29 دسمبر 1930ء کا علامہ اقبال کا خطبۂ الہٰ باد ۔ پہلی قسط

الہ ٰآباد میں علامہ اقبال کا صدارتی خطاب

1۔ حضرات، میں آپ کا تہہ دل سے شکرگزار ہوں کہ آپ نے ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی فکر اور سرگرمی کی تاریخ کے سب سے نازک لمحات میں سے ایک   موقع پر آل انڈیا مسلم لیگ کے مباحثوں کی صدارت کے لیے مدعو کرکے مجھے اعزاز بخشا ہے۔

2۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ اس عظیم مجلس میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کا سیاسی تجربہ مجھ سے کہیں زیادہ وسیع ہے اور جن کی ان امور پر دسترس کی میں سب سے زیادہ عزت کرتا ہوں۔

3۔    لہٰذا یہ میری طرف سے گستاخانہ بات ہوگی کہ میں ایسے لوگوں کی ایک مجلس میں سیاسی فیصلوں کی رہنمائی کرنے کا دعویٰ کروں جس کے لیے انہیں آج بلایا گیا ہے۔

4۔ میں کسی جماعت کی قیادت نہیں کرتا؛ میں کسی رہنما کی پیروی نہیں کرتا؛   میں نے اپنی زندگی کا بہترین حصہ اسلام، اس کے قانون اور سیاست، اس کی ثقافت، اس کی تاریخ اور اس کے ادب کا بغور مطالعہ کرنے میں صرف کیا ہے۔

5۔ روحِ اسلامی کے ساتھ یہ مسلسل رابطہ، جس کا اظہار وقت کے ساتھ ہورہا ہے، کی بدولت میرے اندر ایک ایسی بصیرت پیدا ہوگئی ہے جس نے مجھے اسلام سے ایک عالمی حقیقت کے طور پر روشناس کرایا ہے۔

6۔ میں اس بصیرت کی روشنی  میں خواہ اس کی قدر وقیمت کچھ بھی ہو آپ کے فیصلوں میں آپ کی رہنمائی کرنے کے بجائے آپ کے دل میں اس بنیادی اصول کا احساس پیدا کرنے کا معمولی سا کام انجام دوں گا جس پر میری رائے میں آپ کے فیصلوں کاعموماً انحصار ہونا چاہیے ۔

اسلام اور قومیت

7۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اسلام کو ایک اخلاقی مثالیہ کے ساتھ ساتھ ایک خاص قسم کی سیاست کے تناظر میں بھی دیکھا جاتا ہے ۔ جس کے اظہار سے میرا مطلب ایک سماجی ڈھانچہ ہے جو ایک قانونی نظام کے ذریعے منضبط ہو اور ایک مخصوص اخلاقی آدرش کے ذریعے متحرک ہو ۔۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی تاریخ، زندگی کا بنیادی تشکیلاتی عنصر رہا ہے۔

علامہ اقبال کا خطبۂ الہٰ باد
علامہ اقبال کا خطبۂ الہٰ باد

8۔ اس نے وہ بنیادی احساسات اور وفاداری کے جذبات پیدا کئے ہیں جو بتدریج بکھرے ہوئے افراد اور گروہوں کو متحد کرتے ہیں، اور آخر کار انہیں واضح طور پر ایسی شخصیات     میں تبدیل کرتے ہیں جو خود اپنے اندر اخلاقی شعور رکھتے ہیں۔

9۔ درحقیقت یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ ہندوستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اسلام نے ایک عوامی یکجہتی کی قوت کے طور پر اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

10۔ ہندوستان میں، دیگر جگہوں کی طرح، ایک معاشرے کے طور پر اسلام کا ڈھانچہ تقریباً مکمل طور پر ایک مخصوص اخلاقی آدرش سے متاثر اور اسلام کے بطور ایک ثقافت کام کرنے کی وجہ سے ہے۔

11۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلم معاشرہ اپنی غیر معمولی یکسانیت اور باطنی اتحاد کے ساتھ اسلام کی ثقافت سے وابستہ قوانین اور اداروں کے دباؤ میں پروان چڑھا ہے۔

12۔ تاہم یورپی سیاسی سوچ پر مبنی پھیلائے گئے نظریات اب ہندوستان اور ہندوستان سے باہر مسلمانوں کی موجودہ نسل کے نقطہ نظر کو تیزی سے بدل رہے ہیں۔

13۔ ہمارے نوجوان، ان خیالات سے متاثر ہو کر، یورپ میں ان کے ارتقاء کا تعین کرنے والے حقائق کی کوئی تنقیدی تعریف کیے بغیر، انہیں اپنے ملکوں میں زندہ قوتوں کے طور پر دیکھنے کے لیے بے چین ہیں۔

14۔ یورپ میں عیسائیت کو خالصتاً خانقاہی حکم کے طور پر سمجھا جاتا تھا جو رفتہ رفتہ ایک وسیع چرچ کی تنظیم میں تبدیل ہو گیا۔

15۔ لوتھر کا احتجاج اس چرچ کی تنظیم کے خلاف تھا، نہ کہ کسی سیکولر نوعیت کے نظامِ سیاست کے خلاف، اس کی واضح وجہ یہ تھی کہ عیسائیت سے ایسی کوئی سیاست وابستہ نہیں تھی۔

16۔ اور لوتھر اس تنظیم کے خلاف بغاوت کے لئے اٹھنے میں بالکل حق بجانب تھا؛ اگرچہ، میرے خیال میں، اس کو یہ احساس نہیں تھا کہ یورپ میں رونما ہونے والے عجیب و غریب حالات میں، اس کی بغاوت کا مطلب آخرکار یسوع کی عالمگیر اخلاقیات سے مکمل طور پر نقل مکانی ہو گا جس کی وجہ سے قومیتوں کی تعداد میں اضافہ اور اس وجہ سے اخلاقیات کے نظام کی تنزلی ہو گی۔

17۔ اس طرح روسو اور لوتھر جیسے رہنماؤں کی طرف سے شروع کی گئی فکری تحریک کا نتیجہ یہ تھا کہ ایک (قوم) باہمی طور پر غلط طریقۂ کار سے بہت سی قوموں میں تقسیم ہوگئی، جیسے کہ ملک کا تصور ، اور سیاست کے مختلف نظاموں کو قومی خطوط پر ڈھالنا، یعنی ان خطوط پر جو علاقائی سرحدوں کو سیاسی یکجہتی کے واحد اصول کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ حالانکہ ایک انسان کے قومی نقطہ نظر میں تبدیلی کے لئے، زیادہ حقیقت پسندانہ بنیاد کی ضرورت ہوتی ہے۔

18۔  اگر آپ مذہب کو مکمل دوسری دنیا پرستی کے تصور سے شروع کریں تو یورپ میں عیسائیت کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہ بالکل فطری ہے۔

19۔ یسوع کی آفاقی اخلاقیات  کی جگہ قومی اخلاقیات اور ریاستی قوانین نے لے لی ہیں۔ یورپ جس نتیجے پر پہنچا ہے وہ یہ ہے کہ مذہب فرد کا نجی معاملہ ہے اور اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں جسے انسان کی دنیاوی زندگی کہا جاتا ہے۔

20۔ اسلام انسان کی وحدت کو روح اور مادے کی ناقابل ِ ملاپ دوئی میں تقسیم نہیں کرتا۔

21۔  اسلام میں خدا اور کائنات، روح اور مادہ، کلیسا اور ریاست، ایک دوسرے کے لیے نامیاتی ہیں۔

22۔  انسان  کسی ایسی  کمتر دنیا کا  باسی نہیں ہے جسے کسی اور جگہ واقع روحانی دنیا کے مفاد میں ترک کر دیا جائے۔

23۔  اسلام کے نزدیک مادہ وہ روح ہے جو زمان و مکان میں خود کو محسوس کرتی ہے۔

24۔  یورپ نے بلا کسی تحقیق کے روح اور مادے کی دوئی کو قبول کیا، غالباً ’مانیکیائی‘(Manichaean) فلسفہ  کے زیرِ اثر۔

25۔  اس کے بہترین مفکرین کو آج اس بنیادی  غلطی کا احساس ہو رہا ہے، لیکن اس کے سیاست داں بالواسطہ طور پر دنیا کو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ اسے ایک ناقابل تردید عقیدہ تسلیم  کرے۔

26۔  پھر یہ روحانیت اور دنیا کی ناموزوں علیحدگی ہے جس نے  یورپی مذہبی اور سیاسی فکر کو  بہت  شدت سے متاثر کیا ہے اور عملاً عیسائیت کو یورپی ریاستوں کی زندگی سے مکمل طور پر خارج کر دیا ہے۔

27۔  نتیجہ باہمی طور پر غیر منصفانہ ریاستوں کا ایک مجموعہ ہے جس پر انسانی نہیں بلکہ قومی مفادات کا غلبہ ہے۔

28۔ اور یہ باہمی طور پر ناکارہ ریاستیں عیسائیت کے اخلاقی اور مذہبی عقائد کو پامال کرنے کے بعد آج ایک وفاقی  یورپ کی ضرورت محسوس کر رہی ہیں، یعنی ایک اتحاد کی ضرورت جو عیسائی کلیسا کی تنظیم نے انہیں اصل میں دی تھی، لیکن انسانی بھائی چارے کے مسیحی فلسفے کے برعکس اس  کی تعمیر نو کے بجائے،  انہوں نے لوتھر کے فلسفے کے زیرِ اثراسے  تباہ کرنا مناسب سمجھا۔

29۔ عالم اسلام میں لوتھرجیسے نظرئے  کا ظہورناممکنات میں سے ہے۔ کیونکہ یہاں قرون وسطی ٰ  کی  عیسائیت کی طرح کوئی چرچ  کی تنظیم نہیں ہے، جو کسی تباہ کار کو دعوت دیتی ہو۔

30۔  عالم اسلام میں ہمارے پاس ایک عالمگیر سیاست کا نظریہ ہے جس کے بنیادی اصولوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ  اپنا وجود رکھتے  ہیں ، لیکن ہمارے قانونی ماہرین   جدید دنیا سے رابطے کے خواہشمند ہیں، تاکہ بدلتی دنیا  کی ضروریات کے تحت، تبدیلیاں لاکر اسے نئی قوت فراہم کی جاسکے۔

31۔  معلوم نہیں عالم اسلام میں قومی نظریہ کی حتمی تقدیر کیا ہوگی۔

32۔  آیا اسلام اسے ضم اور تبدیل کرے گا، جیسا کہ اس سے پہلے اس نے بہت سے نظریات کو کچھ مختلف جذبے کے ساتھ ضم اور تبدیل کیا ہے، یا اس نظرئے کے زیرِ اثر اپنی ساخت میں بنیادی تبدیلی کی اجازت دے گا، اس کی پیشین گوئی کرنا مشکل ہے۔

33۔  لیڈن (ہالینڈ) کے پروفیسر وینسنک نے ایک  دن مجھے لکھا: ” مجھے ایسا لگتا ہے کہ اسلام ایک ایسے بحران میں داخل ہو رہا ہے جس  بحران سے عیسائیت ایک صدی سے زیادہ عرصے سے دوچار ہے۔   انتہائی دشوار یہ ہے کہ مذہب کی بنیادوں کو  ایسی صورت میں کیسے بچایا جائے ،  جب بہت سے قدیم تصورات کو ترک کرنا پڑے۔   مجھے یہ بتانا بہت دشوار  لگتا ہے کہ عیسائیت کا کیا  انجام ہو گا، تاہم یہ یقین ہے کہ اسلام اس کے مقابلے میں کم متاثر ہوگا۔“

34۔ موجودہ وقت میں قومی نظریہ مسلمانوں کی سوچ کو  کو نسل پرست بنا رہا ہے، اور یہ اسلام کے شخصیت سازی کے عمل کے خلاف کام کر رہا ہے۔

35۔  اور نسلی شعور کی نشوونما کا مطلب اسلام کے معیارسے مختلف ، بلکہ مخالف معیار کی نشوونما کا سبب بھی ہو سکتا ہے۔

36۔ مجھے امید ہے کہ آپ اس بظاہر علمی بحث کے لیے مجھے معاف کر دیں گے۔

37۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے اس اجلاس سے خطاب کے لیے آپ نے ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا ہے جو اسلام سے مایوس نہیں ہے کیونکہ وہ انسانی سوچ  کو اس کی جغرافیائی حدود سے آزاد کرنے کے لیے  بحیثیت ایک  حیات آفریں  قوت کے طور پر مایوس نہیں ہے، جس کا ماننا ہے کہ مذہب ایک  ایسی قوت ہے جس کی افراد اور ریاستوں کے وجود میں سب سے زیادہ اہمیت ہے، اور حتمی طور پر جو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اسلام خود  ایک تقدیر ہے اوریہ کسی مقدر کا شکار نہیں ہوگا۔

38۔ ایسا آدمی معاملات کو کسی اور کے نہیں بلکہ اپنے نقطہ نظر سے ہی دیکھتا ہے۔

39۔ یہ مت سوچیں کہ میں جس مسئلے کی طرف اشارہ کر رہا ہوں وہ خالصتاً نظریاتی ہے۔

40۔ یہ ایک بہت ہی حقیقی  اور عملی مسئلہ ہے جس کا شمار اسلام کے  نظام زندگی اور طرزِ عمل کو متاثر کرنے والے مسئلوں میں ہوتاہے۔

41۔ مستقبل کے ہندوستان میں ، بحیثیت ایک علیحدہ ثقافتی اکائی کے طور پر ، آپ کا وجود صرف اس کے حل پر منحصر ہے۔

  1. ہماری تاریخ میں کبھی بھی اسلام کو اس سے بڑی آزمائش کا سامنا نہیں کرنا پڑا جس کا سامنا آج ہے۔

43۔ یہ لوگوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنے سماجی ڈھانچے کے بنیادی اصولوں میں ترمیم، دوبارہ تشریح یا  اسے رد کر دیں؛  لیکن ان کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ ایک نیا تجربہ کرنے سے پہلے واضح طور پر  سمجھ لیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔

44۔  کوئی اس انداز میں نہ سوچے کہ میں اس اہم مسئلے پر اپنے نقطۂ نظر سے اختلاف کرنے والوں سے  الجھنا چاہتا ہوں جواس سے  مختلف رائے رکھتے ہیں۔

45۔  یہ مسلمانوں کا اجتماع  ہے اور میرا خیال ہے کہ آپ اسلام کی روح اور نظریات پر قائم رہنے کے لیے بے چین ہیں۔

46۔  لہٰذا میری واحد خواہش یہ ہے کہ میں آپ کو صاف صاف بتاؤں کہ موجودہ صورتحال کے بارے میں میں ایمانداری سے کیا سچ مانتا ہوں۔

47۔  صرف اسی طرح میرے لیے ممکن ہے کہ میں اپنے ادراک  کے مطابق آپ کے سیاسی عمل  میں آپ کی درست رہنمائی  کروں۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے