سر سکندر حیات اور ہندوستانی وفاق کی تجاویز
ہم علامہ اقبال کے خطبۂ الہٰ باد میں ان کی تجویز کردہ ریاست، 1940ء کی قراردادِ لاہور کا احوال اور اس موقع پر قائدِ اعظم کی جانب سے کئے جانے والے طویل خطاب کا تفصیل سے جائزہ لے چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم اسم ”پاکستان“ کے خالق چودھری رحمت علی کی مجوزہ اسکیم کو بھی زیرِ بحث لاچکے ہیں۔ قراردادِ لاہور سے قبل کی تجویز کردہ تقسیم کی کچھ اسکیموں کا احوال جاننا ہم اس لئے ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ قرارداد کی تیاری میں زیرِ غور لائی گئیں۔ اگر ہم ترتیب سے جائزہ لیں تو وہ اسکیمیں یہ ہیں،
- In a 1938 pamphlet entitled The Outlines of a Scheme of Indian Federation, Sikandar Hayat Khan, the Premier of the Punjab, proposed the reallocation of Indian territory into seven regional ‘zones’ comprising both British Indian provinces and princely states.
- The first practical step which presented the change of attitude in the Muslim League leadership was a four days conference of the Sind Provincial Muslim League, held at Karachi from October 8 to 11, 1938.
- Dr. Afzal Husain Qadri of Aligarh University wrote a letter to Quad-e-Azam in February 1939, suggested an scheme of dividing India into “Hindu India” and “Muslim India”. He prepared this scheme along with Professor Syed Zafrul Hassan of Aligarh University.
- In March 1939, Choudhury Khaliquzzam and Abdur Rahman Siddiqi in a meeting with Marquess of Zetland, the Secretary of State for India, discussed the idea of the creation of separate Muslim state(s).
- In his 1939 book, The Muslim Problem in India, Dr Syed Abdul Latif, a former professor of English at Osmania University, proposed the formation of four Muslim “cultural zones” with 11 Hindu cultural zones as the first step towards a full exchange of population that was to take place over a period of 25 years.
- The Confederacy of India, published in 1939 by the Nawab of Mamdot (Sir Shah Nawaz Khan, president of Punjab Muslim League and member of All India Muslim League Working Committee), suggested a division of India into five separate regional federations, or countries, united in a loose confederation.
- Working Committee of the Muslim League, in its meeting held at Meerut on March 26, 1939, with Jinnah in chair, passed a resolution in which they rejected the Scheme of Federation embodied in the Government of India Act, 1935 and appointed a committee to examine various schemes already propounded by those who were fully versed in the constitutional developments of India and other countries and those that may be submitted hereafter to the president.
- Jinnah while addressing the meeting of the League Council on April 8, 1939 made it clear that the committee had not pledged to any scheme. He said that the committee would examine the whole question and produce a scheme which, according to the committee would be in the best interest of the Muslims of India.
جیسا کہ مسلم لیگ کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل سید شمس الحسن نے 23 مارچ 1976ء کو ’’ڈیلی مارننگ نیوز‘‘ کراچی میں شائع شدہ اپنے مضمون میں آگاہ کیا تھا کہ سر سکندر کی تجویز ان تجاویز میں شامل تھی جن کا قراردادِ لاہور کی تیاری میں جائزہ لیا گیا تو آئیے آج ہم سرسکندر کی پیش کی ہوئی تجویز کا جائزہ لیتے ہیں۔ لیکن ان کی تجویز سے پہلے کچھ سر سکندر اور پراونشل مسلم لیگ پنجاب کے بارے میں جان لینا ضروری ہے،
آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہونے کے باوجود 1935- 1936ء تک عوامی جماعت نہیں بن سکی تھی۔ اس کی سرگرمیاں بہت محدود تھیں اور یہ نوابوں اور ٹوڈیوں کی پارٹی کہلاتی تھی۔عوامی سطح پر اس کی پزیرائی کا یہ عالم تھا کہ اس کے اجلاس عموماً سنیما گھروں ، ہوٹلوں، تھیٹرزیا پھر نجی حویلیوں میں منعقد ہوا کرتے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ 1930ء کا مشہور الہ آباد اجلاس جس میں علامہ اقبال نے اپنا خطبہ پیش کیا تھا وہاں کے ایک تمباکو فروش کی حویلی میں منعقد ہوا تھا۔ حالانکہ الہٰ باد کے مسلمان اس جلسے کیلئے بہت پرجوش تھے اور انہوں نے علامہ اقبال کا نہایت والہانہ استقبال کیا تھا مگر مسلمانوں کے مخالف گروپوں کی جانب سے جلسہ سبوتاژ کرنے کے خوف سے یہ جلسہ کھلی جگہ پر نہیں کیا گیا تھا۔ مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس عموماً صرف تقاریر اور قراردادوں تک محدود رہتے تھے۔ پھر علاقائی تنظیمیں اپنے طور پر آزادانہ فیصلے کرتی تھیں اور مرکزی تنظیم سے لاتعلقی برتتی تھیں۔ پنجاب مسلم لیگ سر شفیع کی قیادت میں قائدِ اعظم کے فیصلوں کے خلاف چلنے کی وجہ سے اپنا علیحدہ گروپ بنا کر بیٹھ گئی تھی جب کہ یہ انتہائی نازک وقت تھا اور کانگریس نہرو رپورٹ کی بنیاد پر اپنی مرضی کا آئین بنوانے کیلئے برطانوی حکومت پر شدید دباؤ ڈال رہی تھی۔ پنجاب میں میاں فضل حسین ایک روشن خیال سیاست دان کے روپ میں سامنے آئے تھے اور ابتدا میں انہوں نے جناح صاحب کے ساتھ مل کر اہم نوعیت کے کچھ کام بھی کئے تھے۔ پھر جب انہوں نے پنجاب میں یونینسٹ پارٹی کو منظم کیا تو ان کے اور قائدِ اعظم کے درمیان بہت زیادہ دوریاں قائم ہوچکی تھیں۔
سر فضل حسین سولہ برس تک پنجاب کی سیاست پر حاوی رہے۔وہ جب تک زندہ رہے انہوں نے پنجاب میں مسلم لیگ کے پاؤں جمنے نہیں دیئے۔ علامہ اقبال نے ان کی وفات پر اپنے تعزیتی پیغام میں لکھا تھا کہ ”سر فضل حسین کی وفات حسرت آیات سے ہمارا صوبہ ایک حقیقی محبِ وطن کی خدمات سے محروم ہوگیا ہے۔“
پنجاب کی سیاست کا محور وہاں کے جاگیردار، وڈیرے اور بیوروکریسی تھی۔پنجاب کی ضلعی لیگوں کے صدر اور سیکرٹری عموماً جس طبقے سے تعلق رکھتے تھے وہ جی حضوری اور خوشامدی طبقہ تھا اور وفاداریاں تبدیل کرنے میں مہارت رکھتا تھا۔ تمام تر نامساعد حالات کے باوجود قائدِ اعظم آہستہ آہستہ پنجاب میں قدم جما رہے تھے ۔ قائد نے پنجاب پراونشل مسلم لیگ کے سیکرٹری غلام رسول خان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’پنجاب میں ہماری ناکامی بھی ہماری کامیابی ہے کیونکہ آپ نے پنجاب میں کم از کم لیگ کا جھنڈا تو گاڑ دیا ہے۔“ سر سکندر حیات برطانوی سامراج کی مکمل حمایت کے ساتھ پنجاب میں اپنی حکومت قائم رکھے ہوئے تھے۔ تاہم انہیں دو مختلف محاذوں پر مزاحمت کا سامنا تھا۔ ایک محاذ پر کانگرس نے مورچہ جما رکھا تھا دوسری جانب قائد اعظم یونینسٹ پارٹی کے قلعے میں دراڑیں ڈال چکے تھے۔ برطانوی حکومت سر سکندر کی سرپرست تھی اور نہیں چاہتی تھی کہ مسلم لیگ پنجاب میں مضبوط ہو۔ پنڈرل مون کی مرتب کردہ لارڈ ویول کی ڈائری میں اس کے حوالے موجود ہیں۔ “ Wavell The Viceroys Journal – edited by Penderel Moon”اکثر مؤرخین کا خیال ہے کہ سر سکندر ہمیشہ کشمکش کا شکار رہے، وہ مسلم لیگ کے ساتھ تھے بھی اور نہیں بھی۔ ایک طرف وہ قراردادِ لاہور کا حصہ نظر آتے ہیں اور دوسری طرف پنجاب اسمبلی میں اس کی مخالفت میں تقریر کرتے ہیں۔
علامہ اقبال جب تک حیات رہے انہیں سر سکندر کے حوالے سے شدید تحفظات رہے اور اس کا اظہار وہ قائدِ اعظم کے نام اپنے خطوط میں بھی کرتے رہے ۔ اپنے 10 نومبر 1937ء کے خط میں انہوں نے قائدِ اعظم کو لکھا کہ ” سر سکندر حیات اور ان کے احباب سے متعدد بات چیت کے بعد اب میری قطعی رائے ہے کہ سر سکندر اس سے کم اور کسی چیز کے خواہش مند نہیں ہیں کہ مسلم لیگ اور صوبائی پارلیمانی بورڈ پر ان کا مکمل قبضہ ہو“۔ علامہ اقبال کی طرح پراونشل مسلم لیگ کے دوسرے سرکردہ ارکان ملک برکت علی اور غلام رسول خان سے بھی ہمیشہ سر سکندر کی ٹھنی رہی۔ ملک برکت علی 1937ء کی پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ کے پرچم بردار تھے اور انھیں یونینسٹ پارٹی کے تمام قائدین کی سخت مخالفت اور مزاحمت کا سامنا تھا۔
سر سکندر اور ان کی مربی برطانوی حکومت کو خدشات تھے کہ اگر کہیں پنجاب میں آل انڈیا مسلم لیگ اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہوگئی تو اس سے یونینسٹ پارٹی کا شیرزاہ بکھر جائے گا اور اس صورت میں پنجاب جیسا صوبہ اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور یوں برطانوی سلطنت کا مستقبل مخدوش ہو جائے گا۔
دوسری طرف جب قائد اعظم نے لیگ کو ایک کل ہند جماعت بنانے کی غرض سے ایک مرکزی پارلیمانی بورڈ قائم کیا اور اس کے اجلاس کی صدارت کے لیے 1937ء میں لاہور آئے تو ریلوے سٹیشن پر محض آٹھ دس آدمی ان کے استقبال کو موجود تھے اور اس دوران جب دہلی دروازے کے باہر ایک جلسہ منعقد ہوا تو شرکاء کی تعداد دوسو کے لگ بھگ تھی۔ پروانشل مسلم لیگ علامہ اقبال اور ان کے گنتی کے چند مخلص ساتھیوں پر مشتمل تھی۔ 1937ء کے انتخابات میں لیگ کے ٹکٹ پر محض برکت علی اور راجہ غضنفر علی خان منتخب ہوئے تھے جن میں سے راجہ صاحب تو اگلے ہی روز حسب پروگرام یونینسٹ پارٹی سے جا ملے تھے۔ سکندر جناح پیکٹ کے شدید ناقد عاشق حسین بٹالوی کےتجزیئے کے مطابق قائد اعظم اس وقت دو محاذوں پر لڑنا قرین مصلحت نہیں سمجھتے تھے چونکہ کانگرس مسلمانوں کی قومی جمعیت کو تہس نہس کرنے پر تلی ہوئی تھی لہٰذا اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا کہ وہ گھر کے اندرونی اختلافات کسی نہ کسی طرح ختم کر کے ایک متحدہ محاذ قائم کریں۔ 1937ء میں لیگ کا اجلاس لکھنؤ میں ہونا طے پایا تھا۔ اس اجلاس میں سر سکندر حیات نے شرکت کی تھی۔ سکندر جناح پیکٹ قانونی زبان میں کوئی معاہدہ نہیں تھا (خود یونینسٹ پارٹی کے ترجمان نور احمد نے یہ اعتراف کیا ہے کہ ایک مرحلے پر مسٹر جناح نے یہ نکتہ واضح کردیا تھا کہ اس کی آئینی حیثیت کسی ایسے معاہدے کی نہیں جو دو افراد یا پارٹیوں کے درمیان کیا گیا ہو۔)بلکہ یہ ایک طرح کی مفاہمت تھی ۔ یہ معاہدہ چار شقوں پر مشتمل تھا،
· سر سکندر واپس پنجاب جا کر اپنی پارٹی کا ایک خاص اجلاس بلائیں گے جس میں پارٹی کے ان تمام مسلمان ممبران کو جو ابھی تک لیگ کے ممبر نہیں ہدایت کریں گے کہ وہ سب لیگ کے حلف نامے (creed) پر دستخط کر کے لیگ میں شامل ہو جائیں۔ اندریں حالات وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی اور صوبائی پارلیمانی بورڈ کے قواعد و ضوابط کی پابندی کریں گے لیکن یہ معاہدہ یونینسٹ پارٹی کی موجودہ کولیشن(Coalition) پر اثر انداز نہیں ہو گا۔
· معاہدہ قبول کرنے کے بعد آئندہ مجلس قانون ساز کے عام اور ضمنی انتخاب میں وہ متعدد فریق جو موجودہ یونینسٹ پارٹی کے اجزائے ترکیبی ہیں متحدہ طور پر ایک دوسرے کے امیدواروں کی حمایت کریں گے۔ · یہ کہ مجلس قانون ساز کے وہ مسلم اراکین جو لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوں گے یا اب لیگ کی رکنیت قبول کرتے ہیں اسمبلی میں مسلم لیگ پارٹی متصور ہوں گے۔ ایسی مسلم لیگ پارٹی کو اجازت ہو گی کہ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کی سیاسی پالیسی اور پروگرام کے بنیادی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی دوسری پارٹی سے تعاون یا اتحاد کرے۔ اس قسم کا تعاون انتخابات کے ماقبل یا مابعد ہر دو صورتوں میں کیا جا سکتا ہے نیز پنجاب کی موجودہ متحدہ جماعت اپنا موجودہ نام یونینسٹ پارٹی برقرار رکھے گی۔
· مذکورہ بالا معاہدے کو مدنظر رکھتے ہوئے پراونشل پارلیمانی بورڈ کی تشکیل از سر نو عمل میں آئے گی۔ عاشق حسین بٹالوی لکھتے ہیں کہ ” یہ پیکٹ بڑا مبہم ، غیر واضح اور اور گومگو تھا، جس میں نہ مسلم لیگ کی حیثیت واضح کی گئی تھی اور نہ یونینسٹ پارٹی کا مؤقف کھل کر بیان کیا گیا ہے۔سر سکندر اپنی جگہ خوش تھے کہ انہیں کانگریس کے مقابلے میں آل انڈیا مسلم لیگ کی حمایت حاصل ہوگئی ہے، اور مسٹر جناح اپنی جگہ مطمئن تھے کہ پنجاب کا وزیرِ اعظم لیگ میں شامل ہوگیا ہے۔“
سکندر جناح پیکٹ کو جہاں دونوں جماعتوں کے اپنے عہدے داران کے درمیان کوئی پزیرائی نہ مل سکی وہیں اس معاہدے کو ہندو ؤں اور سکھوں نے بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھا۔ اس معاہدے سے یونینسٹ پارٹی کا کسی ایک قومیت سے منسلک نہ ہونے کا تشخص بری طرح متاثر ہؤا۔ ہندوؤں کے سرپرست اخبارات میں اس معاہدے کو شدید ہدفِ تنقید بنایا گیا۔ تاہم پنجاب کے مسلمانوں نے عمومی طور پر اس کا خیر مقدم کیا تھا۔ اس سے پیشتر مسلمان غیر متحد پارٹیوں میں بٹے ہوئے تھے۔ لیگ کے لکھنؤ اجلاس میں مسلم اقلیتی اور مسلم اکثریتی صوبوں کے مسلمان دوش بدوش نظر آئے تو مسلم قومیت اور مسلم اتحاد کے جذبے کو نئی تقویت ملی اور ان کے اندر نیا حوصلہ اور اعتماد پیدا ہوا ۔ مسلم لیگ سے سرسکندرحیات کے معاہدے کو ایک ہندو مصنف کے۔ سی۔ یادو (K.C. Yadav) نے جناح کی برتری کو تسلیم کرنے سے تشبیہ دی ہے۔ سر سکندر کی تجویز ان کی تجویز کے مطابق علاقائی بنیادوں پر آل انڈیا فیڈریشن کے قیام کے لئے ملک کی سات زونوں میں درجہ بندی ہونی تھی۔”ہندوستانی وفاق کی اسکیم کے خدوخال “ کے عنوان سے 1938 کے ایک کتابچے میں پنجاب کے وزیر اعظم سکندر حیات خان نے ہندوستانی سر زمین بشمول برطانوی صوبوں اور مقامی ریاستوں کے از سرِ نو سات علاقائی زونز میں تقسیم کرنے کی تجویز پیش کی۔ اس منصوبے میں علاقائی اور وفاقی دونوں حکومتوں میں ریاستی نمائندے شامل تھے ، لیکن ریاستوں میں کسی بھی داخلی اصلاح کی تجویز نہیں تھی اور داخلی خودمختاری اور ریاستی مراعات کی ضمانت تھی ، اس طرح ایک آل انڈیا فیڈریشن کے اندر ریاستی نظام کو ایک ادارے کی شکل دی گئی تھی ، تاکہ ملک میں یکجہتی اور مرکزی حکومت کو استحکام حاصل ہو۔ سر سکندر سمجھتے تھے اس سے ملحقہ یونٹوں کے مابین باہمی تعاون کو فروغ ملے گا، بشمول برطانوی ہندوستانی صوبے اور ہندوستانی ریاستیں ، جن کی جغرافیائی قربت ہے ۔ مشترکہ زبان اور مشترکہ معاشی مفادات سے وابستگی کے سبب قدرتی طور پر ان کے بہتر روابط استوار ہوجائیں گے۔
زون 1: آسام اور بنگال ( ایک یا دو مغربی اضلاع منہا کرکے تاکہ زون کا رقبہ کم کرکے اسے دوسرے زونز کے برابر لایا جاسکے) ، بنگال کی ریاستیں اور سکم
زون 2: بہار اور اڑیسہ (ساتھ ہی بنگال سے اڑیسہ میں منتقل کردہ علاقے)۔ اس سے اڑیسہ کو فائدہ ہوگا جو اس کے محدود وسائل اور رقبے کی وجہ سے کسی حد تک پسماندہ تھا۔
زون 3: متحدہ صوبے اور یو پی کی ریاستیں
زون 4: مدراس ، ٹراوانکور ، مدراسی ریاستیں اورکورگ
زون 5: بمبئی ، حیدرآباد ، مغربی ہندوستانی ریاستیں ، بمبئی ریاست ، میسور اور سی پی کی ریاستیں
زون 6: راجپوتانہ ریاستیں ( بیکانیر اور جیسلمر کو منہا کرکے) ، گوالیار ، وسطی ہندوستانی ریاستیں ، بہار اور اڑیسہ کی ریاستیں ، سی پی، اور بیرار
زون 7: پنجاب ، سندھ ، صوبہ سرحد ، کشمیر ، پنجاب کی ریاستیں ، بلوچستان ، بیکانیر اور جیسلمیر “…
اس طرح کے زون کے لئے ایک علاقائی مقننہ ہوگا جس میں برطانوی ہندوستان اور ہندوستانی ریاستیں دونوں یونٹ شامل ہوں گے۔ مختلف علاقائی مقننہ کے ممبران کی مجموعی تعداد میں سے ایک تہائی کو مرکزی وفاقی اسمبلی تشکیل دینا تھی۔“ سر سکندر حیات سمجھتے تھے کہ انتظامی معاملات ، خاص طور پر امن و امان سے متعلق، یہ اسکیم ایک زون کے مختلف یونٹوں کو باہمی انتظامات کرنے کی حوصلہ افزائی کرے گی اور جب ضرورت ہو تو مشترکہ لائحہ عمل طئے کرنے پر آمادہ کرے گی۔ مزید یہ کہ معاشی میدان میں یہ اسکیم یونٹوں کو صنعتی اور زرعی تحقیق کے لئے تجرباتی اور عملی شکل دینے کے قابل ہوگی اور اسی طرح کے دیگر امور کے لئے اداروں کے قیام کے مشترکہ انتظامات میں حصہ لینے کے قابل بنائے گی۔
ان کا خیال تھا کہ اس طرح کا انتظام برطانوی ہندوستانی صوبوں اور ہندوستانی ریاستوں کے مابین باہمی تعاون کی حوصلہ افزائی کرنے سے اختلافات کے مواقع اور اسباب کو کم کرنے میں معاون ہوگا جو بصورت دیگر مستقل طور پر موجود ہوتا اگر برطانوی ہندوستان اور ہندوستانی ریاستوں کے یونٹوں کو علیحدہ طور پر رکھا جاتا۔ فیڈرل ایگزیکٹو اور مقننہ کے دائرہ اختیار کو مشترکہ تحفظات کے کچھ مخصوص شعبوں تک محدود رکھنے سے ، یہ برطانوی ہندوستانی اکائیوں اور ہندوستانی ریاستوں دونوں کو یکساں بنیادوں پر وفاق کا حصہ دار ہونے کے قابل بنائے گا۔ اسی کے ساتھ یہ انتظام اپنے داخلی معاملات میں مرکز کی جانب سے غیر مناسب مداخلت کے امکان کو ختم کرکے یونٹوں کے شکوک و شبہات اور بدگمانیوں کا خاتمہ کرے گا۔ مزید یہ کہ سر سکندر سمجھتے تھے کہ یہ اسکیم وفاقی مرکز کے ساتھ یونٹوں کے رضاکارانہ اور وفادار تعاون کو یقینی بنائے گی اور یوں یونٹوں میں کسی قسم کے علیحدگی کے رجحان کو بڑھنے سے بچائے گی۔ اور یہ کہ اس سے اقلیتوں کو تحفظ کا زیادہ احساس ہوگا۔
جاری ہے۔
قراردادِ لاہور 1940ء منزل بہ منزل قسط / 5 ہم علامہ اقبال کے خطبۂ الہٰ باد میں ان کی تجویز کردہ ریاست، 1940ء کی…
Posted by Muhammad Mashhood on Sunday, September 27, 2020
Leave Your Facebook Comments Here
مسلم لیگ کونسل کا اجلاس اورکیبنٹ مشن پلان کی منظوری کی قرارداد
Hi, this is a comment.
You are invited to leave your comments here.
Thank you.