قائدِ اعظم پر کئے جانے والے اعتراضات اور تاریخی حقائق / قسط-3

تقسیمِ ہند اور بھارت میں رہ جانے والے مسلمان : قوموں کی تاریخ کا حیران کن واقعہ

1947ء  میں وقوع پزیر ہونے والی تقسیمِ ہند کے نتیجے میں بھارتی حصے میں رہنے والے مسلمانوں کا سیاسی کردار قوموں کی تاریخ کا ایک حیران  کن واقعہ ہے۔ یوپی، بہار،  سی پی، برار، بمبئی، اور کرالہ میں بسنے والے مسلمانوں کو معلوم تھا کہ پاکستان وہاں نہیں بن رہا ہے۔ مگر انہوں نے پاکستان کیلئے جدوجہد کی اور پاکستان حاصل کرلیا۔ تقسیم کی جدوجہد میں سب سے بڑھ چڑھ کر جنہوں نے حصہ لیا۔یہ یوپی میں رہنے والے مسلمان تھےجنہوں نے نعرہ دیا

”بٹ کے رہے گا ہندوستان ۔ لے کے رہیں گے پاکستان“

حالانکہ تحریک میں پیش پیش یہ مسلمان جانتے تھے کہ پاکستان یوپی میں نہیں بن رہا۔ یوں تو 1940ء کی قراردادِ لاہور کے بعدمسلمانوں کی علیحدہ مملکت کے حصول کی جدوجہد تیزی سے آگے بڑھنا شروع ہوگئی تھی مگر اس کا  عروج 1945ء کے  مرکزی انتخابات  اور 1946ء کے صوبائی انتخابات تھے جن میں پورے ہندوستان سے مسلمانوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کو بھرپور  پزیرائی بخشی۔ مرکز میں مسلمانوں کیلئےمخصوص 30 کی 30 سیٹیں اور صوبائی اسمبلیوں کی  492 میں سے 429 سیٹیں مسلم لیگ کے حصے میں آئیں۔  مسلم لیگ نے   تقریباً نوے فیصد ووٹ حاصل کئے جب کہ کانگریس  محض چار فیصد مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرپائی۔  باوجود ان حقائق کے کہ گاندھی جی کا تشخص ہندوستان میں بسنے والی تمام اقوام کے باپو کا تھا، مولانا ابولکلام آزاد جو 1940 سے 1946ء تک کانگریس کے صدر رہے تھے  انہوں نے تقسیم کے خلاف بھرپور کوششیں کی تھیں، جمیت العلمائے ہند  اور دیگر مسلمان تنظیمیں کانگریس کی ہمنوا یا کم از کم تقسیم کے خلاف تھیں۔ ایسے میں آل انڈیا مسلم لیگ کی اس قدر بھرپور کامیابی جمہوری تاریخ کا ایک  ایسا باب تھا جس کا حتمی جواب آج بھی بہت سے مؤرخین تلاش کرنے میں سرگرداں ہیں۔ مزید حیران کن    بات تقسیم کے بعد ان مسلمانوں کا عمل تھا جنہوں نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا تھا اور ان کی اکثریت نے پاکستان جانے کے بجائے بھارت میں رہنے کو ترجیح دی۔

صوبائی اسمبلیوں کےنتائج

Results of Elections in 1946

Votes Polled by; Congress and other Parties in

Assembly Elections (1946)

(Table does not include votes of uncontested seats,
Unopposed returns, Congress: 303 and Muslim League: 40)

N. N. Mitra “The Indian Annual General, July-December 1945 Vol.II,”  p: 229

Provincial Assemblies Election 1946

*Out of 151 seats reserved for the Scheduled Castes the Congress Scheduled Castes candidates won 36 seats unopposed and 105 seats contested with 2182.2 (thousand) Vote,—Votes of unopposed seats not included.

N.B. The Congress polled more than 190 lakhs or 19 million votes. The Muslim League polled about 45 lakhs or 4.5 million—75% Muslim votes.

The Non-League Parties polled more than 15 lakhs or 1.5 Million—25% Muslim votes.

The Scheduled Castes Federation polled more than 5 lakhs or 0.5 million votes, The Communist Party polled more than 6 lakhs or 0.6 million votes.

As the Muslim League Stands VIS-VIS other Parties in the Provincial Legislative Assemblies (1946) after the Elections

Details- Provincial Assemblies Elections, 1946

1Including 4 Muslims.                          2Including 19 Muslim members.

3Including 3 Europeans.                      4Incinding one Muslim seat

ABBREVIATIONS:-

N. M. —Nationalist Muslim.

H. M.—Hindu Mahasabbs.

R.D.P.—Radical Democratic Party.

J—Jamiat-UI-Ulema.

M. L.-u-Syed.Muslim L. under Syed.

M. L.—Muslim League.

S.C.F.—Scheduled Caste Federation

Com.—Communist.     Ind. Pro. Con.—Indepen. Pro. Congress

N.L.M.P.Non-League Mus۔ Party.

بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کا کردار

یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ 1984ء کے عروج میں اندرا گاندھی کی  کانگریس  پارٹی کو  ڈالے گئے ووٹوں کا 49 فیصد حاصل  ہوا تھا۔ بھارت کے آخری انتخابات  منعقدہ 2019 ء  میں  مودی کی بی جے پی تنہا 37 فیصد ووٹ لے پائی اور اتحاد ی ووٹوں کو ملا کر بھی ان کے ووٹ  45 فیصد سے نہیں بڑھ پائے۔ اس طرح آل انڈیا مسلم لیگ کے 89 فیصد سے زائد ووٹ ایک حیران کن کامیابی تھی۔  (گو کہ یہ انتخابات ”ون مین ون ووٹ“ کی بنیاد پر نہیں تھےاور طریقہ کار بہت پیچیدہ تھا، تاہم  ووٹ کےتناسب کو ہم نظر انداز نہیں کرسکتے  )یہ حیرانی اس وقت دو چند ہوجاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے نام پر ووٹ ڈالنے والے ان مسلمانوں   کی کثیر اکثریت پاکستان کی طرف ہجرت کرنے کے بجائے بھارت میں ہی رہنا پسند کرتی ہے۔  ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 80 فیصد مسلمانوں نے بھارت نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اب یہاں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں،

  • کیا بھارت میں رہ جانے والے مسلمان اپنے فیصلے پر مطمئن تھے؟
  • کیا قیامِ پاکستان کی تحریک کے وقت انہیں پوری طرح اندازہ تھا کہ جس تحریک میں وہ حصہ لے رہے ہیں اس کا پھل انہیں نہیں ملنا ہے؟
  • کیا یہ مسلمان قائدین کی غلطی تھی کہ وہ ان مسلمانوں کی آزادی کیلئے کوئی لایحۂ عمل ترتیب نہیں دے سکے؟ (یاد رہے کہ تقسیم اس لئے ضروری سمجھی جاتی تھی کہ ہندو اکثریت والے ملک میں مسلمانوں کی شناخت مٹ جانے کے خدشات ظاہر کئے جاتے تھے۔ تو جب یہ خدشات موجود تھے تو پھر ان مسلمانوں کے مستقبل کیلئے کیوں نہیں سوچا گیا جنہیں تحریک کیلئے استعمال کیا گیا؟)
  • جن مسلمانوں نے سب سے بڑھ چڑھ کر تحریک میں حصہ لیا انکے لئے ایک مخصوص وقت کے بعد پاکستان کے دروازے بند کیوں کردیئے گئے؟
  • یہ صحیح ہے کہ جس نقشے کے مطابق ممالک کی تقسیم ہو رہی تھی اس میں تبادلہ آبادی ناممکن تھا ۔اگر اس حقیقت کو مان لیا جائے کہ جس خطے میں پاکستان بن رہا تھا وہاں ہندوستان کے تمام مسلمانوں کیلئے جگہ نہیں تھی تو پھر اس کا متبادل راستہ تلاش کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی؟ ( یاد رہے کہ ہندو مہاسبھا کے ممتاز ترین لیڈر لالہ لاجپت رائے نے  1923ء میں تبادلہ آبادی کے ساتھ تقسیم کی تجویز پیش کی تھی۔)
  • پاکستان کا نام تجویز کرنے والے چودھری رحمت علی کی دستاویزات میں ہندوستان میں بسنے والے تمام مسلمانوں کیلئے ان کا تفصیلی جائزہ اور تجاویز  بمع نقشہ جات ملتی ہیں۔ انکی کچھ تجاویز کو ناممکن قرار دیا جاسکتا ہے  اور ایک دیوانے کا خواب قرار دیا جاسکتا ہے۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک تنہا شخص جب اتنا کام کرسکتا تھا تو اجتماعی طور پر آل انڈیا مسلم لیگ نے اس سلسلے میں کوئی ہوم ورک کیوں نہیں کیا؟

عوامی مباحثہ

جب میں  نےسوشل میڈیا پر یہ استفسارات قارئین کے سامنے رکھے تو ایک زبردست علمی بحث کا آغاز ہوا۔ یوں تو کئی طرح کےتبصرے سامنے آئے تاہم میں نے ذیل میں انتہائی متعلقہ تبصروں کو یکجا کرنے کی کوشش کی ہے۔

شرکاء محفل

Asadullah Talib

Muhammad Mashhood Amjed Saleem Alvi Sultan Ahmed

DrAbdul Ahad

Abid Hussain Khan

Naseer Akhter

Irfan Mirza

Rizwan Tahir Mubeen

Salam A.

Jamal Qadri

Salman Zeervi

Junaid Krachvi Azmat Shahab Hafiz Safwan

Khawajamuhammad Zakariya

Zafar Mahmood

Fayyaz Bedaar

   

Asadullah Talib

تاریخ اپنی جگہ لیکن موجودہ حالات میں ھندوستان کے مسلمانوں سے پاکستان کے مسلمان اچھی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ان باتوں کا اعتراف آج خود ھندوستان کے حکمران بھی کر چکے ہیں۔

Muhammad Mashhood

تقسیم کی جدوجہد میں حصہ لینے والے مسلمانوں میں جو پاکستان نہیں آئے ان میں کچھ مسلم لیگ کے انتہائی سرکرہ لیڈران بھی شامل تھے۔ سب سے نمایاں نام نواب محمد اسماعیل خان کا تھا جو آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی رہنما اور قائدِ اعظم کے قریبی ساتھیوں میں تھے۔ وہ علیگڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے۔

اسی طرح مسلم لیگ مدراس کے صدر محمد اسماعیل بھی تھے جنہوں نے پاکستان نہ جانے کا فیصلہ کیا اور مقامی مسلم لیگ پارٹی چلاتے رہے۔

بہت سے مسلمان قائدین نے تقسیم کے بعد وہاں کی مین اسٹریم پارٹیوں میں شمولیت اختیار کرلی۔

Asadullah Talib

آپ لوگ اب کیسا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں

Amjed Saleem Alvi

لوگوں کی راۓ مختلف ہو سکتی ہے۔ ظاہر ہے اکثریت کی راۓ چلے گی۔ میرا خیال ہے اکثریت جمہوری پاکستان چاہتی ہے۔

Sultan Ahmed

قیام پاکستان کے چند سالوں بعد ہی یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ گھاٹے کا سودہ ہو گیا پہلی بات جیسا کہ آپ لکھا کہ ہندو مہاسبھا کے رہنما لالہ راجپت رائے نے تقسیم کی تجویز 1923 میں ہی دی تھی دوسرے فرزند علامہ اقبال جسٹس جاوید اقبال نے بھی اپنے ایک TV انٹرویو میں قیام پاکستان کا ذمہ دار ہندوؑں کو ہی قرار دیا ہے تیسری پاکستان کے مشرقی اور مغربی حصوں کا ایک ملک ہونا غیر فطری عمل تھا جو ثابت بھی ہو گیا مشرقی حصہ افسوسناک اور شرمناک طریقے سے الگ ہو گیا چوتھے تقسیم ہند کی وجہ سے برصغیر کے مسلمان پہلے دو اور قیام پاکستان کے 24 سال بعد ہی تین حصوں میں تقسیم ہو گئے اور ہندو یکجا ہو گئے پانچویں نہ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمان سکون سے ہیں اور نہ ہم چھٹے اس وقت بھی پاکستان کے حالات ابتر ہیں اور بہتری کی کوئی امید نہیں آگے خدا جانے۔ویسے میرا خیال ہے کہ یوپی بہار وغیرہ کے مسلمان صورتحال کو سمجھنے میں ناکام ہو گئے اور سیاسی فیصلہ جذباتی انداز میں کیا۔

DrAbdul Ahad

میرا خیال ہے کہ مسلمان ہندو اور سکھ پورے ہندوستان میں اس طرح بکھرے ہوئے تھے کہ کوئی بھی حل عملاً ناکافی تھا. بہت سے لوگوں کی طرح میرا بھی خیال ہے کہ تقسیم ایک بہتر حل تھا اور اکثر اوقات بہتر حل ہی درست حل کہلاتا ہے. افسوس صرف ایک ہے تبادلہ آبادی کے ساتھ خونریزی اور قتل کے واقعات بہت زیادہ ہوے اور سنا ہے کہ تقسیم کے بعد کچھ عرصے تک یہ الزام دونوں طرف سے لگتا رہا کہ فریق مخالف نے زیادہ قتل کیے. مسلمانوں کی حالت زار کی صورت گری میں البتہ سنا ہے کہ صحافیانہ منافقت کا بھی دخل ہے. واللہ اعلم

Muhammad Mashhood

جی یقیناً تقسیم ہی بہتر حل تھا، مگر ہم بات کررہے ہیں کہ مسلمانوں کی ایک تہائی آبادی کو اس بہتر حل میں شامل کرنے پر کوئی کام کیوں نہیں ہوا جنہوں نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں۔

DrAbdul Ahad

Muhammad Mashhood

میرے سننے میں یہ آیا ہے کہ یوپی وغیرہ کے مسلمان خوشحال تھے. انہیں ایسے معاشی اور سماجی مسائل نہیں تھے جس کی وجہ سے وہ منتقلی پر مجبور ہوتےپنجاب میں مسلمانوں کے پاس چھوٹی چھوٹی زمین داریاں تھیں اور سکھ فیکٹر. دونوں نے انہیں منتقلی پر آمادہ کیا. ورنہ مسائل کے حل کا کوئی پروگرام مسلم لیگ کے پاس تھا ہی نہیں. جو کچھ ہوا خود بخود ہوا

Muhammad Mashhood

DrAbdul Ahad ایک بات تو یہ کہ صرف یوپی نہیں بلکہ پورے ہندوستان سے ہی سوائے صوبہ سرحد کے مسلم لیگ نے کامیابی حاصل کی، دوسرے یہ کہ یوپی کا مسلمان اگر مطمئن تھا اور اسے ہجرت نہیں کرنی تھی تو پھر اس نے اتنی بھرپور تحریک کیوں چلائی اور ہندوؤں کو اپنا دشمن کیوں بنایا؟ آپ نے صحیح کہا، مگر یوپی، سی پی، بہار وغیرہ کے مسلمانوں نے اگر ہجرت نہیں کرنی تھی تو اتنا بڑھ چڑھ کر تحریک میں حصہ کیوں لیا۔

DrAbdul Ahad

لیکن آپ یہ بھی دیکھیں کہ جو آبادیاں مغربی پاکستان کی سرحد سے زیادہ دور تھیں ان کی نقل مکانی بھی کم ہوئی. شاید ایک خوف راستے کے عدم تحفظ کا بھی تھا

Abid Hussain Khan

مسلم اقلیتی علاقوں کے سیاستدان بلکہ نواب خاندان تحریک پاکستان میں زیادہ متحرک تھے جس کی وجہ شاید برطانیہ کے جانے کے بعد برٹش سیاسی ماڈل کے اندر ان علاقوں میں پڑنے والا سیاسی و سماجی دباؤ تھا جس کا سامنامسلم اکثریتی علاقوں کے سیاستدانوں کو نہیں تھا اور شاید متحد رہنے کی صورت میں بھی ان کے اثرو رسوخ میں زیادہ فرق نہیں پڑنا تھا اسی لیے مسلم اقلیتی علاقوں کے سیاستدان جن کا مسلم لیگ میں مضبوط ہولڈ بھی تھا تقسیم پہ زیادہ زور دے رہے تھے۔ یہاں یہ بھی تو ممکن کہ جیسا مسلم لیگ دستوری تحفظ مانگ رہی تھی اس سے ان کے مفادات کا تحفظ ہو جاتا لیکن بہر حال تقسیم ہو گئی۔شاید وہ ایکسپیکٹ نہ کر رہے ہوں کہ تقسیم ہو پائے گی

Naseer Akhter

Muhammad Mashhood

محترم عابد حسین صاحب کے کمنٹس میں آپ کےاس سوال کا تسلی بخش جواب موجود ہے کہ مسلم اقلیتی علاقوں میں تحریک پاکستان کی اتنی سرگرم حمایت کیوں کار فرما تھی۔

Muhammad Mashhood

Abid Hussain Khan مسلم اقلیتی علاقوں کے نواب یا مراعات یافتہ طبقہ کبھی کوئی تحریک برپا نہیں کرسکا اور نہ ہی 1940ء سے پہلے اس طبقے نے تقسیم کا مطالبہ کیا۔ قراردادِ لاہور سے پہلے صرف صوبہ سندھ کے مسلم لیگی رہنماؤں نے حاجی عبداللہ ہارون کی قیادت میں اس حوالے سے کام کیا تھا اور وہی 1940ء کی قرارداد کی بنیاد بنا۔

In 1938, Sir Abdullah Haroon was not only Chairman of the Reception Committee of the Sindh Provincial Muslim League Conference at Karachi but was the brains behind the resolution on partition moved by Shaikh Abdul Majid Sindhi. It envisaged “the federation of Muslim States and the federation of non-Muslim States.” Jinnah disapproved of it. With his tacit consent, Haroon’s draft was passed as modified on 9 October. It mentioned “two nations” but merely asked the League “to review and revise the entire question of what should be a suitable Constitution of India” and “to devise a scheme of Constitution under which Muslims may attain independence.”[2] In 1965 Shaikh Abdul Majid said in a press interview that he was prepared for a centre with limited powers including safeguards for minorities.

Sir Abdullah’s ardour was not dampened. He wrote to the Aga Khan on 7 November 1938 “We are seriously considering the possibility of having a separate federation of Muslims States and Provinces.” [3]

The League Council took a fateful step. On 4 December 1938 it set up the Foreign Committee with Sir Abdullah as Chairman. Its objective was propagation of the League’s policies and programme in India and abroad. Later in the month the League’s 26th Session at Patna authorized the President “to adopt such a course as may be necessary with a view to exploring the possibility of a suitable alternative” to the federation set up by the Government of India Act, 1935.

Ref: [2] Ahmed, Jamiluddin, ed.; Historic Documents of the Muslim Freedom Movement; Publishers United Ltd., Lahore, 1970p.257. Vide also Moore, R.J.; Endgames of Empire; Oxford University Press, 1988. P.113.

[3] Vide also Haroon, Daulat; Haji Sir Abdullah Haroon Hidayatullah; Oxford University Press, Karachi, 2006.

https://www.dawn.com/news/1478674/the-haroon-story

Naseer Akhter Amjed Saleem Alvi Irfan Mirza

Irfan Mirza

Muhammad Mashhood

Amjed Saleem Alvi

Naseer Akhter

برصغیر میں صدیوں سے بستے چلے آنے والے مسلمانوں کو استعمار کے قبضے کے بعد، پہلی مرتبہ ہندو اکثریت کا دباؤ محسوس ہوا جس نے رفتہ رفتہ محاذ آرائی کی کیفیت بھی اختیار کرنا شروع کر دی۔ اسکا سب سے شدید احساس یو پی کی مسلم اشرافیہ کو تھا جو مسلمان حکمرانوں کے درباری رہتے چلے آنے کی وجہ سے بہت مراعات یافتہ تھے۔ سیاسی طاقت کو دوبارہ حاصل کرنے کی خواہش بھی اسی وجہ سے ان ہی میں زیادہ شدت سے سر اٹھا رہی تھی۔

رہے مسلم اکثریتی صوبے تو وہاں مسلمان بہت حد تک با اختیار بھی تھے صاحب اختیار بھی اور پھر ہندو بالا دستی کے خوف سے یکسر آزاد۔ پاکستان ان مسلئہ تھا ہی نہیں۔

Muhammad Mashhood

Irfan Mirza متتفق۔ مگر 1940ء سے پہلے مزکورہ اشرافیہ کی طرف سے تقسیم کا مطالبہ سامنے نہیں آیاتھا۔

Abid Hussain Khan

Muhammad Mashhood تجاویز آتی رہیں اقلیتی صوبوں کے راہنماؤں کی طرف سے بھی۔ ہاں البتہ باقاعدہ کسی سیاسی جماعت کی طرف سے پہلی بار تھی جس میں اقلیتی صوبوں کا کردار اہم تھایہاں کانگریسی وزارتوں کا ان صوبوں میں کردار بھی قابل توجہ ہے جس نے ان لوگوں کو تھوڑی بعد کے دورکی جھلک دکھائی

Irfan Mirza

Muhammad Mashhood

Amjed Saleem Alvi

یو پی کی اشرافیہ کی طرف سے برٹش انڈیا کی تقسیم کا مطالبہ آنا بھی نہیں چاہیے تھا۔ چاروں طرف سے ہندو اکثریت میں مقید اس مسلم اقلیت نے تقسیم ہو کر آخر کہاں جانا تھا؟ مسلم لیگ دراصل انہیں لوگوں کی نمائیندہ جماعت تھی۔ پنجاب، سندھ و بلوچستان اور سرحد میں اسکو پہلے کون پوچھتا تھا؟

تاریخ تو انیس سو چالیس کے بعد کی بھی ایسے شواہد پیش کرتی ہے جس سے یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں ہے کہ برٹش انڈیا کی تقسیم جناب جناح کی پہلی ترجیح نہیں تھی۔ ترجیح ہوتی بھی کیسے؟ یو پی اور بہار کے مسلمانوں کو بے یارو مددگار چھوڑ کر شمال میں جا بسنا آخر کس قسم کے سیاسی دانشمندی ہوتی؟

DrAbdul Ahad

میرا خیال ہے کہ مسلمان ہندو اور سکھ پورے ہندوستان میں اس طرح بکھرے ہوئے تھے کہ کوئی بھی حل عملاً ناکافی تھا. بہت سے لوگوں کی طرح میرا بھی خیال ہے کہ تقسیم ایک بہتر حل تھا اور اکثر اوقات بہتر حل ہی درست حل کہلاتا ہے. افسوس صرف ایک ہے تبادلہ آبادی کے ساتھ خونریزی اور قتل کے واقعات بہت زیادہ ہوے اور سنا ہے کہ تقسیم کے بعد کچھ عرصے تک یہ الزام دونوں طرف سے لگتا رہا کہ فریق مخالف نے زیادہ قتل کیے. مسلمانوں کی حالت زار کی صورت گری میں البتہ سنا ہے کہ صحافیانہ منافقت کا بھی دخل ہے. واللہ اعلم

Irfan Mirza

Muhammad Mashhood

Amjed Saleem Alvi

ان سوالوں کے پیچھے ایک ایسا تخیل ہے جس کی کثیر الجہت تعبیریں ہمیں کسی ایک جواب پر متفق نہیں ہونے دیں گی۔ جناب قائداعظم محمد علی جناح نے اس تخیل کو، جسے ہم پاکستان کا نام دیتے ہیں، کبھی اسطرح سے بیان نہیں کیا کہ اسکی فقط ایک ہی تعبیر کی جا سکے۔ یہ ابہام دانستہ لگتا ہے کیونکہ وہ کمزور پاؤں پر کھڑے ہوتے ہوئے، برصغیر کے مسلمانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ جگہ یا مراعات حاصل کرنے کے لیے بیک وقت تین فریقوں (انگریزوں، ہندؤوں اور مسلمان سیاسی مخالفین) سے معاملہ کر رہے تھے۔ مذاکرات میں زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے لیے اپنی مٹھی کو بند رکھنا یا اپنے پتے چھپا کر کھیلنا از حد ضروری ہوتا ہے۔ (میرے خیال میں) یہی وجہ ہے کہ جب خواجہ ناظم الدین سے پوچھا گیا کہ آخر پاکستان سے آپ کی مراد کیا ہے تو انہوں نے (جھلا کر، یا نہایت معصومیت سے) جواب دیا تھا کہ اس کا مطلب تو صرف جناب جناح کو معلوم ہے۔

Amjed Saleem Alvi

مشہود بھائی سوال یہ ہے کہ اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں، خاص طور پر یو پی کے مسلمانوں کی سوچ کیا تھی؟؟ کیا وہ صرف اپنے مفادات کے متعلق سوچ رہے تھے خواہ باقی ہندوستان کے مسلمان جہنم واصل ہو جائیں؟؟ آپ میثاقِ لکھنؤ دیکھیں، تو دو صوبوں میں مسلمان اکثریت میں تھے، پنجاب اور بنگال میں، دونوں صوبوں میں مسلم اکثریت ذبح کر دی گئی تاکہ یو پی والوں کو جہاں سو میں سے 20 نشستیں حاصل ہیں، وہ چوبیس ہو جائیں۔ یعنی ان کی حیثیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا، لیکن نہایت بے تکلفی سے پنجاب اور بنگال کی اکثریت مستقل طور پر تباہ کر دی گئی۔ جب پاکستان بننے کا وقت آیا، تو کیوں کہ مسلم لیگ کی قیادت پر یو پی والے ہی مسلط تھے، انھوں نے کوئی محنت نہ کی کہ پنجاب اور بنگال کے صوبے متحد ہو کر پاکستان میں شامل ہوں۔ بنگال کو پاکستان سے الگ کرنے پر لیگی قیادت رضامند تھی، اس پر کانگرس کا یو پی کا لیڈر نہرو رضامند نہیں تھا۔ اس کی نظر میں پاکستان کو کمزور کرنے کا طریقہ ہی یہ تھا کہ مسلم بنگال کو ہندو بنگال سے الگ کر لیا جاۓ اور کلکتہ کی بندرگاہ ان سے چھین لی جاۓ۔ مسلم بنگال ہر وقت ہندو بھارت کے نرغے میں رہتا، اور رہا۔ اتنی دور اندیشی ہماری قیادت میں کیوں نہ تھی کہ نتائج کا اندازہ کر سکتی؟ خالی ایک بیان دے کر، کہ ہمیں “دیمک زدہ پاکستان” دیا گیا ہے، قیادت اپنی ذمہ داری سے بچ نہیں سکتی۔ مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کو نہ ہوشیار کیا گیا کہ صوبہ اسی بنیاد پر تقسیم ہو سکتا ہے جس بنیاد پر ہم ہندوستان کی تقسیم چاہتے ہیں، اور نہ تیار ہی کیا گیا کہ ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے، لیکن انتہائی بے تکلفی سے اور نتائج سے بے پروا ہو کر مغربی پنجاب سے ہندوؤں اور سکھوں کے بھگانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کے انھوں نے سارا غصہ مشرقی پنجاب کے مسلمانوں پر نکالا اور وہ جانی و مالی طور پر برباد ہو گئے۔ بنگال کے پاس سہروردی جیسا دانشمند رہنما موجود تھا جس نے بنگالیوں کو خون خرابے سے باز رکھا، حالاں کہ 1946 کے راست اقدام میں مسلم لیگی قیادت کے فیصلے کے مطابق جو کھیل سہروردی حکومت کی سرپرستی میں کلکتہ میں کھیلا گیا، اس کے خوف ناک نتائج برآمد ہو سکتے تھے۔ پنجاب کے پاس سہروردی کے پاۓ کا کوئی لیڈر نہ تھا۔ مسلم لیگی قیادت نے یہاں جن بونوں کو اقتدار عطا فرمایا، وہ اتنے منہ زور ہو گئے کہ گورنر جنرل قائدِ اعظم کے احکامات کو پرِ کاہ کی حیثیت نہ دیتے تھے۔ مسلم لیگی قیادت نے صوبہ سرحد میں وہ ہیرا چنا جو ڈیڑھ دو سال پہلے کانگرس چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہوا اور جس نے پورا اہتمام کیا کہ سرخ پوش جو جھکنے پر آمادہ تھے، ان سے قائدِ اعظم کا صلح نامہ نہ ہو جاۓ۔ کراچی میں قائدِ اعظم سے باچہ خان ملے اور قائدِ اعظم نے ان سے سرحد کے دورے پر ان کے مرکز میں آ کر ملنے کا وعدہ کیا، لیکن با اصول قائدِ اعظم ڈبل بیرل خان کے دباؤ میں آ کر طے شدہ پروگرام منسوخ کرنے پر آمادہ ہو گئیے۔ معاف کیجیے، میری بات تلخ ہے، لیکن مردم شناسی میں لیگی قیادت نے اسی سطح کا مظاہرہ کیا جیسا مظاہرہ سلیکٹڈ نے بزدار کے انتخاب میں کیا ہے۔

اگر میں اصل موضوع سے ہٹ گیا ہوں تو دست بستہ معافی کا خواستگار ہوں۔ ایسا پھنسا ہوا ہوں کہ اقرار کرتا ہوں، میں دلجمعی سے حرفا” حرفا” آپ کی پوسٹ نہیں پڑھ سکا، نہ ہی کمنٹس، سب جستہ جستہ دیکھ پایا۔ بہت معذرت۔

Rizwan Tahir Mubeen

دو صوبوں میں مسلمان اکثریت میں تھے، پنجاب اور بنگال میں، دونوں صوبوں میں مسلم اکثریت ذبح کر دی گئی تاکہ یو پی والوں کو جہاں سو میں سے 20 نشستیں حاصل ہیں، وہ چوبیس ہو جائیں۔

Amjed Saleem Alvi

بزرگوار آپ کی یہ بات سمجھ میں نہیں آسکی؟

Rizwan Tahir Mubeen

Muhammad Mashhood

علوی صاحب تک شاید میرا سوال پہنچ نہ سکا،۔ ۔ ۔

اگر آپ کچھ معلومات دینا چاہیں تو شکر گزار ہوں گا

Amjed Saleem Alvi

Rizwan Tahir Mubeen

مجھ تک واقعی آپ کی بات نہیں پہنچی تھی۔ ابھی پہنچی، معذرت خواہ۔

کانگرس اور مسلم لیگ کے درمیان ایک معاہدہ 1916 میں طے پایا تھا۔ اس وقت دو صوبوں میں مسلمان اکثریت میں تھے، بنگال اور پنجاب۔ سندھ بمبئی کا حصہ تھا، بلوچستان اور سرحد مرکز کے تحت تھے۔ میثاقِ لکھنؤ میں دونوں جماعتوں نے طے کیا کہ یو پی اور دوسرے صوبوں میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، مسلمانوں کی نشستیں بڑھا دی جائیں، اور پنجاب اور بنگال میں کم کر دی جائیں۔ ہندو اکثریتی صوبوں میں مسلمان اتنے کم تھے کہ دو چار نشستیں بڑھنے سے بھی کوئی فرق نہ پڑا، لیکن پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت ختم کر دی گئی۔ انتہائی افسوسناک عمل تھا۔ دستخط کرنے والوں میں ایک طرف قائدِ اعظم تھے جو کانگرس اور لیگ دونوں کے مشترکہ نمائندے تھے، دوسری طرف پنجاب کے شہ دماغ سر فضلِ حسین بھی تھے۔ میرے والد کی صحافت کا آغاز نومبر 1921 سے ہوا تھا اور انھوں نے مسلسل اس کے خلاف لکھا۔ 1928 میں تو باقائدہ چھپن فیصدی تحریک بھی چلائی۔ لاہور میں بلدیات میں بھی مسلمانوں کو صرف 40 فیصد نمائندگی طے ہوئی اور عملا” ہندو وہ بھی دینے پر آمادہ نہ تھے۔ یہ تھا تحفہ میثاقِ لکھنؤ کا جس پر یو پی اور دیگر صوبوں کے مسلمان خوش تھے کہ ہندو کی 80 نشستوں کے مقابلے میں اب ہماری 20 سے 23 ہو گئی ہیں۔ اس کو عقلمندی کہیں گے؟؟

Muhammad Mashhood

Rizwan Tahir Mubeen اس کا تعلق میثاقِ لکھنؤ سے ہے۔

میرا خیال ہے میرے لکھتے لکھتے علوی صاحب کا جواب آگیا ہے۔

Rizwan Tahir Mubeen

Amjed Saleem Alvi

کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ صرف صوبائی اسمبلیوں کی تعداد میں بڑھوتری کی گئی یا مرکزی نشستوں میں بھی ایسا ہوا کیوں کہ مرکز میں پنجاب اور بنگال کے ساتھ یوپی کی بھی مسلم نشستیں چھے ہی تھیں۔۔۔

Amjed Saleem Alvi

Muhammad Mashhood

مشہود بھائی مجھ سے حقائق بیان کرنے میں کوئی کوتاہی ہوئی ہو تو ضرور نشان دہی کریں۔

Muhammad Mashhood

Amjed Saleem Alvi جناب میں آپ کو استاد کے مقام پر دیکھتا ہوں، آپ سے سیکھنے کی کوشش کرتا ہوں، آپ سے رہنمائی لیتا ہوں۔ اگر کسی جگہ تاریخی حقائق کی معلومات متصادم ہوتی نظر آئیں تو برملا اس کا اظہار کردیتا ہوں۔ میثاقِ لکھنؤ کے حوالے سے ایک بات یہ بتائیں کہ مسلمانوں کی جداگانہ نشستوں کا معاملہ اس معاہدے سے جڑا ہؤا تھا۔ اگر جداگانہ نشستیں چھوڑنی پڑتیں تو ہم کہاں کھڑے ہوتے۔

Rizwan Tahir Mubeen

Amjed Saleem Alvi

جداگانہ نشستوں کے لیے دو صوبوں میں اپنی اکثریت کو ختم کرنا نہ تو اچھی وکالت مانی جاۓ گی اور نہ ہی اچھی مدبرانہ کوشش۔ میرا اشارہ قائدِ اعظم کی وکالت اور سر فضلِ حسین کی مدبرانہ سیاست کی طرف ہے۔ آپ نے بھٹو صاحب کا انٹرویو پڑھا تھا جو اوریانہ فلاسی نے لیا تھا؟ بھٹو صاحب نے مدبر کیئ تعریف یہ کی تھی کہ پرندے کے نیچے سے انڈے نکال لے اور اسے پتہ نہ چلنے دے۔

Muhammad Mashhood

Amjed Saleem Alvi آپ کی منطق اور بھٹو صاحب کا حوالہ دونوں قابلِ قدر ہیں۔ لیکن جداگانہ نشستیں نہ ہوتیں تو

1945۔ 1946ء

کے الیکشنز کا کیا نتیجہ رہتا؟

Amjed Saleem Alvi

Muhammad Mashhood

کون کہتا ہے کہ جداگانہ نشتیں چھوڑ دیتے؟؟ وہی تو مقام تھا جہاں دونوں نامیوں کی قابلیت کی آزمائش ہوئی۔ ان کو یہی تو کرنا تھا کہ اپنی اکثریت بچاتے ہوے جداگانہ انتخاب پر رضامند کرتے۔ دونوں ناکام ہوے۔ میرے ابا جی نے اپنی خود نوشت میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ انھوں نے سر فضل سے پوچھا کہ آپ نے میثاقِ لکھنؤ میں اکثریت کھونے کا معاہدہ کیوں کیا؟ سر فضل اس وقت بھی اپنے فیصلے کو درست سمجھتے تھے۔ میں اخباروں میں پڑھتا ہوں کہ لاہور کارپوریشن میں مسلمانوں کی 40 فیصد نشستیں دینے پر بھی ہندو ہنگامہ مچاتے رہے۔ جب آپ معاہدے پر عمل در آمد ہی نہ کرا سکے تو فائدہ کیا ہوا؟ نقصان البتہ واضح ہے اور 1946 کے انتخابات تک ہماری اکثریت بحال نہ ہوئی تھی۔

Amjed Saleem Alvi

یہ مت بھولیے کہ ایک فریق انگریز بھی تھا۔ یہ کیا بات ہوئی کہ ہر موقع پر ہندو فائدہ اٹھاتے رہے۔ ہمارے شہ دماغ کیوں فائدہ نہ اٹھا سکے؟؟ کیا عصمت انونو مسلمان نہیں تھا؟ اس نے ترک مسلمانوں کے لیے انگریزوں سے لوزان میں فوائد صرف اپنی سیاسی قابلیت کی بنا پر حاصل نہیں کیے؟؟

Muhammad Mashhood

Amjed Saleem Alvi میں اس معاملے کو دیکھتا ہوں۔ اگر کوئی قابلِ ذکر بات سمجھ میں آئی تو اس پر بات کریں گے۔ اس وقت قائدِ اعظم مسلم لیگ کے ساتھ ساتھ کانگریس کے بھی رکن تھے۔ معاملات کو باریک بینی سے دیکھنا پڑے گا۔

Salam A.

پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالنے والے جو مسلمانوں کا ہندوستان ہی میں رہنے کا فیصلہ ان کا اپنا فیصلہ تھا۔ ان کے پاس یہ اختیار تھا کہ وہ پاکستان آجائیں۔

بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کو گمراہ کرنے میں مولانا ابولکلام جیسے کانگریسی لیڈروں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔

Muhammad Mashhood

پہلی بات تو یہ کہ جب انکا فیصلہ تھا کہ وہ ہجرت نہیں کریں گے تو پھر ہندوؤں کو دشمن بناتے ہوئے انہوں نے مسلم لیگ کا اتنا بھرپور ساتھ کیوں دیا۔

دوسری بات یہ کہ اگر مولانا آزاد کا ان پر اتنا ہی اثر تھا تو مولانا کی بھرپور کوششوں کے باوجود مسلمانوں نے تقسیم کے حق میں فیصلہ کیوں دیا۔ تقسیم کے بعد تو جو مولانا آزاد کہہ رہے تھے کہ مسلمان ہجرت نہ کریں وہی بات ہمارے قائدین بھی کہہ رہے تھے۔

Muhammad Mashhood

Naseem Ahmed جی بالکل اس بات کو میری پوسٹ کے تسلسل میں لیا جائے کہ آخر بنگلہ دیش میں رہ جانے والے پاکستانیوں کا داخلہ ہم نے پاکستان میں کیوں بند کیا؟

Rizwan Tahir Mubeen

Muhammad Mashhood بالکل

Jamal Qadri

Jamal Qadri

Jamal Qadri

Muhammad Mashhood

Jamal Qadri جمال بھائی میرا مشاہدہ ہے کہ جو مسلمان کانگریس کے حامی تھے ان سے ہٹ کر بھی وہاں رہ جانے والوں کا رویہ ری ایکشنری ہوگیا تھا۔ ممکن ہے میں غلط ہوں۔

Salman Zeervi

اشرافیہ کو نظر انداز کرتے ہوئے اگر بات کروں تو بہت سے لوگوں کو یقین تھا کہ کچھ ہی عرصہ میں پاکستان سے آنے والی اسلامی فوج اس علاقے کو فتح کر لے گی۔ انہوں نے جذبہ ایمانی کے تحت کانگریس کے مقابل مسلم لیگ کی حمایت تو کی مگر وہ اپنی جنم بھومی اور قبرستانوں کو چھوڑنے پہ خود کو آمادہ نہیں کر پائے۔ یوپی، سی پی وغیرہ میں مسلم لیگ کی حمایتی زیادہ تر “یوتھ” ہی تھی اور یوتھ نے ہی زیادہ تر ہجرت کی۔

اگر پنجاب سے زبردستی نکالا نہ جاتا تو یہاں کے لوگ بھی ہجرت نہ کرتے

Amjed Saleem Alvi

مشہود بھائی، جب آپ زور دے کر ارشاد فرماتے ہیں کہ 89 فیصد مسلمانوں نے مسلم لیگ کے حق میں ووٹ ڈالا، تو آج کل کا عام پاکستانی اسے آج کے پیٹرن پر لے گا۔ پہلے یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ تب ووٹنگ کا انداز ایک آدمی ایک ووٹ کا نہیں تھا۔ ووٹ دینے کا حق بہت سی شرائط سے مشروط تھا اور اس حساب سے کل آبادی کے کتنے فیصد ووٹ دینے کے اہل تھے؟؟ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے۔ پھر یہ بات بھی معلوم ہو کہ ووٹنگ کی شرح کیا تھی؟ اگر ساٹھ فیصد یا ستر فیصد نے ووٹ ڈالا تو یہ بھی معلوم ہو جانا مناسب ہو گا۔ صرف 89 فیصد پر زور دینے سے ایک گمراہ کن تاثر پیدا ہوتا ہے۔

میں نے اپنے والد کے نام خطوط کی بہت حفاظت کی، لیکن ایک مرتبہ میرے بزرگ مولانا محمد عالم مختارِ حقؒ نے مجھ سے کہا کہ ہندوستان کی معروف علمی شخصیت جناب مختار الدین احمد آرزو اپنے نام مولانا مہر کے مکاتیب مرتب کر رہے ہیں۔ ان کو حواشی کے لیے اپنے مکاتیب درکار ہیں۔ ان کی عکسی نقول فراہم کر دو۔ وہ عجلت میں تھے اور میرے پاس وقت نہ تھا، میں نے اصل مکاتیب اٹھا کر ان کے حوالے کیے کہ عکسی نقول ان کو بھیج کر اصل مجھے لوٹا دیں۔ بعد میں ان سے خط واپس لینے یاد نہ رہا۔ ان ان کے صاحب زادے سے کہا تو ہے۔ مجھے یقین ہے جب ان کو نظر آۓ مجھے مل جائیں گے۔ ان کے سارے خط میں نے پڑھے تھے۔ پارٹیشن سے پہلے مکاتیب کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور 1970 تک چلتا ہے۔ایک خط 1046/47 کا مجھے یاد ہے۔ موصوف کا تعلق بہار سے تھا۔ دو صفحے کے خط میں شکوہ سنج نظر آۓ کہ یہاں فسادات میں کتنے مسلمان جان سے گئے “اور ہمارے جناح صاحب اپنی جگہ سے ہلے تک نہیں”۔

میں سمجھتا ہوں کہ تبادلہ ء آبادی کا تصور تقسیم کا مطالبہ کرنے والوں کے ذہن میں نہیں تھا۔ میں نے اپنے والد کے درجنوں اداریوں میں یہ موقف دیکھا کہ قیامِ پاکستان کے بعد دونوں ملکوں میں مقابلہ ہو گا کہ کون اپنی اقلیتوں کی زیادہ بہتر نگہداشت کرتا ہے۔ میرا خیال ہے ایسا ہی موقف قائدِ اعظم کے بیانات میں بھی موجود ہے۔ جب قائدِ اعظم یہ فرماتے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات ان کی نظر میں امریکہ اور کینیڈا جیسے ہوں گے تو اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاۓ گا۔ شاید ایسا ممکن بھی ہو جاتا لیکن جو خون خرابہ ہوا، اس نے سب امیدیں غارت کر دیں۔

اس میں ایک اہم رول جذباتی نعرہ بازی کا بھی ہے۔ پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الاللہ بہت خوبصورت نعرہ ہے لیکن اس کی تشریح کیا ہو گی؟؟ پنجاب مسلم اکثریتی آبادی کا صوبہ تھا جس میں چوالیس فیصد غیر مسلم تھے۔ کیا ہم نے تہیہ کر لیا تھا کہ ان غیر مسلموں کو نکال باہر پھینکنا ہے؟؟ شاید ہم نے تہیہ کر لیا تھا، لیکن اس کا اعلان نہیں کیا، اور نہ اقلیتی مسلمان صوبوں کے مسلمانوں کو بتایا ہمارا یہ پلان ہے، تم رختِ سفر باندھو اور پاکستان آؤ۔ اپریل 1946 تک تو ہم دو مسلمان ریاستیں بنانا چاہتے تھے۔ ان مسلمانوں کو جو پاکستان میں آتے، کس ریاست میں آباد کرنا تھا؟؟ بنگالی تقسیم ہونا ہی نہیں چاہتے تھے۔ سہروردی ایک سانس میں دلائل دیتے تھے کہ بنگال کو کیوں متحد رہنا چاہیے، اور دوسرے سانس میں اس کے الٹ دلائل دیتے تھے کہ بقیہ ہندوستان کو کیوں تقسیم ہونا چاہیے۔ یہ کیا ڈرامہ تھا؟؟ کاش کوئی سمجھا سکے۔

بنگال کے جس وزیرِ اعظم نے مسلم لیگ کے حکم پر ڈائریکٹ ایکشن ڈے 1946 میں منایا، اور واحد صوبہ بنگال تھا جہاں مسلم لیگ حکومت بنا سکی تھی۔ وہاں کلکتہ میں پانچ ہزار ہندو مارے گئے۔ جب پاکستان کی اسمبلی کا اجلاس فروری 1948 میں ہوا اور اس میں سہروردی نے تقریر کی، تو لیاقت علی خان نے اپنی جمہوریت نوازی کا ثبوت دیتے ہوے اعلان کیا کہ یہ ہمارا ظرف ہے کہ ایک “اجنبی” کو بھی تقریر کی اجازت دی ہے۔ سہروردی اس لیے اجنبی قرار دیے گئے کہ وزیرِ اعظم کی کرسی کو خطرہ تھا۔ کیا کیا ڈرامے ہم نے نہیں کیے؟؟

فساد کیسے شروع ہوے اور کس نے شروع کیے۔ ہندو مسلم فسادات مسلسل ہوتے تھے، سارے ملک میں ہوتے تھے، پاکستان کے لیے آواز اٹھانے والوں کو ان فسادات سے بچنے کا یہی حل نظر آتا تھا کہ الگ ملک بنایا جاۓ۔ لیکن جو فسادات 1946/47 میں ہوے، یہ ایک منظم سازش تھی۔ اس کے پیچھے کون تھا؟ اس سوال کو حل کریں۔ میرے والد کے نام دو خط ڈاکٹر سید عبداللہ کے ہیں۔ وہ ایجوکیشنسٹ تھے۔ تعلق مانسہرہ سے تھا لیکن ملازمت پنجاب یونیورسٹی میں کر رہے تھے۔ کٹڑ مسلم لیگی تھے اور زبیر ہزاروی اور ایک اور قلمی نام سے مسلم لیگ کے حق میں لکھا کرتے تھے۔ دونوں خط جنوری فروری 1947 کے ہیں۔ دونوں خط طویل ہیں اور درد سے لبریز۔ دو الگ واقعات میں بسیں روک کر مسافروں کو اتار کر ہندو اور سکھ مردوں، عورتوں اور بچوں کو ذبحہ کیا گیا۔ یہ کون کروا رہا تھا؟؟

سرحد میں ریفرینڈم کے لیے مولانا شبیر احمد عثمانی پشاور گئے اور وہاں دعویٰ فرمایا کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں پاکستان میں اسلام نافذ ہو گا۔ میرے والد نے اخبار میں دو اداریے لکھے، تفصیل سے بتایا کہ پاکستان بن گیا تو کتنے فیصد مسلم اور کتنے فیصد غیر مسلم ہوں گے۔ یہ 65 اور 35 کی ریشو بنتی تھی۔ میرے والد نے لکھا آپ ابھی سے خوف کی فضا پیدا کر کے کس کی خدمت کر رہے ہیں؟ اسلام بغیر فضا اور ماحول پیدا کیے نافذ نہیں کیا جا سکتا اور نافذ نہیں کرنا چاہیے۔ جب پاکستان بن گیا، غیر مسلم نکال دیے گئے، تب میرے والد لکھتے ہی رہے کہ اب اسلام نافذ کرو، لیکن تب ہمارے ڈرامے شروع ہو گئے۔

جناب، کہاں تک سنو گے، کہاں تک سناؤں۔ ساری داستان حوادث سے اور ڈراموں سے بھری ہے۔

Junaid Krachvi

Amjed Saleem Alvi فسادات کا ایک عنصر وہ جذباتی نعرے بھی تھے جو لاہور اور گردونواح میں ہندو اور سکھوں کے قتل عام کیبعد امرتسر جانے والی ریل گاڑیوں پر تحریر کیے گئے کہ ” قلم سے لے لیا پاکستان۔۔۔تیغ سے لیں گے ہندوستان۔ اس کیبعد مشرقی پنجاب میں سکھوں نے جو مسلمانوں کے ساتھ کیا اس سے کون ناواقف ہے؟؟؟

Amjed Saleem Alvi

ایک بات اور۔ ہمارے بزرگ جب پاکستان مانگ رہے تھے، تو ان کا کہنا تھا کہ مسلمان اقلیت نہیں ہیں، مسلمان ایک قوم ہیں اور اس قوم کو ہوم لینڈ چاہیے۔ مارچ 1940 سے لے کر اپریل 1946 تک ہم ہوم لینڈ کے لیے دو سٹیٹس مانگ رہے تھے۔ ویسے جب بھی ہم مسلمانوں کے ملک کی بات کرتے تھے تو پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان کو ہی مسلم ملک مانتے تھے۔ بنگال کو ہم نے ہمیشہ الگ اکائی ہی سمجھا۔ اب مسلم ہوم لینڈ سے کیا مراد لی جاۓ؟؟ ہو کوئی یہی سمجھے گا کہ سارے مسلمان اس لینڈ میں جمع ہو جائیں گے جو اس مقصد کے لیے بنائی جا رہی ہے۔ کیا اس سلسلے میں کوئی ہوم ورک کیا گیا؟؟ بس اتنا ہی بتا ہے کہ قائدِ اعظم 7 اگست کو جب دلی سے چلے تو ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں سے کہہ آۓ کہ ہندوستان کے وفادار رہیں۔ کیا ان کو اندازہ نہیں تھا کہ مسلم ہوم لینڈ حاصل کر لینے کے بعد ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کے قدموں تلے سے زمین چھینی جا چکی ہے؟؟ بیانات اور عمل کو لیں تو نظر یہ ہی آتا ہے کہ جذباتیت خوب تھی، عمل اور منصوبہ بندی کا فقدان تھا۔

Azmat Shahab

Muslims of India were fooled before partition the way they are being fooled today in the name of religion. Pakistan was created only to protect the feudalities

Jamal Qadri

It is one point of view, people like me have a different point of view. If ML received so many votes before partition by cheating and won so many seats then you may be right, If all those people were(I am not using your words) then only we can say they need more education at that time and now. I have family members in India one she was visiting me in NJ USA and mentioned the kids taunted being Muslim in Primary School.

Amjed Saleem Alvi

کیا آپ صاحبان کے علم میں ہے کہ علامہ اقبال کے خطبہ ء الہ آباد سے ایک سال پہلے، دسمبر 1929 میں نواب ذوالفقار علی خاں نے بھی مسلم انڈیا کا مطالبہ کیا تھا؟ انھوں نے زیادہ دانشمندی کا ثبوت دیا اور اسی موقعے پر پمجاب اور بنگال کی تقسیم کو بھی مانا کہ ایسا کرنا ہو گا۔ یعنی انھوں نے افسانے نہیں سناۓ، حقیقت کھول کر بیان کی۔

Jamal QadriMuhammad MashhoodHafiz SafwanBaber Zaman

Muhammad Mashhood

Amjed Saleem Alvi امجد بھائی تقسیم کی تجاویز کی پوری ایک فہرست ہے۔

آپ نے جو نشاندھی کی اس کے علاوہ جیسا کے میں نے پوسٹ میں لکھا ہے کہ لالہ لاجپت رائے نے تو تبادلہ آبادی کے ساتھ تقسیم کی تجویز دی تھی۔ پھر چودھری رحمت نے تو بہت تفصیل کے ساتھ اپنی تجاویز پر کام کیا تھا۔

Hafiz Safwan

چودھری رحمت علی کو ان کی نیگٹوٹی مار گئی اس لیے وہ کوئی مثبت کام نہ کرسکے۔

Amjed Saleem Alvi

چودھری رحمت علی کا کام علامہ اقبال کے بعد میں آتا ہے، لیکن نواب صاحب کاکام علامہ سے پہلے آتا ہے، پھر ان کا نام کیوں نہیں لیا جاتا؟؟ جب کہ ان کے بڑے صاحبزادے نواب زادہ رشید علی خاں نے مسلم لیگ کا پرچم اس وقت اٹھا رکھا تھا جب پنجاب میں یونینسٹ پارٹی کا طوطی بولتا تھا۔

Hafiz Safwan

Amjed Saleem Alvi

الگ وطن کا خیال پیش کرنے والے کئی لوگوں کے ساتھ کوئی گروہ نہ تھا اس لیے ان کی رائے ایک آدمی کی رائے رہی جس کی حیثیت نہ تھی۔

Hafiz Safwan

تقسیمِ ہند کے زمانے سے ذرا پہلے گھروں کو چھوڑ کر مذہب کے نام پہ ہجرت کرنا عالمی اسٹیبلشمنٹ نے رواج بنا دیا تھا۔ کس کس کو یاد ہے کہ ہندوستان سے ہزاروں مسلمان اپنا سب کچھ پیچ کھوچ کر افغانستان میں ہجرت فرماگئے تھے اور ذلیل و خوار ہوکر مر کھپ گئے تھے۔ ان سادہ دل مسلمانوں کو ورغلانے والوں میں ابوالکلام آزاد اور بعض اور مولوی بھی تھے۔ انہی ایام میں ہزاروں لاکھوں فلسطینی مسلمانوں نے اس خیال سے اپنی زمینیں یہودیوں کو بیچ دی تھیں کہ مہدی پیدا ہوگیا ہے اور اب قیامت آ رہی ہے۔ ان دونوں ملکوں کے مسلمانوں کو ورغلانے والے علمائے کرام ہی تھے۔ جب مذہب کے نام پر ہجرت کرائی جانے کا مزاج بنا دیا گیا تھا تو تقسیمِ ہند کے موقع پر بھی یہ مزاج بروئے کار آیا۔ اس میں پریشانی کیسی؟ اہم بات یہ ہے کہ تقسیم اور ہجرت سے بڑا فائدہ مذہبی جنتا نے اٹھایا ہے اور مذہبی جنتا کے پاس اس تقسیم کے بعد جتنا مال آیا ہے اور جتنی سیاسی حیثیت اس نے حاصل کی ہے، برِعظیم کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔

Amjed Saleem Alvi

Hafiz Safwan

کوئی شک نہیں مولانا آزاد بھی تحریکِ ہجرت کی پشت پر تھے۔ اسے اجتہادی غلطی مانے بغیر چار نہیں لیکن تحریکِ ہجرت انفرادی فعل تھا، ایسا نہیں تھا کہ خاندان کا خاندان ہجرت کر آیا ہو۔ مشرقی پنجاب کے مسلمان باسیوں کے ساتھ بھی ایسا معاملہ نہیں تھا کہ ایک مقدس ملک پاکستان وجود میں آ گیا ہے، اب سب کچھ چھوڑ کو وہاں جا بسا جاۓ۔ 15 اگست کو بھی وہ اپنی اپنی جگہ پر مست بیٹھے تھے۔ انھیں مار کاٹ کر بھگایا گیا۔ انھوں نے فلسطینیوں کی طرح اپنے گھر بار مرضی سے فروخت نہیں کیے، وہ اپنے بھرے پُرے گھر بار چھوڑ کر جان بچا کر بھاگے تھے۔ میرے چچا کے پاس سناور میں تین گاڑیاں تھیں ایک ٹرک تھا، وہ گاڑیوں میں بیٹھ کر نکلے تھے جو چھین لی گئیں اور سناور ملٹری سکول سے نیچے کالکا تک وہ پیدل چل کر آۓ مع اہل و عیال۔ پھر قسطوں میں لاہور پہنچے۔ پنجاب کی ہجرت کو فلسطین سے یا تحریکِ ہجرت سے نہیں ملایا جا سکتا۔ یہ سب بے خبری میں مارے گئے، تحریکِ پاکستان کی قیادت کو نہ اس کا گمان تھا، نہ سوچ اور فکر تھی۔ اس کے رویے سے لگتا ہے خود اسے بھی پاکستان بنانے کی ایسی کوئی خاص خواہش نہیں تھی، بس دھمکانے کا ایک حربہ تھا۔ اگر وہ پاکستان کے لیے سنجیدہ تھے اور انھوں نے نتائج کا اندازہ کر کے اپنی قوم کو حالات کے لیے تیار نہیں کیا، تو مان لینا چاہیے وہ پرلے درجے کے نالائق تھے۔ حافظ صاحب جو لوگ یہاں بیٹھے ہیں، ان کو ان تکلیفوں اور سانحات کا اندازہ ہی نہیں جن سے گزر کر لوگ یہاں آۓ۔ پھر جب تکلیفوں کا اظہار کیا جاۓ تو یہاں والے طعنے دیتے ہیں کہ جمنا پار چلے جائیں۔ لاحول ولا قوۃ ۔

Khawajamuhammad Zakariya

Amjed Saleem Alvi اس طرح کے بیشمار نظریے تھے۔ اس پر کتابیں لکھ جا چکی ہیں ۔ مگر اس سے کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا۔ ۱۹۴۶ میں خود بنگالیوں نے دو کی بجائے ایک ریاست کے حق میں زور دیا۔

Amjed Saleem Alvi

Khawajamuhammad Zakariya

جی ہاں، قائدِ اعظم نے سہروردی کو اجازت دے دی تھی کہ اگر بنگال متحد رہ کر الگ ملک بننا چاہتا ہے تو انھیں اعتراض نہیں۔ بنگال کی ہندو قیادت بھی متفق تھی لیکن نہرو اور پٹیل نے یہ ہونے نہ دیا۔

Amjed Saleem Alvi

Khawajamuhammad Zakariya

معاف کیجیے مجھے آپ کی بات کا مفہوم سمجھنے میں غلطی لگی۔ 10 مئی 1947 تک بنگالی قیادت بنگال کو متحد رکھ کر الگ ملک بننا چاہتی تھی، جیسا کہ مارچ 1940 کی قرارداد میں ملکوں کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

روزنامہ انقلاب۔ تقسیمِ بنگال

Khawajamuhammad Zakariya

۱۹۴۶ میں بنگالی قیادت کے اصرار پر ترمیم کر کے ایک ریاست کے لیے ۱۹۴۰ کی قرارداد میں ترمیم کر دی گئی تھی۔ اصل خرابی یوں شروع ہوئی کہ مغربی پاکستان کی قیادت نے مشرقی پاکستان کو اپنی کالونی سمجھا۔ اس میں ہمارے سبھی لیڈروں کا قصور ہے کم یا زیادہ ۔ کمیوں کے باوجود ۱۹۵۸ تک پاکستان کی معاشی حالت بہت مضبوط تھی ۔اصل ولن ایوب تھا ۔ افسوس! فیس بک پر تفصیل سے لکھنا بہت دقت طلب ہے۔

Irfan Mirza

Naseer Akhter

Amjed Saleem Alvi

Hafiz Safwan

Muhammad Mashhood

(تسلسل کی خاطر میں نے اپنی، اس سے پہلی پوسٹ، اس میں دوبارہ چسپاں کر دی ہے)

کبھی یوں ہوتا ہے کہ ہم کسی واقعے کے مطالعے کے دوران جزویات کے اتنا قریب پہنچ جاتے ہیں کہ حالات کا مجموعی پس منظر وقتی طور پر ذہن سے اوجھل ہو جاتا ہے۔

ایک سرزمین پر نسل در نسل، چھ سات سو سال سے بستے چلے آنے والے لوگوں میں اچانک مذہب کی بنیاد پر ارض وطن کی تقسیم اور اس کی بنا پر اپنا سب کچھ چھوڑ کر کروڑوں انسانوں کی ہجرت، تہذیبوں کی باہمی چپقلشوں کے حل کی ‘پہلی ترجیح’ کے طور پر بنی نوع انسان نے کبھی نہ سوچی ہو گی۔ گلاب دیوی ہسپتال بنانے والے لالہ لجپت رائے کے قلم سے یہ تجویز بظاہر کسی سوچے سمجھے منصوبے کا حصے لگتی ہے اور نہ ہی اسے زیادہ پذیرائی ملی۔ اسی طرح ولایت میں زیر تعلیم ایک نوجوان طالبعلم، چوہدری رحمت علی کا کاغذی خاکہ کسی گہرے غور و فکر کا نتیجہ نہیں لگتا۔ خود علامہ اقبال کی، مسلم اکثریتی صوبوں پر مبنی ایک ریاست کی تجویز میں، ارض وطن کی دو ٹوک تقسیم پر اصرار نظر نہیں آتا۔

اب اگر ہم اُسوقت کے اکابرین کے ذہنوں میں آنے والی تمام تجویزیں کو ترتیب دے کر انہیں فریقین (استعمار، ہندو، مسلمان) کی خواہشات اور منصوبوں کے ذیل میں تقسیم کر لیں تو شائد واقعات کو جذبات کی گرفت سے آزاد ہو کر، اور زیادہ معروضی طور پر دیکھنے کا موقع مل سکے

استعمار کی ممکنہ خواہشات اور منصوبے:

۱۔ آبائی لوگوں کو اقتدار کی منتقلی کے دوران، (اور اس کے نتیجے میں)، کوئی ایسی صورتحال پیش نہیں آنی چاہیے جو دنیا میں تاج برطانیہ کی سبکی کا باعث بنے۔

۲۔ بین الاقوامی سیاست میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے واسطے اور اس میں اپنی اہمیت قائم رکھنے کی خاطر برصغیر پر اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنا فائدہ مند ہو گا۔

ہندو رہنماؤں کی ممکنہ خواہشات اور منصوبے:

۱۔ مسلمانوں نے ہمیں صدیوں تک اپنے زیر تسلط رکھا ہے۔ اب، جب فتوحات سے قبضہ جمانے کا دور گذر چکا ہے اور جمہوریت کے اصولوں کے مطابق ہندو اکثریت حکومت سازی کا حق رکھتی ہے تو ہمیں اپنی باری لینے کا حق حاصل ہے۔ اس خطے پر اب ہمیں اپنی مذہبی بالا دستی کو دوبارہ قائم کرنا ہے۔ اگر مسلمان ہماری شرائط پر یہاں رہنے پر تیار نہیں تو انہیں یہاں سے نکال باہر کریں۔

۲۔ ہندوستان کی تقسیم کا کوئی منصوبہ قابل قبول نہیں۔ مسلمانوں کو جمہوری تقاضوں کے عین مطابق، ایک اقلیت کے طور پر ہمارے ساتھ مل جل کر رہنا چاہیے۔

مسلمان رہنماؤں کی ممکنہ خواہشات اور منصوبے:

۱۔ یہ دنیا دارالامن اور دارالحرب میں منقسم ہے۔ ہمیں پوری دنیا کو دارالامن بنا کر اسے اپنے زیر نگوں کرنا ہے۔

۲۔ استعمار نے ہمارے آباواجدا سے سلطنت چھینی تھی۔ یہ ہمیں ہی واپس ملنی چاہیے۔

۳۔ بر صغیر میں مسلمان اقلیت کی حثیت کو قبول کرنے پر تیار نہیں۔ ہم ایک الگ قوم ہیں اور اس حیثیت سے ہندوؤں کے ساتھ اقتدار میں برابر کے شریک ہوں گے۔

۳۔ ہندوستان ہی ہمارا وطن ہے۔ ہمیں یہاں اپنی اقلیتی حثیت کو تسلیم کرتے ہوۓ ملک کی ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

۴۔ ہندوستان کو تقسیم کر کے ایک الگ اور خود مختار اسلامی ریاست تشکیل دی جاۓ۔ اس ریاست میں اسلام کا نفاذ کیا جاۓ اور وہاں پر موجود غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ اسلام کے بتاے گے اصولوں کے مطابق برتاؤ کیا جاۓ۔

۵۔ ہندوستان کو مسلم اکثریتی ریاست اور ہندو اکثریتی ریاست میں تقسیم کرتے ہوۓ ان ریاستوں کو اسقدر خود مختاری دے دی جاۓ کہ وفاق کے پاس فقط دفاع اور امور خارجہ یا اسطرح کے چند اور محکمے رہ جائیں۔ مسلم اکثریتی ریاست میں بسنے والے غیر مسلموں کے حقوق کو انکی اپنی خواہش کے مطابق آئینی تحفظ فراہم ہو اور ہندو اکثریتی ریاست میں بسنے والے مسلمانوں کے حقوق کو انکی خواہش کے مطابق آئینی تحفظ حاصل ہو۔

اب زمینی حقائق کو سامنے رکھ کردیکھنا یہ درکار ہو گا کہ جب مسلمانوں کے پاس اکثریت تھی اور نہ صفوں میں اتحاد، تو ایسے میں انہیں مذاکرات سے آخر اور کیا ملنے والا تھا؟

Zafar Mahmood

یہ کہنا کہ ان مسلمانوں نے پاکستان کے مقابلے میں بھارت میں رہنا پسند کیا ان مسلمانوں کے جذبات کی توہین ہے، اس دور میں ان مسلمان خاندانوں کو یقیناً بہت بڑی مصلحت نے اس ہجرت کو نہ کرنے پر مجبور کیا ہوگا، واللہ اعلم باالصواب۔

Irfan Mirza

Zafar Mahmood

کسی کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ دوسروں کے ایسے طرز عمل پر رائے دے جن کا دائرہ ان لوگوں کی اپنی ذاتی زندگی تک محدود تھا۔ اللہ کی زمیں پر رہنے کا حق کسی سے چھینا نہیں جا سکتا۔

Muhammad Mashhood

Zafar Mahmood

پوسٹ میں کسی پر کوئی الزام تراشی نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی کسی انفرادی شخص کے طرزِ عمل کو نشانہ بنایا گیا ہے۔۔ کس کو کہاں رہنا ہے، کیا کرنا ہے، اس کے کیا نظریات ہیں ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔۔ یہاں تو ایک علمی سوال اٹھایا گیا ہے جس میں یہ سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وہ کیا وجوہات تھیں کہ اس قدر بھرپور طریقے سے ایک تحریک کو پزیرائی بخشنے والی قوم کو جب منزل مل گئی تو اس منزل کی طرف ہجرت کیوں نہیں کی۔ اور اگر یہ پہلے سے طئے تھا کہ تبادلہ آبادی نہیں ہوگا تو آخر اس قدر جوش و خروش سے قربانیاں کیوں دی گئیں؟

Irfan Mirza Amjed Saleem Alvi

Amjed Saleem Alvi

پاکستان کے لیے کسی نے رضامندی سے جان نہیں دی۔ قربانی کی بھینٹ اگر کوئی چڑھا تو مشرقی پنجاب کا مسلمان۔ میرے والد کا وطن جالندھر تھا اور والدہ کا وطن لدھیانہ۔ میرے والد نے 1932 میں مسلم ٹاؤن لاہور میں گھر بنا لیا تھا۔ وہ 1922 میں لاہور آ گئے تھے، اور منصوبہ ان کا یہی تھا کہ جب ریٹائر ہو جائیں گے تو جالندھر شہر میں گھر بنا کر رہیں گے۔ پارٹیشن ہوئی تو مسلم ٹاؤن لاہور والے گھر کی ایک اینٹ نہیں ٹوٹی، لیکن ان کے پھول پور (جالندھر) والے گھر کی ایک اینٹ نہیں بچی۔ ان کی 3000 کتب اس گھر میں تھیں۔ لاہور سے جالندھر وہ اکثر جاتے تھے۔ سارے عزیز وہاں تھے۔ پارٹیشن ہوئی تو ان کے ایک ماموں نے راستے میں جان دی، باقی سب صرف جانیں بچا کر آۓ، میرے چچا سناور سے لٹ کر آۓ، جانیں اگر دیں تو مشرقی پنجاب کے مسلمانوں نے۔ اسے بے شک قربانی نہ مانیں لیکن ان کے ساتھ دھوکہ ضرور ہوا۔ قیادت نے کبھی اشارہ بھی نہیں دیا کہ ایسے حالات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اگر قیادت کو خود ایسے حالات کا اندازہ نہ تھا تو زیادہ افسوس ناک ہے۔ اپریل 1946 کے مسلم لیگ کے اجلاس کی روداد پڑھیے جس میں “ٹائپ کی ایک غلطی” کی تصحیح کر کے دو کے بجاۓ ایک ملک کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ سب سے زیادہ بڑھکیں مسلم لیگ کے پنجابی بالشتیوں نے لگائی تھیں۔ اوروں کو تو چھوڑیں، فیروز خان نون جیسا شریف آدمی بھی جذباتی ہو رہا تھا۔ فرمایا گیا کہ اگر ہمیں آرام سے پاکستان نہ ملا تو ہم روس کی مدد سے طاقت سے پاکستان لیں گے۔ جب مشرقی پاکستان کا مسلمان مر رہا تھا تو ان “پہلوانوں” کے ہاتھ ٹوٹ گئے تھے۔ اسے قربانی نہ مانیے لیکن ان بیچاروں نے دھوکے میں آ کر جانیں تو دیں۔ بنگال کے مسلمانوں کو سہروردی کی فراست اور گاندھی کے تدبر نے بچایا۔ ہم گاندھی کو لاکھ برا کہیں، 1947 میں گاندھی نے مسلمانوں اور پاکستان کے لیے بھلے کام ضرور کیے اور اسی کی پاداش میں جان بھی دی۔ ہم ایسے احسان فراموش ہیں کہ یہ حقیقت تسلیم کرتے ہوے بھی ہمیں شرم محسوس ہوتی ہے۔

Irfan Mirza

Amjed Saleem Alvi

Muhammad Mashhood

ہمارے ایک خاص نکتہ نظر کے حامی تاریخ نویسوں نے جو تاثر قائم کرنے کی کوشش کی ہے، زمینی حقائق اور دستاویزی شواہد اس کے ساتھ چلتے محسوس نہیں ہوتے۔ استعمار سےمسلمانوں کی درخواست تو یہ تھی کہ آپ جانے سے پہلے ہمارا تو کوئی خاطر خواہ بندوبست کر کے جائیں۔ اور جب کانگریس نے مسلمانوں کے مطالبات ماننے سے انکار کر دیا تو ہم انگریز سے یہ التجا کر رہے تھے کہ آخر آپ کو جانے کی اتنی جلدی کیوں ہے۔ اگر آپ کچھ دیر رک جاتے تو ہم کانگریس کو منا لیتے۔ انگریز کو اگر کوئی خوف تھا تو وہ فسادات کا تھا اور یہی اس کے یوں افرا تفری میں جانے کے بڑی وجہ بنی۔

فسادات کی بڑی وجہ تو بظاہر پنجاب اور بنگال کی تقسیم سے پیدا ہونے والی بےچینی اور تکلیف تھی۔ لوگ اپنی جان، مال اور آبرو کو بچانے کے لیے ہجرت پر مجبور ہوئے اور بہت سے اس میں سے کچھ بھی نہ بچا سکے۔ یہ خون پاکستان کے مطالبے کو حقیقت میں بدلنے کے لیے نہیں بہا۔ یہ تو پاکستان بنانے کے خمیازے کے طور پر بہایا گیا۔ ان قافلوں میں کئی لوگ ایسے بھی شامل ہونگے جو وطن کی محبت میں سرشار ہوں۔ دلوں کے بھید آخر کون جان سکا ہے؟

Muhammad Mashhood

Irfan Mirza ”جب کانگریس نے مسلمانوں کے مطالبات ماننے سے انکار کر دیا تو ہم انگریز سے یہ التجا کر رہے تھے کہ آخر آپ کو جانے کی اتنی جلدی کیوں ہے۔ اگر آپ کچھ دیر رک جاتے تو ہم کانگریس کو منا لیتے۔“

سر مسلمانوں کی اس التجا کی کوئی واقعاتی یا دستاویزی شہادت مل جائے تو نوازش ہوگی۔

Irfan Mirza

Muhammad Mashhood

جی، تلاش کر رہا ہوں۔ کچھ وقت درکار ہو گا۔

Amjed Saleem Alvi

Muhammad Mashhood

مشہود بھائی، کیا آپ آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے کوئی ایسا بیان دکھا سکتے ہیں کہ جس میں برطانوی غاصبوں کے ہندوستان سے نکل جانے کا بے تابانہ مطالبہ کیا گیا ہو؟ قائدِ اعظم 1934 میں برطانیہ سے ہندوستان وارد ہوے جہاں پر وہ خود ساختہ جلا وطنی اختیار کیے ہوے تھے اور بقول ہمارے محققین کے، وہ تو آنا نہیں چاہتے تھے لیکن علامہ اقبال نے انھیں مجبور کر دیا۔ جب مسلم لیگ کی جانب سے انگریز کو نکالنے کی کوئی تحریک ہی موجود نہ تھی تو اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاۓ گا کہ انھیں انگریز کے ہندوستان میں قیام پر کوئی اعتراض نہ تھا۔

Irfan Mirza

Muhammad Mashhood

Amjed Saleem Alvi امجد بھائی سیاست میں مناسب وقت کا انتظار کرنے میں اور کسی سے التجا کرنے میں فرق ہوتا ہے۔

ایک مثال دورِ حاضر سے دینا چاہونگا۔ نون لیگ چاہتی ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اس طرح ختم ہو کہ نئے انتخابات کا انعقاد ہوجائے۔ اس کے برعکس پی پی پی بھی حکومت کو گھر بھیجنے کا مطالبہ مسلسل کرتی ہے تاہم درحقیقت وہ چاہتی ہے کہ انتخابات اپنے وقت پر ہی ہوں تاکہ ایک طرف تو سندھ کی حکومت برقرار رہے اور دوسری طرف انہیں پنجاب میں تنظیم سازی کیلئے مزید وقت مل جائے۔ تاہم اس کیلئے بلاول کسی سے التجا کرتے نظر نہیں آتے۔

Amjed Saleem Alvi

میں نے مثال یہ دی تھی کہ مسلم لیگ کے سارے مطالبات کی بنیاد صرف ایک ہے کہ ہندو اکثریت کا اقتدار قبول نہیں، کسی بھی جگہ برطانیہ سے ہندوستان خالی کرنے کا مطالبہ نہیں ملتا۔ انگریز نے کہا ہم جون 1948 میں جائیں گے، ہم نے کہا بجا، انھوں نے اگست 1947 میں جانے کا فیصلہ کر لیا ہم نے سرِ تسلیم خم کر دیا۔ کسی بھی معاملے میں ہماری تیاری صفر تھی۔ آپ کتابوں سے چند امور کی کمیٹیاں نکال لیجیے، ایسا ہوا ہو گا، لیکن سنجیدہ تیاری کہیں نہیں تھی۔ 25 فروری 1948 کو ہندوستان کی لوک سبھا (یا راجیہ سبھا میں) آئین کا مسودہ پیش ہو رہا تھا، اور پاکستان کی قومی اسمبلی میں ابھی رولز آف بزنس کی جنگ جاری تھی اور ہم نے نہایت کامیابی سے بنگالی ممبرانِ اسمبلی کو روک دیا تھا کہ اسمبلی میں تقریر یا تو انگریزی میں ہو گی یا اردو میں، پاکستان کی اکثریتی آبادی کی زبان استعمال نہیں کی جاۓ گی۔ یہ تو جملہ ء معترضہ تھا، مجھے یہ دکھایے کہیں انگریز سے وطن خالی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہو۔ اگر ایسا مطالبہ نہیں ہے تو یہی سمجھا جاۓ گا کہ موقف یہی تھا مہربان، عجلت نہ کیجیے، ابھی قیام فرمائیے۔

Jamal Qadri

Irfan Mirza

Muhammad Mashhood

Amjed Saleem Alvi

Hafiz Safwan

Naseer Akhter

میں معذرت چاہتا ہوں کہ اس حوالے کی تلاش میں مجھے بہت وقت لگ گیا۔ دراصل سعودی عرب آنے کے بعد اس قدر فراغت میسر نہیں رہی جس قدر پاکستان میں موجودگی کے دوران تھی۔ پھر کتاب کا کافی حصہ دوبارہ پڑھنا پڑا۔

Record of Mountbatten’s Interview with Jinnah, 7 April, 1947 as quoted by:

Ayesha Jalal. The Sole Spokesman. Cambridge University Press, 1994, p 252

اس گفتگو میں جناب جناح آخری وائسرائے کو آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ حکومت برطانیہ انڈین نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے بیچ تنازعے کو دونوں پارٹیوں کے بیچ مذاکرات کی بجائے اپنے فیصلے (ایوارڈ) سے حل کرے جس میں پاکستان کے مطالبے کو اصولی طور پر تسلیم کرتے ہوئے فوج پر پاکستان کے برابر کےحق کو بھی تسلیم کیا جائے۔ اس پر ماؤنٹ بیٹن نے کہا کہ فوج کو برابر کے دو حصوں میں تقسیم کرنے کا کام جون 1948 سے آگے چلا جائے گا۔ اس پر جناب جناح نے کہا کہ آپ نے جون 1948 تک جانے کا تہیہ آخر کیسے کر رکھا ہے؟ کیا آپ ملک میں خون خرابہ اور خانہ جنگی چاہتے ہیں؟

Muhammad Mashhood

Irfan Mirza آپ کا مطالعہ اور تجزیہ دونوں ہی قابلِ تعریف ہے اور میں آپ کا بہت احترام کرتا ہوں۔ یہاں بات کچھ تاریخی حقائق کی ہو رہی ہے تو بات اسی تناظر میں ہے کسی کی دل شکنی مقصود نہیں ہے۔ ماؤنٹ بیٹن اور جناح کی ملاقات کا احوال کسی دستاویزی شکل میں موجود نہیں ہے۔ جو بھی باتیں منظرِ عام پر آئی ہیں وہ ماؤنٹ بیٹن سے مختلف مواقعوں پر کی جانے والی گفتگو سے اخذ کی گئی ہیں۔

عائشہ جلال کی کتاب اور اس کا ٹائٹل بھی متنازعہ ہے۔

http://thankyoujinnah.com/was-jinnah-the-sole…/…

پہلی بات تو یہ،

انتہائی معذرت کے ساتھ، التجا کا جو ابتدائی تاثر دیا گیا وہ گمراہ کن ہے۔ میں کتاب کے صفحات اٹیچ کررہا ہوں۔ یہ طئے شدہ حقیقت ہے کہ برطانیہ کا عجلت میں نکلنا تقسیم کے پورے پلان کیلئے تباہ کن تھا جسے چرچل نے

“A shameful flight”

قرار دیا تھا۔ قائدِ اعظم اسی طرف اشارہ کررہے تھے۔ وہ برطانیہ کو ہندوستان پر ہمیشہ کیلئے مسلط نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔

Amjed Saleem Alvi Hafiz Safwan Naseer Akhter

Jinnah the Sole Spokesman

Jinnah The Sole Spokesman - Aisha Jalal

Irfan Mirza

Muhammad Mashhood

عائشہ جلال کی کتاب کو متنازعہ قرار دینے کے لیے ان کے شامل کیے گئے تمام حوالوں کی چھان بین ضروری ہے جو کہ اسی طرح کے کسی پی ایچ ڈی مقالے کے لیے کی گئی عرق ریزی کے بغیر ممکن نہیں۔ کسی شخص کی ذاتی رائے کو ایک بڑے تحقیقی کام کے مقابلے میں پذیرائی ملنا مشکل ہے۔

Amjed Saleem Alvi

میں نے ڈاکٹر عرفان مرزا صاحب کا کمنٹ پڑھ کر سرچ کیا تو قائد اور مونٹ بیٹن کی خاصی ملاققاتوں کا حال معلوم ہوا

https://sites.google.com/site/cabinetmissionplan/mountbatten-and-jinnah-negotiations-on-pakistan-april-

 

https://sites.google.com/site/cabinetmissionplan/mountbatten-discusses-the-cmp

Muhammad Mashhood

Amjed Saleem Alvi امجد بھائی قائد اعظم کی وہ ملاقات جس میں معاملات پر آمادگی ظاہر کی گئی باقاعدہ کسی دستاویز کی شکل میں موجود نہیں ہے۔ یہ بعد میں ماؤنٹ بیٹن پر کتابیں لکھنے والوں نے شایع کی ہیں جن میں سے کچھ باتوں کی تردید خود ماؤنٹ بیٹن نے بھی کر دی تھیں۔

Muhammad Mashhood

Irfan Mirza کیا قائدِ اعظم اور ماؤنٹ بیٹن کی ملاقات کے آفیشل

minutes of meeting

کہیں دستیاب ہیں۔؟

Amjed Saleem Alvi

ایک ملاقات جو پاکستان کے قیام کے بعد کی ہے، آفیشل منٹس تو اس کے بھی موجود نہیں۔ نومبر 1947 کی ملاقات ساڑھے تین گھنٹے پر محیط تھی۔ دوسری بار مونٹ بیٹن کے ساتھ نہرو بھی لاہور آۓ لیکن تب ملاقات لیاقت علی خان کے ساتھ ان کی عالیشان کوٹھی پر ہوئی۔ اس کا بھی ریکارڈ نہیں۔ انگریز ریکارڈ رکھتا تھا۔ وہ ہونا چاہیے۔

Muhammad Mashhood

Amjed Saleem Alvi In Mountbatten and the Partition of India, Larry Collins and Dominique Lapierre published Mountbatten’s reminiscences of his Viceroyalty in the period immediately preceding India’s partition and independence. In these conversations, Mountbatten was more expansive than he had been in his Viceroy’s secret official reports of the time, some of which were published in the Transfer of Power volumes in the early 1980s.

https://sites.google.com/site/cabinetmissionplan/mountbatten-and-jinnah-negotiations-on-pakistan-april-

Irfan Mirza

سب سے زیادہ امکان انڈیا آفس لائیبریری، لندن میں ہے۔
انڈیا آفس لائیبریری، لندن میں وائسرائے کے پرائیویٹ سکریٹری کے دفتری کاغذات کا ریکارڈ موجود ہے۔ میرے خیال میں وہ اس ضمن میں سب سے اہم ذخیرہ ہے۔

Irfan Mirza

Muhammad Mashhood

Amjed Saleem Alvi

برصغیر کے جدوجہدِ آزادی کی جو تاریخ ہم تک منتقل ہوئی ہے اس کو پانچ بڑے حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

۱۔ پاکستان میں سرکار کی زیر سر پرستی مرتب کی جانے والی تاریخ۔

۲۔ بھارت میں سرکار کی زیر سرپرستی مرتب کی جانے والی تاریخ۔

۳۔ استعمار کا ریکارڈ۔

۴۔ اس دور کے رہنماؤں کی قلمبند کی گئی سرگزشت۔

۵۔ اس دور کی تاریخ کا علمی اور تحقیقی جائزہ۔

ان ذرائع میں استعمار کا دفتری ریکارڈ سب سے مستندتسلیم کیا جائے گا۔ اسکے بعد اس دور کے رہنماؤں کے انٹرویو اور ان کی گئی تقاریر سے سند حاصل کی جائے گی۔ اخبارات میں چھپنے والی خبریں اور لوگوں کی خود نوشت داستانیں اسناد کی درجہ بندی میں غالبا ان کے بعد رکھی جائیں گی۔

جن محققین نے دفتری ریکارڈ تک رسائی حاصل کر کے اس دور کی تاریخ کو سمجھنے کی کوشش کی ہے، انکے اخذ کردہ نتائج نے ان تمام واقعات کو ایک نئے پس منظر میں رک کر دیکھنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر اشتیاق احمد صاحب نے ان واقعات کو استعمار کی حکمت عملی کے پہلو سے دیکھا ہے جبکہ ڈاکٹر عائشہ جلال نے اپنی ایک کتاب میں جناح کی تگ و دوکے آخری دس سالوں کا تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے۔ ان کے نقطہ ہائے نظر سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے لیکن ٹھوس شواہد پیش کیے بغیر انکی نیت پر شک کرنا کچھ غیر مناسب سا لگتا ہے۔

اس سلسلے میں آپ رہنمائی فرمائیں کہ کیا میں نے اسناد کی درجہ بندی کی ترتیب درست رکھی ہے۔

Amjed Saleem Alvi

Irfan Mirza

انگریز حاکموں نے ریکارڈ محفوظ رکھنے کا معقول نظام وضع کیا تھا۔ خفیہ پولیس کا ریکارڈ بھی محفوظ رکھا گیا لیکن اب ہم اس کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں، کچھ نہیں کہا جا سکتا وہ محفوظ رہ پاۓ گا یا نہیں۔ میرے دوست پروفیسر Ahmad Saeed محقق ہیں اور تساڑھے دین درجن کتابوں کے مسنف، مرتب و مدوّن ہیں۔ انھوں نے بڑی محنت و کاوش سے اس خفیہ پولیس کے ریکارڈ کی عکسی نقول حاصل کیں۔ تب بھی انار کلی کے مقبرے کی بیسمنٹ میں سب ڈمپ کیا ہوا تھا۔ میرا خیال ہے اب تک خستگی نے سب کچھ برباد کر دیا ہو گا۔ آپ اور ہم تحقیق کا ڈول ڈالنے کے چکر میں اور یہاں ادارے بند کیے جا رہے ہین اور نوادرات برباد ہو رہے ہیں۔ ریسرچ سوسائیٹی کا حال یہ ہے کہ چئرمین کبھی گھستے نہیں۔ کل سٹاف اس وقت ایک بندے پر مشتمل ہے جو چپڑاسی بھی ہے دفتری بھی اور ہرکارہ بھی۔ اس کی ماہانہ تنخواہ کتم کر کے دیہاڑی دار بنا دیا گیا ہے۔ 600 روپے روزانہ۔ لائبریری ہفتے میں آٹھ سے دس دن بند رہتی ہے کیوں کہ ہفتہ اور اتوار کی سرکاری چھٹی ہے۔ اس کے علاوہ کی چھٹیاں الگ۔ اب اس کو صرف اتنے دنوں کے پیسے ملتے ہیں جتنے دن وہ حاضری لگاۓ۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ اربابِ اختیار جو سارے تعلیم یافتہ ہیں اور پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ء تاریخ کے پروفیسر ہیں، اس ادارے کو بند کرنے پر تلے ہوے ہیں۔ اس لائبریری کے پاس، جو ایک عمارت کی تیسری منزل پر واقع ہے اور سیڑھیاں چڑھتے میرا سانس پھول جاتا ہے، تین کمرے ہیں۔ ایک کمرے کو ریڈنگ روم بنایا گیا ہے جہاں بائیس پچیس الماریوں میں رسائل اور کتابیں بھری ہوئی ہیں۔ انہی میں مہر کلیکشن کے کتابچے اور کتابیں بھی ہیں۔ ساتھ والے کمرے میں اخبارات کے فائل ہیں۔ زمیندار 1911 سے 1915 تک متفرق، زمیندار اکتوبر 1921 سے اپریل 1927 تک مسلسل۔ انقلاب اپریل 1927 سے اکتوبر 1949 تک مسلسل۔ اس کے علاوہ بے شمار اخبارات، سول اینڈ ملٹری گزٹ، ہمدرد، کامریڈ کا ایک ایک فائل۔ الہلال کا ایک فائل۔ ہندو اخبارات کے خصوصی نمبر، مشرق، پاکستان ٹائمز۔ اتنا برا ذخیرہ ہے جس کی مکمل تباہی کی خبر جلدی آپ تک پہنچے گی۔ میں جو کچھ پیش کرتا رہتا ہوں، سارا وہیں سے بنایا ہوا ہے۔ پانچ چھ سال سخت گرمی مکیں پسینہ بہاتے اور بھڑوں سے لڑتے ہوے، اور سخت سردی میں ٹھٹھرتے ہوے کام کیا ہے۔ کاش تھوڑی مہلت اور مل جاۓ، میں انقلاب کا فائل مکمل کر لوں۔ حالات بہت نازک ہیں۔

میں اپنا قصہ ء درد لے بیٹھا۔ بتانا یہ مقصود تھا کہ ہمارے ملک میں اس ذریعہ ء معلومات کو بے دردی سے برباد کیا جا رہا ہے۔ باقی آپ کی ترتیب بظاہر درست ہی معلوم ہوتی ہے۔

Muhammad Mashhood

Muhammad Mashhood

Irfan Mirza آپ کی ترتیب اپنی جگہ درست ہے، قباحت اس میں یہ ہے کہ سرکار کا ریکارڈ بہت مشکوک ہے۔ بھٹو صاحب کے دور میں کے-کے- عزیز کو اس کام کا ذمہ دیا گیا تھا، انہوں نے بہت جانفشانی کے ساتھ تاریخ مرتب کرنے کا کام انجام دیا تھا۔ افسوس کہ ضیائی دور آگیا، کے کے عزیز کا کام شائع نہیں ہوسکا۔ میں نے وطنِ عزیز کے جتنے محققیقین کو پڑھا ہے، کے کے عزیز سے زیادہ محنت سے ریکارڈز کی تلاش کرتے کسی اور کو نہیں پایا۔

دوسری بدقسمتی یہ ہے کے ہماری تحریک کے بڑے ناموں میں سے سوائے چودھری خلیق الزماں کے کسی نے کتاب یا یادداشتیں لکھنے کی زحمت نہیں اٹھائی۔ جبکہ بھارت میں گاندھی، نہرو، ابوالکلام آزاد اور پٹیل وغیرہ نے یہ کام بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیا۔ اب ہمارے سامنے بھارتی مواد تو ہوتا ہے مگر آل انڈیا مسلم لیگ کا مؤقف ہمیں دستیاب نہیں ہوپاتا۔

بہرحال اگر کوئی یہ عزم لے کر اٹھے تو بہت کچھ کھوج لگا کر مل جائے گا۔

Amjed Saleem Alvi

Amjed Saleem Alvi

Muhammad Mashhood

مشہود بھائی میرے دوست پروفیسر Ahmad Saeed سے کبھی یہ درد بھری داستان سنیں۔ ان کا کے کے عزیز صاحب سے گہرا تعلق رہا ہے۔ بھٹو صاحب کے حکم سے جس طرح سارا ریکارڈ ان کے پاس پہنچتا رہا ہے، اس کی مثال بھی نہیں ملتی، لیکن سوال موجودہ دور سے متعلق ہے ہی نہیں۔ سوال تو پارٹیشن سے پہلے اور اس زمانے سے ہے، کہ جو ریکارڈ اس وقت محفوظ تھا، جس کی تقسیم کی روداد بھی انڈیا ونز فریڈم سے ملتی ہے، اس ریکارڈ کی تباہی کو کیسے روکا جاۓ؟ میرے خیال میں وہ ریکارڈ بہت قابلِ بھروسا ہے۔ وہ ریکارڈ حکمرانوں کے لیے مرتب ہوتا تھا جس کی بنیاد پر وہ فیصلے کرتے تھے۔ ان کو درست رپورٹیں بھیجی جاتی تھیں، تبھی وہ تجزیہ کر کے درست فیصلے کرتے تھے اور کامیاب تھے۔ اس سرکاری ریکارڈ پر یقینا” پورا بھروسا کیا جا سکتا ہے۔ اچھا محقق کبھی کسی رپورٹ پر آنکھیں بند کر کے یقین نہیں کر لیتا، وہ اس کی گواہی بھی اس وقت کے حالات سے حاصل کرتا ہے۔ فرسٹ ہینڈ انفرمیشن کا کوئی متبادل نہیں۔ سید احمد شہید کی سیرت مرتب کرتے وقت میرے والد کا اصل ذریعہ وہی فرسٹ ہینڈ انفرمیشن تھی۔ سید صاحب کے ساتھی ٹونک پہنچے اور ٹونک کے حکمران نے ان سے جو چشم دید حالات لکھواۓ، میرے والد نے ان تک رسائی مولانا ابوالکلام آزادؒ کی وساطت سے حاصل کی تھی۔ انہی دستاویزات کی بنیاد پر ایسی کتاب لکھ پاۓ جس کو آج چھیاسٹھ برس بعد بھی اسے مستند ترین مانا جاتا ہے۔ میں پروفیسر احمد سعید صاحب سے پولیس کی ان خفیہ رپورٹوں کو حاصل کر کے ان میں سے چند پیش کروں گا، پھر آپ ان کی صداقت کا اندازہ کیجیے گا۔ پروفیسر صاحب جب مولانا ظفر علی خان پر تحقیقی کام کر رہے تھے، تب وہ رپورٹین اسی سلسلے میں حاصل کی تھیں۔ اب ظفر علی خان ٹرسٹ نے ان کا پہلے سے مکمل کام بھی روک رکھا ہے، ریٹائرڈ بیوروکریٹ جن کو اس ادارے پر مسلط کیا گیا ہے، کتابوں کی طباعت کو کارِ زیاں سمجھتے ہیں، اسی سے مستقبل کا اندازہ فرما لیں۔

Muhammad Mashhood

Amjed Saleem Alvi بھٹو صاحب جو کام کے کے عزیز سے کروا رہے تھے اس کا اسکوپ کیا تھا؟

Amjed Saleem Alvi

Muhammad Mashhood

اس پر تفصیلی روشنی پروفیسر Ahmad Saeed ڈال سکیں گے۔ بھٹو صاحب کی طرف سے ان کو فائلوں کے ڈھیر پہنچتے تھے اور وہ چھان بین کے بعد جو ضروری سمجھتے تھے، ان کی نقول لے کر وہ ڈھیر لوٹاتے تھے۔ ابھی پچھلے دنوں ایکی مضمون میں بھی ایسا کچھ پڑھا ہے لیکن اب یادداشت دھوکا دینے لگی ہے۔ یاد نہیں آ رہا کس نے لکھا کہاں لکھا۔ اس موضوع پر ہمارے مشترکہ دوست Fayyaz Bedaar بھی تفصیلات بیان کر سکتے ہیں، یہ بھی کے کے عزیز مرحوم اور ان کی فیملی کے بہت زیادہ قریب رہے ہیں۔

Fayyaz Bedaar

Amjed Saleem Alvi بھائی!

اتنی خوُبصوُرت گُفتگوُ سے بہت کُچھ سیکھنے کو ملا- جہاں تک کے-کے- عزیز صاحب کا تعلق ھے جو مُجھے یاد پڑتا ھے کہ بھُٹو صاحب نے اُنہیں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب پر تحقیق کر کے ایک محقق کا نقطہ نظر بیان کرنا تھا۔ اور اُس سلسلے میں حموُد الرحمان کمیشن کی ساری کاروائی اُن کے پاس موجوُد تھی- اسکے علاوہ بھی جو ریکارڈ اُنہیں چاہیے ھوتا تھا وہ مُہیا کیا جاتا تھا- بھُٹو صاحب کا کے۔کے۔ صاحب پر کوئی دباو بھی نہیں تھا لیکن بھُٹو صاحب یہ نہیں چاہتے تھے کی یہ کتاب وھی ادارہ شائع کرے جسکے پروفیسر صاحب سربراہ تھے کیوُنکہ اسطرح اس تحقیقی کاوش پر بھی سرکاری ٹھپہ لگ جاتا چُنانچہ کسی امریکی یا برطانوی ناشر، مُجھے اُنہوں نے نام بتایا تو تھا لیکن اب یاد نہیں، ک ساتھ معاہدہ بھی طے پا چُکا تھا- کتاب چار جلدوں میں شائع ھونی تھی اور میں نے اُنکی ایک لائبریری میں ٹائیپڈ مسودہ بھی رکھا دیکھا تھا پھر ضیاء اُلحق صاحب تشریف ے آے۔ کے۔کے۔عزیز صاحب کو نظر بند کر دیا گیا اور کتاب شائع نہ ھو سکی۔

جنرل کے۔ایم -عارف کے۔کے صاحب کے کزن تھے ایک شام وہ ان سے ملنے آے اور یہ ذکر تک نہیں کیا کہ وہ اُن کی نظر بندی کے احکامات پر دستخط کر چُکے ھیں۔

کے۔کے۔ صاحب کے انتقال کے تین برس بعد اُن کی بیگم بھی انتقال کر گئیں۔ کوئی اولاد تھی نہیں مکان اپنی زندگی میں رحمت اُللہ لیٹن آئی ھسپتال کو donate کر چُکے تھے گھر کا سامان بیگم صاحبہ کے ایک بھانجے کے سُپرد ھُوا۔ کتابیں اُن کی وصیت کے مُطابق ھمدرد یونیورسٹی کو بھیج دی گئیں۔ وصیت کے مُطابق بینک میں جمع شُدہ رقم رحمت اُللہ ھسپتال اور فاطمہ میموریل ھسپتال کے حوالے کی گئیں۔ اس ساری سیٹلمنٹ میں جسٹس عامر رضا، ایڈووکیٹ مُجتبی جمال اور یہ خاکسار شامل تھے۔

اب باقی بچے اخباروں اور مضامیں کے تراشے۔ شائع شُدہ کتابوں کے مسودے ( ھو سکتا ھے ان میں اس کتاب کا مسودہ بھی ھو مُجھے علم نہیں)اور اُن کی خط و کتابت کی کاپیاں اور بھی بہت سے کاغذات اُس کو رکھنے کی کسی نے حامی نہ بھری چُنانچہ وہ سب آج بھی میرے پاس موجوُد ھیں ۔ آپ احباب کوشش کریں تو گورنمنٹ کالج لائبریری کے حوالے ھو جاۓ شاید کسی محقق کے کام ھی آ سکے۔

Muhammad Mashood, Irfan Mirza,

Muhammad Mashhood

Fayyaz Bedaar جناب کے کے عزیز صاحب نے چودھری رحمت علی کی سوانح میں لکھا ہے کہ انہیں

National commission on Historical and Cultural Research

قایم کرنے اور اس کی سربراہی کیلئے دسمبر 1973

میں بلایا گیا تھا۔

Amjed Saleem Alvi

جی ہاں ایسا ہی ہے۔ اس بارے میں پروفیسر احمد سعید سے بہت کچھ سنا ہے۔ انھوں نے کے کے عزیز کے اپنے نام خط بھی شائع کروا دیے تھے جو شاید میں نے پوسٹ بھی کیے تھے۔ دیکھ کر عرض کروں گا۔

Fayyaz Bedaar

Amjed Saleem Alvi بھائی

یہNational Commission on Historical and a cultural Research کے چیئرمین بنایا گئے تھے-آفس, سٹاف گاڑی سب کُچھ مُہیا تھا۔

ایک کتاب مُجھے معلوُم نہیں شائد یہی سانحہ مشرقی پاکستان والی ھی ھو اُس کمیشن کے پاس تھی جب کے۔کے۔ صاحب کو بالآخر خرطوُم یُنیورسٹی میں پڑھانے کے لئیے مُلک سے باھر جانے کی اجازت مل بھی گئی تو اُس کتاب کا مسودہ اُنہیں واپس نہیں دیا گیا۔

میں نے ایک مرتبہ اُن سے کہا آپکی تحقیق ھے آپ اب چھپوا دیجیے کہنے لگے اتنے برس گُزر چُکے سینکڑوں کتابیں اس

موضوُع پر اب آ چُکی ھیں اب کیا فائدہ۔

مُحّمد مشہوُد صاحب کا فرمانا صحیح ھے۔ جب کے۔کے۔ صاحب نے مُستقل طور پر پاکستان میں قیام کا فیصلہ کیا تو رقم کے انتظام کے لئے اُنہوں نے ساری زندگی کی جمع شُدہ لائبریری ھمدرد یوُنیورسٹی کو بیچ دی تھی۔ بعد میں جب بھی کوئی کتاب خریدتے یا کس اور ذریعہ سے حاصل ھوتی وہ اس سےاستفادہ حاصل کرنے کے بعد ھمدرد کراچی بھیج دیتے تھے۔ جس روز اُنکی بیگم کا انتقال ھوُا تین کارٹون بڑی خوبصوُرتی سے تیار تھے بھیجنے کے لیے۔ شائد سات سو کُچھ کتابیں بیگم کے۔کے۔ کے انتقال کے بعد ھمدرد لائبریری کو بھیجی گئی تھیں

Muhammad Mashhood

جمال بھائی سوال پوچھا گیا ہے کہ بھارتی حصے میں قیام پذیر مسلمانوں نے تحریک آزادی میں کونسی قربانی دی تھی۔ اس پہ اظہارِ خیال فرمائیں۔ نوازش

Jamal Qadri

 

Irfan Mirza

برصغیر میں استعمار کے اقتدار کے آخری کچھ سالوں میں دو بڑے حل طلب معاملات کھل کر سامنے آ چکے تھے۔ اول، برصغیر کی خود مختاری اور دوم فرقہ وارنہ بے چینی۔ انڈین نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے مابین ان معاملات کے حل طلب ہونے پر تو کوئی خاص اختلاف رائے نظر نہیں آتا لیکن ان کو حل کرنے کی ترتیب سب سے بڑے نزاع کا باعث بن کر سامنے آئی۔ 1945-1946 کے الیکشن کے بعد مرکزی حکومت کا قیام عمل میں آنا تھا۔ چونکہ برطانیہ کی پارلیمان برصغیر کے عوام کو اقتدار منتقل کرنے کے اصولی فیصلے کا اعلان کر چکی تھی، لہذا اس فیصلے کا منطقی نتیجہ تو یہی تھا کہ اقتدار تاج برطانیہ سے اسی مرکزی حکومت کو منتقل ہو۔ گویا مرکزی حکومت کا قیام اقتدار کی منتقلی کے لیے بنیادی ضرورت تھا اور اس مرکزی حکومت میں انڈین نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے مابین نشستوں کی تقسیم پر اتفاق بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ بے چینی کو حل کرنے کے لیے کلیدی حثیت کا حامل تھا۔ چونکہ جمہوریت کے مروجہ اصولوں کے تحت انڈین نیشنل کانگریس کو مرکزی حکومت میں کم از کم دوتہائی اکثریت حاصل ہوتی صاف دکھائی دے رہی تھی لہذا اسے ترجیحی طور پر منتقلی اقتدار مین دلچسپی تھی۔ اس کے برعکس آل انڈیا مسلم لیگ مرکزی حکومت میں آبادی کے تناسب سے نشستوں کی تقسیم کے اصول کو ماننے پر تیار نہیں تھی اور دو قومی نظریے پر اصرار کرتے ہوئی اقتدار میں برابر کے حصے پر مصر تھی لہذا اس کی سیاسی ترجیحات میں اقتدار کی منتقلی سے پہلے (تاج برطانیہ کی موجودگی میں) نشستوں کی تقسیم کے مسلئے کا حل اولین حیثت کا حامل تھا۔ حکومت برطانیہ کے منتقلیِ اقتدار کی تاریخ کا اعلان کرنے کے بعد مرکزی حکومت میں نشتوں کی تقسیم کے تنازعے کا بروقت حل آل انڈیا مسلم لیگ کے لیے ازحد ضروری ہو گیا تھا جبکہ اس تنازعے کے حل کو منتقلی اقتدار کے بعد تک موخر کرنا اندین نیشنل کانگرس کی سیاسی حکمت عملی کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتا تھا۔ وقت کی ڈور قائداعظم کے ہاتھوں سے تیزی سے سرک رہی تھی جبکہ انڈین نیشنل کانگریس اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں تھی۔ ایسے میں انگریز کی برصغیر سے اعلان کردہ وقت کے مطابق واپسی مسلمانوں کے لیے بھلا کیا نوید لیکر آ سکتی تھی؟

Salam A.

اس موضوع پر نوید شریف صاحب کی یہ پوسٹ بھی توجہ طلب ہے:

“کہا جاتا ہے مسلم لیگ نے پاکستان بنا کر برصغیر کے آدھے مسلمانوں کو پیچھے ہندوستان میں چھوڑ دیا ۔ یہ بات اعداد و شمار اور سیاسی تاریخی کے حساب سے بالکل جھوٹ ہے ۔

سب پہلے بات کرتے ہیں اعداد و شمار کی ۔

اس وقت پاکستان کی آبادی 22 کروڑ, بنگلہ دیش کی آبادی 18 کروڑ اور ہندوستان میں موجود مسلمانوں کی آبادی 20 کروڑ کے لگ بھگ ہے ۔ یعنی برصغیر میں مسلمان کی کل آبادی 60 کروڑ ہے جس میں سے (%50) یا آدھے نہیں بلکہ %32 اس وقت بھی ہندوستان آباد ہے ۔

مگر دوسرا سوال جس کا تعلق سیاسی تاریخ سے ہے اس کا جواب جاننا بے حد ضروری ہے ۔ کیا مسلم لیگ نے ان %30 کو پیچھے چھوڑنے کا پہلے ہی سے کوئ اردہ کیا ہو اتھا ؟

بلکل نہیں ۔مسلم لیگ نے جس برطانوی 3 جیون پلان کو تسلیم کیا تھا اسکے مطابق اگر شاہی ریاستوں کو مکمل آزادی سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے دیا جاتا تو جموں اور کشمیر پاکستان میں شامل ہوتا اور حیدآباد دکن اور اس گردونواح میں موجود چھوٹی مسلم جاگیریں بھی آزاد رہتی ۔ اس طرح ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کی تعداد %30 کی تعداد کم ہو کر %20 رہ جاتی۔

اس کے ساتھ ساتھ پھر اگر باؤنڈری کمیشن بنگال اور پنجاب میں 1941 کی مردم شماری کے عین مطابق حد بندی کرتی تو یہ تعداد مزید کم ہو کر %15 رہ جاتی ۔

مگر ان اعداد و شمار کے ساتھ تحریک آزادی کی سیاسی تاریخ کو بھی سمجھنا ضروری ہے کہ کیوں کر %32 مسلمان آج ہندوستان میں محصور ہیں ۔

1938-40 کانگریسی حکومت کے بعد مسلم لیگ نے 1940 میں ایک قرارداد کے ساتھ پاکستان کو حصول اپنا مقصد بنا لیا ۔ یعنی مسلم لیگ نے ہندوستان کا بٹوارہ طے کر لیا ۔ جس کی بنیاد دو قومی نظریے پر تھی ۔ مگر جیسے ہی مسلم لیگ نے اپنے مقاصد کیلئے جدو جہد شروع کی اسے سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا انگریزوں اور ہندوؤں کے بجاۓ مسلمان سے کرنا پڑا ۔

مسلم لیگ کی پاکستان بارے تحریک کے جواب میں مخالف مسلم جماعتوں نے آل انڈیا آزاد مسلم کانفرنس قائم کی جو در اصل بارہ مسلم جماعتوں کا اتحاد تھا جن کے مقصد ہندوستان کے بٹوارے کو روکنا تھا ۔۔ان میں جمعیت علمائے ہند ، مجلس احرار الاسلام ، آل انڈیا مومن کانفرنس ، آل انڈیا شیعہ پولیٹیکل کانفرنس ، خدائی خدامتگار ، کرشک پرجا پارٹی ، انجمن وطنو بلوچستان ، آل انڈیا مسلم مجلس ، اور جمعیت اہلحدیث قابل ذکر جماعتیں تھیں۔

آزاد کانفرنس نے 23 مارچ 1940 کے مسلم لیگ کی قرارداد لاہور کے جواب میں فوری طور پر 19 اپریل 1940 کو “یوم ہندوستان” منایا اور اسی دن پہلی دفعہ مسلم لیگ کی طرف سے نام دی گئ “قرارد لاہور” کو بطور تضحیک ” قرارداد پاکستان مردہ باد” کے نعرے بھی لگواۓ ۔ جس کے بعد مسلم لیگ نے بھی اسے قرارداد پاکستان کہنا شروع کر دیا ۔

آپ شاید سوچ رہے ہوں گے اس تنظیم کا نام اس سے پہلے کیوں نہیں سنا ۔ اس کی وجہ شاید تاریخ کی وہ ترتیب ہے جہاں صرف جیتنے والوں کو یاد رکھا جاتا مگر 1940 سے 1947 درمیان آزاد کانفرنس اپنے مد مقابل مسلم لیگ کی نسبت زیادہ متحرک تھی ۔ بمبئی کرونیکل نے 18 اپریل 1946 میں لکھا تھا کہ “مسلم نیشنلسٹ پارٹیوں کے اجلاس مسلم لیگ کے اجلاس کی نسبت پانچ گنا زیادہ بڑے ہوا کرتے ہیں “۔ باقی اگلے تبصرے میں . . .

Salam A.

اوپر کے تبصرے سے منسلک:

“اس تحریک کے اس قدر متحرک ہونے کی وجہ آپ پر اس وقت واضح ہوگی جب آپ ان جماعتوں کے رہنماؤں پر ایک نظر ڈالیں گے ۔ جن میں ابوالکلام آزاد ,عبد المطلب مظومدار,عبد الصمد خان اچکزئی ,اللہ بخش سومرو,فخرالدین علی احمد ,فضل حسین,عنایت اللہ خان مشرقی ,خان عبدالغفار خان,خان عبد الجبار خان ,مغفور احمد اعجازی ,ملک خضر حیات ٹیوانہ ,مولانا عطا اللہ شاہ بخاری,مولانا سید حسین احمد مدنی ,مولانا ابوالاعلی مودودی,مختار احمد انصاری ,رفیع احمد کدوائی ,شوکت اللہ شاہ انصاری ,شیخ عبداللہ اور عبید اللہ سندھی جیسی نامور شخصیات شامل تھیں۔ یعنی مسلمانوں کی تمام تر تنظیمی قوت مسلمانوں کے ہی خلاف استعمال ہو رہی تھی ۔

یعنی اس وقت جب مسلم لیگ اور جناح ہندوستانی مسلمانوں کے مستقبل کی جنگ لڑ رہے تھے ان تمام مذہبی جماعتوں اور شخصیات نے بجاۓ جناح کے ہاتھ مضبوط کرنے کے الٹا ہندو کانگریس کا ساتھ دیا ۔ یہ خاموش بھی رہ سکتے تھے مگر کیونکہ تاریخ نے انکے لیے “کانگریسی مُلّا” کا لقب لکھا جانا تھا انھوں نے جناح اور مسلم لیگ کو بھرپور طریقے سے کمزور کیا ۔ لہذا جب انگریزوں اور کانگریس نے دستخط شدہ 3 جون پلان سے انحراف کرتے ہوۓ شاہی ریاستوں کو بزور قوت ہندوستان میں شامل کرنا شروع کر دیا تو یہ سب لوگ تماشائی بن گئے اور جناح اکیلا ہندوؤں اور انگریزوں سے لڑتا رہا اور بچا کچا ملک جوڑنے اور بچانے میں لگ گیا ۔

مگر اس وقت ان ملاؤں کو نا اسلام یاد آیا نہ مسلمان، انھوں شریعت کے بر خلاف مسلمانوں کی جماعت کے خلاف کفار کا ساتھ دیا۔شریعت کا جواب تو انھوں نے اپنی طرف سے جناح کو کفر کے فتوے لگا کردے رکھا تھا مگر پتا نہیں نہرو اور ماؤنٹ بیٹن میں انکو کون سا ولی اللّٰہ نظر آتا تھا وہی جانتے تھے۔

انھوں نے جو انھوں نے اپنی قبر میں بھرا وہ تو انکے ساتھ چلا گیا مگر آج انھی کی نسل کا ہندوستان میں تباہ حال ہے چاہے وہ کشمیر کے شیخ عبداللہ کی اولاد ہو یا آگرا میں ابوالکلام آزاد کی اولاد ۔ لہذا جو کچھ ہندوستان میں مسلمانوں کا حال ہو رہا ہے اسکے ذمہ دار وہی کانگریسی مُلّا ہیں ۔

اس سب میں پاکستان کا قصور اتنا ہے کہ 72 سال بعد ہمیں اس قابل ہونا چاہیے تھا کہ اگر ہندوستان میں مسلمانوں کوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے تو ہم ہندوستان کو معاشی ،سیاسی اور فوجی لحاظ سے یہ احساس دلاسکتے ہوتے کہ اس کے لیے یہ مہنگا سودا ہے۔ مگر ابوالکلام آزاد کے جگری یار نہرو کی بدولت کشمیر کا ایسا مسئلہ بنا رہا کہ ریاست پاکستان کی ترقی اور خوشحالی جنگوں اور مہم جوئ میں صرف ہو گئ ۔ ساتھ ہی ساتھ آج انھیں کانگریسی ملاؤں کی اولاد پاکستان میں اب بھی اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں مصروف ہے۔ جناح نے ہندوستان کے مسلمانوں کی ایک وفد کو جو مشورہ آنے والے وقت اور حالات کے بارے میں 31 دسمبر 1947 میں دیا تھا میں آخر میں وہی دھراؤں گا کہ “ہندوستانی مسلمانوں کو نۓ انڈیا میں مسلم لیگ کو ختم کرنے کو کہا جاۓ گا ابوالکلام اور اسکے ساتھی تمھیں کہیں گے یہ اب غیر موثر پلیٹ فارم ہے ۔ تم انکی باتوں میں مت آنا اور اپنے آپ کو کانگریس میں ضم کرنے کی غلطی نا کر بیٹھنا ۔ اپنی متوازن لیڈر شپ قائم رکھو تبھی تم اپنے حقوق کی حفاظت کر سکو گے ” ۔ (نوید شریف)

قائدِ اعظم پر کئے جانے والے اعتراضات اور تاریخی حقائق / قسط-1

قائدِ اعظم پر کئے جانے والے اعتراضات اور تاریخی حقائق / قسط-2

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے