قائدِ اعظم پر کئے جانے والے اعتراضات اور تاریخی حقائق / قسط-1

تقسیمِ ہند کا پس منظر

(فیس بک پر پوسٹ کیا گیا پیراگراف)

ہم گزشتہ کچھ مضامین میں قائدِ اعظم پر کئے جانے والے اعتراضات کے حوالے سے احباب کے سوالات اکھٹا کرتے رہے ہیں۔ آج اس سلسلۂ مضامین کو باقاعدہ طور پر آگے بڑھاتے ہیں۔ کیبنٹ مشن کے حوالے سے بیان کیا گیا کہ آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانانِ ہند کے لئے علیحدہ و خودمختار مملکت کے مطالبے سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہ ہوئی۔ احباب میں سے جناب نثار احمد صاحب نے استفسار کیا کہ ” مسلم لیگ تقسیم ہند پر کیوں ڈٹی ہوئی تھی؟“یعنی دوسرے معنوں میں یہ کہ قائدِ اعظم ہندوستان کی یکجہتی کے کسی پلان سے متفق کیوں نہیں ہوئے۔ کیبنٹ مشن سےمذاکرات اور پھر ان کے پلان سے اختلاف کی تفصیلات میں جانے سے پہلے ہم یہ جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا  تقسیمِ ہند  صرف مسلمانوں کا یا آل انڈیا مسلم لیگ کا مطالبہ تھا؟ یوں تو اس موضوع پر میں مسلسل لکھتا رہا ہوں، تاہم قدرے اختصار سے سلائڈز میں ایک بار پھر اس پس منظر کو بیان کیا جارہا ہے جس نے بالآخر قائدِ اعظم کو تقسیم کے مطالبے پر ڈٹ جانے پر مجبور کردیا تھا۔ مضمون کی طوالت کے پیشِ نظر آج  اس پس منظر کا پہلا حصہ پیش کیا جارہا ہے۔  احباب کی جانب سے سوالات کو اکھٹا کرنے کا عمل جاری ہے۔ مضمون پر قارئین کے تبصروں کا انتظار رہے گا۔

  • ڈاکٹر امبیدکر 1941ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب “Thoughts on Pakistan  میں لکھتے ہیں کہ، ”پاکستان ایک ناگزیر حقیقت   ہےاور یہ بات حیران کن ہے کہ مسلمانوں نے اس کو اپنانے(مطالبہ کرنے)  میں اتنا وقت کیوں لیا۔ “
    ( R. AMBEDKAR, “THOUGHTS ON PAKISTAN”, p: 41, THACKER AND COMPANY LIMITED, Bombay 1941.)
    امبیدکر کی اس تحریر کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ نظریۂ پاکستان کشید کیا گیا نظریہ نہیں تھا، یعنی ایسا نہیں کہ اسے کسی سیاسی مصلحت کے تحت تخلیق کرلیا گیا تھابلکہ  یہ نظریہ کئی دہائیوں سے  واضح طور پر موجود ہ تھا۔ ؏

جو ہے پردوں میں پنہاں چشم بینا دیکھ لیتی ہے

زمانے کی طبیعت کا تقاضادیکھ لیتی ہے
(علامہ اقبال)

  • 14 مارچ، 1888ء کو سرسید احمد خان نے میرٹھ میں دو طویل تقریریں کیں۔ان تقاریر میں انہوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کسی سمجھوتے کے امکان کو مکمل طور پر رد کردیا تھا۔ انہوں نے واشگاف الفاظ میں بیان کیا کہ” اگر انگریز  ہندوستان سے چلے جاتے ہیں تو کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ  مسلمان اور ہندو آپس میں شیر و شکر ہوں گے،  انہوں نے کہاکے دونوں کے  درمیان لامحالہ جنگ ہوگی اور حکمرانی اسی کے حصے میں آئے گی جو دوسرے فریق پر غالب آئے گا۔
    انہوں نے خبردار کیا کہ اگر مسلمان ہندوؤں کی تحریک میں شامل ہوں گے تو نقصان میں رہیں گے۔ سر سید نے کہا کہ ”وہ نہیں چاہتے کہ اہلِ کتاب کی غلامی سے نکل کر وہ ہندوؤں کی رعایابن جائیں۔
    (Sir Syed Ahmad on the present state of Indian Politics, consisting of speeches and letters reprinted from the “Pioneer”, Allahabad, 1888, pp: 2 – 24)
  • 1923ء میں انتہا پسند ہندو رہنما’ ویر ساورکر‘نے ، جس نے 1904ء میں ”ابھینؤ بھارت سوسائٹی“ Abhinav Bharat Society) (     کے نام سےہندو انتہا پسند تنظیم تشکیل دی تھی، ایک نظریاتی  کتابچہ   ’ہندوتوا:  ہندو کون ہے‘ (Hindutva: Who is Hindu)  شائع کیا۔ اس کتابچے میں مذہبی حدود کو قومیت کا رنگ دیا گیا۔ ساورکر نے ہندوستان کو ہندو مت کی جنم بھومی قرار دیتے ہوئے مسلمانوں اور عیسائیوں کی تہذیب و روایات کو درآمد شدہ بیان کیا اور غیر ہندو مذہب کو خلافِ قانون قرار دیا۔
  • لالہ لاجپت رائے نے 1924ء میں مذہب کی بنیاد پر تقسیمِ ہندکی تجویز پیش کی جو خود ایک انتہا پسند ہندو تھے۔ لالہ لاجپت رائے نے بھانپ لیا تھا کہ ہندو اور مسلمان ساتھ ساتھ نہیں رہ سکتے۔ 1924 ء میں لالہ جی نے  تبادلۂ آبادی کے ساتھ تجویز کیا کہ شمال مغربی سرحد، مغربی پنجاب، سندھ اور مشرقی بنگال میں چار مسلم ریاستیں بنا کر مسلمانوں کے حوالے کردی جائیں۔ نیز اگر  ہندوستان کے کسی دوسرے حصے میں مسلم کمیونٹیز ہیں، جو ایک صوبہ بنانے کے لیے کافی بڑی ہیں، تو ان کے لئے بھی اسی طرح ریاست کی تشکیل کردی جائے۔یہ تجویز دیتے وقت انہوں نے اس بات کا بھی اظہار کردیا تھا کہ اس کا منطقی نتیجہ   بہرحال تقسیم ہوگا۔
    (Lala Lajpat Rai, 30th November, 5th, 14th and 17th December 1924, Articles published in the ‘Tribune’ of Lahore.)
  • مولانا مرتضٰی احمد خان محمد زئی جو اپنے قلمی نام میکش درانی سے مشہور تھے،  صحافی بھی تھے ، افسانہ نگار، ادیب اور شاعر بھی۔ پھر وہ  بحیثیت استاد بھی پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ صحافت سے وابستہ رہے۔   7، 8، اور 10 دسمبر 1928ء کو  روزنامہ انقلاب میں ان کا تین اقساط پر مشتمل ایک مضمون شائع ہوا تھا جس کے عنوانات یہ تھے، (i) مسلمانانِ ہند کی اجتماعی سیاسی زندگی۔ فکر و  عمل کے انتشار کا  دردناک مظاہرہ(ii)مسلمانانِ ہند کا سیاسی نصب العین۔ برادرانِ وطن کی روش کا مظاہرہ(iii) ہندی مسلم کے لئے وطن کی ضرورت۔ ہندوستان کی سیاسی الجھنوں کا واحد علاج
    اپنے مضامین میں انہوں نے مسلمانوں کو  یکجہتی و یک رنگی پیدا کرنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے قرار دیا کہ کسی نصب العین کے بغیر مسلمانوں کے سامنے دو ہی راستے ہیں؛ انگریز کی غلامی یا انگریزوں سے آزادی کے بعد ہندوؤں کی غلامی۔ مولانا میکش نے تلقین کی کہ مسلمان ’شمالی ہند‘ کو اپنا وطن بنانے کا نصب العین بنا لیں، جو ان کی قوتوں کو مجتمع کردے گا۔
  • فروری1929ء میں’دی مسلم انڈیا‘کے ایڈیٹر فضل کریم خان درانی نے “The Future of Islam in India” (ہندوستان میں اسلام کا مستقبل) کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس میں انہوں نے لکھا کہ ”دو متضاد ثقافتوں کا ایک ساتھ رہنا ناممکن ہے۔ دونوں کے درمیان تصادم ناگزیر ہے۔ چنانچہ ہندوستانی مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ مسلمان یا تو خود کشی کر لیں یا یہ ثابت کرنے کے لئے لمبے بال رکھناشروع کر دیں کہ وہ ہندو ہو چکے ہیں۔ ورنہ وہ سچے مسلمانوں کی طرح عزم و استقلال کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوں اور سلطنت ہند کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیں۔ “  مسٹر درانی نے کہا کہ” دنیا کی تاریخ میں کبھی کوئی ریاست معاہدوں کے نتیجے میں وجود میں نہیں آئی، اس لئے یہ سوچنا کہ ہندو مسلم اتحاد کے ساتھ  تشکیل پانے والی حکومت اپنا وجود برقرار رکھ سکے گی، یہ محض خام خیالی ہے۔“
    (K. Khan Durrani, ‘The Future of Islam in India’, Lahore, 1929, pp: 12, 23,69)
  • 8 نومبر 1927ء کو برطانوی حکومت  نے  آئندہ آئین کے لئے تجاویز پیش کرنے والے کمیشن کا اعلان کیا۔  19 مئی 1928ء کو  وہ کمیٹی  تشکیل دی گئی جسے نہرو کمیٹی کا نام دیا گیا۔کانگریس کے زیرِ اثر
    آل پارٹیز کانفرنس کی سب کمیٹی کی سربراہی پنڈت موتی لال نہرو کر رہے تھے جس کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ کانگریس کے مدراس میں ہونے والے اجلاس میں منظور کی گئی قراردادِ اتحاد کی بنیاد پر ہندوستان کا آئین تیار کرے۔  مقصد یہ تھا کہ برطانوی پارلیمنٹ سے اس کے نفاذ کا مطالبہ کیا جاسکے۔ نہرو رپورٹ سامنے آنے پر علامہ اقبال اس نتیجے پر پہنچے کے ”ہندوستانی پنڈتوں“ نے کوشش کی ہے کہ ہندوستان میں انگریزوں کا قائم کردہ حکومتی ڈھانچہ برقرار رہے اور اختیارات ہندو لیڈران کے ہاتھوں میں چلے جائیں۔
    علامہ صاحب کے خطبۂ الہٰ باد  کا اہم ترین حصہ وہ تھا جس میں انہوں نےاپنا مطالبہ ان الفاظ میں پیش کیا، ” ذاتی طور پر میں ان مطالبات سے بھی ایک قدم  آگے جانا چاہتا ہوں جو اس قرارداد میں پیش کیے گئے ہیں میری خواہش ہے کہ پنجاب ،شمال مغربی صوبہ سرحد ، سندھ اور بلوچستان کو ملا کر ایک ہی ریاست میں مدغم کر دیا جائے۔ مجھے تو ایسا نظر آتاہے کہ کم از کم ہندوستان کے شمال مغرب میں سلطنت برطانیہ کے اندر یا اس کے باہر ایک خود مختار حکومت اور شمالی مغربی متحدہ مسلم ریاست آخر کا ر مسلمانوں کا مقدر ہے۔“ علامہ اقبال پہلے فرد نہیں تھے جنہوں نے علیحدہ مسلم اسٹیٹ کی بات کی ہو۔ علامہ اقبال نے خطبے میں ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا تھا کہ وہ اس طرح کی تجویز پیش کرنے والے پہلے فرد ہیں۔ بہت سے فیصلے اقوام کے اجتماعی شعور سے جنم لیتے ہیں۔ انفرادی سطح پر یہ باتیں ہوتی رہی تھیں، علامہ صاحب نے قوم کے اجتماعی شعور کو اپنی توانا آواز میں بیان کیا تو یہ آواز چہار دانگ میں گونجی اور جو بات اشارۃ ًکہی گئی تھی وہ  بالآخر  1940ء میں ایک باقاعدہ مطالبے کی صورت میں سامنے آگئی۔

حوالہ: حصولِ پاکستان تک قائدِ اعظم کے ہمراہ ڈاکٹر محمدافضال حسین قادری، محمد مشہود قاسمی، صفحہ 62۔61، فضلی بک سپر اسٹور، کراچی۔ 2022ء

2 thoughts on “قائدِ اعظم پر کئے جانے والے اعتراضات اور تاریخی حقائق / قسط-1

  1. بہت زبردست تحقیقی مضمون ۔ جزاک اللہ خیراً کثیراً
    یہ بتائیے کہ دو قومی نظریے پر سرسید نے دونوں تقریریں واقعی میرٹھ میں میں کی تھیں،،،، یا ،،، میرٹھ اور لکھنؤ میں ایک ایک تقریر؟

    1. بہت نوازش۔
      پہلی بات یہ کہ یہ دو قومی نظریہ والی بات درست نہیں۔ ”مسلمان ایک قوم ہیں“ یہ فرمانا تھا سرسید کا، یہی اقبال اور قائدِ اعظم کا۔
      لکھنو کی تقریر الگ ہے جب کہ میرٹھ میں 14مارچ 1888 کو دو تقاریر کی تھیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے