رومی تذکرہ و تفہیمِ مثنوی-ادب

رومی تذکرہ و تفہیمِ مثنوی۔ادب بقلم نوازش علی خاں

سخن اول

مثنوی معنوی میں مولانا نے ایک مستقل باب باندھا ہے۔ اس سے پیشتر کہ اس پر مزید گفتگو ہو، ادب کے لغوی معنوں پر غور لازم ہے۔ لغت کی رو سے،
ادب صیانت نفس است از افعال شنیعہ و از اقوال ناپسندیدہ
اب اگر تعریف کی وضاحت کریں تو لازم ہے نفس کے معانی واضح ہوں۔ نفس کیا ہے اور اس کی اصلاح کیا معنی رکھتی ہے؟
”نفس ذہن اور طبیعت کے مجموعے کا نام ہے۔ وہ قوت جو درست اور نادرست میں خط تفریق کھینچ سکے، اس کو ذہن کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے، اور طبیعت وہ ہے جو کسی چیزکی گفتگو پر ناگواری محسوس کرے یا ابتہاج، خوشی، خوشگواری محسوس کرے۔ یہ طبیعت ہے جو رغبت یا کراہت محسوس کرتی ہے۔ گویا ذہن اور طبیعت کے اوغام یا ملاپ سے نفس وجود پذیر ہوتا ہے۔
طبیعت اگر ذہن پر غالب آئے تو انتشار اور بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ راہ راست یہ ہے کہ ذہن طبیعت پر غالب رہے۔ طبیعت میں نظم و ضبط برقرار نہ بھی رہےتو ذہن کا فیصلہ اس پر غالب آئے ، کیونکہ نفع نقصان، درست اور غلط کو جانچنے میں طبیعت کو نہیں ذہن کو فوقیت حاصل ہے۔ طبیعت منہ زور ہوتی ہے اور اس کو راہِ راست پر رکھنے کیلئے لگام کا ذہن کے ہاتھ میں ہونا ضروری ہے۔ عاداتِ رذیلہ اور اخلاقِ بد، طبیعت پیدا کرتی ہے جبکہ ذہن مہمیز کرتا ہے کہ اخلاقِ عالیہ وجود میں آئیں۔
اب اگر ادب کی تعریف کو پیشِ نظر رکھیں تو ادب برے افعال و اعمال سے نفس (طبیعت اور ذہن) کی حفاظت ہے اور دوسرے بوقت گفتگو برے اور بعید از اخلاق اقوال و بیان سے دور رہنا ہوگا۔

سخن دوئم

اب آتے ہیں مثنوی کی طرف۔ باب زیرِ بحث کا پہلا شعر ملاحظہ ہو؏

از خدا جو ئیم توفیق ادب
بے ادب محروم گشت از فضلِ رب
(ہم اللہ سے ادب کی توفیق طلب کرتے ہیں ، کیونکہ بے ادب ہمیشہ فضلِ ربانی سے محروم رہتا ہے)
بے‌ادب تنہا نہ خود را داشت بد
بلکہ آتش در ہمہ آفاق زد
(بےادب نے محض اپنی جان کو ہی نقصان نہیں پہنچایا بلکہ گویا تمام عالم میں آگ لگا دی)

فضلِ ربی سے محرومی، اس سے بڑی بد قسمتی اور حرماں نصیبی اور کیا ہوگی۔ رب وہ ہے جو آپ کی ہماری ذہنی و جسمانی پرداخت کرکے درجہ بدرجہ بلندی کی طرف لے جاتا ہے۔ اب جس کی ذہنی پرداخت و پرورش نہ ہوگی طبیعت غالب آئے گی اور نفس اعمالِ رذیلہ اور گفتار بد کی طرف رجوع کرے گا جو منشائے ایزدی کے خلاف ہوگا۔ اس کے اثرات نہ صرف شخصی ہوں گےبلکہ معاشرہ بھی اس کی زد میں آئے گا اور فساد جنم لے گا۔ اس صورت میں ربِ کریم کا دستِ کرم اس کی پشت پناہی نہیں کرے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ سنت ربانی کو تبدیل نہیں کرتا اور فعل کے منطقی نتائج کو مرتب ہونے سے نہیں روکتا۔ آتشِ نمرود مبدل بہ گلزار حضرت خلیل کیلئے تو ہوسکتی ہے لیکن ہم اور آپ اگر آگ میں انگلی داخل کریں گےتو منطقی طور پر وہ ضرور جلے گی اور طبیعت کا ذہن پر غالب آنا حکمت کی جگہ جہالت پر منتج ہوگا۔
دوسرے شعر میں مولانا نے ذات فاعل سے ہٹ کر فرمایا ہے کہ بے ادب نہ صرف خود کو ہلاکت میں ڈالے گا بلکہ پورے معاشرے ( ہمہ آفاق) کو بھی آتش بے ادبی کی نذر کردے گا۔

سخن سوئم

اسی باب میں قبلہ نے ایک اور خرابی کی طرف نہ صرف اشارہ کیا ہے بلکہ مبسوط بحث کی ہے اور وہ ہے خود غرضی ، شکم پروری اور زر اندوزی / حرص و آز
اب حسبِ توفیق ان پر بھی گفتگو ہوگی۔

نوازش علی خاں مثنوی تفہیم
حرص میرے نزدیک مالِ دنیا کی اپنی جائز ضروریات سے بڑھ کر خواہش اور آرزو کا نام ہے۔ حریص کا پیٹ تو بھرجاتا ہےلیکن اس کی آنکھ نہیں بھرتی اور وہ جب زر اور حبِ منفعت کی خاطر تمام حدود پھلانگ جاتا ہے اور حبِ دنیا، آرزوئے جاہ و جلال، اور عدم قناعت اس کے ذہن کو روندتے ہوئے، اُس کی فطرتِ ثانیہ بن جاتے ہیں اور سعدی کو کہنا پڑا۔؏

چشم تنگ دنیا داررا
یا قناعت پر کندیا خاک گور
(تو کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ اس سے قبل قبر کی مٹی چشمِ حریص کو پر کرے قناعت کرلی جائے)

زر اندوزی ایسی لعنت ہےکہ ایسے زردار کو خنزیر کے نیش نکل آتے ہیں اور وہ دنیاوی اعتبار سے نہ سہی، اخلاقی اور مقصدِ تخلیق کے برعکس قعرِ مذلت میں گرجاتا ہے۔ زر و مال کی اِس حرص سے وہ ایک خاص حد سے زیادہ استفادہ نہیں کرسکتا۔ پیالہ اُسی قدر پانی اپنے اندر رکھ سکتا ہے جتنی اُس میں گنجائش ہے۔ باقی پانی کوزہ سے گر جائے گا اور ضائع ہوجائے گا۔ مولانا رومی فرماتے ہیں۔؏

کوزۂ چشمِ حریصاں پُر نہ شد
تا صدف قانع نہ شد پُر در نہ شد
(اگر صدف ایک قطرۂ ابرِ نیساں پر قناعت نہ کرے اور منہ کھلا رکھے تو اُس کے بطن میں موتی کبھی نشونما نہیں پائے گا۔)
ممکن نہیں بغیر قناعت فراغِ بال
ہر چند تودہ تودہ تجھے سیم و زر ملے

اسی طرح من و سلویٰ کو بچا کر نہ رکھنے کا حکم ہے۔ گویا جس قدر شکم پری کے لئے مناسب ہے نوشِ جان کرو اور جو باقی بچے اُسے مستحق لوگوں میں تقسیم کردینا ہی احسن و انسب ہے۔؏

نیم نانےاربدست آرد گدا
بذل درویشاں کند نیمے دیگر
اگر درویش کو پاؤ نان مل جائے تو نیم پارہ دوسرے لوگوں کو دے دیتا ہے اور قناعت کرتا ہے۔

زردار، زر اندوز کبھی بھی اُس مقام پر فائز نہیں ہوسکتا۔ اُس کی طبیعت ذہن پر غالب آکر نفس کو منفی طور پر متاثرکرتی ہے۔ گویا مال صرف اُسی قدر ضروری ہے جو آپ کے اعمالِ صالح اور اشغال ضروریہ کی کفالت کرسکے۔ پانی اگر کشتی کے اندر ہو تو کشتی ڈوب جاتی ہے، اور اگر کشتی کے نیچے ہو تو اُس کی زندگی ، رسیددگیٔ منزل کے لئے ضروری ہے۔؏

آب در کشتی ہلاک کشتی است
آب اندر زیر کشتی پشتی است
دنیا پانی کی طرح ہے اور انسان کا دل مانند کشتی ہے.. پانی کشتی کے اندر آ جائے تو کشتی کے لیے باعث تباہی/ہلاکت ہے اور اگر پانی کشتی کے نیچے رہے تو کشتی کے لیے مددگار/معاون ہے۔(رومی)

حرص و آز، زر اندوزی، شکم غرضی کی صفاتِ رذیلہ کا جو علاج تجویزا گیا ہے وہ صفاتِ مثبت یا صفاتِ عالیہ کا کھوج، اُن کا عشق(شدت سے اور دنیا و مافیہا کو رد کرکے) ہے جو کہ تمام روحانی امراض،
کجیٔ طبع کا علاج اور غرضِ آفرینش ہے۔

اس عشق میں جس کا دامن چاک ہوا، اُس نے مقصدِ حیات کو پالیا اور یہی وہ عشق ہے جس کا تذکرہ علامہ اقبال کرتے ہیں۔
مذکورہ بالا سطور مولانا کے مندرجہ ذیل اشعار سے ماخوذ ہیں۔؏

ہر کرا جامہ ز عشقے چاک شد
اُو ز حرص و عیب کُلّی پاک شد
ہر وہ کہ جس کا جامہ عشق میں چاک ہوا (وہ عشق میں دنیا سے بیگانہ ہوا) وہ حرص اور عیبوں سے بالکل پاک ہوا۔
شاد باش اے عشقِ خوش سودائے ما
اے طبیبِ جملہ علّت ہائے ما
اے ہمارے اچھے جنون والے عشق، شاد رہ آباد رہ کہ تُو ہی ہماری تمام علّتوں اور بیماریوں کا
طبیب ہے۔

حیاتِ انسانی کا مقصد بلند پروازی اور صفاتِ رذیلہ کو اپنے اندر سے نکال پھینکنا ہے، تاکہ طائرِ لاہوتی کی بلندیٔ پرواز متاثر نہ ہو۔

وما علینا الالبلاغ

مضمون جاری ہے۔ بقیہ اگلی اقساط میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے