حصولِ پاکستان تک قائدِ اعظم کے ہمراہ: ڈاکٹر محمد افضال حسین قادری

1۔ ڈاکٹر محمد سہیل شفیق

تصنیف: محمد مشہود قاسمی ۔ ڈاکٹر محمد افضال حسین قادری

2۔ روزنامہ جنگ

مشہود قاسمی کی تصنیف ”حصولِ پاکستان تک قائداعظم کے ہمراہ ڈاکٹر محمد افضال حسین قادری“کی تقریب رونمائی
15 مارچ ، 2022
کراچی (اسٹاف رپورٹر)آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام محمد مشہود قاسمی کی تصنیف ”حصولِ پاکستان تک قائداعظم کے ہمراہ ڈاکٹر محمد افضال حسین قادری“کی تقریب رونمائی حسینہ معین ہال میں کی گئی جس کی صدارت ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے کی جبکہ نظامت کے فرائض انوار قادری نے انجام دئے۔ صدر مجلس ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے کہاکہاگر کوئی یہ دیکھنا چاہتا ہےپ کہ پاکستان کی بنیاد اور پاکستان کیسا ہونا چاہیے تھا تووہ ڈاکٹر محمد افضال حسین قادری کے افکار کتاب کی صورت میں دیکھ سکتا ہے، تقریب سے ڈاکٹر نعمان الحق ، ڈاکٹر پرویز اختر صدیقی ، آرٹس کونسل گورننگ باڈی کے رکن اور لائبریری کمیٹی کے چیئرمین اقبال لطیف ، ڈاکٹر جمال قادری ، راشدہ آپا ، نادر ہ قادری ،ڈاکٹر سہیل شفیق، ڈاکٹر نثار احمد زبیری ،ڈاکٹر جہاں آراءلطفی، صبیحہ صبا،اور صاحب کتاب محمد مشہود قاسمی نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔۔۔

حصولِ پاکستان تک قائدِ اعظم کے ہمراہ

روزنامہ جنگ کا تبصرہ

تبصرہ نگار: اختر سعیدی
مصنّف: محمّد مشہود قاسمی

صفحات: 342، قیمت: 1000روپے

ناشر: فضلی بُک، سپر مارکیٹ، اُردو بازار، کراچی۔

ڈاکٹر محمّد افضال حسین قادری کا شمار اُن یگانۂ روزگار شخصیات میں ہوتا ہے، جو ہمہ جہات بھی ہیں اور ہمہ صفات بھی۔ ان کی زندگی کا ہر پہلو روشن اور تاب ناک ہے۔ وہ اب اس دُنیا میں نہیں، لیکن اُن کا کام انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ وہ سیاست دان، ماہرِ تعلیم، استاد، سائنس دان اور سب سے بڑھ کر ایک عظیم انسان تھے۔ انہوں نے بڑے بڑے کام کیے، لیکن نام و نمود سے ہمیشہ دُور رہے۔ پاکستان کے معماروں میں ان کا نام سرِفہرست ہے۔ ڈاکٹر محمّد افضال حسین قادری حصولِ پاکستان تک قائدِاعظم محمّد علی جناح کے ہم راہ رہے اور زیرِنظر کتاب تحریکِ پاکستان اور حصولِ پاکستان کے لیے ان کی خدمات اور جدوجہد کا سرنامہ ہے، جسے محمّد مشہود قاسمی نے نہایت عرق ریزی سے مرتّب کیا ہے۔

اسے ایک تاریخی دستاویز بھی کہا جاسکتا ہے۔ تقسیمِ ہند کے موضوع پر شایع ہونے والی تمام کتب میں ڈاکٹر محمّد افضال حسین قادری کا تذکرہ نہایت جامعیت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی دستاویزات میں ان کے تذکرے اور جناح پیپرز میں ان کی قائدِاعظم سے ہونے والی خط و کتابت ان کی تحریکِ پاکستان سے گہری وابستگی کے ثبوت ہیں۔ اُن کے خطوط کا انگریزی سیکشن کتاب کے آخر میں شامل ہے اور کتاب کُل بارہ ابواب پر مشتمل ہے، جب کہ ہر باب گویا ڈاکٹر قادری سے متعلق معلومات کا ایک خزانہ ہے۔ مصنّف نے اُن کی زندگی کا کوئی گوشہ مخفی نہیں رکھا، خصوصاً تحریکِ پاکستان کے حوالے سے ان کی مثالی خدمات کا بَھرپور انداز میں جائزہ پیش کیا ہے۔

نیز، محمود شام اور نوازش علی خان کی تحریروں نے بھی کتاب کی افادیت میں اضافہ کردیا ہے۔ ’’داستاں میری کسی سرووسمن سے پوچھ لو‘‘، ’’ڈاکٹرمحمّد افضال حسین قادری، مسلم یونی ورسٹی سے جامعہ کراچی تک‘‘، ’’ڈاکٹر افضال حسین قادری کی سیاسی زندگی کے کچھ گوشے‘‘، ’’یک وفاقی اور کثیر وفاقی تقسیم کی تجاویز‘‘، ’’علی گڑھ اسکیم 1939ء‘‘، ’’انتخابات1945ء-1946ء، فیصلہ کُن معرکہ‘‘،’’ڈاکٹر افضال حسین قادری کی تحریکِ پاکستان اور پاک و ہند میں تعلیمی خدمات‘‘، ’’مختار مسعود اور پیر پور کمیٹی رپورٹ‘‘، ’’ڈاکٹر افضال حسین قادری کے سیاسی خطوط‘‘، ’’ڈاکٹر افضال حسین قادری کے تعلیمی خطوط‘‘، ’’ڈاکٹر افضال حسین قادری سے متعلق اُن کے اہلِ خانہ کے تاثرات‘‘ اور ’’ڈاکٹر افضال حسین قادری کے بارے میں ان کے ساتھیوں کے تاثرات‘‘ یہ وہ عنوانات ہیں، جن پر کتاب کی عمارت کھڑی کی گئی ہے۔

3۔ اردو پوائنٹ

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 15 مارچ2022ء) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی لائبریری کمیٹی اور انجمن سابق طلبہ شعبہ حیوانیات، جامعہ کراچی کے مشترکہ تعاون سے محمد مشہود قاسمی کی تصنیف ”حصولِ پاکستان تک قائداعظم کے ہمراہ ڈاکٹر محمد افضال حسین قادری“کی تقریب رونمائی حسینہ معین ہال میں کی گئی جس کی صدارت ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے کی جبکہ نظامت کے فرائض انوار قادری نے انجام دیے۔
مجلس صدر ڈاکٹر پیزادہ قاسم رضا صدیقی نے کہاکہ پاکستان کی بنیاد اور پاکستان کیسا ہونا چاہیے تھا اگر کوئی یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ تووہ ڈاکٹر محمد افضال حسین قادری کے افکار کتاب کی صورت میں دیکھ سکتا ہے، مشہود قاسمی نے جس انداز سے یکجا کیا وہ مبارکباد کے مستحق ہیں، افضال حسین قادری نے ہماری رہنمائی کی، وہ مشن کے ساتھ کام کرتے تھے، وہ چاہتے تو سیاست میں آسکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا، انہوں نے تعلیم کی اہمیت و افادیت پر بہت کام کیا، ڈاکٹر نعمان الحق نے کہاکہ ہم نے کبھی ڈاکٹر افضال قادری میں تکبر نہیں دیکھا لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ اتنے بڑے آدمی ہیں، ڈاکٹر صاحب اپنی جدوجہد اور سیاست پر کبھی گفتگو پسند نہیں کرتے تھے وہ کہتے کہ میں پاکستان کی بنیاد کا ایک پتھر ہوں مجھے پتھر ہی رہنے دو، مجھے نہیں معلوم تھا کہ مسلمانوں کے لیے ان کے دل میں اتنا درد تھا ، مجھے کتاب پڑھ کر پتا چلا کہ وہ قائداعظم سے خط و کتابت بھی کیا کرتے ۔۔ ۔

حصولِ پاکستان تک قائدِ اعظم کے ہمراہ - محمد مشہود قاسمی

4۔ پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹر: فضلی بک سپر اسٹور

ڈاکٹر محمد افضال حسین قادری ۔ فضلی بک سپر اسٹور

5۔ محمود شام:  چیف ایڈیٹر ماہنامہ اطراف کراچی

ممتاز صحافی، شاعر، مصنف اور تجزیہ کار جناب محمود شام صاحب نے کتاب کے فلیپ کے لئے تحریر کیا۔

تحریکِ پاکستان کی یاد تازہ ہوجائے گی

محمد مشہود قاسمی صاحب سے اچانک رابطہ ہوا ۔ لیکن یہ ہمارے علم میں اضافے کے لئے بہت ہی سود مند رہا ہے۔وہ خاموشی سے تحریک پاکستان کے مرکزی اور بنیادی اہمیت کے رہنما، کارکن اور محترم استاد کی جدوجہد پر اپنی تحقیق سامنے لے کر آئے ہیں۔میں نے اس دستاویز پر جستہ جستہ نظر ڈالی ہے۔ بہت ہی روشنی بخش ، اُن عظیم دنوں کی یادیں تازہ کرنے والی، قائدِ اعظم اور اُن کے رفقأ کی طویل تگ و دو  کے مناظر سامنے لانے والی۔   ڈاکٹر افضال حسین قادری سے نیاز حاصل رہا ۔ اُن کی کئی تحریریں بھی زیرِ مطالعہ رہی ہیں۔ راشدہ افضال صاحبہ کی نگارشات بھی دیکھتے رہے ہیں۔ اپنے محترم رفیق کار جناب نثار احمد زبیری سے بھی علاقہ رہا ہے۔ مگر مشہود صاحب کی عرق ریزی جس طرح ڈاکٹر افضال حسین قادری سے متعارف کروارہی ہے، اُس سے قیامِ پاکستان کے لئےمساعی اور قربانیوں کی ایک خصوصی  داستان اور الگ حقائق سے آگاہی ہوئی ہے۔  آج کل جب پاکستان اور اس کے عوام قیادت کے بحران سے دوچار ہیں، اور ہر شعبہ میں بے حساب تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں، اُس وقت یہ مسبوط تحقیقی مضامین اکابرینِ پاکستان کے تدبر، پیش بینی اور ایک الگ وطن کے مستقبل کے لئے بصیرت کو نئی شکل میں سامنے لائیں گے۔

بہت بہت مبارک ہو مشہود صاحب۔ بہت ہی سادہ زبان، مستند واقعات، اور مکمل حوالے، تحقیق پر اعتبار قائم کرنے میں معاون ہوں گے۔

6۔ نوازش علی خاں: ڈین آف فیکلٹی پریمئیر لاء کالج گوجرانولہ

محترم نوازش علی خاں نے کتاب کے فلیپ کے لئے تحریر کیا۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

زباں پہ بارے خدایا یہ کس کا نام آیا کے میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لئے
رؤ ے زمین پہ جو لوگ جلوہ گستر ہوتے ہیں میں ان کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہوں۔ ایک عوام اور دوسرے خواص، خواص وہ اصحاب تفضل ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی تقدیر خاص کے تحت منصہ شہود پر جلوہ گستر ہوتے ہیں، اور ان سے کوئی کارِ خاص لینا مقصود ہوتا ہے۔ ایسے لوگ اپنے نقوشِ پا چھوڑ جاتے ہیں۔ ایسے اصحاب میں ایک نام غفران مآب ڈاکٹر افضال حسین قادری مرحوم کا بھی ہے جن کو عمر بھر نہ ستائش کی تمنا رہی اور نہ صلے کی پرواہ۔
میر ے ممدوح کا اصل میدان سائنس تھا، اور علی گڑھ یونیورسٹی میں ان کا ایک نام تھا۔ سائنسی تحقیق کے بے تاج بادشاہ اور سینہ قومی درد سے معمور۔ فی الوقت پاکستان کی نیور رکھنے اور اس کی ساخت موضوع زیرِ بحث ہے۔ اگرتحریک ِ پاکستان کی تاریخ لکھوائی نہ جاتی، بلکہ لکھی جاتی تو صورت کچھ اور ہوتی اور موصوف کا نام اس کی پیشانی پر مہِ چار دہم کے مانند دمکتا لیکن افسوس صد افسوس کہ تحقیق کی نہیں گئی اور وہ لوگ جو بھاری پلڑے میں بیٹھ گئے، اور بزور زر و مال اپنا نام لکھوا گئے۔ عوام کی نظر اسپ تازی کے بجائے زینت ِ بر گستواں پر ٹھہر گئی۔
موصوف، علی گڑھ یونیورسٹی میں تدریسی کا م، جو کہ بجائے خود جا نکاہ ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تحریک پاکستان کے صف ِ اول کے رہنما تھے۔ ابتدا سے انتہا تک اس مسعود تحریک میں شامل رہے۔ ریاست پیر پور کا آج نام تک کوئی نہیں جانتالیکن یہ اُسی کمیٹی کی رپورٹ اور ریزولیوشن ہی وہ دستاویز ہے جس نے گاندھی جی کی واردھااسکیم کو زمین بوس کردیا اور علمی، معاشرتی اور ثقافتی اعتبار سے ثابت کردیا کہ مسلمان ہر اعتبار سے ہندو اکثریت سے مختلف ہیں۔
جلسے جلوس ہمیشہ کسی فکری انگیخت اور نظریہ کی پیداوار ہوتے ہیں، اور اس محاذ پر ڈاکٹر افضال حسین قادری کم ازکم میرے نقطۂ نظر سے سرِ فہرست ہیں اور وجہ اس کی یہ ہے کہ تمام نظریاتی کام اُن کے زورِ قلم سے مدون ہوا۔ افسوس صد افسوس کہ قائد کی زندگی نے و فانہ کی اور قوم کاسہ لیسوں کی نذر ہوکر ایک غولِ بیابانی کی صورت اختیار کر گئی۔ تاریخ نہیں بدلتی۔ اس کےاصول اٹل ہیں اور یہ جغرافیہ بدل دیتی ہیں۔
قیاس کن ز گلستان من بہار مرا
اور عالم اَجلؔ حضرت جون ایلیاء کا ایک فقرہ اس حقیقت کا کرتا ہے کہ تحریک کا مولد علی گڑھ تھا۔ ڈاکٹر قادری ہر اعتبار سے بالاقد شخصیت تھے۔ انہوں نے ہجرت کے بعد سیاسیات کو خیر باد کہہ دیا۔ ان کی بلند نگہی نے بھانپ لیا تھا کہ سراُفق کونسا عفریت سر اٹھا رہا ہے۔ اب وہ خاک میں پنہاں ہو کر ہم میں نہیں لیکن ان کی روشن کی ہوئی علمی، تحقیقی اور سیاسی شمع اب بھی روشن ہے۔
ہر گز نہ میرد آن کہ دلش زندہ شد بہ عشق ثبت است بر جریدہ عالم دوامِ ما

7۔ قاسمی صاحب نے قادری صاحب کی یاد تازہ کر دی

عثمان وجاہت

اگست 7, 2022

تاریخ پاکستان اور تاریخ تحریک پاکستان کے طالب علم کے لیے علی گڑھ سے گریز ناممکن ہے۔ علی گڑھ یونیورسٹی اس کے اساتذہ اور طلباء کی محنت یقینا کارہائے نمایاں کا سبب بنی۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی شعر گوئی اور دیگر غیر ضروری مشاغل کسی فکری تحریک کی بنیاد نہ بن سکتے تھے۔ علی گڑھ یونیورسٹی نے تحریک پاکستان کی فکری آبیاری کی۔ دیگر شہروں میں موجود محرک افراد کی تائید سے انہیں مستحکم کیا۔

ڈاکٹر افضال حسین قادری

علی گڑھ یونیورسٹی نے جہاں علمی اور فکری انقلاب برپا کیا اور وہ نوجوان پیدا کیے جنہیں اقبال اور قائد نے سراہا۔ قائد نے تو علی گڑھ یونیورسٹی کو مسلمانوں کا اسلحہ خانہ کہا۔ علی گڑھ کی خدمات میں سے اہم ترین وہ دستاویز تھی جس کا عنوان ”ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل اور ان کا حل“ تھا جو انگریزی میں لکھی گئی یہ برصغیر کی تقسیم کی تجویز بااعتبار مذہب اور جغرافیائی حدود لیے ہوئے تھی۔ اس مجوزہ تقسیم کی دستاویز بعد ازاں ”علی گڑھ سکیم“ کہلائی۔ علی گڑھ سکیم دو بڑے دماغوں کی فکری، ذہنی مشقت کا نتیجہ تھی جو ڈاکٹر سید ظفر الحسن اور ڈاکٹر افضال حسین قادری تھے۔ دونوں حضرات نے برطانیہ سے تعلیم حاصل کی ایک فلسفہ کے استاد تھے اور ایک زولوجی کے۔ ڈاکٹر ظفر الحسن معمر تھے اور ڈاکٹر افضال قدرے جوان تھے۔
نہایت خوشی کا باعث ہوا جب ڈاکٹر افضال حسین قادری صاحب پر ایک کتاب کی تالیف کی خبر ملی۔ ڈاکٹر افضال حسین قادری کی خدمات اور شخصیت پر تحقیق یقینا تحریک پاکستان پر ہوانے والے تحقیقی کام میں ایک اہم اضافہ ہے۔ محمد مشہود قاسمی صاحب کے اجداد بھی تحریک پاکستان سے وابستہ رہے تھے، جو ان کی اس موضوع سے دلچسپی کا ایک اور حوالہ بھی ہے۔زیر نظر کتاب ”حصول پاکستان تک قائد اعظم کے ہمراہ ڈاکٹر افضال حسین قادری“ ڈاکٹر قادری کی پہلی باقاعدہ سوانح ہے۔
ڈاکٹر افضال حسین قادری کی چوہدری رحمت علی کی پاکستان موومنٹ سے مسلم لیگ میں شامل ہو کر کارہائے نمایاں انجام دینے کی تفصیل اس کتاب کا حصہ ہے۔ مؤلف جناب قاسمی صاحب نے حتی المقدور تمام تاریخی حوالہ جات اور کتب سے استفادہ کیا ہے۔ علی گڑھ سکیم کے حوالے سے اور مسلم لیگ کے دیگر امور پر ڈاکٹر افضال اور قائد اعظم کے درمیان خط و کتابت اس کتاب کا حصہ ہیں۔ اس ضمن میں پندرہ خطوط جن میں ڈاکٹر افضال نے قائد اعظم کو تجاویز دیں یا رائے کا اظہار کیا، کتاب میں شامل ہیں۔ گاندھی جی کے اعتراضات پر بھی جو جواب ڈاکٹر افضال نے دیا وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے جو کہ ڈاکٹر افضال کی سیاسی بصیرت اور قد کا آئینہ دار ۔۔۔

8۔ کتابیں جو میں نے پڑھیں / حصول پاکستان تک قائدِاعظم کے ہمراہ

 

حصولِ پاکستان تک قائدِ اعظم کے ہمراہ ۔ تبصرہ

ڈاکٹر افضال حسین قادری – پروفیسر ظفرالحسن اور علی گڑھ اسکیم 1939ء

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے