رومی تذکرہ و تفہیمِ مثنوی-زندگی

رومی تذکرہ و تفہیمِ مثنوی۔زندگی بقلم نوازش علی خاں

(احباب کی فرمائش پر)

قسط / 1

بسم اللہ تعالیٰ

زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا

کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لئے

میں اور رومی کا تذکرہ و تفہیم! ذرا مشکل کام ہے۔ شکم پروری کا ذریعہ چونکہ درس و تدریس ادبی کبھی نہیں رہا، اس لئے نصف صدی کے بعد  خیالات کو مجتمع کرنا اور وہ بھی حوالوں کے بغیر ناممکنات میں سے ہے۔

دوسری گذارش یہ ہے کہ زمانۂ طالبِ علمی کے لیکچرز کے نوٹس اب خود پڑھتا ہوں تو اچھنبا ہوتا ہے۔ بہرحال فرمائشِ دوستاں۔
مثنوی ہی نہیں کسی بھی کتاب خصوصاً شاعری کو پڑھنے کیلئے ضروری ہے کہ ان تشبیہات اور تمثیلات کا کلی طور پر نہ سہی جزوی طور پر ادراک ہو اور محرر کے طرزِ اظہار سے واقفیت بھی۔

حقائق و جذبات دو مختلف چیزیں ہیں، حقائق تک قوتِ باصرہ کی رسائی ہوتی ہے، جبکہ جذبات نہفتہ ۔ یہ جذبات ہی ہوتے ہیں جن کے اظہار کیلئے تشبیہ و تمثیل، ہیت حاکمہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور تمثیل کسی بھی حقیقت کی تصویر کشی ہوتی ہے اور سمجھنے والے اصل مدعا تک باآسانی پہنچ جاتے ہیں۔

مثنوی انہی دو اصطلاحات کا شاہکار ہے۔ جونہی تمثیل اختتام پذیر ہوتی ہے ،  سماعت و بصارت کے واسطے سے، اس کی تصویر ذہن و دماغ پر مرتسم ہوجاتی ہے ، اور آدمی اپنی قوتِ جاذبہ و  مدرکہ کے ذریعہ بات کی تہہ تک پہنچ جاتا ہے۔

خوشتر آں باشد کہ سرِّ دلبراں
گفتہ آید در حدیث دیگراں

بہتر یہی ہوتا ہے کہ دلبروں کا راز(معرفت) لوگوں کے قصے (تمثیل) میں (کنایۃً) سُنا دیا جائے۔

جذبات چونکہ  لطیف اور ظاہری نظر سے حالتِ غیاب میں ہوتے ہیں اس لئے ان کے اظہار الفاظ کا سہارا معہ تشبیہ لینا پڑتا ہے۔ اب جو گُلِ  حبیب قبائے گُل میں نہاں اور پنہاں ہے اس کا اظہار عام اور سلیس زبان میں مشکل ہے اور جب لکھنے  والا الفاظ کا چناؤ کرتا ہے تو لامحالہ اس کا اصل مطلب سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے۔ اگر اقبال پر فارسی صورت الہام نازل نہ ہوتی تو شاید وہ اقبال نہ ہوتے۔ ہر زبان مفلس یا زردار ہوتی ہے اور یہ لکھنے والے کا کمال ہے کہ اپنی تحریر کو عامی رکھتا ہے یا خصوصی۔

علوم، اسرار سربستہ کا ، گنج شائیگاں ہوتے ہیں۔ مثنوی ان اسرار سربستہ کا خزانہ ہے جس سے طالبعلم  حسبِ ظرف حاصل کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب ایسے گدایانِ اسرار اپنی اپنی گدڑی جھاڑتے ہیں تو تشریحات مختلف ہوتی ہیں۔

تفاوت است میان شنیدن من و تو

تو بستن در و من فتح باب می شنوم

(تیرے اور میرے سننے میں فرق ہے کہ تو جسے دروازہ بند ہونے کی آواز سنتا ہےمیں اسے دروازہ کھلنے کی آواز سنتا ہوں)

اور اس طرح مغز اور پوست کے درمیان خط تفریق واضح ہوتا ہے۔

مثنوی تفہیم

کائنات متنوع  ہے، اس میں کثرت ہے۔ لیکن سو بات کی ایک بات یہ ہے کہ کثرت میں وحدت جلوہ گر ہے۔ ہر آدمی ایک دوسرے سے ظواہر کے اعتبار سے مختلف ہے۔ فطرت نے انفرادیت بخشی ہے، لیکن اس تکثر آفرینی میں وحدت بھی ہے اور اس کی وجہ صرف اور صرف میرے نزدیک یہ ہے کہ فطرت ایک عنصر وحدانی اپنے اندر رکھتی ہے اس لئے تمام تر کثرت کے باوجود وحدتِ حقیقی اس کے اندر اپنا وجود قائم رکھتی ہے۔

روز مرہ میں کئی مظاہر ہوں گے جن میں بُعد قلزم ہے لیکن انسان جو مخلوقِ احسن اور حیوانِ ناطق ہے ، ان میں بھی مشابہت کو پالیتاہے۔  حکمت و استدلال کبھی بھی جذبات و خیالات کو برانگیختہ  نہیں کرتے لیکن یہ برانگیختی جذبات کو جب لباس الفاظ و بیان عطا کرتی ہے تو ،

حسن الفاظ میں ڈھل جائے تو اک شعر جمیل

اور جب شعر صدر انسان کی گہرائی میں اترتا ہے تو وہ آتشِ سوزاں و درخشاں بھڑکتی ہے جو کہ تشبیہ کا کارنامہ ہوتی ہے، دستِ رومی پردۂ محمل گرفت۔

اگر ”حق“ سے سوز نکل جائے تو اسکی ہیئت بدل جاتی ہے اور وہ حکمت بن کر ریاضی اور اور طبیعات کی صورت اختیار نہ کرے گاتو کیا کرے گا۔ اب پردۂ محمل کی تشبیہ میں حقیقتِ مطلقہ کا بیان ہے جس کی ہیئت و ماہیت پر کوئی صاحب ادراک تو گفتگو کرسکتا ہے لیکن مجھ ایسا نہیں۔ صاحب ادراک  اہلِ دل ہے اور اور دوسرا صاحب معقولات!

جس قدر استدلال و منطق سے کام لیا جائے گالیلائے حقیقت مطلقہ اسی قدر مستور ہوتی چلی جائے گی۔ اسی لئے فرمایا کہ

پائے استدلالیاں چوبیں بود
(منطق سے تراشا ہوا پیر ، لکڑی کا پیر ہے)

جہاں صاحبِ دل نے قعود و قیام کیا، منزل سے غافل ہوا تو پھر

رفتم کہ خار از پا کشم، محمل نہاں شد از نظر

یک لحظ غافل گشتم و صد سالہ را ہم دُور شد
(میں نے رُک کر اپنے پاؤں سے کانٹا نکالنا چاہا اور محمل نظر سے نہاں ہو گیا، میں ایک لحظہ کیلئےغافل ہوا اور راہ سے سو سال دور ہو گیا۔)

حکمت اور دلسوزی کا یکجا ہونا کم از کم میرے نزدیک ، خیال است و محال است و جنوں

داخلی یعنی نفسی کیفیات کے بیان میں تشبیہ کی ضرورت کی ایک وجہ یہ بھی کہ تشبیہ میں دلآویزی اور کشش ہوتی ہے۔

خارج سے آشنائی بمراحل آسان ہے لیکن باطن کیلئے چشمِ دل کا بینا ہونا ضروری ہے اور منزل درونی تک رسائی منزل خارجی سے مشکل ہے کہ نفسی کیفیت میں مکانیت نہیں بلکہ لامکانیت ہے۔ لیکن اس کیفیت کے بیان کیلئے مکانیت کی اصطلاحوں سے کام لینا پڑتا ہے۔

صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا

حیوانِ ناطق ہونا باعثِ فخر ہے اور ایسی کوئی زبان نہیں جو داخلی کیفیات کی تصویر کشی اور اور کیفیت، خارجی تمثیلات اور تشبیہات کو بیان کرسکے۔ اسی ضرورت نے اردو فارسی شاعری کو مغان و ساقی و میکدہ کی تشبیہات عطا کیں۔ اور پھر ایسا ہوتا ہے کہ گفتگو بے صوت و الفاظ بھی  ممکن ہوجاتی ہے اور وہ ہوتی ہے اپنے اندرون سے!

عصرِ رواں میں فیض و فراز دیکھ لیجئے۔

خوشی گفتگو ہے، بے زبانی ہے زباں میری

حقیقت مطلقہ کا وجدان تو ہوسکتا ہے، بیان نہیں۔ اشیا مظاہر حقیقت  کے سائے ہیں اور الفاظ اس سائے کا سایہ۔ جذبات کی زبان تشبیہی ہوتی ہے اور کمال لذت کا بیان اسی زبان میں ہوتا ہے۔

ای خدا بنما تو  جاں را آں مقام
کاندراں بے حرف می روید کلام

سخن اول:

سب سے پہلے یہ گوش گذار کردوں کہ ”مثنوی“ کو یہ نام کیوں دیا گیا ؟

لفظ مثنوی مثنےٰ سے منسوب ہے اور اثنین سے یعنی ”دو“ سے نکلا ہے اور اس کا مطلب ہے دو، دو۔ چونکہ مثنوی کے ہر شعر کے دو، دو قافیےہوتے ہیں اس لئے اس کا نام مثنوی قرار پایا۔ مثلاً پہلا اور جہانِ معنی لئے ہوئے شعر

۱۔ بشنو از نَے چون حکایت می کند – از جدائی ها شکایت می کند  (ہم قافیہ)

(بانسری سے سن ! کیا بیان کرتی ہے درد وجدائی کی (کیا ) شکایت کرتی ہے)

۲۔ کز نیستان تا مرا ببریده اند ۔ از نفیرم مرد و زن نالیده اند (ہم قافیہ)

(کہ جب سے مجھے ہنسلی سے کاٹا ہے میرے نالہ سے مرد و عورت سب روتے ہیں)

یہاں نَے استعارہ ہے روحِ انسانی کیلئے۔ مولانا جامی نے اس طرز پر تضمین کہی جسکا ایک شعر ملاحظہ ہو،

زاں لئے ہمچو شکر ماند و جدا

از جدائی  ھا شکایت می کنند

سخن دوئم:

بشنو از نَے چون حکایت می کند

 از جدائی ها شکایت می کند

روحِ انسانی اپنی اصل کے اعتبار سے نورانی اور پاکیزہ ہے، ملکوتی ہے تو اس کا اصل مقام، مقام ملکوت تھا اور وہ ذاتِ حق کی محبت اور ذکروفکر میں مصروف تھی اور دنیاوی غلاظتوں سے پاک اور مبرا۔ اور اب اس کا ٹھکانہ عالم اجسام ہے جہاں تمام قسم کے معائب ہیں جن میں افعال رذیلہ اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ موجود ہیں اور روح افعالِ جسمانی کی وجہ سے ان سے متاثر ہوتی ہے اور اپنے اصل مقام سے نزول کرجاتی ہے اور خسران و نقصان اس کو گھیر لیتے ہیں۔  اب یہ ہر روح کا تقاضہ  ہے، بشرطیکہ وہ عبرت گیر اور قلب بصیر رکھتا ہو، کہ وہ اپنے اصل مقام کی طرف  صعود کرے۔ اب اس صعود کا ذریعہ کیا ہے، تہذیب اخلاق، تذکیہ نفس، اور راہنمائے کامل۔

تا مگر ہم چو صبا باز بہ کوی تو رسم

حاصلم دوش بہ جز نالۂ شب گیر نبود

(حافظ)

دعائے صبح و آہِ شب، کلیدِ گنج مقصود است

بہ ایں راہ و روش می رو کہ بادلدار پیوندی

( گوہرِ مقصود کی کنجی دعائے صبح  وآہِ شب میں ہے۔  انہی راہوں، روشوں پہ چلو کہ دلدار  کا وصال نصیب ہو)

خرم آں روز کزیں منزلِ ویراں بردم

راحتِ جاں طلبم ، و ز پئے جاناں بروم

کچھ نہ پوچھ اے ہمنشیں  ،  میرا نشیمن تھا کہاں

 اب تو یہ کہنا بھی  مشکل ہے، وہ گلشن تھا کہاں

نَے سے مراد عام بانسری نہیں ہے، مولانا نے رباب کا بھی تذکرہ کیا ہے

ضرب مضراب سے جو دلدوز آواز برآمد ہوتی ہے مولانا اس سے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ چونکہ آن موصوف اہلِ سماع میں سے تھے اور ان کی قوتِ جاذبہ عوام سے بہتر اور برتر تھی، ان کے اخذ کردہ نتائج بھی لا محالہ درجہ اولیٰ رکھتے تھے۔ اس لحظ سے فرمایاکہ بانسری کی آواز گوشِ ہوش سے سنو۔ وہ موسیقیٔ محض نہیں ، تمہیں اپنے محبوبِ ازل کی یاد دلاتی، اور اس کی طرف راجع کرتی ہے۔

مثنوی رومی اور بانسری

دوسری بات یہ کہ مولانا نے بانسری کا انتخاب کیوں فرمایا؟

عرض یہ ہے کہ وہ بھی اپنے اصل سے جدا ہوکر سوکھ سڑ جاتی ہے۔ اس کا سینہ شق ہوجاتا ہے، اس میں سوراخ ہوتے ہیں، اور یہی سوراخ اس کی زبان ٹہرتے ہیں جن سے آوازۂ شکایت برآمد ہوتا ہے کہ اسےاس کے اصل سے جدا کردیا گیا ۔ انسان اپنی قدیم جائے قیام کو عمر بھر یاد رکھتا ہے تو روح صعود  فی الاصل کو کیوں یاد نہ رکھے تا آنکہ اسے آبِ دنیا سے زنگ نہ لگ جائے۔

کز نیستان تا مرا  بہ بریده اند

از نفیرم مرد و زن نالیده اند

روح کو اگر نَے کے نام سے منسوب کیا جائے تو عالمِ ارواح کو نیستاں قرار دینا  لازم آتا ہے۔ نَے روح فریادی ہے کہ مجھے عالمِ ناسوت میں قید کردیا گیا  جس کے نتیجے میں اس کے روحانی فضائل کم ہوئے یا بالکل ختم ہوگئے اور وہ اس خسرانِ عظیم پر اس قدر نالاں ہے کہ سامعین مجلس رثا کے مانند اس کی حالت پر گریہ اور سینہ زنی پر اتر آتے ہیں۔زمانۂ شیب میں جب ایامِ جوانی یاد آتے ہیں تو پھر اشک نہیں آنکھوں سے خون گرتا ہے۔ یاد ہمیشہ سے ایک بہت بڑا محرک ِ تخلیق رہی ہے، بشرطیکہ قلم ساتھ دے۔ اگر نَے (بانسری) کا سینہ دردِ فراق سے سوراخ در سوراخ نہ ہوتا تو شکایت برآمد نہ ہوتی۔ یہی تزکیہ قلب ہے اور یہی مقصودِ خداوندی۔

نَے ہر اس عاشق صادق کی غم خوار ہے جو  اس کے درد فراق سے آگاہ ہو اور اس کا دم بھرتا ہو۔

نَے بانسری کے دو منہ ہوتے ہیں، ایک نَے نواز کے منہ میں اور دوسرا آوازۂ دلدوز کیلئے۔  انسانی روح میں ایک طرف سے تو آوازۂ حق داخل ہوتا ہے  دوسری طرف پیامِ حق خارج ہوتا ہے۔ اب اس پیامِ حق کو جذب کرنا، خود پر وارد کرنا، علائق دنیوی سے روگردانی پر منحصر ہے۔

با لب دمساز خود گر جفتمے

ہم چو نی من گفتنیها گفتمے

مثبت موسیقی جو براہِ راست دل پر اثر کرے مذاہب میں اس کا چلن اور رواج رہا ہے۔ یہاں تک کہ قرآت میں بھی موسیقیت ہے،

من لم یتغن بالقرآن فلیس منا

ایک شعر سن لیجئے۔

 

گر تو قرآن بر این نمط خوانی

ببری رونق مسلمانی

اب آپ (فرد) پر منحصر ہے کہ وہ اچھی چیز کو مثبت طور پر استعمال کرتا ہے یا منفی طور پر۔

مضمون جاری ہے

یہ بھی پڑھیں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے