صبیحہ صبؔا کی تازہ غزل

غزل

ڈاکٹر صبیحہ صبؔا

اب کہ شرط سفر کوئی تھی ہی نہیں،  ہم نے یہ کب کہا   رہنما تو چلے

انتظارِ صدائے جرس میں تھے ہم،  جب بھی آئی  ہے بانگِ درا تو چلے

آئی باد بہاری کے بادِ خزاں، بادِ صر صر کہ ہوموجِ عنبر فشاں

ان دریچوں کو یوں ہی کھلا چھوڑ دو،حبسِ  دم کم تو ہو،  کچھ ہوا تو چلے

ایسی بنجر زمیں اورکِشتِ سخن، ایسی گم سم ردیف اور مرا عجزِ فن

پھول کیسے کھلاؤں چمن در چمن، ساتھ میرے کوئی  قافیہ تو چلے

کچھ طبیعت  رسا ہی نہیں آج کل، کیسے شاخِ ہنر سے اتاروں میں پھل

پھر بھی خون جگر سے کہی ہے غزل، سادگی میں بھی کچھ رنگ،  آ  تو چلے

میرے ہمراہ صحرا میں آئے تو وہ، ان  غزالوں کی صحبت اٹھائے تو وہ

آپ آجائے گا اُس میں ذوق ِ جنوں ، اک ذرا  دیر کو وہ چلا تو چلے

رہگزارِ وفا کتنی دشوار تھی، منزل جاں تو قُلزم کے اُس پار تھی

وہ مسافت سے گھبرا رہے تھے مگر، ہم نے بازو میں بازو دیا تو چلے

آئے آئے کوئی طائرِ خوش خبر ، کب سے  آنکھیں  لگی ہیں در و بام پر

کوئی خوشبو بھری بات لائے صبؔا، گفتگو کا کوئی سلسلہ تو چلے

 

نیویارک ؁۲۰۲۲ء

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے