The Muslim Problem in India – Syed Abdul Latif
قراردادِ لاہور ۔ منزل بہ منزل
عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن سے تعلق رکھنے والے انگریزی کے پروفیسر ڈاکٹر سید عبدالطیف نے برصغیر کی مسلم اور ہندو آبادی کے اکثریتی علاقوں کے توازن کو برقرار رکھنے کیلئے اور ان کے حدود کا از سرِ نو تعین کرنے کیلئےاپنی تجاویز مرتب کرنے میں انتھک محنت سے کام لیا۔ 1939ء میں ان کا کتابچہ “The Muslim problem in India together with an alternative constitution for India” منظرِ عام پر آیا جس کا پیش رس آل انڈیا مسلم لیگ کی خارجہ کمیٹی کے چیئرمین سر عبداللہ ہارون نے لکھا تھا۔ جیسا کہ ہم نے قراردادِ لاہور والی پوسٹ میں تذکرہ کیا تھا کہ قرارداد کی تیاری میں کچھ اعلان شدہ اسکیموں کو زیرِ غور لایا گیا تھا۔ ڈاکٹر عبدالطیف کی ”انڈین کلچرل زونز “ کی اسکیم ان میں سے ایک تھی۔
ڈاکٹر عبدالطیف نے 11 ہندو اور چار مسلم ثقافتی زون بنانے اور ان کو ایک راہداری کے ذریعہ ملانے کی تجویز پیش کی، جسے Indian Cultural Zones Scheme کا نام دیا گیا۔ہندو اور مسلم زونز کے علاوہ اجمیر کو آزاد شہر کی حیثیت دینے کا مشورہ دیا جہاں آزادانہ طور پر ہندوؤں اور مسلمانوں کی آمدورفت ہوسکے۔ ریاستوں کو انکی جغرافیائی اور ثقافتی قربت اوروابستگی کے اعتبار سے کسی بھی زون کے ساتھ الحاق کے حق کی تجویز دیتے ہوئے انہوں نے مختلف زونز کے درمیان انفرادی یا اجتماعی نقل وحرکت آزادانہ طور پر برقرار رکھنے کی وکالت کی۔ یوں انہوں نےمسلمانوں اور ہندوؤں کی الگ الگ مملکتوں کے بجائے ایک ہندوستانی وفاق کی سوچ کے ساتھ ثقافتی مسائل اور اشتراکِ اقتدار کے پیچیدہ انتظامات کے حل کا ڈھانچہ پیش کیا۔ اس کتابچے کی اشاعت سے قبل وہ 1937 ء میں حیدرآباد دکن میں نواب سر نظامت جنگ بہادر کی صدارت میں ہونے والے ایک اجلاس میں اپنی ان تجاویز کا خاکہ پیش کرچکے تھے جہاں سروجنی نائیڈو اورمولانا شوکت علی بھی موجود تھے۔ ان کی تجاویز کو اس وقت کے انگریزی اور اردو اخبارات نے نمایاں طور پر شائع کیا تھا اور یہ تجاویز سیاسی حلقوں موضوعِ بحث بن گئی تھیں۔
ان کی کتاب کے پیش رس میں سر عبداللہ ہارون نے ان کی تجاویز کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ہندوؤں اور مسلمانوں کی دیرینہ پریشانی کا حل تسلیم کیا۔ انہوں نے لکھا کہ،” میں انکی تجاویز سے اتنا متاثر ہواکہ میں نے انہیں آل انڈیا مسلم لیگ کی خارجہ کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی دعوت بھیجی جو 29 جنوری 1939ء کو لاہور میں طلب کیا گیا تھا تاکہ وہ کمیٹی کے ممبران کے ساتھ تبادلۂ خیالات کرسکیں۔ سر سکندر حیات، نواب شاہنواز ممدوٹ اور فیروز خان نون نے بھی اس اجلاس میں شرکت کی اور انہوں نے ان سے اپنی اسکیم اور اس کی مرحلہ وار کامیابی کی منازل کا تعین تحریری شکل میں لکھنے کی درخواست کی۔“ اس درخواست کے نتیجےمیں ، ڈاکٹر لطیف نے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 ء کے متبادل کے طور پر ہندوستان کے لئے ایک نئےآئین کا خاکہ تشکیل دیا – انہوں نے مقاصد کے حصول کیلئے اپنی اسکیم کو مرحلہ وار حصوں میں وقت کے تعین کے ساتھ تقسیم کیا۔ ڈاکٹر لطیف کا تشکیل کردہ منصوبہ کچھ دیگر اسکیموں کے ساتھ آل انڈیا مسلم لیگ کی ایگزیکٹو کونسل کے زیرِ غور رہا ۔ سر عبداللہ ہارون جو ڈاکٹر لطیف کے منصوبے سے بہت زیادہ متاثر تھے انہوں نے مسلم لیگ کی خارجہ کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے ان کے کتابچے کو نہ صرف انڈیا بلکہ انگلستان میں بھی وسیع پیمانے پہ تقسیم کروایا۔ انگلستان سے اس اسکیم پہ کچھ مثبت اشارے مل رہے تھے۔
آل انڈیا کانگریس نے بھی انکی مجوزہ اسکیم پر غورو خوض کیا ۔ کانگریس کمیٹی کے صدر راجندرا پرساد اور جواہر لال نہرو سے انکی خط و کتابت ہوئی اور راجندرا پرساد نے ان کا کتابچہ بذریعہ ڈاک منگوایا۔ ( ”دی پاکستان ایشو “ نامی کتاب میں ڈاکٹر عبدالطیف کی اسکیم سے متعلق خط وکتابت کی تفصیلات موجود ہیں۔) ، 2 جنوری 1940ء کے مکتوب میں راجندرا پرساد نے ڈاکٹر عبدالطیف سے ان کی اسکیم پر کچھ وضاحتیں مانگیں۔تاہم راجنداپرساد کی سنجیدہ خط وکتابت کے مقابلے میں نہرو کے ایک مکتوب کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پنڈت جی نے ڈاکٹر لطیف کی اسکیم کو مسترد کردیا تھا۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنے 25 نومبر 1939ء کے مکتوب میں ڈاکٹر عبدالطیف کو آگاہ کیا کہ انہوں نے ڈاکٹر لطیف کی کتاب دلچسپی کے ساتھ پڑھی اور ان کے دلائل کو سمجھنے کی کوشش کی۔
“Dear Dr. Latif,
I am grateful to you for sending me your book “The Muslim Problem in India”. I have read this book with interest and have tried to understand your argument. I am afraid I am wholly unable to appreciate it. You say in your letter that you are not a politician but you have written as a politician, and accepted as facts many assertions which have yet, to be proved. With much that you say regarding, the background, I might agree and yet the inferences you draw do not seem to be justified. The background is important but still more important is the future for which we build. It is not clear in your essay what political or economic structure you are ultimately aiming at. And, as you know, economics to-day governs politics. The fundamental problem of India to-day is not political but one of poverty and unemployment and low production and vested interests, both foreign and Indian which prevent progress. There is nothing in your essay which touches these problems.”
“I feel’, therefore, that your background is somewhat medieval and does not fit in at all with modern theory or practice, and does not take into consideration the fundamental importance of the economic side.”
ڈاکٹر عبدالطیف کے پیش کردہ منصوبہ کے مطابق مسلمان علاقے شمال مغربی بلاک، شمال مشرقی بلاک، دھلی لکھنؤ بلاک اور حیدرآباد دکن بلاک پر مشتمل تھے۔ شمال مغربی بلاک میں سندھ ، بلوچستان اور پنجاب ، شمال مغربی سرحدی صوبہ اور کشمیر کے علاوہ خیر پور اور بھاولپور کی ریاستیں شامل تھیں۔
شمال مشرقی بلاک میں مشرقی بنگال اور آسام کے علاقے شامل کئے گئے تھے۔ یوپی اور بہار کے مرکزی علاقوں میں آباد ایک کروڑ بیس لاکھ مسلمانوں کیلئے پٹیالہ کے مشرقی بارڈر سے لے کر لکھنؤ تک بشمول رام پور اس طرح ایک بلاک تجویز کیا گیا تھا کہ ہندوؤں کے اہم مراکز بنارس، ہردوار، الہٰ باد اور ماتھورا کی حیثیت متاثر نہ ہو اور وہ ہندو بلاک میں ہی رہیں، اس بلاک کو دہلی لکھنؤ بلاک کا نام دیا گیا تھا۔ چوتھے بلاک کا معاملہ خاصہ پیچیدہ تھا۔ ڈاکٹر عبدالطیف نے وندیاس اور ست پور سے نیچے کے علاقوں کیلئے خصوصی رعایت طلب کی جہاں مسلمان آبادیاں چھوٹے بڑے سائز کے مختلف ٹکڑوں میں بٹی ہوئی تھیں اور ان کی مجموعی تعداد ایک کروڑ بیس لاکھ سے زیادہ تھی۔ انہوں نے سفارش کی کہ حیدرآباد کی مرکزی حیثیت کے ساتھ جنوبی جانب کمول، کڈپاہ، چتور، شمالی آرکوٹ اور چنگلپٹ اضلاع کو جوڑتے ہوئے مدراس کے نشیب تک کے علاقے جو سمندری حدود کو ملاتے ہوں وہ ان کے مجوزہ دکن بلاک میں شامل کردئے جائیں۔
پنڈت نہرو کا مکتوب مؤرخہ 6 مارچ 1940ء جس کی کاپی منسلک کی جارہی ہے، ڈاکٹر لطیف کے منصوبہ کو مکمل طور پر مسترد کرتا نظر آتا ہے۔ دوسری طرف اگر مسلم لیگ کا طرزِ عمل دیکھا جائے تو گو کہ مسلم لیگ نے ان کی اسکیم کو سنجیدگی سے لیا اور قراردادِ لاہور کی تیاری میں جن تجاویز کو سامنے رکھا گیا ان میں ڈاکٹر عبدالطیف کی اسکیم بھی شامل تھی۔ تاہم جب قراردادِ لاہور منظور ہوگئی تو اس کے بعد سر ہارون اور ان کی تشکیل کردہ کمیٹی تو اس اسکیم پہ گفت و شنید کو آگے بڑھاتی رہی اور ذاتی طور پر سر ہارون اس کے لئے بہت سرگرم رہے لیکن ڈاکٹر لطیف اور قائدِ اعظم کی خط و کتابت کے نتیجے میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ قائدِ اعظم قراردادِ لاہور منظور ہوجانے کے بعد اس میں کسی بڑی تبدیلی کیلئے آمادہ نہیں تھے۔ اکتوبر 1940ء میں سروجنی نائیڈو نے ڈاکٹر عبدالطیف کو کانگریس کی ورکنگ کمیٹی سے ملاقات کیلئے ان کو ذاتی حیثیت میں دعوت دی تاکہ وہ اپنا پلان ورکنگ کمیٹی کے ممبران کے سامنے واضح کرسکیں، ڈاکٹر لطیف نے قائدِ اعظم سے اجازت طلب کی جو انہیں نہیں ملی۔ قائدِ اعظم نے اپنے 10 اکتوبر 1940ء کے مکتوب میں ڈاکٹر لطیف کو لکھا کہ بنیادی طور پر انکی اسکیم قراردادِ لاہور سے مطابقت نہیں رکھتی اور انہیں افسوس ہے کہ ڈاکٹر لطیف نے قراردادِ لاہور کی تعریف نہیں کی۔
اگرچہ سر ہارون کی خارجہ امور کمیٹی ڈاکٹر لطیف کے ساتھ خطوط کا تبدلہ کرتی رہی مگر قائدِ اعظم نے اپنے 15 مارچ 1941ء کے مکتوب بنام ڈاکٹر عبدالطیف میں سخت اور تحکمانہ جملے استعمال کرتے ہوئے نہ صرف ڈاکٹر عبدالطیف کو اپنی اسکیم پر ان کے ساتھ مزید خط و کتابت سے منع کردیا بلکہ سر عبداللہ ہارون کی کمیٹی کیلئے بھی اس سمت میں کام کرنے کیلئے ممانعت کا اظہار کیا۔ بعد ازاں ڈاکٹر عبدالطیف قراردادِ لاہور اور پاکستان کیلئے علیحدہ وفاق کے سخت ناقد بن گئے تھے جس کا اظہار انہوں نے مختلف خطوط اور ”دی پاکستان ایشو “ نامی کتاب میں کھل کر کیا۔