نظم (بلا عنوان) ۔ نوازش علی خاں

تری خواہش کہوں میں داستاں اپنی
کسی دہقان زادے کی بھلا کیا داستاں ہو گی
نہ اس کی ابتدا کوئی نہ جانے انتہا کیا ہو
خزاں پروردہ بے سایہ برگ سبز نا دیدہ
شجر کی
داستاں کیا ہو گی
کسی افسردہ ،غم خوردہ زخم خوردہ
بخوں غلطیدہ ،داغ ہجر دیدہ اور رنجیدہ
بجاں کشتہ،دل آشفتہ بہار لطف نا دیدہ
کی کیسی داستاں ہو گی
یہ نوحہ کس کو کہتے ہیں ،رثا میں کیا ہے پوشیدہ
کبھی خنسآ غم دیدہ کو اک شہر منور سے
ذرا لاؤ تصور میں
ردائے بے ردائی میں،کسی دائم جدائی میں
درون جان کا گر یہ
بجاں شعلہ و غم خوردہ
درون خو یشتن مردہ کا ،فرمودہ
رثا ہے
جو فرمایا تھا خنسآ نے وہی ہے داستاں میری
مرے سحر تکلم سے مرے قلم معلم سے
بڑی مرعوب لگتی ہو
تمہیں سودائے کامل ہے

تدبر اور تعقل کوئی وقعت نہیں رکھتے
کہ مفتاح مطالب، زر کی کنجی ہے
ہمارے کیسہ کو دیکھو ٹٹولو
کہ زر نا آشنا ہے بے خدا ہے
نہیں رشتہ کوئی میرے دل و جاں میں
بہت اچھا ہوا کوئی نہیں رشتہ
ہیں رشتے سب سرابوں کے
نا آسودہ خوابوں کے
انہی رشتوں سے
امید پارہ ناں میں
ہزاروں گالیاں کھائیں
زخم کھاے بہت اور رنجشیں پائیں
نکالے پاوں سے کانٹے
پھر ان پر ہی زباں رکھ دی
یا بنیاد بیاں رکھ دی
بجرم بے زری تعزیر دیکھی
کہیں بالشتیوں کو خندہ زن دیکھا
سگان بے وفا کو نعرہ زن دیکھا
یا جبر آسماں دیکھا
کبھی تنہائی آفاق میں راتوں نہیں سویا
کوئی کانٹا نہیں بویا
کئی تشنہ امیدوں میں نوازش گر سرابوں میں
ہمیشہ ہم نے کھویا ہے
ہمیشہ کچھ نہیں پایا
یہی ہے داستاں میری

(نوازش علی خاں)

شاعری نوازش علی خاں:

وقت
انسان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے