جی ایم سید کا خطبۂ استقبالیہ : آل انڈیا مسلم لیگ کا اکتیسواں اجلاس کراچی، 24- 26 دسمبر، 1943ء

آل انڈیا مسلم لیگ کا 31 واں اجلاس کراچی، 24- 26 دسمبر، 1943ء اور پلاننگ کمیٹیاں

Translated from as reported in “Foundation of Pakistan Vol II” by Sayed Sharif Uddin Pirzada, pp. 441-448, National Publishing House Ltd. Karachi. 1970

آل انڈیا مسلم لیگ کا اکتیسواں اجلاس بڑے جوش و خروش کے مناظر کے درمیان شروع ہوا۔ مندوبین کی ایک بہت بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اجلاس شروع ہوا تو تقریباً 10,000  افراد  موجود تھے۔ پورا پنڈال شاندار طریقے سے روشن تھا۔ ڈائس پر مسلم لیگ کی سرکردہ شخصیات موجود تھیں جن میں لیگ کے تین صوبوں کے وزرائے اعظم  سر غلام حسین ہدایت اللہ، ملک خضر حیات خان ٹوانہ اور سردار اورنگزیب خان شامل تھے۔

آغاز میں استقبالیہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری جناب یوسف ہارون نے چند نمایاں مندوبین کا تعارف کرایا۔

سید عبدالرؤف، صدر، سی پی۔ صوبائی مسلم لیگ; محترم عبدالمتین چوہدری، آسام کے وزیر؛ حاجی عبدالستار سیٹھ، ایم ایل اے، آل انڈیا مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کے رکن؛ جناب تمیز الدین، وزیر تعلیم، بنگال؛ محترم جناب عبدالرب نشتر، وزیر، N.W.F.P.؛ محمد بہادر خان (سابق نواب بہادر یار جنگ)، صدر، آل انڈیا اسٹیٹس مسلم لیگ؛ پیر صاحب بھرچونڈی؛ نوابزادہ لیاقت علی خان، ایم ایل اے، جنرل سیکریٹری، آل انڈیا مسلم لیگ؛ محترم معظم الدین، بنگال کے وزیر؛ نواب افتخار حسین خان آف ممدوٹ، صدر پنجاب صوبائی مسلم لیگ وفود کے چند نمایاں اراکین میں شامل تھے۔

مسٹر جناح رات 9:45 پر مس جناح،  استقبالیہ کمیٹی کے چیئرمین مسٹر جی ایم سید،  وزیرِ سندھ  جناب ایم ہاشم گزدر ، اور ایک محافظ  کے ساتھ  پنڈال میں داخل ہوئے، ۔ ۔ ’’قائد اعظم زندہ باد‘‘، ’’پاکستان زندہ باد‘‘ اور ’’فاتح کانگریس زندہ باد‘‘ کے نعروں سے ان کا استقبال کیا گیا۔ جس وقت  مسٹر جناح   نے چاندی کی خوبصورت کرسی پر  تشریف آوری کی،  جو اس موقع پر جیکب آباد سے ڈومکی  قبیلے کے سردار کی طرف سے خصوصی طور پر بھیجی گئی تھی تو  وسیع  پنڈال میں مکمل سکوت چھا گیا۔

تقریب کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ اردو کے معروف شاعر جناب انور قریشی نے اقبال کا سنسنی خیز ترانہ سنا کر سامعین کو منٹوں تک اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔؏

چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا

مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا

 

1943 ءمیں کراچی میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے 31ویں سالانہ اجلاس کے موقع پر
 چیئرمین استقبالیہ کمیٹی کا خطاب

جی ایم  سید، استقبالیہ کمیٹی کے چیئرمین  ، نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اکتسویں اجلاس کی استقبالیہ کمیٹی کی جانب سے اردو میں خطبہ استقبالیہ پڑھ کر سنایا،

جی ایم سید کا  استقبالیہ خطبہ

میں آپ سب کو سندھو کی سرزمین پر خوش آمدید کہتا ہوں۔ سندھو سے میری مراد ایشیائی براعظم کا وہ حصہ ہے جو دریائے سندھ اور اس کی معاون ندیوں کی سرحدوں پر واقع ہے۔ گزشتہ ادوار میں، سندھ اور ہند کو الگ الگ وجود سمجھا جاتا رہا ہے۔ اور سندھ میں کشمیر، شمال مغربی سرحدی صوبہ، پنجاب، بلوچستان، اور موجودہ صوبہ سندھ شامل تھے۔ لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا، یہ نام ایک چھوٹے سے رقبے کی طرف اشارہ کرنے لگا ۔یہاں تک کہ یہ صرف زمین کے اس حصے کے لیے مختص ہو کر رہ گیا  جو اس عظیم دریا کے دم سے سیراب ہوتا ہے۔ آج ایک بار پھر، اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ، ہم ان مختلف حصوں کو ایک ہی لڑی میں پرونے  کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں، اور نیا مجوزہ نام، پاکستان، اسی پرانی سندھو سرزمین کی نمائندگی کرتا ہے۔“

دوستو، تقدیر نے اس سرزمین کے ماضی کو شاندار بنایا، اور ہمیں امید ہے کہ اس کا مستقبل اتنا ہی روشن ہوگا۔ کئی لحاظ سے اس سرزمین کی تاریخ منفرد ہے۔ یہ ایک بہت پرانی تہذیب کا گڑھ ہے جس کی گواہی موہنجو داڑو اور ٹیکسلا دیتے ہیں۔ یہاں بہت سی نسلیں آپس میں گھل مل گئی ہیں۔ دراوڑی، آریائی، سامی اور منگول خصائص کے آثار کو ایک نظر میں آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ صرف نسلی آمد ہی نہیں ہے بلکہ دنیا کے کسی بھی حصے میں فلسفے اور مذاہب کا امتزاج اس سرزمین میں اس طرح نہیں ہوا ہے۔ مہاتما بدھ کا مذہب اگرچہ ہند کی سرزمین پر عروج پر تھا، لیکن اس سرزمین سے بہتر کہیں نہیں پھلا۔ اس سرزمین کے لوگ گوتم بدھ کے سکھائے گئے نروان کے سبق کو ابھی تک نہیں بھولے ہیں۔ جب اسلام اس سرزمین پر پہنچا۔ بدھ مت اب بھی رائج تھا، اور اسلام نے اپنی تعلیمات میں صرف اثبات (احساس) کا اضافہ کیا۔ ویدانت کی تعلیمات اور وحدانیت نے ایک دوسرے کو اس سرزمین سے زیادہ متاثر نہیں کیا۔ ایک طرف، وحدانیت نے ہندو یوگی کو متاثر کیا، اور بتوں کی پوجا ختم ہونے لگی۔ دوسری طرف، مسلمان درویشوں نے سنیاسی طریقوں اور موسیقی کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا، اور ہندو اور مسلم عقائد ایک دوسرے کے قریب آگئے۔ گرو نانک کی تعلیم اسی کا ایک خاص نتیجہ ہے۔ اس سرزمین کے صوفی مسلمان، جن میں عظیم شاعر شاہ عبداللطیف سرفہرست ہیں، ہمیشہ مذہبی اتحاد کے لیے کوشاں رہے۔ اس سرزمین کے لوگوں نے اتحاد کو عملی جامہ پہنانے کا جو عملی ثبوت دیا ہے وہ ایک اچھی طرح سے قائم شدہ حقیقت ہے اور جو چھوت چھات کا جزبہ انتقام کی حد تک اور جگہوں  پرموجود ہے وہ یہاں پر نمایاں طور پر سب سے کم ہے۔

گوناگوں  تہذیبوں کا مرکز

فطرت نے کہیں بھی مختلف تہذیبوں کو  اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے کی کوشش نہیں کی جیسی اس نے روز مرہ کے لین دین اور تجارت کے ذریعے اس سرزمین پر کی ہے۔ دیبل کی بندرگاہ ایک طرف سمندری تجارت کا مرکز تھی تو دوسری طرف بین الاقوامی تجارت کے لیے قافلے یہاں سے بخارا اور سمرقند پہنچتے تھے۔ نتیجے میں، دریائے سندھ کی مٹی کی زرخیزی نے بہت سے لوگوں کو سندھو کی طرف ہجرت کرنے کی طرف راغب کیا، اور ان میں سے بہت سی نسلوں نے یہاں کی سرزمین پر اپنا مستقل ٹھکانہ بنا لیا۔  ایک طرف قدیم آثار قدیمہ کے آثار اور دوسری طرف  تاریخی مواد بھی بھر پور  طور پر اس کی گواہی دیتے ہیں۔

سیاسی نقطۂ نظر سے یہ سرزمین ہمیشہ سے بہت سے لوگوں کا میدان جنگ رہی ہے۔ اس مٹی کی زرخیزی نے اکثر جنگجو فطرت نسلوں کو سندھو کی اس سرزمین کی طرف راغب کیا ہے۔ اور اگر ان میں سے چند، لوٹ مار سے مطمئن ہو کر اپنے گھروں کو لوٹ گئے، تو بہت سےیہاں آنے کے بعد، اس خطہ کو چھوڑنے کو تیار نہیں تھے۔ اس طرح اس کی رگوں میں ہمیشہ نیا خون  شامل ہوتا رہا ہے۔ جیسا کہ  بابل، مصر، ایران، یونان، عرب اور افغانستان کے سیاسی اثر و رسوخ کا یہاں آسانی سے سراغ ملتا ہے۔ اُن کے مقابلے میں جنوبی ہند کا اثر تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ میں نے اس سرزمین کی یہ مختصر تاریخ اور اس کے ماضی کی شان و شوکت اُن لوگوں کو یاد دلانے کے لیے بیان کی ہے جو ہند کے زیر اثر اپنے وطن کی شان و شوکت کو بھول چکے ہیں یا اسے بھولنے کے لیے تیار ہیں۔ آپ کی یاددہانی  کے لیے اس سرزمین کے شاندار ماضی کے کچھ ابواب بیان کرنے کے بعداب میں آپ کے سامنے عاجزی کے ساتھ اس کے مستقبل کے بارے میں کچھ خیالات پیش کروں گا، جیسا کہ میرے ذہن میں اس کا تصور ہے۔

صحرائے عرب کا پیغام

انسان اپنے آغاز سے ایک حتمی منزل کی جانب بڑھا  ہے جو فکر و عمل کی انسانیت ہے۔ اس کی مختلف مذہبی، سیاسی اور اقتصادی کوششیں اور خواہشات اس مشترکہ مقصد تک پہنچنے کے لیے محض مختلف کوششیں ہیں۔ تاریخ کے ہر صفحے پر آپ کو یہ ارتقائی عمل واضح طور پر جاری نظر آئے گا۔ ابتدا  سے انسان چھوٹے چھوٹے خاندانوں میں بٹا ہوا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خاندان جڑتے جاتے ہیں اور قبائل کی شکل اختیار کر لیتے ہیں  ۔اور قبائل مل کر اپنے آپ کو ہم آہنگ بناتے ہیں۔ باہمی اتحاد کے مختلف عوامل ہیں جس میں چند ایک کا ذکر کرنا ہے:  طرزِرہائش، زبان، زندگی گزارنے کا ڈھب، اور نت نئے  خیالات ان میں سے کچھ عوامل رہے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس اتحاد کی مادیت پرستی کی بنیاد کم سے کم نمایاں ہوتی گئی۔ یہ وہ خیال تھا جو بڑھتا گیا اور زیادہ اہمیت حاصل کرتا گیا۔ اور اس موقع پر صحرائے عرب سے ایک نئی آواز سنائی دی جس نے قوموں کو اس طرح یکجا کر دیا کہ ہمارے زمانے تک کوئی دوسری کوشش کامیاب نہیں ہو سکی۔ اس نے نسل، رنگ، طرز زندگی، عادات، زبان وغیرہ پر مبنی اتحاد کی تمام پرانی شکلوں کو نئی شکل عطا کردی۔ اسلام کے عظیم شاعر علامہ اقبال فرماتے ہیں؏

اپنی مِلّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قومِ رُسولِ ہاشمی

اُن کی جمعیّت کا ہے مُلک و نسَب پر انحصار

قوّتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیّت تری

دامنِ دیں ہاتھ سے چھُوٹا تو جمعیّت کہاں

اور جمعیّت ہوئی رُخصت تو مِلّت بھی گئی

اگرچہ اس آواز کا اثر، ابتدا میں، قدیم دنیا کے بیشتر حصوں نے محسوس کیا تھا۔ بعد میں دنیا ایک بار پھر اپنے پرانے طرز فکر کی طرف لوٹنے لگی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وحدت ملت ٹوٹ گئی اور جو لوگ اس نظریہ کی نمائندگی کرتے تھے وہ بکھرنے لگے اور بہت سے مشاہدہ کرنے والے ذہنوں نے اس کو بھانپ لیا۔  جیسے شاہ ولی اللہ، سید احمد اور جمال الدین افغانی۔ انہوں نے اپنے ہم مذہب لوگوں کو اسلام کے دئے ہوئے پیغام کے ساتھ متحرک کرنے کی دوبارہ کوششیں کیں۔ الحمد للہ آج شاعر ِمشرق علامہ اقبال نے اسی آہنگ کو ایک نئےاسلوب کے ساتھ دوبارہ دہرایا  ہے جس کی برکت سے ہم اس ملت میں ایک نئی روح پھونک سکتے ہیں ۔ ساتھ  ساتھ مغرب میں ہونے والی  بہت زیادہ خونریزی  کے بعد اُن میں یہ احسا س پیدا ہواہے کہ جب تک نام نہاد قوموں کی بنیادیں ازسرِ نو تعمیر نہیں کی جائیں گی تب تک دنیا کا آگے بڑھنا مشکل ہوجائے گا۔ ۔ ’’نظریہ‘‘ آج  ایک  فیشن  کا  روپ دھار چکا ہے۔ لیکن نقائص  اور بگڑے ہوئے نظریات کو ترک  کیا جا رہا ہے،  کیونکہ وہ  لامحالہ ناکام ہوتے ہیں اور چھوٹی  جھڑپوں کے بعد  جنگِ عظیم  کا باعث بنتے ہیں۔ واہماتی  تصور کی بنیاد پر  تراشے گئے  جزوی حل کو مختلف ناموں سے پیش کیا جا رہا ہے، اور یہ چند برسوں میں مش روم کی مانند پھیلتے اور پھر  مرجھا جاتے ہیں جن کا شمار انسان کی تاریخ میں لمحوں سے زیادہ نہیں  کیا جاتا۔   حضرت علامہ اقبال فرماتے ہیں؏

اقوامِ جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے

تسخیر ہے مقصودِ تجارت تو اسی سے

خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے

کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے

اقوام میں مخلوقِ خدا بٹتی ہے اس سے

قومیّتِ اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے

 

اگرچہ عالمگیر بھائی چارے کی تحریک  شروع ہو چکی ہے لیکن حقیقی اتحاد اور مستقل امن اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کہ دنیا کے مختلف سیاسی، معاشی اور مذہبی نظریات کا تسلی بخش حل تلاش نہ کیا جائے۔ اس کے لیے تاریخی روایات پر مبنی ایک خاص ماحول اور فکری تربیت ضروری شرط ہے۔ درجِ  بالا مشن کی تکمیل کے لیے سندھو کے لوگ زیادہ سے زیادہ موزوں ہیں۔ قدیم ریکارڈ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اس ملک میں نسلیں، تہذیبیں، مذہبی فلسفے اور طریقِ حکمرانی کے سیاسی  طور طریقے کیسے گھل مل گئے ہیں۔ نئے عالمی نظام کے قیام میں، اور مشرق اور مغرب  کے اتحاد میں، سندھو کو ایک خاص پیغام دینا ہے- اور میں اس کے اشارے پہلے ہی دیکھ رہا ہوں۔ یہاں اس  عمل کو سمجھنا  ضروری ہے۔ اگر امریکہ اور روس مشترکہ طور پر ایک نئے عالمی نظام کے قیام کے قریب پہنچ سکتے  ہیں (حالانکہ ان کے سیاسی اور معاشی نظریات ایک دوسرے سے متصادم ہیں) تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہو گی کہ ملک خضر حیات خان اور سر چھوٹورام مشترکہ طور پر مذکورہ بالا پیغام کو پیش کریں اور ایک مثال قائم کریں۔

پاکستانکی تاریخ کے دو قوم پرست رہنما/ جی-ایم-سید اور سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان
جی-ایم-سید اور سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان

ہندوستان کا مصنوعی اتحاد

لیکن یہ قابلِ افسوس ہے کہ ہند کے کچھ باشندے، عارضی ملاپ  کے لیے، اس سرزمین کے لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ اور ان کے مذموم پروپیگنڈے نے ہمارے بعض مسلم اور غیر مسلم ہم وطنوں کو پہلے ہی متاثر کیا ہے جنہوں نے تاریخ اور تلخ حقائق کے برخلاف اپنی  آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ وہ ’ایک قوم‘ اور ’متحدہ ہندوستان‘ کے نعرے لگاتے رہے ہیں۔ سندھو نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کو متحد کرنا چاہتا ہے۔ لیکن یہ مقصد ان لوگوں کے اختیار کردہ طریقوں سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ انہیں سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ لیکن اگر وہ خود کو ہند کے مفاد پرست سیاست دانوں کے طعنوں اور   (ذاتی مفادات ) کی رغبت سے آزاد نہیں کرتے ہیں  تو ایک غیر ضروری تنازعہ کھڑا ہو جائے گا۔ سندھو کی سرزمین کے باشندوں کی اکثریت اب بیدار ہو چکی ہے، اور عالمی نظام میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے، انہیں بیرونی اثرات سے آزاد کرنا ہوگا۔

مسلم کامرس

میں ایک بار پھر خاص طور پر اپنے غیر مسلم ہم وطنوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ہمارا ساتھ دیں اور ہماری سرزمین کو آزاد کرانے اور اسے خود مختار بنانے میں ہماری مدد کریں۔ ’’مسلمانوں سے خریدو‘‘ کی ہماری پکار نے ان میں  ایک شور بپا  کر دیا ہے۔ یہ اس کا  یقینی ثبوت ہے کہ اُن میں قوم پرستی کے حقیقی احساس کی کمی ہے۔ بجائے اس کے کہ بے روزگار اور غریب ہم وطنوں کو  برابری کی سطح پر لانے اور جمہوری حکومت کی پختہ بنیاد رکھنے اور اپنی سرزمین کی خوشحالی کی کوششوں  کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے، وہ اس وقت بھی لاتعلق  ہیں جب مسلمان اپنے مسلمان ہم وطنوں کو اوپر اٹھانے کی کوششیں کررہے  ہیں۔ وہ یہ دیکھنے  سے قاصر  ہیں کہ ان کا عمل صرف قومی احساس کی کمی اور ایک تنگ نظری کو ظاہر کرتا ہے ،  جو بین الاقوامی اتحاد کی امید کے لیے تباہ کن ہے۔

اس کے باوجود اگر وہ اپنے طرز عمل پر اصرار کرتے ہیں تو ہمارے پاس صرف ایک ہی راستہ رہ جائے گا کہ ہم اللہ پر بھروسہ کریں اور اپنے لیے بہترین کوشش کریں۔ اس کے بعد میں ہند کے مسلمانوں سے یہ اپیل ضرور کرتا ہوں کہ اس سرزمین کے غیر مسلم، اس حقیقت کے باوجود کہ وہ ہمارے ساتھ مشترکہ مفادات رکھتے ہیں، ہند کے غیر مسلموں کے ساتھ ہاتھ ملا رہے ہیں اور اس سرزمین کے باشندوں کو اپنا غلام بنانا  چاہتے ہیں،  صرف اس وجہ سے کہ یہاں  کے باشندوں کی اکثریت مسلمان ہے۔ ان حالات میں  ہند کے ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اپنی آبائی سرزمین کو آزاد اور خود مختار بنانے میں ہماری مدد کرے۔ میں یقیناًان کاوشوں کی بہت تعریف کرتا ہوں جو مسلمانانِ ہند نے تحریک پاکستان کو آگے بڑھانے کے لیے کی ہیں، لیکن میرے خیال میں یہ کافی نہیں ہیں۔ قراردادیں پاس کرکے اور کاغذی پروپیگنڈے میں مشغول  ہوکر عوام کی آزادی اور ترقی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ ہمارے مقاصد کے لیے بہترین کوششوں اور بھاری قربانیوں کی ضرورت ہے۔ اس سرزمین کے لوگ قربانیاں دینے کے لیے تیار ہیں، اور یہاں کے حالات سازگار ہیں۔ ہمیں صرف مخلص کارکنوں اور سرمایہ کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں صنعتی اور اقتصادی انقلاب

مخلص کارکنوں سے میری مراد وہ مرد و خواتین ہیں جو ایک عظیم آدرش اور ملت کی خاطر اس سرزمین پر آکر ملت کی سیاسی اور سماجی ترقی کے لیے کام کریں گے اور ہمارے مقصد کے لیے جدوجہد کے لیے تیار ہوں گے۔ سرمائے سے میرا مطلب یہ ہے کہ اب سے ہند کے خوش حال مسلمان براہِ کرم  روز مرہ کے لین دین  اور تجارت کے میدان میں اپنی سرگرمیاں اس سرزمین کی طرف کریں، تاکہ مستقبل میں یہ معاشی طور پر خود مختار اور خود کفیل ہو جائے۔  آپ ان دو ضروریات کو پورا کرنے میں ہماری بہت مدد کر سکتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں آپ نے سید بریلوی اور اسماعیل شہید جیسے حضرات کو ان مقاصد کے لیے بھیجا ہے۔ کیا اب  آپ میں کوئی احمد یا اسماعیل نہیں ہے؟ مجھے یقین ہے کہ آپ کے پاس ہے، لیکن ممکنہ طور پر ہند میں ان کی سرگرمیاں انہیں اپنی توجہ کسی اور طرف مبذول کرنے کی اجازت نہیں دیتی ہیں۔

اگر گجرات اور بمبئی کے لوگ سرحد  میں  جا کر وہاں ہندو تسلط قائم کر سکتے ہیں تو کیا ہم بھی آپ کے دوستوں سے کچھ امید نہیں کر سکتے؟ ہمارا مستقبل آپ کے مستقبل سے جڑا ہوا ہے۔ آپ ہند کے جتنے بھی اونچے مقامات پر فائز  ہوں، مجھے یقین ہے کہ وہ ہمارے وطن کے استحکام کے بغیر مستقل نہیں رہیں گے۔ ہندوستان میں آپ کی سالمیت بنیادی طور پر ہماری قومی ریاست کے استحکام پر منحصر ہوگی۔

قومی تنظیم کے لیے پروگرام

قوم کو اپنے مطلوبہ ہدف تک پہنچنے  اور انہیں اس مقصد کے لئے تیار کرنے کے لیے درج ذیل تین چیزیں ضروری ہیں۔

(1) قوم میں منتشر اور انتشار پھیلانے والے عناصر کو منظم کرنا اور اتحاد عمل پیدا کرنا۔

(2) خطے کی معاشی حالت کو بہتر بنانا اور اسے خود کفیل بنانا۔

(3) مستقبل کا سیاسی پروگرام مساوات اور بھائی چارے پر استوار کرنا جس کی اسلام نے تاکید کی ہے۔

پہلی ضرورت اس وقت پوری ہوگی جب پوری قوم میں آزادی کا جذبہ بیدار کیا جائے اور ہر بالغ کو نیشنل گارڈ کی تنظیم میں شامل کیا جائے۔ دوسری ضرورت پوری کرنے میں آپ ہندوستان کے مسلمان ہماری بہت مدد کر سکتے ہیں۔ اس سرزمین کے باشندوں کا زیادہ تر تعلق زرعی پیشے سے ہے اور یہ تجارت اور صنعت میں بہت پسماندہ ہیں۔ آپ کا پیسہ اور تجربہ اس خرابی کو دور کر سکتا ہے۔ آپ کے راستے کو آسان بنانے کے لیے ہم اس کے لیے ہر سہولت فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہم نے ’مسلمانوں سے خریدیں‘ کی مہم پہلے ہی شروع کر دی ہے تاکہ مسلمانوں کو تجارت کرنے کی ترغیب دی جا سکے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس تحریک کے اچھے نتائج سامنے آئے ہیں اور اب صرف تجربہ اور سرمایہ ہی اس سکیم کو مکمل کر سکتا ہے۔ امید ہے کہ آپ اس سمت میں   اپنی جانب سے مدد کا ہاتھ بڑھائیں گے۔

مسلم مزدوروں اور کسانوں کی تنظیم

اس وقت مخالفین  نے ملت کو ایک جگہ جمع ہوتے دیکھ کر اوراُن میں  دراڑ پیدا کرنے کی نیت سے غریبوں کو امیر کے مقابل میں کھڑا کرنے کے معاملے پر قوم کو تقسیم اور کمزور کرنا شروع کر دیا ہے۔ بدقسمتی سے کئی سادہ لوح لوگ اس حربے کا شکار ہو چکے ہیں اور اس کے ایجنٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ قوم کے غریبوں سے ہمدردی کی آڑ میں اسے خانہ جنگی اور بربادی کی طرف گھسیٹتے رہے ہیں۔ ممکن ہے غریب اور ناخواندہ لوگ مخالف شکاریوں  کے  پوشیدہ  جال میں پھنس جائیں۔ لہٰذا اشد ضرورت ہے کہ اس مسئلے کو تسلی بخش انداز میں حل کرنے کے پیش نظر اس سمت میں فوری اقدامات کیے جائیں۔ ہم میں سے مخلص کارکنوں کو چاہیے کہ وہ غریب کسان اور مزدوروں کو مسلم لیگ کے جھنڈے تلے لانے کی کوشش کریں، ان کے معاشی اور سیاسی حالات کو بہتر بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں، تاکہ مخالفین  کی مذموم اور شرارتی سرگرمیوں کا قلع قمع کیا جا سکے۔

دوستو، تاریخی نقطہ نظر سے اس کانفرنس کی بہت اہمیت ہے۔ اب تک، مسلم لیگ سندھو قوم کی ایک آزاد، خودمختار ریاست کے نظریہ پر ملت کو متحد کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ خدا کے فضل سے مسلمان اب اس مسئلہ پر متحد ہیں۔ اب قوم اس مرحلے پر پہنچ چکی ہے جب عملی اقدامات ضروری ہو گئے ہیں۔ یہ ملت کی سیاسی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔

آخر میں، میں آپ سب کو خوش آمدید کہتا ہوں اور کانفرنس میں ہمارے ساتھ شامل ہونے کے لیے طویل فاصلے سے اس شہر میں آنے کے لیے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ہم نے اپنے مہمانوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنے شائستہ انداز میں پوری کوشش کی ہے۔ لیکن کوئی بھی انسان کامل نہیں ہے، اور مجھے امید ہے کہ آپ کی محبت اور احترام ہماری خامیوں کو پورا کرے گا ۔ کیونکہ آخر کار، محبت ہی وہ چیز ہے جو واقعی اہمیت رکھتی ہے، اور اطمینان بخش آسائش میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے