قائدِ اعظم پر کئے جانے والے اعتراضات اور تاریخی حقائق / قسط-2

چودھری رحمت علی اور تقسیمِ ہند

  • چودھری رحمت علی کبھی آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف راغب نہ ہوئے اور نہ ہی مسلم لیگ نے کبھی ان کو اپنی صفوں میں شامل کرنا چاہا۔ بلکہ چودھری رحمت علی آل انڈیا مسلم لیگ کے ناقد رہے۔اگرچہ ان کی تحریک کے ابتدائی مہینوں میں ان کی ملاقاتیں علامہ اقبال ، دوسرے  مسلم اکابرین اور قائدِ اعظم سے بھی ہوئیں مگر ان افراد سے سے ان کی قربت یا کوئی دیرپا تعلق قائم نہ ہوسکا۔

چودھری رحمت علی کا شروع سے یہ مؤقف رہا کہ برصغیر کے مسلمانوں کو کسی صورت ایک وفاق قبول نہیں کرنا چاہیئے اور نہ صرف اکثریتی علاقوں میں بلکہ اقلیتی علاقوں میں بھی جہاں جہاں مسلمان کثیر تعداد میں آباد ہیں وہاں ان کو آزادی حاصل کرلینی چاہیئے۔ آغاز میں انہوں نے بھی صرف شمالی علاقہ جات اور کشمیر پر مشتمل ایک آزاد اور خودمختار مملکت کی بات کی تھی اور “NOW or NEVER” (اب یا کبھی نہیں) کے چونکا دینے والےعنوان  کے ساتھ اپنا پہلا پمفلٹ  1933ء میں کیمبرج سے شائع کیا تھا۔ چند صفحات پر مشتمل اس تحریر میں ایک علیحدہ ملک کے لئے بھرپور دلائل دیئے گئے تھے اور اس ملک کا نام ابتدا میں ”PAKSTAN“ اور بعد میں ”I“ کا اضافہ کرتے ہوئے پاکستان تجویز کیا گیا تھا۔ یہ لیٹرز ان علاقوں کے نام سے اخذ کئے گئے تھے جو چودھری رحمت علی کی ابتدائی تجویز میں ایک مملکت بننی تھی۔ ”پی“سے پنجاب،”اے“ سے افغانیہ یعنی شمال مغربی سرحدی صوبہ، ”کے“ سے کشمیر، ”ایس“ سے سندھ اور (ٹی، اے، این) یا تان کے الفاظ بلوچستان کی نمائندگی کرتے تھے۔

چودھری صاحب نے اپنے سرکلر” اب یا کبھی نہیں “ میں ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ آزاد اور خود مختار ملک کے قیام کے مطالبہ کو مدلل انداز میں پیش کرتے ہوئے دلائل سے یہ ثابت کیا کہ انڈیا کے مسلمان اپنے مخصوص مذہب،ثقافت،تاریخ،خانگی زندگی کے معاملات جیسے شادی بیاہ،وراثت،اپنی روایات،معاشی نظام،اپنے خاص ملی مقاصد ،قومی رسومات،لباس اور خوراک وغیرہ میں ہندوؤں سے مختلف ہیں،جب وہ ایک دوسرے سے اتنے اختلافات رکھتے ہیں تو وہ آپس میں ایک قوم کیسے کہلا سکتے ہیں،انہیں متحدہ قومیت قرار دینا اوراکھٹا رہنے پر مجبور کرنا غلط ہو گا۔ رحمت علی نے اپنے سرکلر میں ٹھوس حقائق اور مضبوط دلائل کی بنیاد پر انڈیا کے اہم سیاسی مذہبی،ثقافتی اور معاشی امور کا بنظر غائر جائزہ لیا ہے اور ان کا حل بھی پیش کیا ہے۔اس دستاویز میں بھرپور دلائل کے ساتھ پاکستان کے قیام کا جواز پیش کیا گیا تھا۔

چوہدری رحمت علی نے یورپی ممالک سے موازنہ کرتے ہوئے لکھا کہ”اندازہ کیجیے ہم تیس ملین مسلمان دنیا کی آبادی کا دسواں حصہ ہیں،پانچ صوبوں پرمشتمل مجوزہ پاکستان کا رقبہ اٹلی سے چار گنا،جرمنی سے تین گنا اور فرانس سے دو گنا ہے ،اس کی آبادی کنیڈا سے سات گنا،سپین سے دو گنا،جبکہ اٹلی اور فرانس کے برابر ہے۔یہ وہ ناقابل تردید حقائق ہیں جن کی بنیاد پر ہم پاکستانی کہہ سکتے ہیں کہ ہم علیحدہ قومیت رکھتے ہیں اور ہم یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ہندوستان سے علیحدہ ایک مسلم وفاق کے قیام کی تجویز منظور کر کے ہماری الگ قومی حیثیت تسلیم کی جائے۔“

[Choudhry Rahmat Ali, “NOW OR NEVER” 3, Humberstone Road, Cambridge, England, 28th January, 1933.

]

چودھری رحمت علی پر مضمون

صوبائی مسلم لیگ (سندھ) کا کراچی میں اجلاس 1938ء

صوبائی مسلم لیگ سندھ کی قرارداد 1938ء

  • 1938ء میں کراچی میں پہلی صوبائی مسلم لیگ کانفرنس کا انعقاد ممکن ہوا۔ کہنے کو تو یہ صوبائی کانفرنس تھی لیکن اس میں پورے ہندوستان سے قدآور سیاسی شخصیات شریک تھیں اور قائدِ اعظم خود اس کانفرنس کی صدارت کررہے تھے۔ شرکأ میں لیاقت علی خان، نواب اسماعیل خان، نواب بہادر یار جنگ، مولانا شوکت علی، بیگم محمد علی، راجہ صاحب محمودآباد، پیر پور کے راجہ سید محمد مہدی، فرنگی محل کے مولانا جمال میاں، سید غلام بھیک نیرنگ، مولانا عبدالحامد بدایونی، نواب مشتاق احمد گورمانی، اور پنجاب و بنگال کے وزرائے اعظم سر سکندر حیات اور اے۔کے۔فضل الحق شامل تھے۔ کسی بھی صوبائی سطح کی میٹنگ میں اتنی بلند قامت شخصیات پہلے کبھی شریک نہیں ہوئی تھیں، اور نہ ہی اس کانفرنس میں محض صوبائی سطح پر بات چیت ہوئی۔ درحقیقت یہ کانفرنس پیش خیمہ تھی اس تحریک کا جو تحریکِ پاکستان کے نامِ نامی سے مرتسم ہوئی۔8  اکتوبر،1938ء کو کانفرنس کا افتتاحی اجلاس ہؤا ۔ استقبالیہ کمیٹی کے چیئرمین سر عبداللہ ہارون  نے مسلم لیگ کا نظریاتی نصب العین بیان کیا کہ ”اقلیتوں کے لئے خاطر خواہ حفاظتی انتظامات اور تحفظ فراہم نہیں کیے جاتے ہیں تو مسلمانوں کے پاس اپنی راہ کاتعین کرنے کے لئے مسلم ریاستوں کی آزاد فیڈریشن میں اپنی نجات حاصل کرنے کے سوا کوئی متبادل نہیں ہوگا۔“ سر عبداللہ ہارون نے یاد دلایا کہ گزشتہ پندرہ برسوں میں مسلم لیگ کے رہنماؤں نے ہندوؤں کے سرکردہ چوٹی کے رہنماؤں کے ساتھ کسی معاہدے پر پہنچنے کے لئے کیا کیا کوششیں کیں، مگر ایسا کوئی معاہدہ آج بھی اتنا ہی دور ہے جتنا پندرہ برس پہلے تھا۔ [Sindh Observer, 9 October 1938]قائدِ اعظم نے اپنے خطاب میں کہا،”کانگریس حالات کو جس نہج پہ لے جارہی ہے وہاں انڈیا طول و عرض میں تقسیم کا شکار ہوجائے گا۔ “ قائد نے کہا کہ،” میں کانگریس کو خبردار کرتا ہوں اور ساتھ ہی انہیں کہتا ہوں کہ وہ سوڈیٹن جرمنز کے واقعہ سے سبق سیکھیں اور آگاہی حاصل کریں۔“ آل انڈیا مسلم لیگ کی 1938ء  میں منعقد کی گئی اس کانفرنس میں۔ پانچویں قرارداد بہت اہم تھی جو شیخ عبدالمجید سندھی نے پیش کی۔ یہ تقسیم ِ ہند سے متعلق ، اور اس کانفرنس کی مرکزی قرارداد تھی۔  اس قرارداد میں یہ احساس اجاگر کیا گیا کہ مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں اور ہندوستان میں بسنے والے حقیقت میں ایک قوم نہیں اور یہ کہ مسلمانوں کوہندوستان کے لئے نیا آئین وضع کرنا چاہئے۔قرارداد کے الفاظ تھے،

(الف)یہ کہ اس [کانگریس] نے مسلمان وزرا کے بغیر یا مسلمان وزراکے ساتھ وزرات تشکیل دے کر جن کی کوئی پیروی مسلمان ارکان کے درمیان نہیں ہے، جان بوجھ کر ، مکمل طور پر ہندو راج قائم کیا ہے ، یہ براہ راست اور واضح طور پر حکومتِ ہند ایکٹ مجریہ 1935ء کے مقاصد کی خلاف ورزی ہے اور اس میں دی گئی ہدایات کے برعکس ہے۔ جب کہ اس طرح قائم کی گئی وزارتوں کا مقصد مسلمانوں کو ڈرانا اور دباؤ ڈالنا ، مسلم ثقافت کے صحتمند اور قومی تعمیر کے اثرات کو ختم کرنا، مسلمانوں کے مذہبی رسم و رواج اور مذہبی ذمہ داریوں پہ پابندیاں لگانا، اور ایک علیحدہ قومیت کے طور پر ان کے سیاسی حقوق کا خاتمہ ہے۔

(ب)یہ کہ اس [کانگریس] نے جنوب مغربی سرحدی صوبے، بنگال، پنجاب اور سندھ میں اتحادی وزارتوں کو اقتدار دلانے کے لئے براہ راست یا بالواسطہ کوششیں کی ہیں ، اگرچہ وہ مسلمانوں کی اور اس صوبہ کی عوام کی اکثریت کے اعتماد سے محروم ہیں، اور اس طرح مسلمانوں کی طاقت کو غیر مؤثر اور غیر اہم بنانے کے لئے جمہوری اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے۔

(ج) یہ کہ مشترکہ امنگوں اور مشترکہ نظریات کے زیرِ اثر ذات پات سے متاثرہ ذہنیت اور اکثریتی طبقے کی مسلم دشمنی پر مبنی پالیسی کے نفاذ کے لئے واحد متحدہ ہندوستان اور متحدہ ہندوستانی قوم کا ارتقا بعید از قیاس ہے، اور یہ بھی کہ مذہب ، زبان ، رسم الخط ، ثقافت ، معاشرتی قوانین اور دو اہم برادریوں کی زندگی کے نقطہ نظر کے شدید فرق کی وجہ سے اور یہاں تک کہ بعض حصوں میں نسل کے فرق کے باعث یہ ممکن نہیں ہے۔

(د) یہ کہ ہندوستان کے وسیع برِاعظم میں مستقل امن و امان قائم رکھنے، یہاں بسنے والی دو قوموں یعنی ہندوؤں اور مسلمانوں کے اپنے اپنے کلچر کو فروغ دینے، انہیں بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی اپنی اقتصادی اور معاشرتی اصلاح کرنے اور انہیں سیاسی طور پر حقِ خود اختیاری عطا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہندوستان میں دو مختلف وفاق قائم کیئے جائیں جن میں سے ایک وفاق مسلمانوں کا ہو اور دوسرا ہندوؤں کا۔ ” چنانچہ یہ اجلاس آل انڈیا مسلم لیگ سے درخواست کرتا ہے کہ وہ ایک ایسے آئین کا خاکہ مرتب کرے جس کی رو سے مسلمانوں کی اکثریت کے صوبے، مسلم اکثریت رکھنے والی ریاستیں، اور وہ علاقے جہاں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے، متحدہ طور پر ایک وفاق کی صورت میں مکمل آزادی حاصل کرسکیں۔“

اس قرارداد کی منظوری کے عمل سے مسلم لیگ نے پہلی بار سیاسی طور پر انڈیا کو دو علیحدہ مملکتوں کی شکل میں پیش کیا، اور اسی وقت علیحدہ قومیت کے حصول کے لئے ایک جائز ذریعہ کے طور پر سیاسی خود ارادیت کے دعوے کو بھی آگے بڑھایا ۔

]”مولانا غلام رسول مہر اور پاکستان اسکیم ایک مطالعہ“،مؤلف: پیر علی محمد راشدی، مرتب: ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہان پوری ، صفحات: 47-46،مجلسِ یادگارِ مہر۔ مکتبۂ رشیدیہ۔ کراچی 1992ء[

 

مسلم لیگ کی جانب سے تقسیمِ ہند کی تجویز پر عملدرآمد کا فیصلہ

قائداعظم نے 8  اپریل (1939ء) کو دہلی میں منعقدہ لیگ کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”ملک کو  مسلم اور ہندو بھارت میں تقسیم کرنے سمیت کئی اسکیمیں ہیں۔ یہ اسکیمیں اس کمیٹی کے سامنے تھیں جو مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے  (26  مارچ، 1939ءکو) قائم کی تھی۔ یہ پورے سوال کا جائزہ لے گی،  اور ایک اسکیم تیار کرے گی، جو ہندوستان کے مسلمانوں کے بہترین مفاد میں ہو گی۔“

(Syed Syed Sharifuddin Pirzada, “All India Muslim League Centenary Souvenir 1906-2006”, pp. 101-102, Nazaria-i-Pakistan Trust, Lahore, August 2008)

 

لہٰذا اسی سلسلہ میں “3 فروری 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس دہلی میں منعقد ہوا۔” اس میں قرارداد نمبر 14 منظور کی گئی جو کہ درج ذیل ہے:

کمیٹی نے مسلمانوں کے مطالبات اور ہندوستان کے مستقبل کے آئین کے سوال پر غور کیا۔ مندرجہ ذیل وسیع خاکہ پر اتفاق کیا گیا:

1۔ مسلمان کسی بھی معنیٰ میں اقلیت نہیں ہیں۔ وہ ایک قوم ہیں۔

2۔ جمہوری پارلیمانی پارٹی کا برطانوی نظام حکومت،  ہندوستان کے لوگوں کی خواہشات اور حالات سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔

3۔ وہ علاقے جو طبعی نقشے میں مسلمانوں کی اکثریت پر مشتمل ہیں، اُنہیں خودمختار حیثیت میں، براہ راست برطانیہ کی عملداری میں شامل کیا گیا ہے۔

4۔ ان علاقوں میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں ، ان کے اور دیگر اقلیتوں کے مفادات کا مناسب اور مؤثر طریقے سے تحفظ ہونا چاہئے۔ اسی طرح مسلمانوں کے علاقوں میں، ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں کو تحفظ ملنا چاہئے۔

5۔ ہر علاقہ میں مختلف یونٹس کو خود مختار یونٹس کی حیثیت میں وفاق کا جزوی حصہ بنایا جائے گا۔

(فائل نمبر 129 ، آرکائیوز آف فریڈم موومنٹ ، کراچی یونیورسٹی لائبریری)

دہلی میں ہونے والی ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ کے دو دن بعد (یعنی 6  فروری، 1940ء کو) قائداعظم نے وائسرائے لارڈ لن لتھگو سے ملاقات کی اور ان کو بتایا کہ لیگ لاہور میں اپنے کھلے سیشن میں ملک کی تقسیم کا مطالبہ کرےگی۔

 

آل انڈیا مسلم لیگ کی قرارداد 1940ء

روزنامہ انقلاب / بشکریہ جناب امجد سلیم علوی

مسلمانوں کی علیحدہ مملکت کا مطالبہ 1940ء

 

قائدِ اعظم پر کئے جانے والے اعتراضات اور تاریخی حقائق / قسط-1

فیس بک پر قارئین کے تبصرے

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے