سندھ اسمبلی سے پاکستان کے حق میں قرارداد کی منظوری

جی ایم سید اور سندھ اسمبلی سے پاکستان کے حق میں قرارداد کی منظوری

تحریر و تحقیق: محمد مشہود قاسمی

قراردادِ لاہور 1940ء میں مارچ کے مہینے میں منظور ہوئی۔  تین سال کے بعد یعنی 1943ء  میں مارچ کی تین  تاریخ کو  سندھ اسمبلی میں پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کی گئی اور یوں سندھ اسمبلی پہلی برطانوی ہندوستانی مقننہ تھی جس نے پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کی۔  قرارداد پیش کرنے والے  سائیں جی ایم سیدتھے جنہوں نے 1938ء میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی ۔ اس قرارداد کا ایک اہم نکتہ پاکستان میں شمولیت اختیار کرنے والے صوبائی یونٹس کیلئے مکمل خودمختاری کی تجویز تھی۔  اہم بات یہ ہے کہ قراردادِ لاہور سے تقریباً دو برس قبل سندھ میں ہی آل انڈیا مسلم لیگ نے باقاعدہ طور پہ تحریکِ پاکستان کی بنیاد رکھی۔ اگرچہ اس سے قبل چودھری رحمت علی کی پاکستان اسکیم سمیت کچھ دوسری تجاویز تقسیم کے حوالے سے منظرِ عام پر آچکی تھیں، تاہم آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے 1930ء میں علامہ اقبال کی جانب سے پیش کی جانے والی تجویز کے بعد سے( جس میں ایک ڈھیلے ڈھالے وفاق کے اندر مسلمانوں کی الگ ریاست کا مطالبہ شامل تھا) تقسیمِ ہند کا کوئی مطالبہ سامنے نہیں آیا تھا۔  سندھ کے  سیاسی رہنماؤں کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے ایک طویل جدوجہد کے بعد سندھ کو بمبئی پریذڈنسی سے آزاد کرایا تھا اور یکم اپریل 1936ء کو  صوبہ سندھ اپنی علیحدہ اسمبلی کے ساتھ وجود میں آیا تھا۔ اور پھر یہ کہ 26 جون 1947ء کو ایک خصوصی اجلاس منعقد کرکے صوبہ سندھ کی اسمبلی نے سب سے پہلے پاکستان میں شمولیت کا اعلان کیا۔

کراچی میں پہلی صوبائی مسلم لیگ کانفرنس کا انعقاد

اکتوبر 1938ء میں کراچی میں پہلی صوبائی مسلم لیگ کانفرنس کا انعقاد ممکن ہؤا۔ کہنے کو یہ صوبائی کانفرنس تھی لیکن اس میں پورے ہندوستان سے قدآور سیاسی شخصیات شریک تھیں اور قائدِ اعظم خود اس کانفرنس کی صدارت کررہے تھے۔ شرکأ میں لیاقت علی خان، نواب اسماعیل خان، نواب بہادر یار جنگ، مولانا شوکت علی، بیگم محمد علی، راجہ صاحب محمودآباد، پیر پور کے راجہ، فرنگی محل کے مولانا جمال میاں، سید غلام بھیک نیرنگ، مولانا عبدالحامد بدایونی، نواب مشتاق احمد گورمانی، اور پنجاب و بنگال کے وزرائے اعظم سر سکندر حیات اور اے۔کے۔فضل الحق شامل تھے۔ کسی بھی صوبائی سطح کی میٹنگ میں اتنی بلند قامت شخصیات پہلے کبھی شریک نہیں ہوئی تھیں، اور نہ ہی اس کانفرنس میں محض صوبائی سطح پر بات چیت ہوئی۔ درحقیقت یہ کانفرنس پیش خیمہ تھی اس تحریک کا جس نے بعد میں تحریکِ آزادیٔ پاکستان کا نام پایا۔ جو مقام قراردادِ لاہور کو 1940ء میں حاصل ہؤا، وہی اس کانفرنس کو بھی حاصل ہوسکتا تھا لیکن قائدِ اعظم نے اس وقت کو مناسب نہ جانا اور استقبالیہ کمیٹی کے چیئرمین سر عبداللہ ہارون کی جوشیلی اور گرجدار تقریر کے مقابلے میں سیاست کے پیچ و خم کو زیادہ بہتر جاننے والے قائد نےاپنا لب و لہجہ دھیما رکھا۔ قائدِ اعظم کو مسلم لیگ کی تنظیمی کمزوریوں کا اندازہ تھا اور پھر کانگریس کی صوبائی حکومتوں کا زوال انہیں نظر آرہا تھا۔ مسلمان یوں تو پہلے بھی کم تعداد میں کانگریس کے حمایتی تھے اور اب وہ بھی کانگریس کی کارکردگی سے مایوس ہوتے جارہے تھے۔ تاہم آٹھ سے بارہ اکتوبر تک ہونے والی اس کانفرنس نے مسلمانانِ برصغیر کی آئندہ کی سیاست کا رخ متعین کردیا تھا۔

 
آل انڈیا مسلم لیگ سندھ  کی اس کانفرنس میں مجموعی طور پر 21 قراردادیں پیش کی گئیں۔ جو شیخ عبدالمجید سندھی نے پیش کیں۔ پانچویں قرارداد، تقسیم ِ ہند سے متعلق  تھی اور یہی اس کانفرنس کی مرکزی قرارداد تھی تاہم یہاں پہ یہ وضاحت ضروری ہے کہ پانچویں قراردادمیں مولانا غلام رسول مہر نے اضافی پیرا شامل کیا تھا جو ذیل میں آخری نکتہ کے طور پر تحریر کیا گیا ہے (حوالہ: پاکستان اسکیم۔ پیر علی محمد راشدی / مرتبہ ابو سلمان شاہجہان پوری)۔ گرما گرم بحث کے بعد کانفرنس نے قرارداد نمبر5 کی منظوری دی۔ اس قرارداد میں یہ احساس اجاگر کیا گیا کہ مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں اور ہندوستان میں بسنے والے حقیقت میں ایک قوم نہیں اور یہ کہ مسلمانوں کو ہندوستان کے لئے نیا آئین وضع کرنا چاہئے۔ قرارداد نے ماضی میں کی جانے والی کوششوں کا احاطہ کرتے ہوئے ان تفصیلات کا خلاصہ بیان کیا جو ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کسی معاہدے تک پہنچنے کیلئے کی گئیں۔

  • جب کہ اس [کانگریس] نے مسلمان وزرا کے بغیر یا مسلمان وزراکے ساتھ وزرات تشکیل دے کر جن کی کوئی پیروی مسلمان ارکان کے درمیان نہیں ہے، جان بوجھ کر ، مکمل طور پر ہندو راج قائم کیا ہے ، یہ براہ راست اور واضح طور پر حکومتِ ہند ایکٹ مجریہ 1935ء کے مقاصد کی خلاف ورزی ہے اور اس میں دی گئی ہدایات کے برعکس ہے۔ جب کہ اس طرح قائم کی گئی وزارتوں کا مقصد مسلمانوں کو ڈرانا اور دباؤ ڈالنا ، مسلم ثقافت کے صحتمند اور قومی تعمیر کے اثرات کو ختم کرنا، مسلمانوں کے مذہبی رسم و رواج اور مذہبی ذمہ داریوں پہ پابندیاں لگانا، اور ایک علیحدہ قومیت کے طور پر ان کے سیاسی حقوق کا خاتمہ ہے۔
  • جبکہ اس [کانگریس] نے جنوب مغربی سرحدی صوبے، بنگال، پنجاب اور سندھ میں اتحادی وزارتوں کو اقتدار دلانے کیلئے براہ راست یا بالواسطہ کوششیں کی ہیں ، اگرچہ وہ مسلمانوں کی اور اس صوبہ کی عوام کی اکثریت کے اعتماد سے محروم ہیں، اور اس طرح مسلمانوں کی طاقت کو غیر مؤثر اور غیر اہم بنانے کیلئے جمہوری اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے۔
  • جبکہ مشترکہ امنگوں اور مشترکہ نظریات کے زیرِ اثر ذات پات سے متاثرہ ذہنیت اور اکثریتی طبقے کی مسلم دشمنی پر مبنی پالیسی کے نفاذ کیلئے واحد متحدہ ہندوستان اور متحدہ ہندوستانی قوم کا ارتقا بعید از قیاس ہے، اور یہ بھی کہ مذہب ، زبان ، رسم الخط ، ثقافت ، معاشرتی قوانین اور دو اہم برادریوں کی زندگی کے نقطہ نظر کے شدید فرق کی وجہ سے اور یہاں تک کہ بعض حصوں میں نسل کے فرق کے باعث یہ ممکن نہیں ہے۔
  • ہندوستان کے وسیع برِاعظم میں مستقل امن و امان قائم رکھنے، یہاں بسنے والی دو قوموں یعنی ہندوؤں اور مسلمانوں کے اپنے اپنے کلچر کو فروغ دینے، انہیں بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی اپنی اقتصادی اور معاشرتی اصلاح کرنے اور انہیں سیاسی طور پر حقِ خود اختیاری عطا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہندوستان میں دو مختلف وفاق قائم کیئے جائیں جن میں سے ایک وفاق مسلمانوں کا ہو اور دوسرا ہندوؤں کا۔ ”چنانچہ یہ اجلاس آل انڈیا مسلم لیگ سے درخواست کرتا ہے کہ وہ ایک ایسے آئین کا خاکہ مرتب کرے جس کی رو سے مسلمانوں کی اکثریت کے صوبے، مسلم اکثریت رکھنے والی ریاستیں، اور وہ علاقے جہاں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے، متحدہ طور پر ایک وفاق کی صورت میں مکمل آزادی حاصل کرسکیں۔ اس فیڈریشن کو اس امر کی آزادی ہونی چاہئے کہ اگر ضروری محسوس ہو تو بیرونِ ہند کی کسی اسلامی مملکت کو بھی فیڈریشن میں شریک کرسکے۔ اس فیڈریشن میں غیر مسلم اقلیتوں کو اسی قسم کے تحفظات عطا کئے جائیں جیسے ہندوستان کے غیر مسلم فیڈریشن میں مسلم اقلیتوں کو حاصل ہوں گے۔“

اس قرارداد کی منظوری کے عمل سےآل انڈیا  مسلم لیگ نے پہلی بار سیاسی طور پر انڈیا کو دو علیحدہ مملکتوں کی شکل میں پیش کیا۔  یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ اعزاز سندھ کو حاصل ہے کہ اس نے آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے  سب سے پہلے نہ صرف تقسیم کی تجویز پیش کی بلکہ عملی طور پر سب سے پہلے اسمبلی میں تقسیم کی قرارداد بھی منظور کی۔

اس کانفرنس کی تفصیلات کیلئے پڑھئے،

 

جی ایم سید کی پیش کردہ قرارداد کا متن

Pakistan Resolution Passed by Sindh Assembly
پی ڈی ایف فائل ڈاؤنلوڈ کریں / Download PDF File

مؤرخہ 3 مارچ 1943ء کو جی۔ایم۔سید کی پیش کردہ قرارداد کا متن یہ تھا،


“This House recommends to Government to convey to His Majesty’s Government through His Excellency the Viceroy, the sentiments and wishes of the Muslims of this Province that whereas Muslims of India are a separate nation possessing religion, philosophy, social customs, literature, traditions, political and economic theories of their own, quite different from those of the Hindus, they are justly entitled to the right, as a single, separate nation, to have independent national states of their own, carved out in the zones where they are in majority in the sub-continent of India.”

“Wherefore they emphatically declare that no constitution shall be acceptable to them that will place the Muslims under a Central Government dominated by another nation, as in order to be able to play their part freely on their own distinct lines in the order of things to come, it is necessary for them to have independent National States of their own and hence any attempt to subject the Muslims of India under one Central Government is bound to result in Civil War with grave unhappy consequences.”

”یہ ایوان  تجویز کرتا ہے کہ حکومت  (حکومتِ ہند)ملک معظم کی حکومت کو  بذریعہ وائسرائے ، اس صوبہ کے مسلمانوں کے   جذبات اور خواہشات پر مبنی یہ پیغام پہنچا دے کہ ہندوستان کے مسلمان،  مذہب ، فلسفہ ، معاشرتی رواج ، ادب ، روایات ، سیاست اور معاشی نظریات کی حامل ایک علیحدہ قوم ہیں، ہندوؤں سے بالکل مختلف ، وہ ایک واحد ، علیحدہ قوم کی حیثیت سے اپنی آزاد قومی ریاستوں  کے حقدار ہیں ،  جو برصغیر  ہندوستان کے ان علاقوں سے علیحدہ کی جائیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے۔“

” لہذا وہ پوری شدت کے ساتھ اعلان کرتے ہیں  کہ ان کے لئے ایسا کوئی آئین قابل قبول نہیں ہوگا جو مسلمانوں کو کسی دوسری قوم کے اقتدار پر مبنی  مرکزی حکومت کے ماتحت رکھے گا،  ایک آزاد قومی مملکت مسلمانوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ آنے والے واقعات کے سلسلے میں اپنے وضع کردہ لایحۂ عمل کے ساتھ اپنا آزادانہ کردار ادا کرسکیں،   لہٰذا  مسلمانوں کو کسی بھی مرکزی حکومت کے تحت لانے کی کوئی بھی کوشش خانہ جنگی کے اسباب پیدا کرے گی، جس کے نہایت سنگین اور ناخوشگوار نتائج برآمد ہونگے۔“

ایوان میں موجود اراکین کو اس قرارداد پہ بولنے کا بھرپور موقع دیا گیا۔ قرارداد کے حق میں اور مخالفت میں دلائل دیئے گئے اور بالآخر یہ قرارداد  تین ہندو اراکین  کی مخالفت اور چوبیس مسلمان اراکین کی حمایت سے منظور کی گئی۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے