دوسری گول میز کانفرنس پہ روانگی سے قبل علامہ اقبال کا ایک انٹرویو

دوسری گول میز کانفرنس پہ روانگی سے قبل بمبئی کرانیکل کو دیا گیا علامہ اقبال کا ایک انٹرویو

Download PDF with English text of Interview

دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت  کا دعوت نامہ ملنے پہ انگلستان روانگی کی غرض سے علامہ اقبال 10 ستمبر 1931ء کو لاہور سے بمبئی پہنچے۔ 12 ستمبر کو پانی کے جہاز سے روانگی سے قبل انہوں نے بمبئی کرانیکل کے نمائندے کو ایک انٹرویو دیا۔ تحقیقی کام خاصہ مشکل طلب ہوتا ہے، بعض اوقات متن میسر آجاتا ہے مگر اس کے ماخذ کا حوالہ نہیں مل رہا ہوتا، پھر کبھی حوالہ مل جاتا ہے مگر اصل متن کی تلاش ہوتی ہے تو وہ دستیاب نہیں ہوتا۔

ایسا ہی کچھ علامہ اقبال کے ایک انٹرویو کی تلاش میں ہوا ۔  کچھ جگہوں پہ انٹرویو کا متن ملا مگر تصدیق کیلئے حوالے نامکمل تھے، ان کی روانگی کی تاریخ کا علم ہونے کی وجہ سے آگے پیچھے کی تاریخوں کے شمارہ جات کی تلاش شروع ہوئی۔  میرا اندازہ تھا کہ یہ 13 ستمبر کے شمارے میں ہونا چاہئے۔   10 سے 12  ستمبر کے شمارے مل گئے اور 14 ستمبر  اور آگے کے شمارے بھی مل گئے، نہیں ملا تو 13 ستمبر 1931ء کا شمارہ نہیں ملا۔ ہاں یہ ہے کہ اس تلاش سے علم ہوا کہ روزنامہ انقلاب  کے 9 اکتوبر 1931ء کے شمارے میں اس انٹرویو کا ترجمہ شائع ہوا تھا۔ انگریزی متن میرے پاس تھا اور  اس کا ترجمہ میں نے خود  لکھنا شروع کردیا تھا۔ مگر ایک قابلِ اعتبار حوالہ درکار تھا۔ انقلاب کی تاریخِ اشاعت کا علم ہونے پہ فوری طور پہ برادرِ محترم امجد سلیم علوی صاحب سے رابطہ کیا- وہ ایک  بے غرض رضاکار ہیں جو ہمیشہ معاونت کیلئے حاضر ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنی پٹاری سے تھوڑی ہی دیر میں مجھے اس کا عکس فراہم کردیا۔ اللہ تعالیٰ امجد بھائی کو صحت و سلامتی عطا کرے۔ اس تلاش کے نتیجے میں جناب حمزہ فاروقی کے سفر نامۂ اقبال اور جناب جاوید اقبال صاحب کی زندہ رود میں بھی اس کے ترجمے کا علم ہوا، تاہم چونکہ میں ترجمہ کا کام شروع کرچکا تھا اس لئے روزنامہ انقلاب کے عکس کے ساتھ اپنا ترجمہ اور انگریزی متن حاضرِ خدمت ہے۔ یہ ایک اہم انٹرویو ہے اور اقبالیات سے لگاؤ  رکھنے والوں کیلئے یقیناً دلچسپی کا باعث  ہے۔  بمبئی کرانیکل کا درکار شمارہ نہ ملنے کا افسوس برقرار ہے۔

بمبئی کرانیکل کو دیا جانے والا علامہ اقبال کا انٹرویو

علامہ اقبال کا انٹرویو

غیر مسلم کے بارے میں رائے

س- غیر مسلموں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

ج-”مجھے دنیا میں کسی بھی برادری یا قوم سے کوئی تعصب نہیں ہے۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ اسلام اپنی قدیم سادگی کی طرف لوٹ آئے۔ میری خواہش ہے کہ ہندوستانی سکون سے زندگی گزاریں اور اور مجھے یقین ہے کہ ہر برادری اپنی ثقافت اور انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے ایسا کرسکتی ہے۔“

پان اسلامیت

س- آپ کا پان اسلام ازم کا کیا تصور ہے؟

ج-  ”پان اسلامزم کی اصطلاح دو معنوں میں استعمال ہوئی ہے۔ جہاں تک میں جانتا ہوں ، اس کا خدوخال ایک فرانسیسی صحافی نے تیار کیا تھا اور جن معنوں میں انہوں نے اس اصطلاح کو استعمال کیا تھا ،  سوائے اس کے اپنے تخیل کے ،  پان اسلام پسندی کا ایسا کوئی وجود نہیں تھا ۔ میرے خیال میں فرانسیسی صحافی کا مقصد اسےایک خطرے کی شکل میں پیش کرنا تھا ،  جیسا  کہ انہوں نے پوری دنیا میں اسلام کے وجود کو سمجھا  ہے۔ اسلامی ممالک میں یوروپی جارحیت کا جواز پیش کرنے کے لئے اس جملے کو  ”Yellow Peril“  یا ”زرد خطرہ “کی اصطلاح کے فیشن کے بعد ایجاد کیا گیا تھا۔

بعد میں ، میں سمجھتا ہوں کہ پان اسلام ازم  کی اصطلاح کو ایک طرح کی سازش کے معنی میں لیا گیا تھا   جس کا مرکز قسطنطنیہ میں تھا۔ یہ سمجھا جاتا تھا کہ پوری دنیا کے مسلمان  یورپی ریاستوں کے خلاف  اتحاد کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں ۔ میرے خیال میں کیمبرج یونیورسٹی کے آنجہانی پروفیسر براؤن نے حتمی طور پر یہ ثابت کیا ہے کہ پان اسلام ازم اس لحاظ سے کبھی بھی قسطنطنیہ یا کسی اور جگہ موجود نہیں تھا۔

تاہم ، یہاں ایک سوچ موجود ہے جس  کے مطابق جمال الدین افغانی نے اسے استعمال کیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے یہ اصطلاح استعمال کی تھی ، لیکن انہوں نے حقیقت میں افغانستان ، فارس اور ترکی کو مشورہ دیا تھا کہ وہ یوروپ کی جارحیت کے خلاف متحد ہوں۔ یہ خالصتاًایک دفاعی اقدام تھا ، اور میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ جمال الدین اپنے نظریئے  کے اعتبار سے  بالکل درست تھے۔

لیکن ایک اور معنویت بھی ہے جس میں یہ لفظ استعمال کیا جانا چاہئے اور اس میں قرآن کی تعلیم بھی شامل ہے۔ اس لحاظ سے یہ کوئی سیاسی منصوبہ نہیں بلکہ معاشرتی تجربہ ہے۔ اسلام ذات ، نسل یا رنگ کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔ در حقیقت اسلام زندگی کا واحد نظریہ ہے جس نے واقعی،  کم از کم مسلم دنیا میں رنگ کے امتیاز کو ختم کیا ہے ،  ایک ایسا سوال جسے جدید یورپی تہذیب ، سائنس اور فلسفے میں اپنی تمام تر کامیابیوں کے باوجود حل نہیں کر سکی ہے۔  لہٰذا ن معنوں میں پان اسلام ازم کی تشریح  ہمارے نبی نے کی تھی اور یہ دائمی ہے۔ اس اعتبار سے پان اسلام ازم صرف پان ہیومن ازم (اتحادِ انسانی)ہے۔ اور یوں  ہر مسلمان پان اسلامسٹ ہے اور ایسا ہی ہونا چاہئے۔ در حقیقت پان (اتحاد) کو جملے سے خارج ہونا چاہئے ، کیونکہ اسلام ایک ایسی اصطلاح ہے جو ان معنوں میں پوری اترتی ہے جن کا میں نے اظہار کیا ہے۔“

سامراجیت

س: کیا آپ برطانوی سامراج(شہنشاہیت) کو خدا کی دین (عطیہ خداوندی) مانتے ہیں؟

ج- ”استحصال میں مصروف تمام ریاستیں  اس سے انحراف کی مرتکب  ہیں۔“

بالشیوازم

س… کیا آپ نے ایک بار سر فرانسیس ینگ ہزبینڈ کو لکھے خط میں اپنے اس بیان کی پیروی کی ہے کہ “اسلام  خدا کو مانتے ہوئےبالشویزم  ہے؟”(اگر تصورِ خدا اشتمالیت میں شامل کردیا جائے تو وہ اسلام ہوگا)

ج-  ”اسلام ایک سوشلسٹ مذہب ہے۔ قرآن مطلق سوشلزم(کامل اشتراکیت) اور نجی املاک کے مابین تعلق کی ترجمانی کرتا ہے۔ روس نے ہنرمند مزدور کی اہمیت  کو تسلیم کیا ہے۔

ذاتی طور پر  میں سمجھتا ہوں کہ  دورجدید کا ضمیر اس   عنصر میں بنیادی تبدیلیاں لائے گا جس کو آپ سامراج اور بولشیوازم  (ملوکیت اور اشتمالیت)کہتے ہیں۔ علاقائی سلطنتوں کے دن ختم ہو چکے ہیں اور بالشیوازم ، مطلق سوشلزم کے معنی میں ، پہلے ہی مراجعت کرچکا ہے۔ روس اور برطانیہ کے معاشی نقطہ نظر میں بنیادی اختلاف کی وجہ سے ، ٹکراؤ کا امکان موجود ہے۔ اس معاملے میں یہ بات عیاں ہے کہ تمام حق پرست افراد کی ہمدردیاں انصاف کے شانہ بشانہ ہوں گی۔“

(اس نکتے پر کچھ اور سوالات نے یہ معلومات فراہم کیں کہ شاعرکے خیالات اس موضوع پر بنیاد پرست نظریات رکھتے ہیں جو مسلمانوں کے طریقۂ تبلیغ اور  عملاً نجی ملکیت کے موجودہ تصور سے بالکل مختلف ہیں۔ وہ ایک نکتے پر بہت واضح اور غیر متزلزل تھے  جو یہ  تھا کہ ”قرآنی تعلیم،  زمین کو نجی ملکیت کے طور پر رکھنے کے خلاف ہے۔“)

”جہاں تک میں نے اخبارات سے سمجھنے کی کوشش کی  ہے ،  روسیوں نے انسانی معاشرے کی اساس کے طور پر خدا کے تصور کو مسترد کردیا ہے۔ یہاں تک کہ اگر یہ نظریہ آج بھی روس میں موجود ہے تو ، مجھے شک ہے کہ آیا اس کا وجود برقرار رہے گا یا نہیں۔ خالص مادیت   اپنی ابتدائی شکل میں انسانی معاشرے کی بنیاد کے طور پر کام نہیں کرسکتی ہے اور جہاں تک مجھے معلوم ہے ،  روسی حقیقتاً  مذہبی لوگ ہیں۔ “

(سر فرانسس ینگ ہزبینڈ کے حوالے سے ایک وضاحت کیلئے میری فیس بک پوسٹ پہ جائیں)

سیاست دان کی حیثیت سے اقبال پر تنقید

س۔نمائندے نے شاعر(اقبال) سے پوچھا کہ،  ان کو ان کے پرخلوص اور نیک نیت نقادوں کو کیا جواب دینا ہے جو ان کی موجودہ روش پر شرمندگی محسوس کرتے ہیں ، کیوں کہ یہ ان کی شاعری کی تعلیمات سے متصادم ہے۔  نمائندے نے شاعر کو مزید کہا کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اقبال کی سیاست انکی شاعری پر حاوی ہوگئی ہے۔

ج۔ انہوں نے جواب دیا: ”یہ میرے تنقید کرنے والوں کا اختیار ہے کہ وہ فیصلہ کریں۔ لیکن انہیں میری تحریروں کی بنیاد پر ایسا کرنا چاہئے ، مگر مجھے خدشہ ہے کہ ان میں سے کچھ پڑھنے یا سمجھنے کی زحمت کئے بغیر ایسا کرتے ہیں۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ قومیت کے بارے میں میرے خیالات میں ایک قطعی تغیر آ چکا ہے۔ میں کالج کے دنوں میں  ایک پُرجوش قوم پرست تھا جو میں اب نہیں ہوں۔ یہ تبدیلی بالغ نظری کی وجہ سے آئی ہے۔ بدقسمتی ہے کہ میری بعد کی تحریریں سب فارسی میں ہیں جو اس ملک میں بہت کم سمجھی جاتی ہے۔“

تصورِ حکمرانی

س۔ کیا آپ شاہی اقتدارکے تسلسل کے حق  میں ہیں؟

ج۔” میں شاہی اقتدارکے تسلسل کے حق  میں نہیں ہوں۔ لیکن میں دل سے  جمہوریت کا قائل بھی نہیں ہوں۔ میں جمہوریت کو برداشت کرتا ہوں کیونکہ اس کے علاوہ کوئی اور متبادل نہیں ہے۔“

ذاتی رجحانات و ترجیحات

س… کیا آپ نہیں سمجھتے کہ بجائے سیاست دان آپ بطور ایک شاعر ملک کے لئے زیادہ کارآمد ہوتے؟

ج- شاعر نے جواب دیا کہ اس نے ادبی کاموں میں دلچسپی لینا نہیں چھوڑا ہے۔ دراصل  یہ اب بھی اس کا اصل کام ہے۔ انہوں نے اپنی تازہ ترین اشاعت ”تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ“ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انگلینڈ سے واپسی پر ان کا ارادہ تھا کہ اس سے متعلقہ موضوعات پر مزید لکھیں۔

س: آپ نے انجمنوں اور جمیت الا قوام  کی ریاکاریوں کو بے نقاب کرنے کے لئے کسی اور سے زیادہ کام کیا ہے اور پھر بھی لگتا ہے کہ آپ گول میز کانفرنسوں پر اعتماد کر رہے ہیں۔ اس تضاد کی وضاحت کریں گے؟  جب یہ سوال پیش کیا گیا تو ، شاعر پلک جھپک کر اچانک اپنے ہم دم دیرینہ حقہ کی طرف مرکوز ہوگیا۔

س۔  آپ قومیت کے مخالف کیوں ہیں؟

ج۔ ”میں اسے اسلام کے اعلیٰ اصولوں کے خلاف سمجھتا ہوں۔ اسلام محض مسلک نہیں ہے۔ یہ ایک معاشرتی ضابطہ ہے۔ اس نے رنگ  میں تفریق کا مسئلہ حل کیاہے۔ یہ لوگوں کے ذہنوں کو ایک ہی سانچے میں ڈھالنا چاہتا ہے۔ اس نے حقیقت میں بنی نوع انسان میں اتحاد اور روحانی یگانگت کا تصور  پیش کیا تھا۔ قومیت کو جیسا موجودہ وقت میں سمجھا گیا اور اس  کو عملی جامہ پہنایا گیاوہ اس اسلامی  تصور کی راہ میں رکاوٹ ہے اور یہی قومیت  کے خلاف میری دلیل ہے۔“

س۔ عرب ممالک کے وفاق کا کیا امکان ہے؟

ج۔ ”میں عرب  ریاستوں کےوفاق پر یقین رکھتا ہوں ، حالانکہ اس راہ میں کچھ بہت بڑی مشکلات ہیں۔  مجھے عربی زبان پر بہت اعتماد ہے جو میری رائے میں واحد مشرقی زبان ہے جس کا مستقبل زندگی سے بھرپور ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ  عربی اقوام میں ان کے عقیدے کے بعد یہی سب سے بڑی  یگانگت  ہے۔ تاہم  حجاز کی موجودہ  صورتحال بہت اطمینان بخش نہیں ہے۔ عرب وفاق کے مستقبل کی پیش گوئی کرنا میرے لئے مشکل ہے۔

اگر مسلم ممالک اسلام کے نظریات پر قائم رہتے ہیں تو امکان ہے کہ وہ انسانیت کی سب سےزیادہ خدمت کریں گے۔ میری رائے میں  موجودہ تمام نظاموں میں  اسلام ہی سب سے  مثبت نظام ہے ،  بشرطیکہ مسلمان خود  اس پر عمل پیرا ہوں اور تما معاملات پر  جدید نظریات کی روشنی میں دوبارہ غور کریں۔  میری رائے میں  غالباًہندوستانی مسلمان اسلام کے مستقبل میں بہت اہم کردار ادا کرے گا۔  جدیداسلام نوجوان نسل پر زیادہ انحصار کرتا ہے جس نے اسلام کی بنیادی اساس کے ساتھ مزید تعلیم حاصل کی ہے۔

علمائے کرام ، جن کے پاس ماضی کا علم ہے ، اگر وہ مسائل کے ادراک کی حقیقی معنوں میں کوششیں کریں   اورسیاسی و معاشی مسائل   کا حل پیش کریں جس کا آج اسلام کو سامنا ہے  تو یہ اسلام کی تعمیر نو  کیلئے بے حد فائدہ  مندہوگا۔ میں نے  اپنا عاجزانہ حصہ ڈالا  ہے اور مجھے امید ہے کہ میں مزید لکھوں گا۔ میں نے اسلام کے مذہبی فلسفے کو جدید علوم کی روشنی میں  پرکھنے کی کوشش کی ہے اور مجھے امید ہے کہ  نظام ِ فقہ  پر ایسا ہی کام کرنے کا وقت ملے گا جو آج کے دور میں اس کے خالص الٰہیاتی   زاویوں سے زیادہ اہم ہے۔ تاہم میں نے اس کے فلسفیانہ پہلو سے آغاز کیا ہے۔ یہ درحقیقت اسلام کی تشکیلِ جدید کے کام کا آغاز ہے۔

میں فقہ پر توجہ مرکوز کررہا ہوں جسے علمائے کرام نے کئی صدیوں سے نظرانداز کیا ہے۔ اب قرآن کو ایک ایسی کتاب کے طور پر پڑھنا چاہئے جو اقوام یا لوگوں کی پیدائش ،  ارتقا اور موت پر روشنی ڈالتی ہے۔ منکشف ادب کی تاریخ میں ، قرآن غالباً پہلی ایسی کتاب ہے،  جس میں افراد کی انفرادی حیات کو مخاطب کرکے بات  کی گئی  ہے۔ قرآن لوگوں کو بعض مخصوص قوانین کا پابند بناتا ہے ، ان میں قرآن نے دوسرے پہلوؤں کے مقابلے میں اخلاقی ضوابط  پر زیادہ زور دیا ہے۔

س… کیا گول میز کانفرنس کے اختتام پر  آپ ہندوستان واپس جاتے ہوئے کسی اسلامی ملک کا دورہ کرنے جارہے ہیں؟

ج۔ شاعر نے کہا کہ ”ان کی خواہش ہے کہ تمام یا جتنے زیادہ سے زیادہ   ممکن ہوں اسلامی ممالک کا دورہ کریں۔ لیکن وسائل کی کمی انہیں  ان میں سے بہت سی جگہوں پر جانے کی اجازت نہیں دیتی۔ تاہم وہ انگلینڈ سے واپسی کے دوران مصر کا دورہ کریں گے۔ وہ تمام اسلامی ممالک کا دورہ کرکے اور وہاں کے حالات کا مشاہدہ کرکےجدید اسلامی دنیا کے موضوع پر کتاب لکھنا چاہتے ہیں۔ تاہم اس کا انحصار دستیاب وسائل پر ہے اور اس مرحلہ پر وہ اس بارے میں تیقن سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔“

9 اکتوبر 1931ء کو روزنامہ انقلاب میں شائع ہونے والا ترجمہ

صفحہ 1
علامہ اقبال کا انٹرویو - انقلاب - 1صفحہ 2

علامہ اقبال انٹرویو - انقلاب - 2صفحہ 3
علامہ اقبال انٹرویو - انقلاب - 3

Download PDF with English text of Interview
Facebook Comments

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے