29 دسمبر 1930ء کا علامہ اقبال کا خطبۂ الہٰ باد ۔ دوسری قسط

علامہ اقبال کا صدارتی خطبہ /ہندوستانی قوم کا اتحاد

29 دسمبر 1930ء کا علامہ اقبال کا خطبۂ الہٰ باد ۔ پہلی قسط 

48۔ پھر، مسئلہ اور اس کا حل کیا ہے؟ کیا مذہب ذاتی معاملہ ہے؟ کیا آپ اسلام کو ایک اخلاقی اور سیاسی مثالیہ کے طور پر دیکھنا چاہیں گے، یعنی عالم اسلام کا وہی حشر جو یورپ میں عیسائیت کا ہوچکا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ اسلام کو ایک اخلاقی آئیڈیل کے طور پر برقرار رکھا جائے اور ، ان قومی پالیسیوں کی حمایت کرتے ہوئے جس میں مذہبی رجحان کو کوئی کردار ادا کرنے کی اجازت نہ ہو، اسے سیاست سے دور رکھا جائے ؟ یہ سوال ہندوستان میں خاص اہمیت کا حامل ہے، جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔

49۔ یہ تجویز کہ مذہب ایک ذاتی انفرادی تجربہ ہے کسی یورپیئن کے لئے حیرت کی بات نہیں۔

50۔ یورپ میں خانقاہی تصورِ عیسائیت جس نظرئے کی طرف رہنمائی کرتا ہے وہ مادے کی دنیا کو ترک کرکے، رہبانیت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اور روحانیت کی دنیا میں گم ہوکریکسوئی اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔

51۔ تاہم، پیغمبر (ﷺ)کے مذہبی تجربے کی نوعیت، جیسا کہ قرآن میں بتایا گیا ہے، بالکل مختلف ہے۔

52۔ یہ محض ایک حیاتیاتی واقعہ کے معنی میں تجربہ نہیں ہے، جس کا تعلق صرف تجربہ کرنے والے کے باطن سے ہو اور اس کے گرد و پیش پر کوئی رد عمل نہ ہو ۔

53۔ یہ انفرادی تجربہ ایک سماجی نظام کی تخلیق کا باعث تھا۔

54۔ جس کا فوری نتیجہ ایک خاص نظام سیاست کے بنیادی اصولوں کی صورت میں ظاہر ہوا۔ جن میں قانونی تصورات مضمر تھے اور جن کی معاشرتی اہمیت کو محض اس لیے کم نہیں کیا جا سکتا کہ ان کی بنیاد وحی ہے۔

55۔ اس لیے اسلام کا مذہبی آئیڈیل اس سماجی نظام سے جڑا ہوا ہے جو اس نے خودتشکیل دیا ہے۔

56۔ ایک کو مسترد کرنے کا مطلب دوسرے کو بھی مسترد کرنا ہوگا۔

57۔لہٰذا ، ایک مسلمان کے لیے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ، یکجہتی کے اسلامی اصول کو ترک کرکے ، قومی خطوط پر سیاست کی تعمیر کرے گا۔

58۔ اس معاملے کا براہ راست تعلق اس وقت ہندوستان کے مسلمانوں سے تعلق ہے۔؛ رینن (مشہور فرانسیسی دانشور) کہتے ہیں، ”انسان نہ تو اپنی نسل سے، نہ اپنے مذہب سے، نہ دریاؤں کے دھارے سے، نہ ہی پہاڑی سلسلوں کے حصار کے باعث غلام بنا ہوا ہے۔ انسانوں کا ایک بڑا طبقہ ، عقل و دانش کو بروئے کار لاتے ہوئےاور بھرپور دلی خواہشات کے تحت، ایک اخلاقی شعور پیدا کرتا ہے جسے قوم کہتے ہیں۔

مسلمان اور ہندوستانی قوم کی تشکیل
علامہ اقبال کا خطبۂ الہٰ باد

59۔ اس طرح کی تشکیل بہت ممکن ہے، اگرچہ اس میں افراد کو عملی طور پر ازسرِ نو تیار کرنے اور نئی جذباتی توانائی فراہم کرنے کا طویل اور مشکل عمل شامل ہے۔

60۔ اگر کبیر کی تعلیمات اور اکبر کے دینِ الٰہی نے اس ملک کے عوام کے تخیل پر قبضہ کرلیا ہوتا تو ہندوستان میں یہ ایک حقیقت ہوتی ۔

61۔ تاہم، تجربہ یہ آشکار کرتا ہے کہ ہندوستان میں مختلف ذات پات کی اکائیوں اور مذہبی گروہوں نے اپنی اپنی انفرادیت کواجتماعی طور پر فنا کرنے کے لیے کوئی آمادگی ظاہر نہیں کی۔

62۔ ہر گروہ اپنے اجتماعی وجود پر شدید رشک کرتا ہے۔

63۔ اس قسم کے اخلاقی شعور کی تشکیل جو رینن کے لحاظ سے ایک قوم کا جوہر ہے، ایک ایسی قیمت مانگتی ہے جسے ہندوستان کے عوام ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

64۔ لہذا، ہندوستانی قوم کا اتحاد ، اس سے فرار کی صورت میں نہیں، بلکہ مختلف جماعتوں کے باہمی اشتراک اور ہم آہنگی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔

65۔ کوئی حقیقی قیادت ان حقائق کو نظر انداز نہیں کرسکتی، چاہے وہ ناخوشگوار کیوں نہ ہوں۔

66۔ جو چیزیں اپنا وجود نہیں رکھتیں، انہیں فرض کرلینا ، کوئی عملی طریقہ نہیں ہےبلکہ حقائق جو اپنا وجود رکھتے ہیں، انہیں قبول کرکے، ان سے بہترین فائدے کا حصول ممکن بنانا چاہئے۔

67۔ حقیقتاً درست سمت میں ہندوستانی اتحاد کی دریافت پر ہی ہندوستان اور ایشیا کی تقدیر کا انحصار ہے۔

68۔ ہندوستان مختصرشکل میں ایشیا ہے۔ اس میں بسنے والوں کا ایک حصہ مشرق کی قوموں کے ساتھ ، اور کچھ حصہ ایشیا کے وسط اور مغرب کی قوموں سے ثقافتی وابستگی رکھتا ہے۔

69۔ اگر ہندوستان میں تعاون کا ایک موثر اصول دریافت ہو جاتا ہے، تو اس سے اس قدیم سرزمین پر امن اور باہمی خیر سگالی قائم ہو جائے گی، جو کسی موروثی نااہلی کی وجہ سے نہیں بلکہ کئی تاریخی عوامل کے سبب اس سے دور رہا ہے۔

70۔ اور اس کے پہلو بہ پہلو ایشیا کا پورا سیاسی مسئلہ حل ہو جائے گا۔

71۔ تاہم یہ امر تکلیف دہ ہے کہ اندرونی ہم آہنگی کے ایسے اصول کو دریافت کرنے کی ہماری کوششیں اب تک ناکام ہو چکی ہیں۔

72۔ اس ناکامی کا سبب کیا ہے؟ شاید ہم ایک دوسرے کی نیتوں پر شک کرتے ہیں اور باطنی طور پر ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

73۔ ممکنہ طور پر، باہمی تعاون کے اعلیٰ مفادات کے حصول کے لئے، ہم ان اجارہ داریوں سے الگ ہونے کے متحمل نہیں ہو سکتے جو حالات نے ہمیں بخشی ہیں، اور اس طرح ہم اپنی انا پرستی کو قوم پرستی کا لبادہ اڑھاتے ہیں، ظاہری طور پر ہم وسیع پیمانے کی حب الوطنی کا اظہار کرتے ہیں، لیکن باطنی طور پر، ایک برادری یا قبیلے کی مانندتنگ نظرہیں۔

74۔ شاید ہم یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ ہر گروہ کو اپنی ثقافتی روایات کے مطابق آزادانہ ترقی کا حق حاصل ہے۔

75۔ تاہم ہماری ناکامی کے اسباب کچھ بھی ہوں، میں پھر بھی پر امید ہوں۔

76۔ ایسا لگتا ہے کہ واقعات کسی نہ کسی طرح کی داخلی ہم آہنگی کی سمت بڑھ رہے ہیں۔

77۔ اور جہاں تک میں نے مسلمانوں کے ذہن کو پڑھا ہے، مجھے یہ اعلان کرنے میں کوئی جھجک نہیں ہے کہ اگر یہ اصول ایک مستقل فرقہ وارانہ تصفیہ کی بنیاد پرتسلیم کیرلیاجاتا ہےکہ ہندوستانی مسلمان اپنے ہندوستانی وطن میں اپنی ثقافت اور روایت کے مطابق مکمل اور آزاد انہ ترقی کا حقدار ہے۔ تو وہ ہندوستان کی آزادی کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگانے کے لیے تیار ہو جائے گا۔

78۔ یہ اصول کہ ہر گروہ اپنے مکتبۂ فکر کی بنیاد پر آزادانہ ترقی کا حقدار ہے، کسی تنگ نظری کے احساس کے زیرِ اثر نہیں ہے۔

79۔ یہاں ہر طرف صرف فرقہ پرستی کا راج ہے۔

80۔ ایک برادری جو دوسری برادریوں کے لئے بدخواہی کے جذبات سے لبریز ہو وہ پست اور حقیر ہے۔

81۔ میں دوسری برادریوں کے رسوم و رواج، قوانین، ’مذہبی اور سماجی‘ اداروں کا سب سے زیادہ احترام کرتا ہوں۔

82۔ بلکہ قرآن کی تعلیم کے مطابق میرا فرض ہے کہ ضرورت پڑنے پر ان کی عبادت گاہوں کا دفاع بھی کروں۔

83۔ پھر بھی میں اُس فرقہ وارانہ گروہ سے محبت کرتا ہوں جو میری زندگی اور طرز عمل کا سرچشمہ ہے۔ اور جس نے مجھے اپنا مذہب، اپنا ادب، اپنی سوچ، اپنی ثقافت عطا کی ہے، اور اس طرح میرے پورے ماضی کو ایک زندہ فعال عنصر کے طور پر دوبارہ تخلیق کر کے مجھے شعور بخشا ہے کہ میں کون ہوں۔

84۔ یہاں تک کہ نہرو رپورٹ کے مصنفین بھی فرقہ واریت کے اس اعلیٰ پہلو کی قدر کو تسلیم کرتے ہیں۔

85۔ سندھ کی علیحدگی پر گفتگو کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ”قوم پرستی کے وسیع نقطہ نظر سے یہ کہنا درست ہےکہ فرقہ وارانہ بنیاد پرکوئی صوبہ نہیں بننا چاہئے، یہ درحقیقت بین الاقوامی طور پریہ بات تسلیم کرنے کے مترادف ہے کہ علیحدہ قومیں نہیں ہونی چاہئیں۔

86۔ ان بیانات میں ایک حد تک سچائی ہے۔

87۔ لیکن کٹر بین الاقوامیت پرست تسلیم کرتا ہے کہ مکمل قومی خود مختاری کے بغیر بین الاقوامی ریاست کا قیام غیر معمولی طور پر مشکل ہے۔

88۔ اسی طرح مکمل ثقافتی خودمختاری کے بغیر، ایک ہم آہنگ قوم کی تشکیل مشکل ہے۔ (اور فرقہ واریت اپنے عروج پر پہنچ کر خود ایک ثقافت بن جاتی ہے) –

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے