انسان

خان نوازش علی کی نظم انسان
خان نوازش علی کی نظم انسان

انسان

لوگ کہتے ہیں کہ انسان کی فطرت ہے بلند

ہے  تو خاکی مہ و انجم  پہ  مگر  اس  کی کمند

دہر کے دشتِ تامل میں رواں اس کا سمند

اس کو  ہر گام  پہ آسان  ہوئے  پست و بلند

مل  گئی   حضرت یزداں  کی  نیابت  اس کو

صاحبِ کرسی  نے دی  رفعتِ رایت  اس کو

***

اس  کو  ٹہرایا گیا مسکنِ ارضی   کا   امام

اسم اور جسم بنے حضرتِ انساں کا قوام

قائم اس کی تھی صلٰوۃ اور مرتب تھا قیام

صدق  و اخلاص  کا  انسان  ہوا   ماہِ تمام

فعلِ تخلیق  کا  مقصود،  خلافت  کا  امیں

روبرو اس کے جھکی سارے فرشتوں کی جبیں

***

اس نے موبافِ قوانین و معانی کھولے

رازِ فطرت کے بصد جان فشانی کھولے

روحِ  آفاق کے کچھ بندِ نہانی کھولے

طور کی بات کھلی رازِ ترانی کھولے

علم کی تیغ ملی،  عقل کا جوہر لے کر

حسن فطرت میں ملا  عشق کا گوہر لے کر

***

ان روایات میں ہے دھندلے اجالوں کا سماں

ان میں خوابیدہ ہے ایقان تو ظاہر ہے گماں

دیکھتی آنکھوں نظر آتا ہے کچھ اور سماں

ان روایات سے معکوس تماشائے جہاں

مجھ کو نا واقفی  یہ  علتِ  پنہاں تسلیم

فہم سے دور ہے کچھ حکمتِ یزداں تسلیم

***

کیسے کہدوں کہ توازن پہ ہے انساں کی سرشت

اس کی طاعات و عبادات کا مقصود بہشت

شبنمی چہروں میں پوشیدہ شراروں کی سرشت

خوش خدا وندکے سر نامہ ایجاد نوشت

خوفِ مخلوق نہیں مجھکو سنو صاف کہوں

خیرہ سرحضرتِ انسان کی فطرت ہے جنوں

***

ہے معاد اس کو فسوں سازی تفریق و وصال
افقِ نادیدہ پہ  لرزندہ کوئی عکسِ خیال

جنسِ مطلوب ہے دنیا میں اسے جاہ و جلال

کذب بنیادِ سیاست تو ریاکاری کمال

اس کے باطل پہ بھی جھکتی ہے حقائق کی جبیں

صدق  و ناصدق سبھی اس کی ضرورت کے امیں

***

کبھی تعمیر کئے قصرِ خباثت اس نے

بہت آباد رکھے شہرِ جہالت اس نے

کبھی واللہ دکھائی نہ فراست اس نے

توڑ ڈالا ہے خدا تختِ خلافت اس نے

امرِ تخلیق کی توہین کا موجد ہے یہی

خانۂ آتش عصیان کا موبد ہے یہی

***

اس نے دقت سے نہیں دیکھا یہ گل خانہ راز

ایسے کیا خاک کھلیں رازِ حقیقت یا مجاز

ان عبادات و ظواہر میں نہیں سوز و گداز

اس کو محبوب بہت شرب و زر و مطرب و ساز

بے خبر رقصِ مہ و سال سے یہ رہتا ہے

وقت کے دھارے پہ تنکے کی طرح بہتا ہے

***

مدعی شرف کا ہے   اسفل و ناداں ہو کر

بستۂ وہم و اساطیر ہے انساں ہو کر

قعرِ تذلیل میں ہے خوگر عصیاں ہو کر

ہے یہ آفاق میں گم ریگِ بیاباں ہو کر

اس کا مجہول نسب نامہ اعمال لکھوں

مجھ میں طاقت نہیں انساں کے احوال لکھوں

(خان نوازش علی)

یہ بھی پڑھیں،

وقت / خان نوازش علی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے