آنے والے مسلمان حملہ آوروں کے ساتھ مل جائیں گے ۔  بلکہ اس قسم کی بدگمانی ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائے گی۔

۸ ۔  متبادل

 میں نے مختصراً اس طریق کار کی طرف اشارہ کر دیا ہے جس کی روشنی میں میری رائے میں مسلمانان ہندکو ہندوستان کے دو اہم ترین مسائل کو دیکھنا چاہیے۔ مسلمانان ہند کا اہم ترین مطالبہ یہ ہے کہ فرقہ وارانہ مسئلہ  کا مستقل تصفیہ کرنے کے لیے برطانوی ہند کے صوبوں کی از سر نو تشکیل کی جائے۔ لیکن اگر فرقہ وارانہ مسئلے کا علاقائی حل نظر اندازکیا جاتا ہے تو پھر میں نہایت شد ومد سے مسلمانوں کے ان مطالبات کی تائید کروں گا جن پر آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا مسلم کانفرنس نے بار بار زور دیا ہے ہندوستان کے مسلمان کبھی ایسی آئینی تبدیلی پر راضی نہیں ہوں گے جس سے پنجاب اور بنگال میں ان کے اکثریتی حقوق پر اثر پڑے جو جداگانہ انتخابات کے ذریعے حاصل کیے جائیں گے یا مرکزی اسمبلی میں ا ن کی ۳۳فی صد نمائندگی کی ضمانت نہ دی جائے گی۔

 مسلمان سیاسی لیڈر دو گڑھوں میں گر چکے ہیں۔ پہلا گڑھا مسترد شدہ میثاق لکھنو تھا جو ہندوستانی قومیت کے غلط تصو ر کی پیداوار تھا۔ اس سے مسلمان ہندوستان میں سیاسی اقتدار حاصل کرنے کے تمام مواقع سے محروم ہو گئے ۔دوسرا گڑھا  پنجاب کے نا م نہاد دیہاتی باشندوں کے مفاد کے بہانے سے اسلامی اتحاد کی ناعاقبت اندیشانہ قربانی تھی۔ اس کا نتیجہ ایک ایسی تجویز میں ظاہر ہوا جس نے مسلمانان پنجاب کو اقلیت میں تبدیل کر دیا ہے۔ لیگ کا فرض ہے کہ وہ میثاق اور تجویز دونوں کی مذمت کرے۔

سائمن رپورٹ نے مسلمانوں کے ساتھ بہت ناانصافی کی ہے۔ اس لیے کہ  اس میں پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کی آئینی اکثریت کی سفارش نہیں کی گئی ۔ اس طرح یا تو مسلمان میثاق لکھنو کے پابند رہیں گے یا مخلوط انتخاب کی سکیم کو اختیار کریں گے۔ سائمن رپورٹ کے متعلق حکومت ہند کے مراسلے میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ جب سے یہ دستاویز شائع ہوئی ہے مسلم قوم رپورٹ کی دونوں تجاویز میں سے کسی ایک کو بھی پسند کرنے پر راضی نہیں ہوئی۔ مراسلے میں تسلیم کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کی یہ شکایت بجا ہو سکتی ہے کہ پنجاب اور بنگال کی کونسلوں میں آبادی کے تناسب سے ان کی نمائندگی کا حق محض اس لیے چھین لیا گیا ہے کہ دوسرے صوبوں میں مسلم اقلیتوں کو مزید نمائندگی یا پاسنگ Weightage کا حق دے دیا گیا ہے۔ لیکن حکومت ہند کے مراسلے میں سائمن رپورٹ کی اس ناانصافی کی تلافی کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ جہاں تک پنجاب کا تعلق ہے…اور اہم نکتہ ہے… رپورٹ اس محتاط و متوازن اسکیم کی تائید کرتی ہے جو پنجاب کی حکومت کے سرکاری ممبروں نے تیار کی ہے۔ اور جس کے مطابق مسلمانان پنجاب کو ہندوؤں اور سکھوں پر دو فیصد اکثریت حاصل ہو گی اور پورے ایوان میں ان کا تناسب۴۹ فیصد ہوگا۔ ظاہر ہے کہ پنجاب کے مسلمان پورے ایوان میں قطعی اکثریت سے کم پر مطمئن نہیں ہوں گے۔ بہرحال لارڈ ارون اور ان کی حکومت نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اقلیتی فرقوں کے لیے فرقہ وارانہ حلقہ ہائے انتخاب کا جواز اس وقت تک ختم نہیں ہو گا جب تک رائے دہندگی کا حق اتنا وسیع نہ ہو جائے کہ ووٹوں کی طاقت سے ان کی کل آبادی کی رائے کا صحیح اظہار ہو سکے۔ اور جب تک صوبائی کونسلوں کے مسلمان ممبر دو تہائی کی اکثریت سے بالاتفاق جداگانہ انتخاب سے دست بردار ہونے کو تیار نہ ہوجائیں لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ مسلمانوں کی شکایت کو بجا سمجھنے کے باوجود حکومت ہند کو یہ جرات کیوں نہ ہوئی کہ پنجاب اور بنگال میں وہ مسلمانوں کیلئے  آئینی اکثریت کی سفارش کرتی۔

نہ ہی ہندوستان کے مسلمان ایسی کسی تبدیلی سے اتفاق کرسکتے ہیں جو کم از کم سندھ کو ایک علیحدہ صوبہ بنانے میں ناکام ہوجائے اور شمال مغربی سرحدی صوبے کو کمتر سیاسی حیثیت کا صوبہ سمجھے۔میرے خیال میں کوئی وجہ نہیں کہ سندھ و بلوچستان کو ملا کرکیوں نہ الگ صوبہ بنا دیا جائے۔ سندھ اور بمبئی پریذیڈنسی میں کوئی چیز مشترک نہیں ہے۔ شاہی کمیشن کی رائے میں زندگی اور تمدن کے لحاظ سے سندھ ہندوستان کے مقابلے میں میسوپوٹامیا (عراق) اور عرب  سے زیادہ ملتا جلتا ہے۔ یہی مشابہت دیکھ کر عرصہ ہوا کہ مسلمان جغرافیہ داں مسعودی نے لکھا تھا، ”سندھ ایسا ملک ہے جو بلاد اسلامیہ سے قربت رکھتا ہے‘‘۔مصر کے متعلق پہلے اموی خلیفہ نے کہا تھا کہ مصر کی پشت افریقہ کی جانب اور چہرہ عرب کی جانب ہے۔ مناسب رد و بدل کے بعد یہی قول سند ھ کی صحیح پوزیشن کے متعلق بھی دہرایا جا سکتا ہے کہ اس کی پشت ہندوستان کی طرف اور چہرہ وسط ایشیا کی جانب ہے۔ علاوہ ازیں اگر سندھ کے زراعتی مسائل کو مدنظر رکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ بمبئی کی حکومت کو اس سے کوئی ہمدردی نہیں ہے اور اس کے لامحدود تجارتی امکانات کو دیکھتے ہوئے جن کا انحصار اس بات پر ہے کہ کراچی ایک دن لازماً ہندوستان کا دوسرا دارالسلطنت ہو گا تو میرے خیا ل میں یہ مصلحت کے خلاف ہے کہ ایک ایسی پریذیڈنسی سے اس کا الحاق ہو جس کا رویہ آج بے شک دوستانہ ہے لیکن جو تھوڑے ہی عرصے کے بعد حریفانہ ہو جائے گا۔ ہم سے کہا جاتا ہے کہ بمبئی سے سندھ کی علیحدگی کے راستے میں کوئی مالی مشکلا ت حائل ہیں۔ اس موضوع پر میں نے کوئی مستند بیان نہیں دیکھا۔ لیکن یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ ایسی مشکلات موجود ہیں کوئی وجہ نہیں ہے کہ حکومت ہند ایک ایسے صوبے کو جس کا مستقبل امید افزا ہے اس کی آزادانہ ترقی کی جدوجہد کے لیے مالی امداد کیوں نہیں دے سکتی ۔

جہاں تک شمال مغربی سرحدی صوبے کا تعلق ہے یہ امر تکلیف دہ ہے کہ شاہی کمیشن نے اس صوبے کے باشندوں کو اصلاحات کا حق دیا ہی نہیں… اس کی سفارشات برے Brayکمیٹی کی سفارشات سے بھی پیچھے ہیں اور محض چیف کمشنر کی مطلق العنانی پر پردہ ڈالنے کا ذریعہ ہوں گی۔ افغانوں سے سگریٹ جلانے کا پیدائشی حق محض اس لیے چھین لیا گیا کہ وہ بار ودخانےمیں رہتے ہیں۔ شاہی کمشنروں کی یہ استعارو ں والی دلیل کتنی ہی پرلطف کیوں نہ ہو لیکن یہ تشفی بخش نہیں ہے۔ سیاسی اصلاح آگ نہیں روشنی ہے ۔ اور ہر شخص جو خواہ وہ بارود خانے میں رہتا ہو یا کوئلے کی کانوں میں، اسے روشنی حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔ افغان بہادر اور ذہین ہیں اور اپنے جائزمقاصد کے لیے وہ تکلیفیں اٹھانا بھی جانتے ہیں ، اس لیے اگر ان کی ترقی کے مواقع میں رکاوٹ ڈالی گئی تو وہ یقینا ناراض ہوں گے۔  ایسے لوگوں کو راضی رکھنا ہندوستان اور انگلستان دونوں کے حق میں بہتر ہو گا۔ حال ہی میں اس بدقسمت صوبے میں جو کچھ ہوا ہے ا س کا باعث یہاں کے باشندوں کے ساتھ سوتیلی ماں کا سادہ سلوک ہے جو بقیہ ہندوستان میں حکومت خود اختیار ی کے اصول کونافذ کرنے کے بعد شروع ہوا۔ مجھے امید ہے کہ برطانوی مدبرین اس صورت حال سے آنکھیں بند کر کے اس کو اس فریب میں مبتلا نہ ہونے دیں گے کہ صوبے میں جو بے چینی پیدا ہوئی ہے۔ وہ خارجی اثرات کا نتیجہ ہے۔

حکومت ہند کے مراسلے میں شمالی مغربی صوبہ سرحد کے لے جن چند اصلاحات کے نفاذ کی سفارش کی گئی ہے وہ بھی اطمینان بخش نہیں ہے۔ بے شک یہ مراسلہ سائمن کمیشن سے ایک قدم آگے ہے چونکہ اس میں ایک طرح کی نمائندہ کونسل اور ایک نیم منتخب کابینہ کی سفارش کی گئی ہے۔ لیکن حکومت کے مراسلے میں اس اہم مسلم صوبے کو دوسرے ہندوستانی صوبوں کے برابر درجہ نہیں دیا گیا۔ گو واقعہ یہ ہے کہ افغان فطری طور پر ہندوستان کے دوسرے لوگوں کے مقابلے میں جمہوری اداروں کو برتنے کے زیادہ اہل ہیں۔

۹۔  گول میز کانفرنس

میرا خیال ہے کہ اب مجھے گول میز کانفرنس پر کچھ تبصرہ کرنا چاہیے ذاتی طور پر مجھے اس کانفرنس کے نتائج سے زیادہ امید نہیں ہے ۔ خیال یہ تھا کہ فرقہ ورانہ جنگ و جدال کے مقا م سے دور رہ کر بدلی ہوئی فضا میں ہوش مندی سے کام لیا جائے اور ہندوستان کے دو سب سے بڑے فرقوں میں حقیقی صلح صفائی کے بعد ہندوستان کی آزادی کی صورت نکل آئے گی ۔ لیکن واقعات کا رخ اس کے برعکس ہوا۔ درحقیقت لندن میں فرقہ ورانہ سوال پر بحث میں پہلے سے زیادہ یہ واضح ہو گیا کہ ہندوستان کے بڑے تمدنی فرقوں میں کتنا گہرا اختلاف ہے لیکن وزیر اعظم انگلستان بظاہر اس امر سے انکار کرتے ہیں  کہ ہندوستان کا مسئلہ قومی نہیں بلکہ بین الاقوامی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ … میری حکومت کے لیے یہ مشکل ہے کہ پارلیمنٹ کے سامنے جداگانہ انتخاب کو برقرار رکھنے کی سفارش پیش کرے اور اس لیے کہ مخلوط انتخاب برطانوی جمہوریت پسندی کے جذبات سے بہت زیادہ مطابقت رکھتے ہیں۔ بظاہر انہیں یہ بات نظر نہیں آتی کہ برطانوی جمہوریت کا ڈھانچا ایسے ملک میں فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتا جہاں بہت سی قومیں آباد ہوں دراصل اس مسئلے کو علاقائی  طور پر حل کرنا چاہیے تھا۔ جداگانہ انتخاب بھی اس کے مقابلے میں گھٹیا حل ہے۔یہ بھی امید نہیں ہے کہ اقلیتوں کی ذیلی کمیٹی بھی کوئی اطمینان بخش حل پیش کر سکے گی۔ یہ پورا معاملہ برطانوی پارلیمان کے سامنے پیش کرنا پڑے گا اب ہمیں یہی امید رکھنی چاہیے کہ برطانوی قوم کے باریک بیں نمائندے اکثر ہندوستانی سیاست دانوں کے برعکس حالات کی تہہ تک پہنچ جائیں گے۔ اور ہندوستان جیسے ملک  میں امن و سلامتی کی اصل بنیاد کو دیکھ لیں گے۔ ایسا دستور بنانا جو اس نظریہ پر مبنی ہو کہ ہندوستان میں ایک قوم بستی ہے یا ہندوستان پر برطانوی جمہوریت کے اصولوں کو نافذ کرنے کی کوشش کرنا دراصل نادانستہ طور پر ہندوستان کو خانہ جنگی کے لیے تیار کرنا ہے۔ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں ہندوستان میں اس وقت تک امن و امان قائم نہیں ہو سکتا جب تک ان تمام قوموں کو جو یہاں بستی ہیں جدید طور پر آزادانہ ترقی کے مواقع ا س طرح فراہم نہ کیے جائیں جس سے ماضی سے ان کا رشتہ بھی منقطع نہ ہونے پائے ۔

مجھے یہ کہتے ہوئے مسرت حاصل ہوتی ہے کہ ہمارے مسلمان مندوبین کو ہندوستان کے اس مسئلے کے مناسب حل کی اہمیت کا  جسے میں بین الاقوامی مسئلہ کہتا ہوں پوری طرح احساس ہے۔ ان کا یہ اصرار بالکل بجا ہے کہ مرکزی حکومت کی ذمہ داری کا مسئلہ طے کرنے سے پہلے فرقہ ورانہ سوال کا تصفیہ ضروری ہے ۔کسی مسلمان سیاست دان کو فرقہ پرستی کے طعن آمیز پروپیگنڈا کا خیال نہیں کرنا چاہیے،  اس لیے کہ یہ اصطلاح بقول برطانوی وزیر اعظم جمہوری جذبات سے فائدہ اٹھانے کے لیے وضع کی گئی ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ انگلستان ایک ایسی صورت حال کو تسلیم کرے جو فی الحقیقت ہندوستان میں موجود ہی نہیں ہے۔

اس وقت بہت بڑے بڑے مفاد خطرے میں پڑے ہوئے ہیں۔ ہماری تعداد سات کروڑ ہے اور ہندوستان کیے دوسرے  باشندوں کے مقابلے میں ہم میں سب سے زیادہ یکسانیت اورہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان میں صرف مسلمان باشندوں کو ہی جدید اصطلاح میں ایک قوم کہا جا سکتا ہے۔ باوجویکہ ہندو تقریباً تمام پہلوں سے ہم سے آگے ہیں۔ لیکن انہوں نے ابھی تک وہ یک رنگی حاصل نہیں کی جو ایک قوم بننے کے لیے ضروری ہے۔ اور جو آپ کے لیے اسلام کا ایک تحفہ ہے۔ بیشک وہ بھی ایک قوم بننے کے لیے مضطرب ہیں لیکن قوم کی ترکیب میں بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں۔ اور جہاں تک ہندوؤں کا سوال ہے ان کے سماجی ڈھانچے کو تو یکسر تبدیل کرنے کی ضرورت پڑے گی۔ مسلمان رہنماؤں اور سیاست دانوں کو مغالطہ آمیزی اور سہل انگاری کی اس دلیل سے بھی متاثر نہیں ہونا چاہیے کہ ترکی،  ایران اور دوسرے مسلم ممالک بھی قوم پرستی یعنی علاقائی خطوط پرآگے بڑھ رہے ہیں۔ مسلمانان ہند کی صورت حال ان سے مختلف ہے۔ ہندوستان سے باہر اسلامی ممالک کی تقریباً پوری آبادی مسلمان ہے قرآن کی اصطلاح میں ان کی اقلیتیں بھی اہل کتاب میں سے ہیں۔ اہل اسلام اور اہل کتاب کے درمیان کوئی سماجی دیوار حائل نہیں ہے۔ کوئی یہودی عیسائی یا زرتشتی اگر کسی مسلمان کے کھانے کو چھو لے تو وہ نجس نہیں ہو جاتا اور اسلامی شریعت اہل کتاب کے ساتھ مناکحت کی اجازت دیتی ہے۔ درحقیقت اسلام نے جو پہلا قدم انسانیت کے اتحاد کی طرف اٹھایا تھا وہ یہی تھا کہ جن لوگوں کے اخلاقی نصب العین تقریباً یکساں تھے انہیں اتحاد و اتفاق کی دعوت دی قرآن کا ارشاد ہے،

یا اھل الکتب تعالو الی کلمتہ سواء بیننا وبینکم

عیسائیوں اور مسلمانوں کی جنگوں اور اس کے بعد مختلف صورتوں سے یورپ کی جارحیت کے باعث دنیائے اسلام میں اس آیت کے لا انتہا معنوں میں اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکتا ۔ آج اسلامی ملکوں میں یہ مقصد اسلامی قومیت کی شکل میں بتدریج بروئے کار آ رہا ہے۔ مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہمارے مندوبین کی کامیابی کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کانفرنس کے غیر مسلم مندوبین سے وہ کس حد تک دہلی کی قراردادوں کے مطالبات منوانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اگریہ مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے تو اس سے ہمارے لیے ایک ایسا جذبہ پیدا ہو گا جو دور رس نتائج کا حامل ہو گا۔ اس وقت وہ لمحہ  آ ئے گا جب مسلمانان ہند کو اتحاد و اتفاق کے ساتھ آزادانہ سیاسی قدم اٹھانا پڑے گا۔ اگر آپ اپنے مقاصد اور نصب العین کے بارے میں سنجیدہ ہیں تو آ پ کو اس اقدام کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ہمارے سربرآوردہ رہنماؤں نے سیاسی مسائل پر کافی غور و خوص کیا ہے۔ اور ان کے غور و فکر کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم کسی حد تک ان قوتوں سے آشنا ہو گئے  ہیں جو ہندوستان اور ہندوستان کے باہر کی اقوام کی قسمتوں کی تشکیل کر رہی ہیں ۔ لیکن میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آیا اس غور و فکرنے ہمیں اس قابل بنا دیا ہے کہ مستقبل قریب میں جو صورت حال پیدا ہوئی ہم اس کے مقابلے کے لیے تیار ہوں؟

مجھے صاف الفاظ میں یہ کہنے دیجیے کہ اس وقت مسلمانان ہند   دوامراض میں گرفتار ہیں۔ اول تو ان میں قحط الرجال ہے سر میلکم ہیلی اور لارڈ ارون کی وہ تشخیص بالکل صحیح تھی جب انہوں نے علی گڑھ یونیورسٹی میں کہا تھا کہ یہ قوم رہنما پیدا کرنے سے قاصر رہی ۔رہنما سے میری مراد ایسے لوگوں کی ہے جو خدا کے دین یا اپنے تجربے کی بنا پر اسلام کی روح اور تقدیر کے بارے میں گہر ا ادراک رکھتے ہوں ، اور اسی کے ساتھ ساتھ جدید تاریخ کے رجحانات سے بھی پور ی طرح واقف ہوں ۔ یہی وہ لوگ ہی جن پر لوگوں کی قوت عمل کا انحصار ہوتا ہے۔ یہ لوگ وضع نہیں ہوتے بلکہ خدا کی طرف سے ایک تحفہ ہوتے ہیں۔ دوسرا مرض جو مسلمانوں کو لاحق ہے وہ یہ ہے کہ ان میں اجتماعی عمل کا فقدان رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض افراد اور گروہ الگ الگ راہ پر گامزن ہیں او رقوم کے عام اور اجتماعی افکار و اعمال میں شریک نہیں ہیں۔ ہم سیاست کے میدان میں وہی کچھ کر رہے ہیں جو ہم صدیوں سے مذہب کے میدان میں کرتے چلے آئے ہیں لیکن مذہبی گروہ بندیوں سے ہمارے اتحاد کو اتنا نقصان نہیں پہنچا۔ اس سے کم از کم اتنا تو ظاہرہوا ہے کہ ہمیں قوم کی تعمیر و ترکیب کے اصول سے دلچسپی ہے۔ مزید برآں یہ اصول اس قدر وسیع ہے کہ کسی ایک گروہ کی بغاوت اس حد تک نہیں پہنچی کہ وہ جسد اسلامی سے قطعی طور پر منقطع ہو جائے۔ لیکن اس وقت جب لوگوں کی زندگی کے لیے اجتماعی عمل کی ضرورت ہے۔ سیاسی عمل میں اختلاف کا نتیجہ ہلاکت خیز ہو سکتاہے۔

 لہٰذا سوال یہ ہے کہ ان دونوں امراض کے علاج کی کیا صورت ممکن ہو سکتی ہے؟ پہلے مرض کا مداوا ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ جہاں تک دوسرے مرض کا تعلق ہے میرے خیال میں اس کا علاج ممکن ہے اس موضوع پر میرا ایک مخصوص نقطہ نظر ہے لیکن میرا خیال ہے کہ اس کے اظہار کو اس وقت تک کے لیے ملتوی رکھا جائے جب تک واقعی وہ صورت حال پیدانہ ہو جائے جس کا خطرہ نظر آ رہا ہے۔ اگر ایسی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو پھر ہر نقطہ خیال کے سربرآوردہ مسلمانوں کو ایک جگہ جمع ہونا ضروری ہو گا… اس لیے نہیں کہ وہ قراردادیں پاس کریں بلکہ اس لیے کہ حقیقی مقصد کے حصول کے لیے مسلمانوں کا رویہ متعین کریں اور انہیں راستہ دکھلائیں ۔اس تقریر میں میں نے اس امر کا تذکرہ محض اس لیے کیا ہے کہ تاکہ یہ بات آپ کے ذہن میں رہے اورآپ اس دوران نہایت سنجیدگی سے غور کریں۔

۱۰ ۔   ماحصل

حضرات! میرا خطبہ تمام ہوا۔ آخر میں میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ تاریخ ہند کے موجودہ نازک دور میں مسلمانوں کو تنظیم کامل اور اتحاد عزائم و مقاصد کی ضرورت ہے ، جو آپ کے حق میں بھی اور عمومی طور پر  ہندوستان کے حق میں بھی ضروری ہے۔ ہندوستان کی سیاسی غلامی پورے ایشیا کے لیے لاتعداد مصائب کا سرچشمہ ہے۔ اس نے مشرق کی روح کو کچل ڈالا ہے اور اظہار ذات کی مسرت سے پوری طرح محروم کر دیا ہے۔ جس کی بدولت کسی زمانے میں ایک عظیم اور شاندار تمدن پیدا ہوا تھا۔ ہمیں اس ہندوستان کی خاطر ایک فرض ادا کرنا ہے۔ جہاں جینا اور مرنا ہمارا مقدر ہے۔ ایشیا اور خصوصاً مسلم ایشیاء کی خاطر ہمیں ایک فرض پورا کرنا ہے ۔

 ایک ہی ملک میں ۷ کروڑ مسلمانو ں کی موجودگی اسلام کیلیے  تمام ایشیا کے مسلمانوں سے زیادہ قیمتی سرمایہ  ہے۔ ہمیں ہندوستان کے مسئلے کو نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کے نقطہ نظر سے بھی دیکھنا چاہیے۔ ایشیا اور ہندوستان کے حق میں وفاداری کے ساتھ ہم اس وقت تک اپنا فرض پورا نہیں کر سکتے جب تک ہم ایک متعین و مخصوص مقصد کے لیے اجتماعی عزم نہ کریں۔ اگر آپ ہندوستان کی دوسری سیاسی جماعتوںمیں اپنا ایک سیاسی وجود قائم کرنا چاہتے ہیں تو آپ کے لیئے اس قسم کا بندوبست قطعی ضروری ہے جو سیاسی مصالح ہماری ملی زندگی کیلئے ناگزیر ہیں ، وہ پہلے ہی ہماری بدنظمی اورانتشار کے باعث الجھ چکے ہیں۔

 گو میں فرقہ ورانہ تصفیے سے مایوس نہیں ہوں لیکن میں اپنا ایک احساس بھی آپ سے نہیں چھپا سکتا کہ موجودہ بحران کے حل کے لیے ملت کو مستقبل قریب میں ایک آزادانہ راہ عمل اختیار کرنی پڑے گی اور آزادانہ سیاسی راہ عمل ایسے نازک وقت میں صرف ان لوگوں کیلئے  ہی ممکن ہے جو عزم کے مالک ہوں اور جن کی قوت ارادی ایک مقصد پر مرکوز ہو۔ کیا آپ کے لیے ممکن ہے کہ آپ متحدہ عزم کے ذریعے ایک مکمل نامیاتی نظام وضع کر لیں؟ بے شک یہ ممکن ہے ۔آپ فرقہ بندی اور ہوا و ہوس کی قیود سے آزاد ہو جائیں،  انفرادی اور اجتماعی عمل کی قدر و قیمت کو پہچانیئے۔ خواہ اس مقصد کی روشنی میں جس کی آپ نمائندگی کر رہے ہیں وہ عمل مادی اغراض ہی سے متعلق کیوں نہ ہو…مادہ سے گز رکر آ پ روحانیت کی طرف جائیے ۔ مادہ کثرت ہے ، روح نور ہے۔ زندگی ہے اور وحدت ہے۔

مسلمانوں کی تاریخ سے میں نے ایک سبق سیکھا ہے۔ تاریخ کے آڑے وقت میں مسلمانوں کو اسلام نے بچایا ہے ۔ مسلمانوں نے اسلام کی حفاظت نہیں کی۔ اگر آج آپ اپنی نظریں اسلام پر گاڑ دیں، اور اس میں جو حیات آفریں قوت پنہاں ہے،  اس سے متاثر ہوجائیں تو آپ اپنی پراگندہ قوتوں کو پھر سے اکٹھا کر سکیں گے ۔ اپنی کھوئی ہوئی صلابت کردار دوبارہ حاصل کر لیں گے۔ قرآن کریم کی ایک بڑی  معنی خیز آیت ہے کہ پوری انسانیت کی موت اور حیات بھی فرد واحد کی موت اور حیات  کی مانند ہے۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ آپ جو انسانیت کے اس ارفع و اعلیٰ تصورکے اولین،  باعمل شارح ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں ، اسی اصول پر جیئیں اور ایک نفس واحدہ کی طرح آگے قدم بڑھائیں۔ میں جب یہ کہتا ہوں کہ ہندوستان میں صورت حال وہ نہیں ہے جو بظاہر نظر آتی ہے تو میرا مقصد کسی کو فریب دینا نہیں ہے۔ لیکن بہرحال اس کا مطلب آپ پر اس وقت روشن ہو جائے گا جب آپ صورت حال کو دیکھنے کے لیے ایک صحیح اجتماعی خودی پیدا کر لیں گے۔ قرآن مجید کے الفاظ میں،

علیکم انفسکم لا یضرکم من ضل اذا اھتدیتم (۵:۱۰۴)

علامہ اقبال کے معرکہ آرا خطبۂ الہٰ باد کے نوے برس

سوشل میڈیا پوسٹ بشمول قارئین کے تبصرےِ

Leave Your Facebook Comments Here

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے