بحریہ ٹاؤن کراچی اور متاثرینِ بحریہ ٹاؤن
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا
درختوں کی گھنی چھاؤں میں جا کر لیٹ جاتا ہے
ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں
تو مینا اپنے بچے چھوڑ کر
کوے کے انڈوں کو پروں سے تھام لیتی ہے
سنا ہے گھونسلے سے کوئی بچہ گر پڑے تو سارا جنگل جاگ جاتا ہے
سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں
بئے کے گھونسلے کا گندمی رنگ لرزتا ہے
تو ندی کی روپہلی مچھلیاں اس کو پڑوسن مان لیتی ہیں
کبھی طوفان آ جائے، کوئی پل ٹوٹ جائے تو
کسی لکڑی کے تختے پر
گلہری، سانپ، بکری اور چیتا ساتھ ہوتے ہیں
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
خداوندا! جلیل و معتبر! دانا و بینا منصف و اکبر!
مرے اس شہر میں اب جنگلوں ہی کا کوئی قانون نافذ کر!
(زہرہ نگاہ)
اپنے قصبے، اپنے گاؤں یا اپنے شہر سے سب ہی کو پیار ہوتا ہے۔ جہاں آپ پیدا ہوتے ہیں، پلتے بڑھتے ہیں، تعلیم حاصل کرتے ہیں، جہاں آپ کے عزیز، رشتہ دار اور دوست رہتے ہیں اس جگہ سے انسیت ایک فطری عمل ہوتا ہے۔ اپنے علاقے کی تعمیر و ترقی دل کو بھاتی ہے اور ہر قسم کی تخریب کاری پر دل کڑھتا ہے۔ ایسی کیفیات کے ساتھ جب آپ کراچی کے نواح میں ایک نوآباد ٹاؤن شپ ،جس کا نام بحریہ ٹاؤن ہے، اس میں داخل ہوں تو انتہائی جدید انداز میں تعمیر کردہ اس ٹاؤن میں دل و دماغ کو ایک سرشاری کا احساس ہونا چاہئے۔سپر ہائی وے کے قریب ٹول پلازہ سے 9 کلومیٹر کے فاصلے پر بحریہ ٹاؤن کی کشادہ شاہراہیں، وسیع رہائشی اسکیمز، کمرشل بیلٹس، عالمی معیار کا 36 ہول گالف کورس، اور دنیا کی ساتویں بڑی مسجد، یہ تمام تعمیرات یقیناً سحر انگیز ہیں جو کراچی جیسےبے ہنگم شہر میں رہنے والوں کے لئے بہت زیادہ کشش انگیز ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہاں داخل ہوتے وقت اس ترقی و تعمیر میں پوشیدہ جو ظلم کی داستانیں ہیں، وہ ایک عجیب سی افسردگی سے دوچار کردیتی ہیں۔ابتدا میں تو یہاں کی قدیم آبادیوں کے ساتھ جو ظلم زیادتی اور قتل و غارت گری کی گئی اس کے قصے سننے میں آتے رہے۔ بعد ازاں یہاں پراپرٹی خریدنے والے ایک بہت بڑے طبقے کے ساتھ جو دھوکہ دہی اور ظلم کیا گیااس کے ہم خود گواہ ہیں۔
بحریہ ٹاؤن کراچی کے قدیم گوٹھوں کے متاثرین
جو پہلے پیش آیااس کے بارے میں محض کچھ واقعات اخبارات کی زینت بنے۔ نیوز چینل اور اخبارات ہمیشہ سے ملک ریاض کے زیرِ اثر رہے اور ان کے بارے میں کسی قسم کی منفی رپورٹنگ سے گریزاں رہے۔18 اپریل 2016ء کے ڈان میں فہیم زمان اور نزیحہ سید علی کی ایک رپورٹ ” Bahria Town Karachi: Greed unlimited “ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا،” 19 مارچ کے دن، پولیس انسپکٹر خان نواز کی نگرانی میں کئی پولیس کی گاڑیاں ملیر کے ضلع میں موجود، سپر ہائی وے سے 13 کلومیٹر کی دوری پر جمعہ موریو گوٹھ نامی چھوٹے سے گاؤں پہنچیں۔ ان کے ساتھ بلڈوزر، وہیل لوڈرز اور ٹرک تھے جن کا مقصد وہاں موجود 250 گھروں اور جھونپڑیوں کو گرانا تھا۔“وہاں کے رہائشی امیر علی کے مطابق”یہ سارا کام بہت جلد کر لیا گیا اور بے یارو مددگار رہائشی گھبرانا شروع ہوگئے، انہیں معلوم تھا کہ ان کے لیے کوئی انصاف نہیں ہے“۔ایک رہائشی کندا خان گبول کا کہنا تھا کہ ”پولیس ہمارے لوگوں کو حراست میں لے رہی ہے اور دھمکیاں دے رہی ہے کہ وہ یہ ظاہر کرے گی کہ ہمیں وانا، مستونگ اور قلات کے علاقوں سے گرفتار کیا گیا ہے“۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ”پولیس نے مجھے کئی گھنٹوں تک زیرِ حراست رکھا اور مجھے اُس وقت چھوڑا گیا جب لوگ جمع ہونا شروع ہوئے، کیونکہ اس بات کا خدشہ تھا کہ ہائی وے بند نہ ہوجائے“۔ ڈان کی رپورٹ کے مطابق ؛ جمعہ موریو کے لوگوں سے ابھی ان حربوں کے ذریعے خاندانی زمین کو چھینا گیا ہے، اس کے آس پاس کے دیہاتیوں کو بھی ان مسائل کا سامنا ہے۔
فیض محمد گبول (بائیں سے تیسرا) اپنے آباؤاجداد کی زمینوں پر کام ہوتے دیکھ رہا ہے
(تصویر بشکریہ روزنامہ ڈان)
زمینوں کے مالکانہ حقوق رکھنے کے باوجود لوگوں کو دھمکیوں کے ساتھ ساتھ زمین بیچنے کا کہا جا رہا ہے۔ ان کے گھروں کو گرایا جا رہا ہے، قبرستان کا نشان تک مٹایا جا رہا ہے، پھلوں کے درختوں کو اکھاڑ دیا گیا ہے اور ٹیوب ویلوں کو توڑ دیا گیا ہے۔ مقامی تاریخ دان اور وقائع نگار گل حسن کلمتی نے غمگین لہجے میں کہا ’کس قانون کے مطابق غریبوں کے گھروں کو گرا کر امیر لوگوں کے لیے شاہانہ طرزِ رہائش بنائی جا رہی ہیں؟‘ غرض ایسے کئی واقعات ہیں جن میں قتل، اغوا اور مکانات کو مسمار کیا جانا شامل ہے۔
بحریہ ٹاؤن کراچی میں سرمایہ کار متاثرین
ظلم و ستم کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب بحریہ ٹاؤن نے بڑے بڑے اشتہارات کے ذریعہ اچھی رہائش کی تمنا لئے اس شہرِ ناپرساں کے لوگوں کو اپنی اسکیم کی جانب راغب کیا۔ جب بکنگ شروع ہوئی تو عوام نے بڑی تعداد میں جوق در جوق لمبی لمبی قطاروں میں لگ کر بکنگ کے لئے فارم حاصل کئے۔ جنہیں یہ فارم نہیں مل سکے انہوں نے 1000 روپے کا فارم ایک ایک لاکھ روپے میں بھی خریدا۔ کہا گیا کہ پلاٹوں کی الاٹمنٹ قرعہ اندازی کے ذریعہ کی جائے گی۔ جتنے پلاٹ تھے اس سے کئی گنا زیادہ تعداد میں بکنگ کے فارم فروخت کئے گئے اور ایک کثیر رقم حاصل کی گئی۔ بعد ازاں اعلان کیا گیا کہ جس جس نے فارم جمع کرایا ہے سب کو پلاٹ دیئے جائیں گے۔ فارم جمع کرانے والے خوشی سے نہال ہوگئے ۔ ان غریبوں کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ ان کے ساتھ کتنا بڑا ہاتھ ہونے جارہا ہے۔ وہ زمینیں جن کا کوئی وجود ہی نہیں تھا، اس کی بکنگ اور اقساط کے پیسے لوگوں سے وصول کئے جاتے رہے۔ خرید و فروخت کی بھاری فیسیں وصول کی جاتی رہیں، مصنوعی اتار چڑھاؤ کے ذریعہ لوگوں کو بڑی تعداد میں اس کام کی جانب راغب کیا گیا۔ نادان عوام اپنی عمر بھر کی جمع پونجی اس سٹے میں جھونکتے چلے گئے۔ قرعہ اندازی میں جنہیں پلاٹ نمبر الاٹ ہوگئے وہ چند خوش نصیب تھے۔ بہت بڑی تعداد کو دلاسا دیا جاتا رہا کہ جلد ہی انہیں بھی پلاٹ نمبر مل جائے گا۔ کچھ مہینوں کے وقفے سے قرعہ اندازیاں ہوتی رہیں۔ ہر بار چند مزید افراد کو پلاٹ نمبر الاٹ ہوتے رہے مگر ساتھ ساتھ ’بحریہ اسپورٹس سٹی ‘ اور ’بحریہ پیراڈائز‘ نامی نئی اسکیموں کے اعلانات بھی ہوتے رہے اور اس جال میں نئی مچھلیاں پھنستی رہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان اور بحریہ ٹاؤن کراچی
مئی 2018ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیب کو بحریہ ٹاؤن کے معاملات میں تحقیقات کا حکم جاری کیا۔ عدالتی کاروائی کے دوران اسپورٹس سٹی اور بحریہ پیراڈائز کے وہ بلاک منسوخ کردئے گئے جن کا زمین پر کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ اسی طرح ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے ایکسچینج کی گئی زمینوں کی الاٹمنٹ بھی منسوخ کردی گئیں۔ 20مارچ 2019ء کو بحریہ ٹاؤن پر 460 ارب روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا۔ تاہم سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ان متاثرینِ بحریہ ٹاؤن کی دادرسی نہیں کرسکا جنہوں نے یہاں پراپرٹی میں انویسٹمنٹ کی تھی۔ متاثرین کے بارے میں کہا گیا تھا کہ انہیں ان کی رقم واپس کی جائے گی یا متبادل پراپرٹی الاٹ کی جائے گی۔تاہم سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو ساڑھے تین برس گزرنے کے باوجود انویسٹر کی ایک بہت بڑی تعداد شہر سے میلوں دور بحریہ ٹاؤن کے چکر لگا لگا کر تھک گئ جہاں آنے جانے کا خرچ ہی ہزاروں روپے ہوتا ہے۔ لوگ اپنی نوکریوں سے چھٹی کرکے یا اپنا کاروبار بند کرکے بحریہ کے چکر لگاتے رہتے ہیں۔ انہیں تسلیاں دی جاتی ہیں، دلاسے دئے جاتے ہیں اور امید دلائی جاتی ہے۔ برسہا برس سے عوام کی جمع پونجی بحریہ ٹاؤن کے خزانوں میں دن دگنا رات چوگنا اضافہ کرتی ہے مگر بے سہارا عوام اپنی دولت سے محرومی کا نوحہ پڑھ رہی ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ ملکی تاریخ میں کئے جانے والے کئی متنازعہ فیصلوں میں ایک بدترین فیصلے کا اضافہ تھا۔؏
یہاں چلتا ہے میرے شہر میں قانون جنگل کا
یہاں ہر میمنہ کوئی درندہ کاٹ کھاتا ہے
تجھے معلوم بھی ہے یہ نگر ہے ظلم زادوں کا
ہے عنقا عدل یاں زنجیر کس خاطر ہلاتا ہے
(عزیز عادل)
بحریہ ٹاؤن کراچی کی حدود میں قدیم گوٹھوں کے کئی رہائشی جان سے گئے، کئی بے دخل کردئے گئے اور کئی ابھی بھی اس کی حدود کے ایک کنارے پر آباد اپنی بربادی کے نظارے کرتے ہیں۔ بحریہ ٹاؤن میں سرمایہ کاری کرنے والے بہت سے افراد انصاف کی امید لئے اس دنیا سے رخصت ہوچکے، کئی ابھی بھی اپنی آنکھوں میں امیدوں کے چراغ روشن کئے اس وقت کے منتظر ہیں جب ان کے ساتھ ہونے والے ظلم کا مداوا ہوسکے۔
اس نقشے میں بحریہ ٹاؤن کے منصوبے سے متاثر ہونے والے گاؤں دیکھے جا سکتے ہیں۔
(تصویر بشکریہ روزنامہ ڈان)