29 دسمبر 1930ء کا علامہ اقبال کا خطبۂ الہٰ باد ۔ تیسری قسط

ہندوستان کے اندر مسلم ہندوستان اور وفاقی ریاستیں

مسلم ہندوستان

91۔ ہندوستان جیسے ملک میں  فرقہ پرستی ، اپنے وسیع تناظر میں ،   ہم آہنگی کی تشکیل کے لیے ناگزیر ہے۔

92۔ ہندوستانی سماج کی اکائیاں یورپی ممالک کی طرح علاقائی نہیں ہیں۔

93۔ ہندوستان مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے، مختلف زبانیں بولنے والے، اور مختلف مذاہب کے ماننے والے انسانی گروہوں کا ایک براعظم ہے۔

94۔  ان کے اعمال و افعال سے کسی ایک قومیت سےتعلق ہونے کا قطعی کوئی اظہار نہیں ہوتا۔

95۔ یہاں تک کہ ہندو بھی  کسی یکساں گروہ پر مشتمل  نہیں ہیں۔

96۔  فرقہ پرست گروہوں کی حقیقت کو تسلیم کیے بغیر یورپی جمہوریت کا اصول ہندوستان پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔

97۔  لہٰذا  ہندوستان کے اندر ایک مسلم ہندوستان کے قیام کا مسلمانوں کا مطالبہ بالکل جائز ہے۔

98۔  میرے خیال میں ، دہلی میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس کی قراردادمیں  یہی بلند نصب العین کارفرما ہے کہ،  ایک ہم آہنگ مستقبل  کے قیام کے لیے اس کے اجزا کی انفرادیت کا گلا گھونٹنے کی بجائے ،انہیں لازماً اس بات کا موقع دیا جائے کہ وہ ان تمام ممکنہ امکانات  کو بروئے کار لا سکیں جو ان میں پنہاں  ہیں۔

99۔  اور مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایوان اُس قرارداد میں شامل مسلم مطالبات کی بھرپور تائید کرے گا۔

100۔ ذاتی طور پر میں اس میں شامل  مطالبات سے کچھ آگے بڑھ کر بات کروں گا۔

101۔  میں پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبہ، سندھ اور بلوچستان کا ایک ہی ریاست میں انضمام  دیکھنا چاہتا ہوں ۔

102۔  میرےفہم کے مطابق ،  برطانوی سلطنت کے اندر  یا برطانوی سلطنت کے باہر ،ایک خود مختاراور مربوط شمال مغربی ہندوستانی مسلم ریاست کا قیام، کم از کم شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں  کا حتمی مقدر  ہے۔

103۔  یہ تجویز نہرو کمیٹی کے سامنے رکھی گئی۔

104۔ انہوں نے اسے اس بنیاد پر مسترد کر دیا کہ اگر اتنی وسیع ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا تو    انتظامی اعتبار سےیہ ایک بہت ہی کمزور ریاست بنے گی۔

105۔  جہاں تک رقبہ کا تعلق ہے یہ بات درست ہے لیکن آبادی کے لحاظ  سےمجوزہ ریاست بعض موجودہ ہندوستانی صوبوں سے چھوٹی ہو گی۔

106۔  امبالہ ڈویژن کا اخراج، اور شاید کچھ دوسرے اضلاع جہاں غیر مسلم غالب ہیں، اس کی وسعت کو کم کرنے اور مسلمانوں کی آبادی کا تناسب بڑھانے کاسبب بنے گا،   اوراس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اپنی حدود کے اندر یہ متحد ہ ریاست غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت پوری قوت سے کر سکے گی ۔

107۔ اس  تجویز  سے ہندوؤں یا انگریزوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

108۔  ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی مسلم مملکت ہے۔

109۔  ملک میں ایک ثقافتی قوت کے طور پر اسلام کی بقا  کا انحصار ایک مخصوص علاقے میں اس کی مرکزیت پر ہے۔

110۔  ہندوستان کے مسلمانوں کے سب سے زیادہ متحرک  حصے کی یہ مرکزیت، جس کی فوجی اور پولیس خدمات  نے انگریزوں کے غیر منصفانہ سلوک کے باوجود اس ملک میں برطانوی راج کو ممکن بنایا، بالآخر ہندوستان اور ایشیا کا مسئلہ حل کر دے گا۔

111۔  یہ ان کے احساس ذمہ داری میں اضافہ کرے گا اور ان کے حب الوطنی کے جذبات  میں اضافہ  کرے گا۔

112۔ اس طرح ہندوستانی سرحدوں  کے اندر،  سیاست اور ترقی کے مکمل مواقع کے جذبے سے سرشار شمال مغربی ہندوستانی مسلمان، غیر ملکی حملوں  کے خلاف ہندوستان کے بہترین محافظ ثابت ہوں گے، خواہ وہ یلغار نظریات کی ہو یا سنگینوں کی۔

113۔  56 فیصد مسلم آبادی والا پنجاب ہندوستانی فوج میں کل لڑاکا دستوں کے 54 فیصدپر مشتمل ہے، اور اگر آزاد ریاست نیپال سے بھرتی ہونے والے 19,000 گورکھوں کو علیحدہ کردیا جائے تو پنجاب کا دستہ پوری ہندوستانی فوج کا 62 فیصد بنتا ہے۔

114۔ اس تناسب میں شمال مغربی سرحدی صوبے اور بلوچستان کی  جانب سے ہندوستانی فوج کو فراہم کیے گئے تقریباً 6,000 جنگجوؤں کو مدنظر نہیں رکھا گیا ہے۔

115۔  اس سے آپ غیر ملکی جارحیت کے خلاف ہندوستان کے دفاع کے سلسلے میں شمال مغربی ہندوستانی مسلمانوں کی اہمیت  کا آسانی سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔

116۔ محترم جناب سری نواس شاستری کا خیال ہے کہ شمال مغربی سرحد کے ساتھ خودمختار مسلم ریاستوں کے قیام کے لیے مسلمانوں کا مطالبہ”حکومت ہند پر ہنگامی حالات میں دباؤ ڈالنے کی خواہش کے نتیجے میں“ سامنے آیا ہے۔

117۔  میں انہیں  واضح طور پر کہہ سکتا ہوں کہ مسلمانوں کا مطالبہ اس قسم کے مقاصد سے پورا نہیں ہوتا جس کا وہ ہم پر الزام لگاتے ہیں؛  یہ آزادانہ ترقی کی حقیقی خواہش کے  نتیجے میں عمل میں آیا ہے،  جو کہ قوم پرست ہندو سیاست دانوں کی طرف سے پورے ہندوستان میں مستقل فرقہ وارانہ غلبہ کو حاصل کرنے کے مقصد سے سوچی جانے والی وحدانی حکومت کے تحت عملی طور پر ناممکن ہے۔

118۔   ہندوؤں کو اس بات سے بھی خوف زدہ نہیں ہونا  چاہیے کہ خود مختار مسلم ریاستوں کے قیام کا مطلب ایسی ریاستوں میں ایک قسم کی مذہبی حکمرانی کا آغاز ہو گا۔

119۔ اس سے پہلے میں یہ بتا چکا ہوں کہ اسلام میں مذہب کا مفہوم کیاہے۔

120۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کلیسا ئی مذہب نہیں ہے۔

اقبال کا خطبۂ الہٰ باد-1930ء

121۔  یہ ایک ایسی ریاست ہے جس کا تصور،  روسو کا  نظریہ سامنے آنے سے بہت پہلے،  ایک اجتماعی معاہدہ  کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوچکی تھی، اور  اس کے پیچھے ایک اخلاقی نصب العین کارفرما ہے  جو انسان کو کسی سر زمین سے مخصوص نہیں کرتا،   بلکہ انسان بحیثیت ایک  روحانی ہستی  کے،  ایک اجتماعی معاشرتی نظام  کا زندہ  ومتحرک جزو ہے ،  جس کے اوپر چند حقوق و فرائض لاگو ہوتے ہیں۔

122۔  ایک مسلم ریاست کے کردار کا اندازہ ٹائمز آف انڈیا کے
اُس اداریے سے لگایا جا سکتاہے جو کچھ روز پہلے ہندوستانی بینکوں کی تحقیقاتی کمیٹی کے بارے میں لکھا گیا تھا۔

123۔  اُس مضمون کے مطابق”قدیم ہندوستان میں ریاست نے شرح سود کو  نافذ کرنے کے لیے قوانین بنائے؛ لیکن مسلم دور میں، باوجود اس کے کہ اسلام واضح طور پر قرضے کی رقم پر سود کی وصولی سے منع کرتا ہے،  ہندوستانی مسلم ریاستوں نے ایسی شرحوں پر کوئی پابندی نہیں لگائی“۔

124۔  اس لیے میں ہندوستان اور اسلام کے بہترین مفاد میں ایک  مربوط مسلم ریاست کی تشکیل کا مطالبہ کرتا ہوں۔

125۔ ہندوستان کے لیے اس کا مطلب سلامتی اور امن ہے جو طاقت کے اندرونی توازن کے نتیجے میں  پیدا ہوتا ہے جبکہ اسلام کے لیے، اپنے آپ کو اس (نظریاتی) قید سے چھٹکارا حاصل کرنے کا ایک موقع  حاصل ہوسکتا ہےجس میں عرب سامراج نے اسے  جکڑ رکھا تھا،تاکہ اس کے قانون، اس کی تعلیم، اس کی ثقافت کو متحرک  کیا جاسکے، اور انہیں اس کی اپنی اصل روح اور جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جاسکے۔ .

وفاقی ریاستیں

126۔ اس طرح یہ واضح ہے کہ ہندوستان کی آب و ہوا، نسلوں، زبانوں، عقیدوں اور سماجی نظام میں لامحدود تنوع کے پیش نظر، ایک مستحکم آئینی ڈھانچہ کو محفوظ بنانے کا ممکنہ اور واحد طریقہ، زبان، نسل، تاریخ، مذہب اور اقتصادی مفادات کی شناخت کے اتحاد پر مبنی ،  ایسی خود مختار ریاستوں  کاراستہ ہے، جو ہندوستان کے اندر تشکیل دی جائیں۔

127۔  سائمن رپورٹ کی تجاویز کے مطابق مرکزی قانون ساز اسمبلی کو وفاقی ریاستوں کے نمائندوں کی اسمبلی بنانا،  اور وفاق کی منتخب اسمبلی کی حیثیت کا خاتمہ کرنا ہے۔

128۔ مزید یہ کہ سائمن رپورٹ میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ موجودہ صوبوں کی تقسیم بھی تقریباً انہیں اصولوں کی بنیاد پر از سر نو ہونی چاہیے جن کا میں نے ذکر کیا ہے

129۔  اور(سائمن) رپورٹ دونوں(مطالبات) کی سفارش کرتی ہے۔

130۔  میں (کمیشن کے) اس نقطہ نظر کی مکمل حمایت کرتا ہوں، اور تجویز پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں کہ سائمن رپورٹ میں سفارش کردہ ازسرِ نو تقسیم دو شرائط کو پورا کرے۔

131۔ یہ  کام نیا آئین متعارف ہونے سے پہلے ہونا چاہیے، اور ثانیاً یہ اس طرح ہونا چاہئے کہ فرقہ وارانہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے طے ہو جائے ۔

132۔ اگر صوبوں کی تقسیم مناسب طریقے سے کی گئی تو مشترکہ اور علیحدہ رائے دہندگان کا سوال ہندوستان کے آئینی تنازعہ سے خود بخود خارج  ہو جائے گا۔

133۔ بڑی حد تک اس تنازعہ کا سبب  صوبوں کا موجودہ ڈھانچہ
ہے ۔

134۔ ہندو سمجھتا ہے کہ جداگانہ انتخابی حلقے حقیقی قوم پرستی کی روح کے خلاف ہیں، کیونکہ وہ لفظ قوم کا مطلب ایک طرح کا عالمگیر اتحاد سمجھتا ہے جس میں کسی بھی فرقہ وارانہ گروہ کو اپنی انفرادی  حیثیت  برقرار نہیں رکھنی چاہیے۔

135۔ لیکن درحقیقت صورت حال ایسی نہیں ہے  ۔

136۔ اور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ یہ ایسی ہی  ہو۔

137۔  ہندوستان مختلف نسلوں اور کئی مذاہب کی سرزمین ہے۔

138۔ اس کے ساتھ مسلمانوں کی عمومی معاشی پسماندگی اور خاص طور پر پنجاب میں ان کے بے پناہ قرضوں کے ساتھ کچھ صوبوں میں ان کی ناکافی اکثریت ، جو اس وقت برقرار ہے، کو مدِ نظررکھیں تو آپ پر واضح   ہوجائے گاکہ جداگانہ انتخابی حلقے برقرار رکھنے  کے لئے ہم اتنے مضطرب کیوں ہیں۔

139۔  ایسے ملک میں اور ایسے حالات میں علاقائی ووٹر، اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے مناسب نمائندگی کا حق  حاصل نہیں کر سکتے، جس کا لازمی نتیجہ ایک گروہ کے غلبے کی صورت میں نکلے گا۔

140۔ تاہم اگر صوبوں کی ازسرِ نو تقسیم اس طرح ہوجائے کہ جس میں نسبتاً یکساں لسانی، نسلی، ثقافتی اور مذہبی یگانگت پائی جاتی ہو تو ہندوستان کے مسلمانوں کو خالصتاً  مشترکہ حلقہ ہائے انتخاب پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے