ہندوستان کے دستوری ڈھانچے اور آل انڈیا مسلم لیگ کی قراردادِ لاہور 1940ء پر سر سکندر حیات کا پالیسی بیان / پہلی قسط

پنجاب کی قانون ساز اسمبلی کا اجلاس 11 مارچ 1941 اور قراردادِ لاہور 1940ء پر سر سکندر حیات کا پالیسی بیان

وزیرِ اعظم پنجاب سر سکندر حیات:

میں اب ہندوستان کے مستقبل کے دستور کی تشکیل سے متعلق اپنی تجویز پیش کرتا ہوں۔ میرے محترم دوست سردار لال سنگھ نے اپنے خطاب کے دوران اس کا حوالہ دیا اور خصوصاً اس موضوع کی نسبت میری رائے پوچھی۔ مجھے مسرت ہوئی کہ انہوں نے مجھ سے یہ استفسار کیا — اور میں نے ان کے سوال کا جواب دینے کے اس موقع سے فائدہ اٹھایا۔ اس سوال کو اٹھانے والے وہ تنہا شخص نہیں ہیں۔ اس ایوان سے تعلق رکھنے والے اور باہر کے دیگر افراد ، حامی اور مخالفین دونوں نے یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ میں اپنے خیالات کا اظہار کروں۔ پریس کا ایک طبقہ پچھلے کئی مہینوں سے مجھے طعنے اور طنز سے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ میں نے ان کے اشتعال دلانے کے ان حربوں کو برداشت کیا اور اب تک کوئی بیان دینے سے گریز کیا ہے ۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ پریس کے سامنے بیان دینے کے بجائے ایوان میں اس طرح کے اہم معاملے پر اپنا نقطہ نظر بیان کرنا زیادہ مناسب ہوگا۔ میں ایک مناسب موقع کا انتظار کر رہا تھا اور میرے محترم دوست سردار لال سنگھ نے اس پر جاری بحث کے دوران اپنے تبصروں اور مجھ سے کئے گئے براہِ راست استفسار سے وہ موقع فراہم کر دیا ہے۔ موجودہ حکومت کے مخالفین نے تنقید کی کوئی حقیقی بنیاد نہ ہونے کی وجہ سے اکثر اپنے مؤقف کو درست ثابت کرنے کے لیے مضحکہ خیز غلط بیانی اور طعنوں کا سہارا لیا ہے۔

کبھی ہمیں لیگ کی حکومت اور بسا اوقات زمینداروں کی حکومت قرار دیا جاتا ہے۔ ہماری کارروائی کو ایک سے زیادہ مواقع پر اپوزیشن نے کسان حکومت کی دھینگامشتی قرار دیا ہے۔ اگرچہ ہمیں کسان حکومت کہلانے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی، ہمارے اراکین کی اکثریت کسان ہے، تاہم کچھ اور لوگ بھی ہیں جو شاید کسان نہیں ہیں، لیکن میرے معزز دوستوں کے برعکس وہ کسانوں کے حامی ہیں۔ ہمیں کسانوں کی نمائندگی کرنے اور اُن کا دوست ہونے پر فخر ہےمگر ، ہمیں مسلم لیگ کی حکومت کے نمائندے بیان کرنا مسلمہ طور پر اور سراسر غلط بیانی ہے۔ ہم نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ہم مسلم لیگ کی حکومت ہیں۔ اور اسے مسلم حکومت کہنا سراسر بددیانتی ہو گی ، خصوصاً جب اس کے آدھے سے زیادہ ارکان غیر مسلم ہوں۔ ہم خالصتاً پنجابی حکومت ہیں اور ہم خالص پنجابی حکومت رہیں گے (تائیدی نعرے)۔ کوئی دیانت داری کے ساتھ اسے پنجابی حکومت کے سوا کچھ کہہ سکتا ہے؟ جہاں تک میرا تعلق ہے ایوان کے اس جانب کسی کو گمراہ کرنے کی کوشش کا کوئی فائدہ نہیں، مجھے ان کے اشتعال انگیز تبصروں پر کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ میرے معزز دوست سردار لال سنگھ اور ان کے ساتھی اپنے اپنے مفادات میں۔ ایسی غیر ضروری اشتعال انگیزی سے باز رہیں۔ ایوان کے اس طرف کوئی بھی ایسی بچگانہ افواہوں سے متاثر نہیں ہوگا، ہاں پریس ان کو اٹھائے گا اور باہر کے ان پڑھ لوگوں کو مشتعل کیا جائے گا۔ اس طرح کے ہتھکنڈوں سے ان کا یا ان کی برادری یا صوبے کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا میں ان سے درخواست کروں گا کہ وہ سچائی اور کھلے دل سے یہ تسلیم کریں کہ یہ واقعی پنجابی حکومت ہے۔۔ یونینسٹوں پر مشتمل حکومت، جس کے پاس ایوان میں مکمل اکثریت ہے۔جس میں خالصہ نیشنل پارٹی کا ایک رکن اور ایک آزاد رکن ہندو ہے۔ یہ موجودہ وزارت کی صحیح وضاحت ہے ۔ ایک وزارت جو کہ مجموعی طور پر حقیقی معنوں میں ایک حقیقی نمائندہ پنجابی حکومت ہے۔۔ایک ایسی حکومت، جو اس صوبے میں ہر کمیونٹی، طبقے اور عوام کی نمائندگی کرتی ہے۔ (وزارتی بنچوں سے نعرۂ تحسین)۔

میرے محترم دوست نے مزید آگے بڑھ کر پوچھا ہےکہ پاکستان کے بارے میں وزیراعظم کا کیا نظریہ ہے؟ انہوں نے یہ سوال کئی بار دہرایا اور ان کی تقلید کرتے ہوئے حزبِ اختلاف کے دیگر ارکان نے بھی اسے دہرایا۔ میرے معزز دوست، میں اس سوال کو حکومتی رکن کی حیثیت سے نہیں بلکہ ذاتی حیثیت میں قبول کرتا ہوں ۔بظاہر تو وہ اس موضوع پر میرے ذاتی خیالات سے آگاہی کی جستجو میں ہیں ۔ پھر یہ بھی کہ کسی بھی صورت میں حکومت کا اس تنازعہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے میں تجویز کرتا ہوں کہ ان کے سوال کا جواب اپنی انفرادی حیثیت سے دوں نہ کہ بطور وزیر اعظم۔ تاہم اس سوال کا جواب دینے سے پہلے میں ان کے گوش گزار ایک سوال رکھنا چاہوں گا تاکہ یہ آشکار ہوسکے کہ وہ اپنے سوال کو خود بھی سمجھتے ہیں (قہقے)۔
کیا میں ان سے استفسار کرسکتا ہوں کہ وہ کس مخصوص پاکستان اسکیم پر میری رائے جاننا چاہتے ہیں؟ کیا انہیں اس سے آگاہی بھی ہے کہ کتنی اسکیمیں ہیں؟

پاکستان اسکیم اور سر سکندر حیات خان

سردار اجیت سنگھ:

وہ جو آپ نے پیش کی ہے۔

وزیراعظم: میں نے پاکستان کی کوئی اسکیم تشکیل نہیں دی ۔ میرے معزز دوست کو بے صبری نہیں کرنی چاہیے۔ میں فی الوقت انہیں مختلف اسکیموں سے آگاہی فراہم کروں گا۔ تاکہ وہ جان سکیں کہ ان اسکیموں کے بارے میں انہیں کتنی زبردست لاعلمی ہے اور تب انہیں رکاوٹیں کھڑی کرنے پر افسوس ہوگا۔ اب میرے دوست کے ذہن میں کون سی پاکستان سکیم ہے؟ اولین تو مولانا جمال الدین افغانی کی پاکستان سکیم ہے۔ کیا انہوں نے اس کا مطالعہ کیا ہے؟ کیا وہ اس پر میری رائے چاہتے ہیں؟

سردار لال سنگھ:

ہم لاہور میں منظور ہونے والی قرارداد کے بارے میں وزیر اعظم کے خیالات جاننا چاہتے ہیں۔

وزیراعظم:

لاہور میں کوئی پاکستان سکیم منظور نہیں ہوئی۔ لیکن میں لاہور کی قرارداد سے متعلق بھی معاملہ نمٹاؤں گا جس کا وہ بظاہر مناسب وقت پر حوالہ دے رہے ہیں۔ جہاں تک پاکستان کی اسکیموں کا تعلق ہے، مولانا جمال الدین کی اسکیم سب سے پہلی ہے، لیکن وہ اس پر میری رائے کا اظہار نہیں چاہتے۔ اس کے بعد وہ اسکیم ہے جو محترم علامہ اقبال مرحوم سے منسوب ہے۔ مگر، انہوں نے کبھی کوئی حتمی منصوبہ نہیں بنایا، اگرچہ ان کی تحریروں اور نظموں نے کچھ لوگوں کو اس جانب مائل کیا ہے کہ علامہ اقبال کسی طرح کا پاکستان قائم کرنا چاہتے تھے۔ تاہم اس نظریہ کی حقیقت آشکار کرنا اور حتمی طور پر یہ ثابت کرنا مشکل نہیں ہے کہ اسلامی یکجہتی اور عالمگیر اخوت کے بارے میں ان کا تصور، ہندوستان کی حب الوطنی سے متصادم نہیں ہے، اور حقیقت میں اس نظریے سے بالکل مختلف ہے جسے کچھ شائقین ان سے منسوب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ میرا حزبِ اختلاف کا دوست نہیں چاہتا کہ مشرق کے عظیم شاعراور فلسفی ڈاکٹر اقبال سے منسوب ایک غیر حقیقی اسکیم پر میری رائے کا اظہار ہو۔ (قہقے)۔

پھر چودھری رحمت علی کی سکیم ہے… کیا وہ اس سے متعلق میری رائے جاننا چاہتے ہیں؟ جناب رحمت علی نے اپنے پاکستان کا تصور کس طرح ترتیب دیا۔

جناب رحمت علی نے اپنے پاکستان کی تشکیل اس طرح کی ۔ پنجاب کے لیے P، افغانستان کے لیے A بشمول پٹھانستان یعنی شمال مغربی سرحدی صوبہ، کشمیرکے لیے K، سندھ کے لیے Sاور بلوچستان کے لیے آخری تین حروف ‘tan’ ۔ مجھے شک ہے کہ آیا ایران بھی اس میں شامل کیا گیاہے۔ یہ چودھری رحمت علی کی سکیم ہے۔ انہوں نے کچھ سال پہلے اس اسکیم کو متعارف کرایا تھا، اور اس کی اس ملک میں بڑے پیمانے پر تشہیر ہوئی تھی اور اس کی پریس میں بھی شہرت ہوئی تھی۔ اس وقت برطانوی پریس کے ایک حصے میں بھی اس کی وسیع تشہیر کی گئی تھی۔

لیکن ایک اور اسکیم بھی ہے جس کے بارے میں میرے محترم دوست نے شاید کبھی نہیں سنا ہوگا۔ یہ برطانوی جرائد میں سے ، میرے خیال میں غالباً گول میز ، ایک میں شائع ہوئی تھی —— اور اس کا تصور ایک انگریز نے پیش کیا تھا۔ کیا وہ اس اسکیم کے بارے میں میری رائے جانناچاہتےہیں؟

ایس اجیت سنگھ:

نہیں۔

پھر میرے محترم دوست شاید پاکستان کی کسی ایسی اسکیم پر میری رائے چاہتے ہیں جو محض اُن کے تصور میں مقید ہے۔

میں اب اپنے معزز دوست سردار لال سنگھ کو ان کے قرارداد لاہور سے متعلق تجسس پر مطمئن کرنے کی کوشش کروں گا، جو آج کل پاکستان سکیم کے نام سے مشہور ہے۔ اگرچہ جس وقت وہ قرارداد منظور ہوئی اسے قرارداد لاہور کہا گیا۔ پاکستان کا لفظ لیگ کے اجلاس میں استعمال نہیں کیا گیا تھا اور یہ اصطلاح کسی نے لیگ کی قرارداد پر اس وقت تک لاگو نہیں کی تھی جب تک کہ ہندو پریس کے دماغ میں اس کی لہر نہ کوندی اور اسے پاکستان کا نام نہیں دیا گیا۔ انہوں نے جو طوفان برپا کیا ہے وہ اب اس کے نتائج بھگتیں گے۔ کہا گیا ہے کہ میں قرارداد لاہور کا مصنف ہوں۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ میں اصل قرارداد کا مسودہ تیار کرنے کا ذمہ دار تھا۔ لیکن میں یہ واضح کر دوں کہ جو قرارداد میں نے تیار کی تھی وہ ورکنگ کمیٹی نے یکسر ترمیم کردی تھی اور جو قرارداد میں نے تیار کی تھی اور جو بالآخر منظور ہوئی تھی اس میں بڑے تضادات ہیں ۔ دونوں قراردادوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ میری قرارداد کا آخری حصہ جس کا تعلق مرکز اور مختلف اکائیوں کی سرگرمیوں کے تعاون سے متعلق تھا، اس کو ختم کر دیا گیا۔ لہٰذا، لیگ کی قرار داد سے متعلق بیان دینا حقیقت میں ایک المیہ ہے کیونکہ یہ بالآخر میری قرارداد کی حیثیت سے منظور ہوئی۔ اسے مسلم لیگ کی سرکاری قرارداد کی حیثیت سے لینا چاہئے جس کی مسلم لیگ نے توثیق کی تھی۔

حوالہ:

https://www.pap.gov.pk/uploads/verbatim/text/en/pb-legis-assembly-debates-vol-xvi-1941.pdf

انگریزی متن:

Sir Sikandar Hayat’s Policy Statement on Constitutional Structure of India and All India Muslim League’s Lahore Resolution 1940 / 1st Part

0 thoughts on “ہندوستان کے دستوری ڈھانچے اور آل انڈیا مسلم لیگ کی قراردادِ لاہور 1940ء پر سر سکندر حیات کا پالیسی بیان / پہلی قسط

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے